نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

2015 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کیا ہجرتِ مدینہ ہی اسلامی ریاست کا آغاز تھی

تحریر: بلال امام، کراچی کوئی بھی گروہ جو اپنے آپ کو اس بات کا پابند کرے کہ وہ نظام کی تبدیلی اوراسلامی ریاست کے قیام کی کوشش کے لیے رسول اللہ ﷺ کی سیرت کو بطورِ طریقہ اختیار کرے گا تو اس کے لیے مستند ماخذ سے سیرتِ نبوی کا مطالعہ نہایت ضروری ہے کیونکہ یہ بھی سنت ہی کا حصہ ہے ۔ سیرت کے مطالعہ سے یہ بات قطعی طور پر معلوم ہوجاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے نہ صرف یہ کہ اسلام کو لوگوں تک پہنچایا بلکہ اسے بطورِ نظام نافذ بھی کیا اور رسول اللہﷺ کو اللہ کی طرف سے اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ وہ اسلام کو بطورِ ریاست نافذ کریں۔ پس مکی دور کی تیرہ سالہ جدوجہد کے نتیجے میں مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست قائم ہوئی جس کے نتیجے میں جہاد کے ذریعے اسلام کے پھیلاؤ کا آغاز ہوا۔ اسلامی ریاست کا قیام کوئی ایسا واقعہ نہ تھا کہ جو جدوجہد کی راہ میں خود بخود وقوع پزیرہو گیا بلکہ ایک ایسی ریاست کا قیام جو اسلام کو نافذ کرے اور دعوت و جہاد کے ذریعے اسے دنیا تک لے جائے، رسول اللہ ﷺ کی مکی دور کی جدوجہد کا ہدف تھا۔ آج وہ لوگ جو رسول اللہ ﷺ کے نقشِ قدم پر اسلامی ریاست کے قیام کے لیے کوشش کر رہے ہیں ،کے لیے ضروری ہے ک

خالق کے وجود کا انکار اور عقلی طرزِ استدلال

تحریر: ڈاکٹر افتخار احمد (ان کو ظالم حکمرانوں نے اس وقت کوٹ لکھپت جیل میں قید کر رکھا ہے) دہر زمانے کو کہتے ہیں، اور دہریت یہ ہے کہ ایک شخص یہ اعتقاد رکھے کہ زمانہ ہی تخلیق کرتا ہے اور زمانہ ہی مارتا ہے، یعنی اس کائنات کے خالق کا کوئی وجود نہیں، بلکہ یہ کائنات خود سے ہے ۔ اس کائنات میں جاندار چیزیں پیدا ہوتی ہیں اور پھر مر کرختم ہو جاتی ہیں اور یہ چکر مسلسل خود بخود چل رہا ہے۔ انگریزی میں ایسے یا اس سے ملتے جلتے افکار کو atheismکہتے ہیں۔ 2005کے ایک سروے کے مطابق دنیا کی کل آبادی کا 2.3فیصد خالق کے ہونے کو یقینی تصور نہیں کرتا ۔ پوری دنیا میں دہریوں کی شرح کے لحاظ سے سویڈن سر فہرست ہے، جہاں یہ شرح تقریباً85 فیصد ہے، جبکہ فرانس یہ شرح32فیصد ،جرمنی میں 20فیصد، برطانیہ میں 17فیصد ہے ۔ حال ہی میں امریکہ میں کیے جانے والے سروے کے مطابق امریکہ میں یہ شرح 20فیصد ہے۔ پاکستان میں دہریت کے خیالات روسی کیمونسٹ آئیڈیالوجی سے متاثر لوگوں کے ذریعے پھیلنا شروع ہوئے ۔ پاکستان میں سوشلسٹ تحریکوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ایک خاطر خواہ تعداد دہریت کی سوچ کی حامل تھی۔ یہ لوگ مذہب کو شدید تنقی

کیا اسلام جس عمل سے منع نہ کرے، وہ جائز ہے؟

حال ہی میں حکومت پاکستان کے زیر سرپرستی ہولی کا تہوار منایا گیا اور ہم نے اخباروں میں مشاہد حسین اور چودھری شجاعت کی تصاویر دیکھیں جن میں انہوں نے فخریہ انداز میں اپنی پیشانیوں پر رنگ لگا رکھا تھا۔ اس پر عوام الناس کے ایک گروہ نے اعتراض کیا کہ ا س ہندوانہ رسم، تہوار اور فعل کرنے کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ جبکہ دوسرے گروہ کا خیال تھا کہ آخر مذہبی رواداری اور ہندو مسلم بھائی چارے کے پیش نظرایک تہوار منا ہی لیا تو اس میں کیا حرج ہے۔ اسی طرح بسنت کے حوالے سے عوام میں کافی کنفیوژن پائی جاتی ہے۔ جہاں ایک طرف عوام کا ایک بڑا حصہ اسے اپنے مذہب اور روایات سے متصادم ہونے کے باعث پسند نہیں کرتا۔ وہاں دوسری طرف ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اشتہاری مہموں اور سرکاری سرپرستی سے متاثر ہو کر بے شمار لوگ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اسلام میں خوشی منانے یا پتنگ اڑانے کی کوئی ممانعت نہیں تو پھر بسنت منانا کیونکر حرام ہو گیا۔ یہی صورتحال کئی دوسرے امور میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ اسی طرح حال میں امریکہ میں آمنہ ودود کی امامت میں ادا ہونے والی مخلوط نماز جمعہ شدو مد سے زیر بحث رہی۔ اس گروہ کا کہنا

خلافت اور بر صغیرِ ہند

ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ برصغیر خلافت سے آ زاد ایک خطہ رہا ہے اور اس کا معاملہ ہمیشہ خودمختاری کا رہا ہے۔ امتِ مسلمہ کا نصف حصہ آج برصغیر میں قیام کرتا ہے۔ہندوستان ،پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمانوں کی آبادی کو جوڑ کر دیکھیں تو یہ بات آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے۔آج امتِ مسلمہ کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان اردو ہو گئی ہے جو عربی سے بھی آگے بڑھ گئی ہے۔ ہندوستان میں خلافت کی تاریخ: ۷۱۱ ء ؁ کا واقعہ ہے کہ ساحلِ سندھ کے پاس کچھ مسلمان تاجر بحرِ ہند میں سفر کر رہے تھے کہ ان کو لوٹ لیا گیا اور وہ قید بھی کر لئے گئے۔ جب یہ خبر اسلامی دارِ الخلافہ میں خلیفہ ولید بن عبدالملکؔ کے پاس پہنچی تو خلیفہ نے والئ بغدادؔ حجاج بن یوسفؔ کو پیغام بھیجا کہ وہ سندھ کے راجہ سے کہیں وہ اس گستاخی پر معافی مانگے اور مسلمانوں کو رہا کردے۔ اس کے بعد سندھ کیلئے ایک فوج روانہ کی گئی جس کا سپہ سالار وہ بہادر نوجوان تھا جس کی عظمت خاص کر ہندوستان کے مسلمانوں میں آج تک قائم ہے۔ اس دیارِ غیر میں اسلامی خلافت کو پہنچانے کی ذمہ داری جس نوجوان کے کندھوں ر ڈالی گئی اُس کا نام محمد بن قاسم الثقفی تھا،اسی نے سندھ کے