یہ سوچ بہت عام ہے کہ یہود یا اسرائیلی اس قدر چلاک اور ذہین قوم ہے کہ امریکہ جو کہ اس وقت دنیا کی واحد سپرپاور ہے ، بغیر اسرائیل کی مرضی کے کچھ بھی نہیں کرتا یا کرسکتا۔ پوری دنیا کی معیشت پر یہودیوں کا قبضہ ہے۔ میڈیا پر کوئی خبر یا موضوع ان کی مرضی کے بغیر چل نہیں سکتا۔ امریکہ میں کوئی شخص کانگریس کا ممبر یا امریکہ کا صدر یہودی لابی کے پیسے اور سیاسی مدد کے بغیر نہیں بن سکتا۔یہ تاثرات اس وقت اور مضبوط ہو جاتے ہیں جب امریکہ مشرق وسطی میں اسرائیل کی حمائت میں نہ تو کسی کی مخالفت کی پرواہ کرتا ہے اور نہ ہی اپنے بنائے ہوئے اصولوں کوتوڑنے میں شرم محسوس کرتا ہے۔ اس کے علاوہ فری میسنزکی کہانیاں ، اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں ، فوج اور کمانڈوز کی طاقت کے قصے ایسا تاثر پیدا کر دیتے ہیں کہ یہ یقین ہونے لگتا ہے کہ دنیا کی اصل طاقت تو ایک چھوٹی سی قوم یہود ہے جس نے امریکہ ،یورپ اور دنیا کی تمام بڑی قوموں کو قابو کر رکھا ہے، دنیا میں جو بھی فساد ہوتا ہے اس کے پیچھے یہود کا ہاتھ ہوتا ہے اور مسلمانوں پر ہونے والے تمام مظالم کے ذمہ دار یہود ہیں۔ اس تاثر کے نتیجے میں مسلمانوں میں یہ خیال جڑ پکڑ لیتا ہے کہ اصل برائی امریکہ یا اس کا استعماری نظام سرمایہ داریت نہیں بلکہ اسرائیل یا یہود ہیں اگر ان کی طاقت کا خاتمہ کردیا جائے تو مسلمان اپنی کھوئی ہوئی عظمت رفتہ دوبارہ بھال کر لیں گے۔
مسلمانوں پر اللہ نے یہ لازم کیا ہے کہ وہ دین اسلام کو تمام ادیان پر غالب کریں۔ اس عمل کی انجام دہی کے لیے ضروری ہے کہ ہم دنیا کی سیاست کو سمجھیں، طاقت کے مراکز اور مسائل کی جڑ کی صحیح نشاندہی کریں۔ اگر ہم نے اپنے دشمن کا صحیح تعین نا کیا تو ہماری توانائی غلط ہدف پر ضائع ہو جائے گی اور حقیقی دشمن اور طاقتور ہوجائے گا۔یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ سپر پاور اس ملک کو کہا جا تا ہے کہ جس کی مرضی کے مطابق دنیا کے تمام یا بیشتر معاملات چلتے ہوں۔ اس وقت امریکہ کو دنیا کی واحد سپر پاور اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ دنیا کے کسی بھی معاملے میں اس کے مرضی کو چیلنج کرنے والی کوئی دوسری طاقت موجود نہیں ہے۔ امریکہ کی معیشت دنیا کی معیشت کا 17فیصد ہے۔ امریکہ کا دفاعی بجٹ روس،چین،برطانیہ اور فرانس کے کل دفاعی بجٹ سے زیادہ ہوتا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس طرح اسرائیل جو کہ سپر پاور نہیں ، اپنا تحفظ امریکی فوجی اور سیاسی مدد کے بغیر کر نہیں سکتا، جس کی معیشت ہر سال امریکی امداد کی محتاج ہو وہ ملک کس امریکہ کو اپنے اشاروں پر چلنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ یا پھر یہ کہ اسرائیل کی طاقت کے تمام قصے بے بنیاد ہیں۔
عمومی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ امریکہ کی مشرق وسطی سے مطلق پالیسی اسرائیل کی مرضی کے طابع ہوتی ہے۔ امریکہ مشرق وسطی میں اسرائیل کو مضبوط کرنے یا اپنے مفادات کو حاصل کرنے کے لیے فوجی بغاوتوں اور آمر حکمرانوں کی حمائت کرتا ہے اور کبھی جمہوری قوتوں کی،کسی ملک کے خلاف پابندیاں لگاتا ہے تو کسی ملک کو امداد دیتا ہے،کبھی اقوام متحدہ اور بین القوامی قوانین کو نافذ کروانے کے لیے سیاسی اور فوجی اثرو رسوخ استعمال کرتا ہے تو کبھی اقوام متحدہ اور بین القوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ اب امریکہ کے ان اعمال کا یہ جواز پیش کرنا کہ ایسا وہ صرف اور صرف اسرائیل کے دباؤ کی وجہ کرتا ہے ،غلط ہو گا۔ ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ امریکہ ، افریقی ممالک، لاطینی امریکہ اور مشرق بعید میں بھی اپنے مفادات کے حصول کے لیے ایسے ہی تمام اقدامات اٹھاتا ہے جیسا کہ وہ مشرق وسطی میں کرتا ہے۔ اگر امریکہ مشرق وسطی کے علاوہ دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی ویسے ہی اقدامات کرتا ہے جہاں کوئی اسرائیلی مفاد نہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ اتنی طاقت رکھتا ہے کہ وہ ایسی پالیسیاں بنائے جس سے دوسرے اتفاق نا کرتے ہو۔ اس کے علاوہ ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ کئی بین الاقوامی امور ، جن کا اسرائیل کی سلامتی یا مفادات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا،پوری دنیا کی رائے کی مخالفت کرتا ہے چاہے اس وجہ سے اس کو پوری دنیا میں شدید تنقید کا نشانہ ہی کیو ں نہ بننا پڑے۔ پوری دنیا نے زیرے زمین سرنگوں(Land Mines)کے خاتمے، بین الاقوامی عدالت برائے جنگی جرائم کے قیام اور دنیا میں بڑھتے درجہ حرارت کو روکنے کے لئے KOYOTO PROTOCOLپر دستخط کیے لیکن امریکہ نے ان معاہدوں کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔اس تجزیہ سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ امریکہ مشرق وسطی میں بھی ایسے اقدامات اس لئے کرتا ہے کیونکہ بنیادی طور پر یہ اس کے مفاد میں ہوتا ہے نا کہ اس وجہ سے کہ اس پر اسرائیل کا کوئی دباؤ ہوتا ہے۔
ایک خیال یہ بھی ہے کہ امریکہ میں موجود تمام یہودی اسرائیل کی حمائت میں ایک ہو کر امریکہ پر دباؤ ڈالتے ہیں ۔ یہ تصور معلومات کی کمی کا نتیجہ ہے۔ جہاں امریکہ میں یہودیوں کی ایک بڑی تنظیم American Israel Public Affairs Committe (AIPAC)اور اس سے منسلک کئی یہودی تنظیمیں امریکی اراکین کانگریس پر اسرائیل کے حق میں پالیسیاں بنانے کے لئے دباؤ ڈالتی ہیں وہیں American's for Peace Now, Israel Policy Forum, Brit Tzedek V'shadomجیسی یہودی تنظیمیں ہیں جو اسرائیل کے وجود کے خلاف تو نہیں ہیں لیکن اسرائیل کی یہودی آبادکاروں کے حوالے سے پالیسی، نئے علاقوں پر قبضہ کرنے، دیوار کھڑی کرنے اور امریکہ کی اسرائیل کی ہر حال میں حمائت کی شدید مخالفت بھی کرتیں ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کانگریس کے اراکین کی بہت بڑی اکثریت کو اپنے حلقوں سے جیتنے کے لئے نہ تو یہودی وٹوں کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی ان کے پیسوں کی۔ ایسے تمام اراکین کانگریس جو کہ اسرائیلی پالیسیوں کی مکمل حمائت کرتے ہیں ان کا تعلق ان علاقوں سے ہوتا ہے جو کہ ان کے محفوظ ترین حلقے ہوتے ہیں اور وہ وہاں سے کئی دہائیوں سے جیتتے آرہے ہوتے ہیں۔ مثلاً موجودہ امریکی سپیکر کانگریس نینسی پلوسی جو کہ اسرائیل کی کھل کر حمائت کرتی ہے ہر دفعہ 80%سے زائد ووٹ لے کر منتخب ہو جاتی ہے۔ یہ کہنا کہ یہودی لابی بہت مالدار ہے اور وہ پیسے استعمال کر کے امریکی اراکین کانگریس پر دباؤ ڈالتے ہیں بلکل غلط مفروضہ ہے۔ پیسوں کے لحاظ سے سب سے طاقتور لابی امریکہ میں دفاعی یا اسلحہ بنانے والے اداروں، تیل کی کمپنیوں اور ادویات بنانے والے اداروں کی ہے۔ صرفNorthrop Gruman اور Lockheed Martinاپنے اداروں کی لابنگ پر AIPACکے مقابلے میں بل ترتیب سات اور پانچ گنا زیادہ خرچ کرتے ہیں۔اسی طرح AIPACکی لابنگ کا خرچہ General Electric, Boeingاور دوسرے کئی ایسے اداروں سے بہت کم ہے جو کسی بھی دفاعی صنعت سے منسلک ہیں۔ امریکہ میں یہودیوں کی آبادی پانچ فیصد سے بھی کم ہے۔ اس میں سے بھی جب ایک ماقول تعداد اسرائیل کی ہر حال میں حمائت کی مخالفت کرتی ہو ، یہودی ووٹ امریکہ کی 95%سے زیادہ حلقوں میں کوئی اہمیت نا رکھتے ہوں ، دولت کی بنیاد پر یہودیوں سے زیادہ مضبوط لابیز موجود ہوں تو ہم اس بات کو سمجھ سکتے ہیں دو یا تین فیصد یہودی امریکی انتظامیہ پر کتنا زور ڈال سکتے ہیں۔ ان تمام حقائق کے باوجود اگر ہم اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ اسرائیل کی مرضی کے خلاف کچھ بھی نہیں کرتا تو میں یہاں کچھ مثالیں پیش کرتا ہوں تاکہ یہ تائثرہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے۔ کسی بھی امریکی صدر نے جب یہ دیکھا کہ اسرائیلی لابی کی طرف سے جس پالیسی کو اپنانے کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے وہ امریکی مفاد میں نہیں تو امریکی صدر نے ہمیشہ اسرائیل کو مجبور کردیا کہ وہ امریکی پالیسی کو اختیار کرے۔ 1956کی جنگ میں جب اسرائیل،برطانیہ اور فرانس نے نحر سوئس پر قبضہ کرنے کے لیے جنگ کا آغاز کیا تو اس وقت کے امریکی صدر آئزن ہاور نے اس جنگ پر شدید ناراضگی کا اظہار کیااور اسرائیل کو دھمکی دی کہ اگر اس نے مصری علاقوں سے قبضہ ختم نا کیا تو امریکہ میں اسرائیلی بونڈز اور نجی طور پر اسرائیل بھجوائیں جانے والی رقوم پر ٹیکس کی چھوٹ ختم کردی جائے گی۔ امریکی صدر آئزن ہاور نے اسرائیل کو یہ دھمکی اس وقت دی تھی جب صرف چند ہفتوں بعد امریکہ میں صدارتی انتخابات ہونے جارہے تھے۔ امریکی صدر آئزن ہاور ن کی اس دھمکی کے نتیجے میں اسرائیل نے چند مہینوں میں تمام مصری علاقے خالی کردیے۔ اسی طرح جب 1978میں اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا اور دریائے لیتانی تک آگیا تو امریکی صدر جمی کارٹر نے اسرائیل کو امداد بند کر دینے کی دھمکی دے کر مجبور کردیا کہ وہ لبنان کی سرحد میں چند کلومیٹر تک محدود رہے۔ اس کے بعد اگلے امریکی صدر رونلڈریگن نے 1981میں AIPACکے بھر پور دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے AWACSطیارے سعودی عرب کو بیچے۔ اس کے دس سال بعد بش سینیر نے اسیAIPACکے دباؤ کا کامیابی سے مقابلہ کیا اور اسرائیل کے لیے 10ارب ڈالر قرضے کو جاری کرنے میں تاخیر کی جب تک کہ اسرائیل میں الیکشن نہیں ہو گئے اور دائیں بازو کے وزیراعظم Yitzhak Shamirکو شکست نہیں ہو گئی کیونکہ Yitzhak Shamirمشرق وسطی میں امریکی امن منصوبے کی راہ میں روکاوٹ بن رہا تھا۔ 2004میں بش جونئیر نے اسرائیل کو نہ صرف چین سے اس معاہدے کو توڑنے پر مجبور کردیاجس کے تحت اسرائیل نے Harpy Surveillanceطیاروں کو جدید بنانا تھابلکہ اسرائیلی وزارت دفاع کے ڈائریکٹر جنرل Amos Yaronکو بھی استعفاء دینا پڑا۔اسی طرح اسرائیل پچھلے دو سالوں سے امریکہ کو ایران پر حملے کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کررہا ہے لیکن نہ صرف یہ کہ امریکہ اس کی اس خواہش کو پورا نہیں کررہا بلکہ امریکہ نے اسرائیل کو بھی سختی سے ایران پر کسی بھی قسم کے حملے کی اجازت دینے سے روک دیا ہے۔
ان تمام حقائق کے باوجود آخر امریکہ کیوں اسرائیل کی اس قدر حمائت کرتاہے۔ سب سے پہلے تو اس بات کو ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ امریکہ ایک نظریاتی ریاست اور دنیا کی واحد سپر پاور ہے۔ امریکہ جو بھی فیصلے کرتا ہے اپنی ضروریات اور مفادات کو سامنے رکھ کر کرتا ہے۔ مشرق وسطی کا علاقہ کئی اعتبار سے اہمیت رکھتا ہے۔ دنیا کے تمام تجارتی بحری قافلے اس کے بحری علاقوں سے گزرتے ہیں۔ دنیا کا 60%سے زائد تیل و گیس کے ذخائر اس علاقے میں موجود ہیں اور ان تمام باتوں سے بڑھ کر یہ علاقے مسلم اکثریتی آبادی رکھتے ہیں۔ مشرق وسطی کی اہمیت کو واضع کرنے کے لیے سابق برطانوی وزیراعظم Hery Bannermanکا ایک تبصرہ ہی کافی ہے۔ وہ کہتا ہے،
یہاں پر وہ لوگ(مسلمان) رہتے ہیں جو اس زبردست علاقے اور اس زمین میں موجود ذخائر کو کنٹرول کرتے ہیں۔ ان کی زمین انسانی تہذیب اور مذاہب کا گھوارہ ہے۔ ان لوگوں کا عقیدہ،زبان،تاریخ اور جذبات ایک سے ہیں۔ کوئی قدرتی روکاوٹ ان لوگوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کر سکتی اور اگر کبھی جدا ہوں بھی جائیں تو یہ قوم دوبارہ ایک مملکت میں ضم ہو جائے گی۔ پھر یہ دنیا کی قسمت کو اپنے ہاتھ میں لے لیں گے اور یورپ کو باقی دنیا سے کاٹ دیں گے۔ ان وجوہات کو اگر سنجیدگی سے لیا جائے تو ضروری ہے کہ ایک بیرونی اکائی کو اس قوم کے دل میں پیوست کردیا جائے تاکہ اس قوم کی صلاحیتوں کو کبھی نہ ختم ہونے والی جنگوں میں ضائع کردیا جائے۔ یہ بیرونی اکائی مغرب کے لیے ایک ایسے پلیٹ فارم کا کام بھی کرے گی جہاں سے وہ اپنے خفیہ منصوبوں کو انجام بھی دے سکے گی۔
یہ ہے وہ بنیادی وجوہات جس کی بنا پر پہلی جنگ عظیم کے بعد اس وقت کی سپرپاوربرطانیہ نے مشرق وسطی کے علاقے میں یہودی مملکت کی کوششوں کا آغاز کیا اور پھر دوسری جنگ عظیم کے بعد جب امریکہ سپر پاور بن گیا تو اس کے مفاد کا تقاضع بھی یہی تھا کہ اسرائیل کی ریاست قائم کی جائے اور اس کو مضبوط بنایا جائے۔اسرائیلی ریاست کے زریعے اس علاقے کو مسلسل جنگوں میں مبتلا رکھا جاتا ہے جس سے ایک طرف امریکی اسلحے کی فیکٹریاں چلتی رہتی ہیں تو دوسری طرف ان ممالک کی کمزوری کے سبب امریکہ ان ممالک میں اپنے اثرورسوخ کو بڑھاتا اور برقرار رکھتا ہے۔
اس وقت دنیا کی واحد سپرپاور امریکہ ہے اور سرمایہ داریت کے نظریے کا علمبردار ہے۔ مسلمانوں اور اسلام کا حقیقی دشمن یہودی یا اسرائیلی ریاست نہیں بلکہ امریکہ اور سرمایہ داریت کا نظام ہے۔ اسرائیل تو محض امریکی مفادات کو پورا کرنے والا ایک کھلاڑی ہے۔ اس کھلاڑی کی یہ جرات اور طاقت نہیں ہوسکتی کہ وہ وقت کی واحد طاقت کو اپنے مفادات کے مطابق چلاسکے۔ اسرائیل کی اس حقیقت کو ایک اسرائیلی استاد اور امن کے لیے کام کرنے والے کارکن Jeff Halperنے اس طرح سے بیان کیا ہے۔
اسرائیل اپنے قبضوں کو اس لیے برقرار رکھ پاتا ہے کیونکہ وہ مغرب خصوصاً امریکہ کے استعماری مفادات کو پورا کرنے کے لیے تیار رہتا ہے اور حقیقت میں اب اسرائیل امریکہ کا ایک آزمودہ سپاہی بن چکا ہے۔
سابق امریکی وزیر خارجہ Alexander Haigنے اسرائیل کے متعلق کہا تھا کہ
اسرائیل امریکہ کا واحد سب سے بڑا Air Craft Carrierہے جو ڈوب نہیں سکتا۔
ہم مسلمانوں کو یہ سمجھنا چاہئے کہ کہ امریکہ دانستہ اس نظریعے کو فروغ دیتا ہے کہ یہودی لابی اس قدر طاقتور ہے کہ امریکہ جیسی طاقت بھی اس کے آگے مجبور ہوجاتی ہے۔ اس بات کو فروغ دینے سے امریکہ دو فائدے حاصل کرتا ہے۔ ایک وہ مسلمانوں کی امریکہ سے نفرت کا رخ یہود کی طرف موڑ دیتا ہے اور دوسرا یہ کہ مسلمان اسرائیل کو اپنا اصل دشمن سمجھ کر اسرائیلی قوت کو ختم کرنے کی کوششوں میں لگ جاتے ہیں۔ اس طرح نہ تو امریکہ ختم ہوتا ہے اور نہ ہی اسرائیل۔ مسلمانوں کا جان لینا چاہیے کہ جب تک مسلمان اپنی گردنوں پر مسلط غدار امریکی ایجنٹ حکمرانوں سے نجات حاصل کرکے ایک خلیفہ ایک امام ایک سلطان کے تحت تمام مسلم علاقوں کو یکجا کر کے خلافت کا قیام عمل میں نہیں لاتے نہ تو وہ اسرائیلی ریاست کا خاتمہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی امریکہ اور اس کے سرمایہ داری نظام سے چھٹکارہ پا سکتے ہیں۔
very good article
جواب دیںحذف کریںExcellent brother Imran
جواب دیںحذف کریں