آج کل جمہوریت اور آمریت کی ناکامی کے بعد ایسے مواقع کثرت سے آتے ہیں کہ خلافت کا تذکرہ نکل آتا ہے۔ تاہم لوگ اس خلافت سے ایک رومانوی محبت محسوس کرنے کے باوجود فکری اور علمی طور پر اس نظام کے خدوخال سے واقف نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض کم فہم اور الجھے ہوئے لوگ یا اسلام دشمن لوگ مغربی نظام کو معمولی ردوبدل کے بعد خلافت کی روح قرار دے کر لوگوں کو sell کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پس کسی کو ناروے، ڈنمارک وغیرہ "عمری خلافت" دکھتا ہے تو کسی کو برطانوی جمہوریت "مدینہ کا ماڈل" دکھائی دیتا ہے۔ ایسے تمام دوستوں کی سمجھ کیلئے یہ مضمون پیش خدمت ہے جو خلافت کا ایک اجمالی خاکہ لوگوں کے سامنے پیش کرنے کی کوشش ہے تاکہ امت اپنے ڈائریکشن کا درست تعین کر سکے اور کوئی انھیں گمراہ نہ کر سکے۔ اسلامی ریاست یعنی خلافت: اسلامی خلافت صرف اسی وقت قائم تصور کی جاتی ہے جب اس میں تمام نظام اسلام سے ہی اخذ کئے گئے ہوں اوراتھارٹی بھی مسلمانوں کے ہاتھ ہو۔ خلافت میں اقتصادی نظام، حکومتی نظام، معاشرتی نظام، نظام عدل، خارجہ پالیسی اور تعلیمی پالیسی مکمل طور پر شرعی مصادر سے اخذشدہ ہوتی ہے۔ آئیے فر
آج مغربی معاشرے میں اسقاط حمل سے لے کر کلوننگ تک، سٹم سیل ریسرچ (Stem cell research) سے لے کر ہم جنس پرستی تک، عراق جنگ سے لے کر ٹیکس اصلاحات ، اور pro-choice, pro-life بحث سے لے کر اوباما کئیرتک بے شمار مسائل میں مختلف آراء پائی جاتی رہی ہیں لیکن یہ ان کے انتشار کا باعث نہیں ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جمہوری نظام میں ایک مسئلے پر موجود مختلف آراء(difference of opinion) میں سے ایک رائے کو نافذ کرنے کا ایک اپنا طریقہ کار ہے جو اسلام سے مختلف ہے۔ یہ طریقہ عوامی نمائندوں کی اکثریتِ رائے کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ پس اس طریقہ کار کے مطابق وہ اپنے تمام اختلاف کو ریاستی معاملات میں حل کر لیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام لوگ ایک ہی رائے اختیار کر لیتے ہیں بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ریاست میں ایک رائے نافذ کر دی جاتی ہے۔ اور بقیہ رائے کے حامل لوگ اپنی رائے کے نفاذ کیلئے سیاسی طریقے سے اپنی آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔ تاآکہ اس رائے کے حق میں رائے عامہ ہموار ہو جاتی ہے پس وہ رائے اکثریتی رائے کی بنیاد پر نافذ ہو جاتا ہے۔ اسلام میں اختلاف رائے میں ایک رائے نافذ کرنے کا طریقہ کارجمہوریت سے مخ