نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

فرقہ واریت کی موجودگی میں وحدت امت کامسئلہ

آج مغربی معاشرے میں اسقاط حمل سے لے کر کلوننگ تک، سٹم سیل ریسرچ (Stem cell research) سے لے کر ہم جنس پرستی تک، عراق جنگ سے لے کر ٹیکس اصلاحات ، اور pro-choice, pro-life بحث سے لے کر اوباما کئیرتک بے شمار مسائل میں مختلف آراء پائی جاتی رہی ہیں لیکن یہ ان کے انتشار کا باعث نہیں ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جمہوری نظام میں ایک مسئلے پر موجود مختلف آراء(difference of opinion) میں سے ایک رائے کو نافذ کرنے کا ایک اپنا طریقہ کار ہے جو اسلام سے مختلف ہے۔ یہ طریقہ عوامی نمائندوں کی اکثریتِ رائے کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ پس اس طریقہ کار کے مطابق وہ اپنے تمام اختلاف کو ریاستی معاملات میں حل کر لیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام لوگ ایک ہی رائے اختیار کر لیتے ہیں بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ریاست میں ایک رائے نافذ کر دی جاتی ہے۔ اور بقیہ رائے کے حامل لوگ اپنی رائے کے نفاذ کیلئے سیاسی طریقے سے اپنی آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔ تاآکہ اس رائے کے حق میں رائے عامہ ہموار ہو جاتی ہے پس وہ رائے اکثریتی رائے کی بنیاد پر نافذ ہو جاتا ہے۔
اسلام میں اختلاف رائے میں ایک رائے نافذ کرنے کا طریقہ کارجمہوریت سے مختلف ہے۔ اسلام کااس سلسلے میں طریقہ کار یہ ہے کہ شریعت سے اخذ کردہ قوی دلائل کی بنیاد پر کئے جانے والے اجتہادات میں سے اولولامریعنی خلیفہ جس اجتہاد کو تبھی (Adopt) کر لے اس پر عمل پیرا ہوناواجب ہوتا ہے۔ مثالی طور پر(Ideally speaking) خلیفہ عبادات، ذاتی معاملات اور عقائد کی فروعی تفصیلات میں کوئی مخصوص اجتہاد نافذ نہیں کرتا اور لوگوں کو اجازت ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی مجتہد کی تقلید کریں۔ وہ محض ان مسائل میں ایک اجتہاد کو نافذ کرتا ہے ،جن کا تعلق اجتماعی معاملات اور نظام سے ہے مثلاً جہاد کب اور کس کے خلاف کیا جائے، خراج، اقتصادی نظام، تعلیمی پالیسی وغیرہ۔
اس اسلامی اپروچ کے دلائل کافی جانے پہچانے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں: ’’اے ایمان والو! اللہ اوررسول( ﷺ )کی اطاعت کرو اور اپنے میں سے اولوالامر (حکمرانوں) کی بھی۔‘‘ (النساء:۵۹) پس خلیفہ اسلامی دلائل پر مبنی رائے میں سے جس رائے کو اختیار کرنے کے بعد لاگو کریگا اس پر تمام مکاتب فکر محض اس لئے عمل کریں گے کیونکہ اس منتخب کردہ خلیفہ کی اطاعت مندرجہ بالا آیت اور دیگر احادیث کی وجہ سے فرض ہے۔ اس دوران عوام اور دیگر مجتہدین اپنی اپنی رائے پر قائم رہ سکتے ہیں، اس کی تعلیم و ترویج کر سکتے ہیں اور خلیفہ کو اپنی رائے اپنانے کے لئے مشورہ بھی دے سکتے ہیں۔ لیکن ان اجتماعی مسائل میں پوری امت کو خلیفہ کے اپنائے گئے اجتہاد ہی پر عمل کرنا ہوگا کیونکہ یہ اﷲ کا حکم ہے۔ اسی طرح معاشرے اور ریاست کا نظم و نسق بغیر انتشار کے چلایا جاسکتا ہے۔ مشہور فقہی قاعدہ ہے: (امر الامام یرفع الخلاف ) "امام (خلیفہ) کا حکم اختلاف کو ختم کرتا ہے‘‘ اور(ألامر الامام نافذ ظاہراً و باطناً ) "امام کا حکم ظاہراً اور باطناً نافذ کیا جاتا ہے‘‘۔ اسی اصول کے تحت ابو بکرؓ نے اپنی خلافت کے دوران صحابہؓ کی اکثریتی رائے کو مسترد کرتے ہوئے اپنی رائے کو نافذ کیا اور مرتدین زکاۃ، جھوٹی نبوت کے دعوے داروں اور رومیوں کے خلاف ایک ساتھ لشکر کشی فرمائی۔ اسی طرح حضرت عمرؓ نے عراق کے مفتوحہ علاقوں پر خراج نافذ کرنے کے اپنے اجتہاد کو نافذ فرمایا اگرچہ حضرت بلالؓ اور اکابر صحابہؓ کا اجتہاد ان سے مختلف تھا۔ نیز جب ابو بکرؓ خلیفہ تھے تو انہوں نے طلاق، وراثت اور اموال کی تقسیم میں اپنے اجتہادات کو نفاذ کیاجبکہ حضرت عمرؓ نے اپنے دور خلافت میں انہی مسائل پر مختلف اجتہادات کو لاگو فرمایا۔ حضرت ابو بکرؓ اور عمرؓ کے اس طریقہ کار پر تمام صحابہؓ کا اجماع ہے جو ہمارے لئے شرعی دلیل ہے۔ اجتہادی اختلاف حضرت ابو بکرؓ اور عمرؓ کی خلافت کے دوران بھی رہا لیکن اس نے امت میں تفرقہ یا انتشار پیدا نہیں کیا کیونکہ امت کو اپنے اجتہادی اختلافات حل (resolve) کرنے کا طریقہ آتا تھا۔
خلافت کے انہدام کے بعد اٹھنے والے مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ یہ بنا کہ اب مذہبی اختلاف کو کیسے حل کیا جائے۔ یاد رہے کہ خلافت مسلمانوں کو سیاسی طور پر ایک کرنے کیلئے ہوتی ہے. خلافت کا یہ مقصد نہیں کہ تمام مسلمان ایک مسلک بن جائیں یعنی ہمارا اجتماعی لائحہ عمل ایک ہو، بےشک ہماری سوچ مختلف ہی کیوں نہ ہو. خلافت میں مختلف افراد اور گروہ مختلف سوچ ہمیشہ سے رکھتے رہے ہیں کیونکہ انفرادی طور پر فکر میں تنوع (diversity) اور تضاد فطری ہے. لیکن چونکہ ریاست کے درجے پر عمل کی وحدانیت لازم ہے اسلئے اسلام نے یہ حق خلیفہ کو تفویض کیا ہے کہ وہ مختلف آراء میں مضبوط ترین کو اختیار کرے اور ریاست میں نافذ کرے. اس کا مطلب یہ ہے کہ خلافت ان امور میں جہاں مختلف آراء موجود ہیں، ایک منتظم اور تصفیہ کار کا رول ادا کرتی اور خلیفہ بطور مسلمانوں کے قائد کی ایک رائے اپنا کر نافذ کرتی ہے ۔
خلافت کے انہدام کے بعد ایک ادارہ جسے مسلمانوں کا اختلاف رائے حل کرنے میں شرعی اختیار اور مسلمانوں کا اعتماد حاصل تھا، اچانک ایک سیکولر ڈھانچے سے تبدیل ہو گیا. اور چونکہ مسلمان مذہب کے معاملات میں ایک سیکولر ریاست پر کبھی اعتبار نہیں کر سکتے، اسلئے انھوں نے نجی (private) مذہبی اداروں کا رخ کیا تاکہ مذہبی معاملات اس کے ذریعے منظم کریں. یقیناً ایسے نجی اداروں کا ایک ہونا ناممکن تھا اور ہے، اسلئے ہر ایسے نجی مذہبی اداروں کے پیچھے افراد کے جھمگٹے مضبوطی سے جمع ہو گئے. ان نجی مذہبی اداروں کو ایک شدید خدشہ لاحق تھا. اور وہ یہ کہ ایک مرکزی نگران ادارے( یعنی خلافت ) کی غیر موجودگی میں کوئی بھی نااہل نئی بےبنیاد تشریحات کرکے امت کو گمراہ کر سکتا ہے، اسلئے ان مذہبی گروہوں نے اپنے تئیں لوگوں کو ایسے کسی فتنے سے بچانے کیلئے انھیں صرف اپنی تشریحات پر سختی سے عمل پیرا ہونا اور باقی سب سے دور اور انتہائی محتاط رہنے پر اکسایا. یوں یہ نجی مذہبی ادارے جڑیں (institutionalized) پکڑتے گئے.
دو مزید چیزوں نے مسئلہ مزید گھمبیر بنا دیا. اول یہ کہ سیکولر ریاستی ڈھانچے نے مذہبی علم کو کھوکھلا کر دیا، کیونکہ وہ چیزیں جو مذہبی علم کو گہرائی بخشتی ہیں جیسے کہ عربی زبان، قرآن و حدیث کا علم، اصول، فقہ، اور اسلامی اخلاق کو جان بوجھ کر قومی نصاب سے ہٹا دیا گیا. دوسرا اس سے جڑا مسئلہ یہ تھا کہ ریاست اسلام نافذ نہیں کر رہی تھی اسلئے اسلامی علم محض غیر عملی فلسفے اور تاریخی کہانیاں بن کر رہ گئے کیونکہ اس کا عملی و ریاستی سطح پر کوئی پالیسی یا قانون کے طور پر کوئی استعمال نہ تھا. جس کے باعث اجتماعی طور پر اسلام کی فہم و سمجھ میں بطور دین و نظام بہت بڑا زوال آیا اور آندھی تقلید کی بنیاد پر مذہبی گروہ بن گئے جس سے فرقہ واریت اور مسلک پرستی مسلمان دنیا میں گہری سے گہری تر ہوتی گئی.
یہ بات قابل ذکر ہے کہ تمام اہم فرقے جو آج موجود ہیں، سب کے سب ان اوقات میں ظاہر ہوئے جب یا تو خلافت ختم ہوئی، یا تب جب کچھ علاقوں میں استعمار خلافت کا کنٹرول ختم کرنے میں کامیاب ہوا. واحد استثناء اس معاملے میں شیعہ سنی اختلاف ہے جس کی جڑیں ابتدائی دور میں سیاسی اختلافات سے شروع ہوئی. تاہم ایک وسیع تناظر میں اسلامی آئیڈیالوجی پر اتفاق کا اثر یہ تھا کہ خلافت اختلاف کی تنظیم کرنے میں کامیاب تھی. تاہم اہل تشیع آخرکار ایک صفوی ریاست میں الگ ضرور ہوئے تاہم وہ بھی اپنی ریاست میں اسلامی قانون سے نہیں ہٹے.
آندھی تقلید کا یہ رجحان اور بعض گروہوں کا انتہاپسندانہ طرزعمل دراصل براہ راست خلافت کی عدم موجودگی کا نتیجہ ہے اور صرف خلافت کا دوبارہ قیام ہی اس مذہبی اختلاف رائے کی درست تنظیم کر کے اسے اسلام کی درست تعلیمات کے مطابق واپس ڈھالے گی. مسلم دنیا میں ایک صدی کی سیکولر حکمرانی اس امر کی غماز ہے کہ سیکولرزم صرف اس مسئلے کو گھمبیر کر سکتی ہے، حل نہیں. مسلم معاشروں میں سیکولرزم اس مسئلے کا حل نہیں، جیسا کہ بعض لوگ تجویز کرتے ہیں، بلکہ یہ خود اس مسئلے کی وجہ ہے.
خلافت تمام مسلمانوں کی ایک ریاست کا نام ہے۔ اور یہ کسی مخصوص گروہ کی خلافت نہیں۔ خلافت کو کسی مخصوص مسلک کو نافذ نہیں کرنا چاہئے ۔ بلکہ قوی دلائل کی بنیاد پر کئے جانے والے اجتہادات میں سے درست اجتہاد نافذ کیاجانا چاہئے ۔ خواہ وہ کسی عصر حاضر کے مجتہد کی رائے ہو یا اسلام کے مشہور زمانہ تاریخی مجتہدین کی رائے ہو، جن کا آج ایک زمانہ مقلد ہے۔
عملیت پسندی کے طور پر یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ یہ اگر بالفرض کوئی گروہ یا کچھ گروہ ریاستی پالیسی سے کچھ معاملات میں اختلاف کرتے ہو، اور اپنے اختلاف میں وہ انتہائی شدید رویہ اپنانے پر بھی تیار ہو، تو اس کا ہر گز مطلب یہ نہیں کہ ریاست عدم استحکام کا شکار ہو جائے گی۔ آخرکار آج اکثریت گروہوں کے نزدیک یہ نظام "غیر شرعی" ہو، تو اس سے نظام منہدم نہیں ہو گیا تو ایک ایسے نظام کو کیسے خطرہ ہو سکتا ہے جو اسلام کے ہزاروں احکامات کو نافذ کر رہی ہے ، حدود، جہاد، لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنا، کفار سے الائنس کاٹنا ، غیر شرعی ٹیکسوں کا خاتمہ، اور سب سے بڑھ کر مسلمانوں کی حفاظت۔
آخر میں دو مزید امور بھی قابل توجہ ہیں.
اولا: اسلام کے قطعی احکامات میں مجموعی طور پر کوئی زیادہ فرق نہیں۔ خصوصاً وہ امور جن کا تعلق ریاست سے ہے ان معاملات میں امت میں جذباتی اختلافات نہیں. جیسے خراج، عشر، زکواۃ، حرمت سود، ریاست کا ایک ہونا، خلیفہ کی اطاعت، خلیفہ کا امت کے امور کا ذمہ دار ہونا، بنیادی ضروریات کی گارنٹی، کفار کے ساتھ فوجی تعاون کا ممانعت ، IMF اور ورلڈ بینک جیسے استعماری اداروں سے قرضہ لینے کی ممانعت، اقوام متحدہ جیسے طاغوت کی رکنیت کا حرام ہونا، غیر شرعی ٹیکس لینے کی ممانعت ، زمینوں سے متعلق معرکۃالآرا اصلاحات، حدود کا نفاذ، اقام الصلوۃ، پردہ، سائنس و ٹیکنالوجی اور اسلامی ثقافت کی ترویج وغیرہ وغیرہ۔ جہاں تک عبادات اور بعض مسائل کی فروعات اور تفصیلات میں اختلاف کا تعلق ہے تو اس اختلاف کا امت کی وحدت کے امور سے کوئی تعلق نہیں ، نہ ہی ریاست کے امور پر اس کاکوئی اثر پڑتا ہے پس اس اختلاف کے باقی رہنے میں کوئی قباحت نہیں، اگرچہ مثبت انداز میں ان معاملات پر بحث و مباحثے کا کلچر پروان چڑھا کر ریاست خلافت ایک ایسے برداشت پر مبنی( tolerant) معاشرے کو پروان چڑھا سکتی ہے.
دوم :موجودہ فرقہ وارانہ اختلافات میں شدت یقیناً حکمرانوں اور استعماری طاقتوں کے مفاد میں ہے اور اس کو بڑھانے میں ان کی کوششوں سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا. جیسا کہ آج مڈل ایسٹ میں بالکل واضح ہے.
اجتہاد سے متعلقہ بنیادی سمجھ ہی تفرقہ بازی اور دیگر مکاتب اسلام سے بغض کو زائل کرتی ہے کیونکہ دیگر مکاتب فکر بھی دلائل کی بنیاد پر ایک شرعی مسئلے پر کاربند ہوتے ہیں۔ چنانچہ مختلف مکاتب فکر میں ایک دوسرے کے لئے احترام پیدا ہوتا اور معاشرے میں ہم آہنگی کی فضاء جنم لیتی ہے۔ یقینا! جب آپ حق کی تعلیم عام کر دیتے ہیں تو فرقے مکاتب فکر بن جاتے ہیں تاہم ایسا ہونا ایک ریاست کے بغیر ممکن نہیں۔
محمد عمران

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

کیا قرآن و حدیث میں صیغہ امر (حکمیہ انداز) لازما واجب یا فرض ہوتا ہے ۔ (اصول الفقہ)

مسلمان صرف وحی کی اتباع کرتے ہیں ۔ یہ وحی ہمارے پاس دو شکلوں میں موجود ہے : ایک وحی متلو۔۔۔ یعنی وہ وحی جس کی تلاوت کی جاتی ہے،اس سے مراد قرآن الکریم ہے ۔ اور دوسرے وحی غیر متلو ۔۔۔یعنی وہ وحی جس کی تلاوت نہیں کی جاتی ۔ اس سے مراد حدیث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا اور رسول اللہ ﷺکی زبان بھی عربی ہی تھی۔ اس لیے عربی زبان کا فہم ہونااز حد ضروری ہے تبھی ہم شرعی مآخذ سے احکامات کو ٹھیک ٹھیک اخذ کرسکیں گے ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے سورۃ یوسف کی آیت نمبر 2میں ارشاد فرمایا: (انا انزلنَہٗ قرء ٰ نًا عربیًا لَّعلکم تعقلون ) ’’بے شک ہم نے اس قرآن کو نازل کیا تاکہ تم سمجھو‘‘ تاہم محض عربی زبان کی سمجھ شرعی مآخذ سے احکامات کو اخذ کرنے کے لیے کافی نہیں ۔ عربی زبان کا فہم ہوناشرعی متن یعنی (shariah Text) کو سمجھنے کی مختلف شرائط میں سے ایک شرط ہے۔ کیونکہ یہاں مقصد احکامات کو ایک خاص (قانونی ) متن سے اخذ کرنا ہے۔ جس کے لیے عربی زبان کی سمجھ کے علاوہ مزید امور کی بھی ضرورت ہے جیسے کہ وہ قرآئن جو فرائض اور حرام امور کا تعین کرتے ہیں، عام حکم اور اس کی تخصیص ، مطلق اور مقید ی

خلافت کیا ہے؟

آج کل جمہوریت اور آمریت کی ناکامی کے بعد ایسے مواقع کثرت سے آتے ہیں کہ خلافت کا تذکرہ نکل آتا ہے۔ تاہم لوگ اس خلافت سے ایک رومانوی محبت محسوس کرنے کے باوجود فکری اور علمی طور پر اس نظام کے خدوخال سے واقف نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض کم فہم اور الجھے ہوئے لوگ یا اسلام دشمن لوگ مغربی نظام کو معمولی ردوبدل کے بعد خلافت کی روح قرار دے کر لوگوں کو sell کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پس کسی کو ناروے، ڈنمارک وغیرہ "عمری خلافت" دکھتا ہے تو کسی کو برطانوی جمہوریت "مدینہ کا ماڈل" دکھائی دیتا ہے۔ ایسے تمام دوستوں کی سمجھ کیلئے یہ مضمون پیش خدمت ہے جو خلافت کا ایک اجمالی خاکہ لوگوں کے سامنے پیش کرنے کی کوشش ہے تاکہ امت اپنے ڈائریکشن کا درست تعین کر سکے اور کوئی انھیں گمراہ نہ کر سکے۔ اسلامی ریاست یعنی خلافت: اسلامی خلافت صرف اسی وقت قائم تصور کی جاتی ہے جب اس میں تمام نظام اسلام سے ہی اخذ کئے گئے ہوں اوراتھارٹی بھی مسلمانوں کے ہاتھ ہو۔ خلافت میں اقتصادی نظام، حکومتی نظام، معاشرتی نظام، نظام عدل، خارجہ پالیسی اور تعلیمی پالیسی مکمل طور پر شرعی مصادر سے اخذشدہ ہوتی ہے۔ آئیے فر

خلافت قائم کرنے کا طریقہ

1)     چونکہ خلافت کا قیام ایک فرض ہے بلکہ یہ مسلمان کے اوہر سب سے بڑا فرض ہے ۔ اور چونکہ ایک فرض کے قائم کرنےکا طریقہ اللہ سبحان و تعالیٰ نے انسان پر نہیں چھوڑا بلکہ ہر فرض کے طرح اس فرض کا بھی طریقہ کار اسلام نے بتایا ہوا ہے۔ اور یہ طریقہ کار ہم نبیﷺ کی سیرت سے جان سکتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ریاست کیسےقائم کی تھی۔، بالکل ویسے جس طرح ہم نماز، روزے، حج، جہاد اور دیگر فرائض کا طریقہ نبیﷺ سے اخذ کرتے ہیں۔ 2)   اگر عقل پر چھوڑ دیا جائےتو مختلف طریقے ذہن میں آتے ہیں، جیسے حکمرانوں کو صرف دعوت سے قائل کرنا کہ اسلام قائم کریں، یا ان کے خلاف جنگ کر کے ان کو ملیا میٹ کر کے اسلامی نظام قائم کرنا، یا اس ملک میں مروجہ دستور اور قانون کے مطابق نظام میں حصہ لے کر اس نظام کے اوپر پہنچ کر اسلام کا نظام قائم کرنا یا تمام لوگوں کو تبدیل کرنا ، یہ سوچ کرکہ جب تمام لوگ سچے، پکے مومن بن جائیں گے تو اسلامی نظام خود ہی قائم ہو جائے گاوغیرہ۔ لیکن یاد رہے کہ یہ سب عقل و منطق (logic)   سے نکلنے والے طریقے ہیں ۔ اور انسانی عقل کامل نہیں اسلئے اس طریقوں کی اپنی خوبیاں اور خامیاں ہونگی۔  لیکن جو طریقہ اللہ سبحانہ

شرعی دلائل کی روشنی میں خلافت اور جمہوریت کا تقابلی جائزہ

                                                                                                نوید بٹ   اسلام کا طالب علم جب قرآن و سنت پر نظر ڈالتا ہے تو اسے ’’جمہوریت‘‘ سے متعلق کوئی آیت یا حدیث تو درکنار صحابہ، آئمہ مجتہدین یا فقہائ کا ایک قول بھی نہیں ملتا۔ حالانکہ انسانیت اسلام سے ہزاروں سال قبل جمہوریت سے روشناس ہو چکی تھی۔ وہ اس شش و پنج کا بھی شکار ہوتا ہے کہ اگر اسلام کا نظام حکومت جمہوریت ہی ہے تو پھر کیا یونانیوں نے اسلام کے آنے سے قبل ہی ازخود ’’اسلامی نظام حکومت‘‘ دریافت کر لیا تھا؟ کیا اس ’’اسلامی نظام حکومت‘‘ کے نفاذ سے انہوں نے ایک اسلامی معاشرے کو جنم دے دیا تھا؟ کیا وہ نہ جانتے ہوئے بھی اسلام پر ہی چل رہے تھے؟ لیکن تاریخ کے کسی گوشے میں بھی یونانی تہذیب اور اسلامی تہذیب میں مماثلت کا کوئی شائبہ تک نہیں ملتا۔ اگر رسول مقبول ا جمہوریت ہی دے کر مبعوث کئے گئے تھے تو پھر آپ اکو یہ ارشاد فرمانے میں کیا تردد تھا کہ وہ وہی نظام لے کر آئے ہیں جو ارسطو اور یونانی فلاسفر انسانیت کو پہلے ہی دے چکے ہیں؟ جبکہ اسلامی عقائد کے بارے میں آپ ا نے بڑے واضح انداز میں فرمایا تھا کہ آ

آئین پاکستان کی نام نہاد "اسلامی دفعات" اور اس پر پاکستان کی ہائیکورٹس اور سپریم کورٹس کے مصدقہ فیصلے

آپ اور میں اپنے خواہش کے مطابق بے شک پاکستان کے آئین مین "اسلامی" دفعات پڑھ کر خوش ہوتے رہیں اور یہی کہتے رہپں کہ آئین دراصل اسلامی ہے ، اصل مسئلہ صرف نفاذ کا ہے لیکن آئین کی تشریح کا حق آپ کو یا مجھے نہیں، بلکہ عدالت کو ہے اور اس کی تشریح حتمی مانی جاتی ہے ۔ اور ان کے کچھ فیصلے ملاحظہ کریں: Sec 2. “Islam shall be the State religion of Pakistan.’’ ریاست کا سرکاری مذہب اسلام ہو گا۔ But when this Article 2 came to be interpreted in the Court of Law, a  Full Bench of the Sindh High Court comprising 5 judges, headed by its Chief Justice,  held that: ‘‘Article 2 is incorporated in the Introductory Part of the Constitution and as far as its language is concerned, it merely conveys a declaration. The question arises as to the intention of the Makers of the Constitution by declaring that ‘‘Islam shall be the State religion of Pakistan.’’ Apparently, what the Article means is that in its outer manifestation the State and its Government shall carry an Islamic Symbol. This A

ایک امت، ایک چاند، ایک رمضان اور ایک عید

تحریر: نوید بٹ اس سال روئیت ہلال کمیٹی کے سربراہ مفتی منیب الرحمن نے بڑے فخر سے اعلان فرمایا کہ اس دفعہ پورا پاکستان ایک دن رمضان شروع کر رہا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ اعلان درست نہ تھا کیونکہ نہ صرف پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین بلکہ وزیرستان کے مسلمان بھی ایک دن پہلے امت مسلمہ کے ساتھ رمضان کی شروعات کر چکے تھے۔ دوسرا اہم پہلو یہ کہ پاکستان نے قومیت کی بنیاد پر چاند قبول کرکے اپنے آپ کو امت مسلمہ سے الگ کر دیا اور امت کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا۔ مفتی منیب صاحب اس کے بارے میں کیا فرمائیں گے؟ کیا مفتی صاحب امت کو بتا سکتے ہیں کہ کہ قومیت پر مبنی روئیتِ ہلال کی اس بدعت کی شریعت سے کیا دلیل ملتی ہے۔  استعمار نے خلافت کا خاتمہ کر کے نہ صرف مسلمانوں کو چھوٹے چھوٹے حصوں تقسیم کر دیا بلکہ اس نے ہر حصے کو ایک مخصوص قومیت، قومی ترانہ، جھنڈا اور چاند بھی دے دیا۔ جھنڈے مسلمانوں کو سیاسی طور پر تقسیم کرنے کے لئے اور چاند امت کی مذہبی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لئے۔ لیکن اس سے زیادہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس نے ایسے افراد بھی عوام کے سروں پر بٹھا دئے جو اس تقسیم کو اسلام سے ثابت