تحریر: نوید بٹ
اس سال روئیت ہلال کمیٹی کے سربراہ مفتی منیب الرحمن نے بڑے فخر سے اعلان فرمایا کہ اس دفعہ پورا پاکستان ایک دن رمضان شروع کر رہا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ اعلان درست نہ تھا کیونکہ نہ صرف پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین بلکہ وزیرستان کے مسلمان بھی ایک دن پہلے امت مسلمہ کے ساتھ رمضان کی شروعات کر چکے تھے۔ دوسرا اہم پہلو یہ کہ پاکستان نے قومیت کی بنیاد پر چاند قبول کرکے اپنے آپ کو امت مسلمہ سے الگ کر دیا اور امت کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا۔ مفتی منیب صاحب اس کے بارے میں کیا فرمائیں گے؟ کیا مفتی صاحب امت کو بتا سکتے ہیں کہ کہ قومیت پر مبنی روئیتِ ہلال کی اس بدعت کی شریعت سے کیا دلیل ملتی ہے۔
استعمار نے خلافت کا خاتمہ کر کے نہ صرف مسلمانوں کو چھوٹے چھوٹے حصوں تقسیم کر دیا بلکہ اس نے ہر حصے کو ایک مخصوص قومیت، قومی ترانہ، جھنڈا اور چاند بھی دے دیا۔ جھنڈے مسلمانوں کو سیاسی طور پر تقسیم کرنے کے لئے اور چاند امت کی مذہبی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لئے۔ لیکن اس سے زیادہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس نے ایسے افراد بھی عوام کے سروں پر بٹھا دئے جو اس تقسیم کو اسلام سے ثابت کرنے کی تگ و دو میں لگ گئے۔ قومیت کو اسلامی بنا کر پیش کرنے کے لئے رسول اللہ ﷺ کی مکہ سے فطری محبت کو توجیہ کے طور پر پیش کیا گیا جبکہ ہر قسم کی عصبیت کو رسول اللہ ﷺ نے اپنی واضح احادیث میں حرام قرار دیا ہے۔ اسی طرح آج قومیت پر مبنی روئیت کو ’’اختلاف مطلع‘‘ کی فقہی رائے میں چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جس کا قومی روئیت کی بدعت سے سرے سے کوئی تعلق نہیں۔
’’اختلاف مطلع‘‘ محض شوافع کے ہاں پایا جاتا ہے جس کا احناف، مالکیہ اور حنابلہ انکار کرتے ہیں اور اس کو قوت دلیل کی بنیاد پر رد کرتے ہیں (اس کی تفصیل آگے ملاحظہ فرمائیے)۔ یہ رائے اس قدر کمزور دلیل پر مبنی تھی کہ بعد میں آنے والے شافعی فقہاء نے بھی اس سے رجوع کر لیا۔ امام نووی ؒ جنہوں نے شرح مسلم تحریر فرمائی اور جو مسلکاً شافعی ہیں لکھتے ہیں: ’’ ہمارے بعض اصحاب نے کہا ہے کہ کسی ایک جگہ چاند کا نظر آنا تمام روئے زمین کو شامل ہے۔‘‘(شرح صحیح مسلم، جلد اول، صفحہ 348)۔ پس ثابت ہوا کہ شوافع بھی اس رائے میں تقسیم ہیں۔ لیکن دیگر مسالک میں ’’اختلاف مطلع‘‘ کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ چنانچہ ’’اختلاف مطلع‘‘ ایک کمزور دلیل پر مبنی ایک اسلامی رائے ضرور رہی ہے لیکن اسے موجودہ قومیت پر مبنی روئیت کے لئے بطور دلیل پیش نہیں کیا جاسکتا۔ اگر اختلاف مطلع کو درست مان لیا جائے تو پشاور کا مطلع جلال آباد کے ساتھ ملتا ہے نہ کہ کراچی کے ساتھ۔ ایسے میں پشاور کے لوگوں کو چاہئے کہ وہ افغانستان کے علاقے میں دیکھے جانے والے چاند کو قبول کریں نہ کہ کراچی کی روئیت کو۔ یہی معاملہ لاہور اورامرتسر کا ہے اور پاکستانی شہر تفتان اور ایرانی شہر میرجادہ کا۔ 1971 سے قبل ہم بنگلہ دیش کا چاند ماننے کے لئے تیار تھے جو کہ ہزاروں میل دور واقع ہے مگر اب بنگلہ دیش کاچاند، ’’مطلع‘‘ سے باہر ہوگیا ہے؟! کیا بنگلہ دیش نے اپنا مقام بدل لیا ہے یا ہم برصغیر سے باہر نکل کر یورپ چلے گئے ہیں؟! پس ثابت ہوا کہ معاملہ جغرافیائی قربت یا بُعد کا نہیں بلکہ قومیت پر مبنی تقسیم کا ہے۔ لہذا اختلاف مطلع کی شرعی بحث یہاں بے سود ہے۔
درحقیقت پاکستان کے حکمرانوں کو یہ اجازت ہی نہیں کہ وہ انگریز کی کھنچی ہوئی ’’مقدس‘‘ لکیروں کو کسی بھی بنیاد پر مٹانے کی جسارت کر سکیں۔ استعمار نے اس کی اجازت نہیں دے رکھی کہ ان کے ایجنٹ مسلمانوں میں کسی بھی قسم کی وحدت کو پروان چڑھنے دیں۔ اس کا حکم لارڈ کرزن نے خلافت کے انہدام کے بعد اپنی مشہور تقریر میں دیا تھا۔ وہ کہتا ہے: ’’ہمیں ہر اس چیز کو ٹھکانے لگا دینا چاہئے جو مسلمانوں کی نسل کے درمیان کسی بھی قسم کا اسلامی اتحاد پیدا کرتی ہو۔ جیسا کہ ہم پہلے ہی خلافت کو ختم کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ لہذا ہمیں یہ کوشش کرنا چاہئے کہ مسلمان میں دوبارہ اتحاد پیدا نہ ہو سکے، نہ فکری اتحاد نہ تمدنی اتحاد‘‘۔
رہی یہ بات کہ دیگر علاقوں میں نظر آنے والے چاند کی شہادت حاصل کرنامشکل ہے تو یہی فقہاء حج کرتے وقت کیوں سعودی روئیت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں؟ کیا پاکستان کے باہر کوئی بھی قابل قبول اور ثقہ مسلمان نہیں بستا جس کی شہادت قبول کی جاسکے؟ اور عمومی طور پر چاند کئی ممالک میں نظر آتا ہے محض کسی ایک شخص کو نہیں؟ کیا یہاں کی روئیت ہلال کمیٹی دیگر مسلمان ممالک کی روئیت ہلال کمیٹی سے رابطہ کرکے شہادت کی صحت کی جانچ پڑتال نہیں کر سکتیں؟ یہ سب وہ اقدامات ہیں جو بآسانی کئے جاسکتے ہیں لیکن افسوس ہمارے علماء یہ قدم اٹھا کر اپنے حکمرانوں اور ان کے آقاؤں کو ناراض کرنے کے لئے تیار نہیں۔
آئیے اب نظر ڈالتے ہیں ان دلائل پر جو رمضان اور عید کے چاند کی روئیت کے بارے میں قرآن و سنت میں وارد ہوئے ہیں:
۰ حضرت ابو ہریرۃؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: صوموا لرؤیتہ و افطروا لرؤیتہ فإن غمی علیکم فاکملوا عدۃ شعبان ثلاثین یوماً
’’اس (چاند) کے دیکھے جانے پر تم سب روزے رکھو اور اس (چاند) کے دیکھے جانے پر تم سب روزے افطار کر لو، اگر تم پر بادل چھائے ہوں تو ۳۰ دنوں کی گنتی پوری کر لو‘‘ (بخاری)۔
O حدیث میں صوموا، افطروا اور لرؤیتہ کے الفاظ قابل غور ہیں
O ’’صوموا‘‘ اور ’’افطروا‘‘ جمع کے صیغے ہیں جو تمام مسلمانوں کو محیط ہیں۔ یعنی تم سب مسلمان روزہ رکھو اور افطار کرو۔
O لفظ ’’لرؤیتہ‘‘ کا لفظی معنی ہے ’’اس کے دیکھے جانے پر‘‘۔ واضح رہے کہ یہ حدیث تمام مسلمانوں کو فرداً فرداً چاند دیکھنے کا حکم نہیں دیتی بلکہ کسی اور کے چاند دیکھنے کو کافی قرار دیتی ہے۔
O چنانچہ حدیث کا مطلب ہے کہ چاند کے دیکھے جانے پر تمام مسلمان روزے شروع کریں یعنی رمضان شروع کریں اور تمام مسلمان روزہ رکھنا چھوڑ دیں یعنی عید کریں
O یہ حدیث رمضان کی شروعات اور اختتام کو چاندکے دیکھے جانے کے ساتھ منسلک کرتی ہے جبکہ اس بات کی کوئی تخصیص نہیں کرتی کہ یہ چاند کون دیکھے۔ وہ شخص اچھا مسلمان ہو یا کافر وغیرہ۔ اس کی تخصیص اگلی حدیث میں وارد ہوئی ہے۔
۰ امام سرخسیؒ نے المبسوط میں ابن عباسؓ سے مروی یہ حدیث بیان کی ہے: ’’مسلمانوں نے صبح روزہ نہ رکھا کیونکہ انہیں چاند نظر نہ آیا۔ پھر ایک بدو پہنچا اور اس بات کی شہادت دی کہ اس نے چاند دیکھا ہے۔ تو رسول اللہ ا نے فرمایا: کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ بدو نے کہا: ہاں! آپ ا نے فرمایا: اللہ اکبر!تمام مسلمانوں کے لیے ایک شخص (کی گواہی)ہی کافی ہے۔ پس آپ ا نے روزہ رکھا اور تمام لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا ‘‘ ۔ اس حدیث کو ابو داؤدؒ نے بھی ابن عباسؓ سے مختلف الفاظ سے بیان کیا ہے (سنن ابو داؤد حدیث نمبر ۲۳۳۳)۔
O آپ ﷺ نے ایک اعرابی کی رویت کو، جسے آپ ﷺ شاید جانتے بھی نہ تھے، قبول کیا جس نے مدینہ کے باہر چاند دیکھا تھا
O یہ حدیث اپنے علاقے سے باہر چاند نظر آنے کے حکم کو بیان کرتی ہے کیونکہ وہ بدو مدینہ کے باہر سے آیا تھا
O آپ ﷺ نے اس کی رؤیت کو قبول کرنے کی محض ایک شرط لگائی یعنی کہ آیا کہ وہ مسلمان ہے یا نہیں
O مندرجہ بالا دونوں حدیث کو جوڑ کر حکم یہ نکلتا ہے کہ اگر کوئی بھی مسلمان چاند کے دیکھے جانے کی گواہی دے دے تو اس کی گواہی معتبر سمجھی جائیگی اور تمام مسلمانوں پر فرض ہو جائے گا کہ وہ اس کے مطابق رمضان کی شروعات اور اختتام کریں
O رہی بات یہ کہ وہ اگر جھوٹ بول رہا ہو تو گناہ کا وبال اس کے سر ہوگا اور ہم اللہ کے ہاں حکم شرعی پر چلنے کی وجہ سے سرخرو ہوں گے
O اس حدیث میں رسول اللہﷺ کا یہ کہنا کہ ’’تمام مسلمانوں کے لیے ایک شخص (کی گواہی)ہی کافی ہے‘‘ قابل ذکر ہے اور اس سے رو گردانی نہیں کی جانی چاہئے رمضان کے مسئلے کی وضاحت کے بعد عید کے دن کے مسئلے کی وضاحت بھی ضروری ہے : جیسا کہ رمضان کے آغاز کا فیصلہ چاند نظر آنے پر ہوتا ہے اسی طرح عید کاانحصار بھی چاند کے نظر آنے پر ہے۔ اس سے متعلق ابوہریرہؓ نے رسول اللہ ﷺسے یہ حدیث روایت کی ہے : ’’رسول اللہ ﷺنے دو دن روزہ رکھنے سے منع کیا ہے : عیدالاضحیٰ اور عید الفطرکے دن‘ ‘(بخاری و مسلم)۔
یہ حدیث درست عید کا دن متعین کرنے کو انتہائی اہم مسئلہ بنا دیتی ہے۔ آئیے اب عید سے متعلق احادیث کا مطالعہ کریں:
۰ ابو عمیر بن انس بن مالک نے روایت کیاہے : ’’ہمیں شوال کا چاند بادلوں کی وجہ سے نظر نہ آیالہٰذا ہم اگلے دن روزے سے رہے۔ لیکن دن کے آخری حصے میں چند مسافر مدینہ آئے اور انہوں نے رسول اللہ ا کے سامنے شہادت دی کہ انہوں نے گذشتہ روز چاند دیکھ لیا تھا، پس رسول اللہ ا نے لوگوں کو روزہ توڑنے اور اگلے روز عید کے لیے نکلنے کا حکم دیا‘‘(ابن ماجہ)۔
O لہٰذا اگر مسلمانوں کو اپنے خطے میں چاند نظر نہ آئے اور وہ رمضان کو جاری رکھے ہوئے ہوں لیکن بعد میں انہیں یہ پتہ چلے کہ کسی اور خطے میں چاند نظر آ چکا ہے، تو ان پر لازم ہے کہ وہ روزہ توڑ دیں ۔ ان واضح دلائل کی بنیاد پر فقہائے حنفی نے واضح طور پر لکھا ہے کہ اختلاف مطلع کا کوئی اعتبار نہیں، فقہ حنفی کی مشہور کتاب ’درمختار‘ میں درج ہے ؛’’مطلع مختلف ہونے کا کوئی اعتبار نہیں ۔ اگر مغربی ممالک والے چاند دیکھ لیں تو مشرقی ممالک کو اس کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔‘‘(جلد اول، صفحہ 149)۔ احناف کی دیگر کتابوں جیسے فتاویٰ عالمگیری، فتح القدیر، بحرالرائق، طحاوی، زیلعی وغیرہ میں بھی یہی درج ہے۔ مالکی اور حنبلی فقہ کا بھی اس سے کوئی اختلاف نہیں۔ علامہ شامی لکھتے ہیں کہ ’’اختلاف مطلع کے غیر معتبر ہونے پر ہمارا بھی اعتبار ہے اور مالکیوں اور حنابلہ کا بھی۔‘‘ (شامی جلد4، صفحہ 105)۔ امام مالکؒ فرماتے ہیں: اگر لوگ رمضان سمجھ کر عید الفطر کے دن روزہ رکھ رہے ہوں اور پھر ان تک قطعی ثبوت پہنچ جائے کہ رمضان کا نیا چاند ان کے رمضان شروع کرنے ایک دن پہلے دیکھ لیا گیا تھا اور اب وہ (درحقیقت) اکتیسویں )۳۱) دن میں ہیں، تو انہیں اس دن کا روزہ توڑ لینا چاہئے، چاہے جس وقت بھی ان تک یہ خبر پہنچے۔‘‘ (موطا، کتاب ۱۸، نمبر ۴۔۱۔۱۸) جہاں تک شافعیوں کا تعلق ہے تو وہ ایک رائے پر متفق نہیں جیسا کہ علامہ نووی شافعی لکھتے ہیں کہ: ’’ ہمارے بعض اصحاب نے کہا ہے کہ کسی ایک جگہ چاند کا نظر آنا تمام روئے زمین کو شامل ہے۔‘‘(شرح صحیح مسلم، جلد اول، صفحہ 348) ابن تیمیہ ؒ الفتاویٰ جلد پنجم صفحہ ۱۱۱ پر لکھتے ہیں: ’’ایک شخص جس کو کہیں چاند کے دیکھنے کا علم بروقت ہو جائے تو وہ روزہ رکھے اور ضرور رکھے، اسلام کی نص اور سلف صالحین کا عمل اسی پر ہے۔ اس طرح چاند کی شہادت کو کسی خاص فاصلے میں یا کسی مخصوص ملک میں محدود کر دینا عقل کے بھی خلاف ہے اور اسلامی شریعت کے بھی‘‘۔
جہاں تک برصغیر کے علماء کا تعلق ہے تو ان کا بھی یہی فتویٰ ہے ۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں: ’’ہمارے آئمہ کے صحیح اور معتمد مذہب کے مطابق مسئلہ ہلالِ رمضان و عیدمیں ہلال کی روئیت کے فاصلے کا کوئی اعتبار نہیں۔ مشرق کی روئیت مغرب والوں پر حجت ہے و بالعکس( یعنی کہ اسی طرح مغرب کی روئیت مشرق والوں پر)۔‘‘ ( فتاویٰ رضویہ جلد4، صفحہ 568)۔ مولانا رشید احمد گنگوہی لکھتے ہیں ،’’اگر کلکتہ میں چاند جمعہ کی رات کو نظر آیا اور مکہ میں رمضان جمعرات سے شروع ہو چکا ہو، تو جب بھی اس بات کا پتہ چلے گا تو ان کیلئے ضروری ہو گا کہ وہ عید مکہ والوں کے ساتھ منائیں اور پہلا روزہ قضا کریں۔‘‘(کوکب دری شرح ترمذی صفحہ 336)۔ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند میں ہے کہ ’’ اگر کسی بھی جگہ بھی روئیت ثابت ہو جائے‘ اگرچہ وہ کتنی ہی دور جگہ ہو ، اگرچہ ہزاروں کوس دور ہو ، تو یہاں والوں پر بھی حکم روزہ افطار کرنے کا حکم اس کے موافق ہو جائے گا۔‘‘ (جلد 6، صفحہ380) پس رمضان اور شوال کے آغازکا اعلان (یعنی عید الفطر کا اعلان )چاند کو دیکھنے کے اسلامی طریقہ کار کے مطابق ہونا چاہئے۔
جہاں تک سائنسی حساب کتاب کا تعلق ہے، اس کو بنیاد بنانا شریعت کی رو سے مردود ہے۔ عبد اللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ انے ارشاد فرمایا: ((اِنَّا أمۃٌ اُمےۃٌ لا نکتب و لا نحسب الشھر ھکذا وھکذا یعنی مرۃ تسعۃ و عشرین و مرۃ ثلاثین))’’ہم ان پڑھ لوگ ہیں، ہم نہ تو لکھتے ہیں اور نہ ہی اندازہ مقرر کرتے ہیں ۔ مہینہ یا تو اس طرح ہوتا ہے یا اس طرح، یعنی کبھی انتیس دن اور کبھی تیس دن ‘‘(بخاری) ۔ یہ حدیث دراصل فصاحتِ بیان کا ایک انداز ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم حساب کتاب نہیں کرتے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ رسول اللہ ااورآپ کے صحابہ کرامؓ اس دور میں تمام لوگوں سے زیادہ روشن فکرتھے اوروہ زکوۃ،عشر، خراج کا حساب کیا کرتے تھے اور ستاروں کی مدد سے سفر میں سمت کا تعین بھی کیا کرتے تھے۔ لہٰذا اس حدیث میں رسول اللہ ﷺکے یہ الفاظ دراصل چاند کوآنکھ سے دیکھنے کی اہمیت اور حساب کتاب کے ذریعے چاند کی روئیت کے اندازے لگانے کی ممانعت پر دلالت کرتے ہیں۔ حضور ﷺ کی یہ حدیث چاند کو ’’دیکھے‘‘ بغیر روزے شروع کرنے سے منع کرتی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ((لا تصوموا حتی تروا الہلال و لا تفطروا حتی تروہ، فإن غمّ علیکم فاقدروا لہ)) ’’تم (لوگ) روزہ نہ رکھو جب تک چاند نہ دیکھ لو اور تم سب افطار (عید) نہ کرو جب تک کہ اسے نہ دیکھ لو اور اگر یہ بادلوں کی وجہ سے نہ دکھائی دے تو اس کا اعتبار کرو(یعنی گنتی پوری کر لو)‘‘ (بخاری و مسلم)۔ یوں حدیث کے مطابق پوری امت مسلمہ میں سے کس نہ کسی کو چاند دیکھنا لازمی ہے محض علم فلکیات کی بنا پر رمضان یا عید نہیں کی جاسکتی۔ چنانچہ اسلام نے اللہ کے احکامات کو محض چند ماہر فلکیات کا مرہونِ منت نہیں بنایا بلکہ ہر مسلمان چاہے وہ پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ چاند کو دیکھ کر اللہ کے احکامات کی اتباع کر سکتا ہے۔
جہاں تک اس اشکال کا تعلق ہے کہ چونکہ دنیا کے مختلف حصوں میں رہنے والے مسلمان اپنے اپنے اوقات کے مطابق نمازیں ادا کرتے ہیں اس لئے ان کے چاند بھی مختلف ہوں گے لہذا انہیں اپنے اپنے علاقے کی روئیت کے مطابق رمضان شروع کرنا چاہئے۔ تو یہ سوچ رکھنے والے یہ بات بھول جاتے ہیں کہ نمازوں کے اوقات کا تعین زمین کے اپنے محور پر گردش کے نتیجے میں کیا جاتا ہے جبکہ قمری ماہ کا تعین چاند کی زمین کے گرد گردش کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ یہ دونوں مکمل طور پر مختلف مسائل ہیں اس لئے یہ کہنا کہ چونکہ ہماری نمازیں مختلف اوقات میں ہوتی ہیں اس لئے رمضان بھی مختلف دنوں میں ہوگا ، باطل ہے۔ اگر یہ منطق تسلیم کر لی جائے تو پھر کراچی میں غروب آفتاب لاہور یا پشاور سے کئی منٹ بعد ہوتا ہے تو پھر ہمیں کراچی کا چاند بھی قبول نہیں کرنا چاہئے۔ یوں ہر شہر کا اپنا اپنا چاند ہوگا اور یہ سلسلہ کہاں آ کر ختم ہوگا؟!
یہ کہنا کہ ساراقصور حکمرانوں کا ہے اور ہم تو مقامی طور پر وحدت اختیار کرنے کے لئے ان کی اتباع کر رہے ہیں سراسر غلط اور غیر شرعی ہے۔ اول یہ کہ جب ہمیں اسلامی حکم کا علم ہو گیا ہے تو ہم پر لازم ہے کہ ہم اس حکم شرعی کی اتباع کریں نہ کہ ان حکمرانوں کی، جو اللہ کے حکم کو پس پشت ڈال کر کفر نافذ کررہے ہوں۔ حضرت معاذؓ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں: ’’میں نے کہا: ’اے اللہ کے رسول ﷺ آپ کیا کہتے ہیں اگر ہم ایسے حکمران پائیں جو آپ کی سنت پر نہ چلیں اور وہ آپ کے حکم کی اتباع نہ کریں ان معاملات میں جن میں آپ نے انہیں حکم دیا ہے ‘۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’ اس شخص کی کوئی اطاعت نہیں جو خود اللہ عز و جل کی اطاعت نہیں کرتا‘ ‘‘۔ چنانچہ ثابت ہو گیا کہ ہمارے حکمران جو رسول اللہ ﷺ کی حکم عدولی کر رہے ہیں کسی اطاعت کے حق دار نہیں۔ رہی بات مقامی طور پر اتحاد و وحدت قائم کرنے کی تو سب سے پہلے ہمیںیہ سمجھنا چاہئے کہ ہم مسلم قوم ہیں نہ کہ ’’پاکستانی قوم‘‘ ۔ ہم مسلم امت سے الگ نہیں لہذا ہر وہ عمل جو ہمیں مسلم امت سے الگ کر کے ایک قومی تشخص دے رہا ہو درحقیقت عصبیت کو ہوا دیتا ہے اور امت میں دراڑیں ڈالتا ہے اور امت کو تقسیم کرتا ہے جو کہ شرعاً حرام ہے۔ قرآن نے مسلمانوں کو امت واحدہ قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (ہٰذہٖ اُمَّتَکُمْ اُمَۃٌ وَّاحِدَہ)’’یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے‘‘۔ ایسے میں ہم کیسے امت کو چھوڑ کر قومیت کی بنا پر اتحاد کی بات کر سکتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:’’وہ ہم میں سے نہیں جو عصبیت کی طرف بلائے، یا عصبیت کے لئے لڑے یا عصبیت کے لئے مرے‘‘۔ (ابو داؤد)۔ رمضان کے آغاز اور عید کے دن پرمسلمانوں میں عدم وحدت کی موجودگی نیا مسئلہ نہیں ہے ۔
ہر سال ہم اس بیماری سے دوچار ہوتے ہیں جبکہ حکومت نے اس مسئلے کو اسلامی طریقے کے مطابق چاندکی روئیت کے ذریعے حل کرنے کی بجائے سپارکو جیسے اداروں کو یہ ہدایات جاری کیں کہ وہ سائنسی حساب کتاب کو بنیاد بنا کر اس مسئلے کا فیصلہ کریں ، یعنی ایسا طریقہ جو رسول اللہ ا کے حکم سے براہِ راست متصادم ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ استعمار اور ان کے یہ ایجنٹ حکمران اس بات سے نفرت کرتے ہیں کہ مسلمان اپنی عبادات اور خوشیوں میں وحدت اختیا ر کریں بلکہ وہ امت کو منقسم اور تبا ہ حال دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اور وہ یہ سب کچھ محض اس لئے کرنے میں کامیاب ہوئے کہ مسلمانوں کی ڈھال یعنی خلافت موجود نہیں جو انہیں وحدت بخشتی ہے اور امت کے امور کو اسلام کے تحت چلاتی ہے۔ رسول اللہﷺ نے پہلے ہی ایسے دور سے آگاہ کر دیا تھا،آپ ﷺنے ارشاد فرمایا : ’’ اسلام کی گرہیں ایک ایک کر کے کھل جائیں گی ، سب سے پہلے جو گرہ کھلے گی وہ ( اسلام کے مطابق ) حکمرانی کی ہو گی اور سب سے آخرمیں نماز کی گرہ کھلے گی‘‘(حاکم ؒ و احمدؒ ) ۔ ہم پہلے ہی دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے علاقوں پر اسلام کے مطابق حکمرانی نہیں کی جا رہی اور اب ہم اپنی آنکھوں کے سامنے حکومتی اداروں کے اعلانات کے ذریعے اپنی عبادات کا مذاق اڑتا دیکھ رہے ہیں ۔ ہم پر لازم ہے کہ اگر ہم یہ سنیں کہ دنیا میں کسی بھی جگہ پر مسلمانوں نے چاند دیکھ لیا ہے تو ہم رمضان کا اختتام کر تے ہوئے عید منائیں، جیسا کہ رسول اللہ اکی حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ کیونکہ ایسی صورت میں روزے کو جاری رکھنا رسول اللہ ا کے حکم کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔ بلاشبہ کوئی مسلمان بھی اس دن روزہ رکھنا پسند نہیں کرے گا جس دن شیطان اور اس کے پیروکار روزہ رکھتے ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ جب تک خلافتِ راشدہ دوبارہ قائم نہیں ہو جاتی مسلمان عدم وحدت کے مرض میں مبتلا رہیں گے ،خواہ یہ رمضان کا موقع ہو یا عید الفطر یا عید الاضحی یا کوئی بھی اور مسئلہ ہو۔ یہ مخلص خلیفہ ہی ہو گا جو رسول اللہ ﷺکے اس ارشاد کے مطابق روئیت ہلال کا اعلان کرے گا: ’’...تمام مسلمانوں کے لیے ایک شخص (کی گواہی)ہی کافی ہے‘‘ (ابودؤد)۔ بلاشبہ یہ مسلمانوں کاخلیفہ ہی ہو گا جو اس بات کو یقینی بنائے گا کہ مسلمان ایک امت کے طور پر روزہ رکھیں اور ایک امت کے طور پر عید منائیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں