نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

شرعی دلائل کی روشنی میں خلافت اور جمہوریت کا تقابلی جائزہ

                                                                                                نوید بٹ  
اسلام کا طالب علم جب قرآن و سنت پر نظر ڈالتا ہے تو اسے ’’جمہوریت‘‘ سے متعلق کوئی آیت یا حدیث تو درکنار صحابہ، آئمہ مجتہدین یا فقہائ کا ایک قول بھی نہیں ملتا۔ حالانکہ انسانیت اسلام سے ہزاروں سال قبل جمہوریت سے روشناس ہو چکی تھی۔ وہ اس شش و پنج کا بھی شکار ہوتا ہے کہ اگر اسلام کا نظام حکومت جمہوریت ہی ہے تو پھر کیا یونانیوں نے اسلام کے آنے سے قبل ہی ازخود ’’اسلامی نظام حکومت‘‘ دریافت کر لیا تھا؟ کیا اس ’’اسلامی نظام حکومت‘‘ کے نفاذ سے انہوں نے ایک اسلامی معاشرے کو جنم دے دیا تھا؟ کیا وہ نہ جانتے ہوئے بھی اسلام پر ہی چل رہے تھے؟ لیکن تاریخ کے کسی گوشے میں بھی یونانی تہذیب اور اسلامی تہذیب میں مماثلت کا کوئی شائبہ تک نہیں ملتا۔ اگر رسول مقبول ا جمہوریت ہی دے کر مبعوث کئے گئے تھے تو پھر آپ اکو یہ ارشاد فرمانے میں کیا تردد تھا کہ وہ وہی نظام لے کر آئے ہیں جو ارسطو اور یونانی فلاسفر انسانیت کو پہلے ہی دے چکے ہیں؟ جبکہ اسلامی عقائد کے بارے میں آپ ا نے بڑے واضح انداز میں فرمایا تھا کہ آپ ا دیگر انبیائ ہی کے دین پر ہیں اور انہیں کوئی نیا عقیدہ دے کر مبعوث نہیں کیا گیا۔
اگر اسلام اور جمہوریت میں کوئی تضاد نہیں تو کیا یہ سیکولر حضرات کے اس دعوے کو مزید مضبوط نہیں کرتا ہے کہ اسلام محض عبادات، انفرادی معاملات اور اخلاقیات سے متعلق قوانین دیتا ہے جبکہ عوام کو اپنے نظام کو اکثریت کی بنیاد پر ازخود قائم کرنے کے لئے کھلا چھوڑ دیتا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ اسلامی نظام حکومت کو جمہوریت کہنا اسلام پر سراسر تہمت باندھنے کے مترادف ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ اکو ایک منفرد نظام دے کر مبعوث فرمایا تھا اور اسی کی اتباع مسلمانوں پر فرض قرار دی تھی۔ یہاں تک کہ دیگر انبیائ کی شریعت بھی اسلام کے آنے کے بعد منسوخ ہو گئی۔ نیزمسلمانوں کو ان مذاہب سے زندگی گزارنے کے متعلق قوانین سے کچھ بھی اخذ کرنے سے روک دیا گیا۔ ایک دفعہ آپ انے حضرت عمر کو تورات میں زنا سے متعلق حکم تلاش کرتے ہوئے دیکھ لیا۔ جس پر آپ ا کے چہرے مبارک پر غصے کے آثار نمایاں ہو گئے۔ حضرت عمر (رض)نے فوراً دریافت فرمایا کہ ان سے کیا غلطی ہو گئی ہے۔ اس پر آپ ا نے ارشاد فرمایا کہ اگر آج میرے بھائی موسیٰں بھی ہوتے تو ان کے پاس اس کے سوائ کوئی چارہ نہ ہوتا کہ اس کی اتباع کرتے جو میں لایا ہوں۔ اسی کے متعلق قرآن نے ان الفاظ میں حکم دیا:
﴿وَمَنْ ےَبْتَغِ غَےْرَ الْاِ سْلَٰمِ دِےْناً فَلَنْ ےُّقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِی الْآخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِےْنَ﴾
’’اسلام کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے تو ﴿اس کا وہ طریقہ ﴾اس سے ہر گز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ نقصان پانے والوں ہوگا‘‘ ﴿آل عمران: 85﴾
مزید برآں کچھ لوگ شوریٰ سے متعلق محض دو آیتوں کو بنیاد بنا کر اسلامی نظام حکومت کو شورائی قرار دے کر اسے نہایت ہی مبہم اور غیر واضح بنا دیتے ہیں اور یوں اسے جمہوریت کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر اسلام کا نظام محض باہمی مشورے تک ہی محدود ہے تو پھر اس وقت کے قریش مکہ بھی شوریٰ ہی کی بنیاد پر نظام چلا رہے تھے تو پھر آخر ایک نیا نظام دینے کی کیا ضرورت تھی۔ قریش کے سردار ’’دار الندویٰ‘‘ میں بیٹھ کر باہم مشوریٰ کرتے اور اس کی بنیاد پر عرب پر حکومت کرتے تھے۔ قریش کے سرداروں کا وہ مشورہ کس کو یاد نہیں جس میں انہوں نے اس معاملے پر شوریٰ بٹھائی تھی کہ رسول اﷲ ا کو کاہن کہا جائے، مجنون کہا جائے یا پورے عرب میں ساحر کے طور پر مشہور کیا جائے؟ یا یہ کہ رسول اﷲ ا کو کس طرح قتل کیا جائے؟ لہٰذا اگر حکمرانی کے تمام فیصلے شوریٰ ہی کی بنیاد پر ہوتے ہیں تو پھر اسلامی نظام اور دار الندویٰ کے کفریہ نظام میں کوئی فرق نہیں رہ جائیگا ﴿نعوذ باﷲ﴾۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسلامی نظام حکومت میں مشورے کی سرے سے کوئی گنجائش ہی نہیں۔ درحقیقت اسلام مشورے کو چند مباح معاملات تک محدود کر دیتا ہے جبکہ قوانین کی اکثریت جن کاتعلق معاشرے کی معاشی، حکومتی، تعلیمی، عدالتی اور ثقافتی تنظیم سے ہے یا فرد کی ذاتی زندگی کی اصلاح سے ہے، خلیفہ بغیر کسی اکثریت و اقلیت کی رائے کو ملحوظ رکھتے ہوئے محض قرآن و سنت سے اخذ کر کے من و عن نافذ کرتا ہے۔
اسلام ہمیں اگر زندگی کے کھانے پینے، طہارت اور لباس جیسے نسبتاً کم اہم احکامات کے متعلق واضح اور تفصیلی احکامات دیتا ہے تو پھر حکومت، معاش اور عدالت جیسے معاشرے کے لئے نسبتاً زیادہ اہم امور پر کیسے خاموش رہ سکتا ہے؟ حقیقت بھی یہی ہے کہ اسلام ہمیں ایک مبہم یا غیر واضح نظام حکومت نہیں دیتا کہ جسے ’’شورائی نظام‘‘ کا لیبل لگا کر کسی بھی نظام سے نتھی کر دیا جائے۔ بلکہ رسول اﷲ ا ایک منفرد نظام حکومت دے کر مبعوث کئے گئے تھے جو آمریت، بادشاہت، جمہوریت الغرض دیگر تمام نظام ہائے حکومت سے مختلف و منفرد ہے۔
یہاں سوال یہ پیداہوتاہے کہ اگر 1300 سال تک مسلمان فقہائ اور مفکرین نے کہیں بھی اسلام کو جمہوریت نہیں سمجھا تو پھر مغرب جمہوریت کے ان کفریہ افکار کو مسلمانوں کے ممالک میں دھکیلنے میں کیونکر کامیاب ہوا؟ دراصل یورپ کو جب یہ یقین ہوگیا کہ مسلمانوں کی قوت کا راز اسلام ہے اور اسلام کا عقیدہ ہی اس کی عظیم قوت کا منبع ہے تو اس نے عالمِ اسلام کے خلاف ایک ایسی زبردست مشنری اور ثقافتی جنگ شروع کی جس کے ذریعے اس نے اپنی ثقافت اور اپنے افکار کو مسلمانوں کے اندر داخل کیا۔ جمہوریت اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو اپنی ثقافت اور زندگی کے بارے میں اپنے نقطۂ نظر کی طرف دعوت دی تاکہ وہ جمہوریت کو اپنی فکر کی بنیاد اور زندگی کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر بنالیں ۔ اس طرح وہ مسلمانوں کو اسلام سے متنفر اور اس سے دور اور اس کے احکام کے نفاذ سے روکنا چاہتے تھے، تاکہ اسلامی ریاست یعنی خلافت کو ختم کرنا ان کے لیے آسان ہو جا ئے اور نتیجے کے طورپر وہ اسلام کو زندگی، ریاست اور معاشرے میں لاگو ہونے سے روک سکیں۔ نیز مسلمان ان کے کفر یہ افکار، نظام اور قوانین کو اختیارکرلیں۔ اسلام کی بجائے مغرب کے نظام کو نافذکریںاور اسلام سے دور ہو جائیں اور یوں کافروں کو ان پر غلبہ حاصل ہو جائے۔
یہ مشنری اور ثقافتی جنگ اس وقت شدت اختیار کرگئی جب انیسویں صدی کے آخری نصف میں خلافتِ عثمانیہ اپنے آخری ایام میں تھی۔ مسلمان فکری، علمی اور سیاسی انحطاط کا شکار ہوچکے تھے۔ یورپ میں فکری اور صنعتی انقلاب، علمی انکشافات اور ایجادات کے بعد طاقت کا توازن یورپی ریاستوں کے حق میں بہتر ہو چکا تھا، جس کے ذریعے تیز رفتار ترقی کا عمل شروع ہوا۔ جبکہ عثمانی ریاست جامد ہوکر رہ گئی اور روز بروز کمزور ہونے لگی اور اس کی وجہ سے مغربی ثقافت، مغربی افکار، مغربی تہذیب اور مغربی نظاموں کو مسلمانوں کے علاقوں میں داخل ہونے کا موقع مل گیا۔
مغربی ممالک نے اس مشنری اور ثقافتی جنگ میں ایسا خطرناک اسلوب اختیار کیا کہ جس سے اسلام مسلمانوں کی نظر میں بے وقعت ہو کر رہ گیا۔ اس کے احکام کے بارے میں مسلمانوں میں تشویش اور تشکیک پیداہوئی اور مسلمانوں کو یہ تٲثردیاگیا کہ اسلام ہی ان کی پسماندگی اور انحطاط کا سبب ہے، جبکہ مغرب کی ترقی کا راز اس کی تہذیب، اس کے افکار اوراس کا جمہوری نظام ہے۔ نیز انہی قوانین اور نظاموں کی وجہ سے وہ ترقی کے بامِ عرو ج پر پہنچ گیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ انداز بھی اختیار کیا گیا کہ مغربی تہذیب اسلامی تہذیب سے متصادم نہیں بلکہ دراصل یہ اسلامی تہذیب ہی سے ماخوذ ہے۔ اس کے نظام اور قوانین اسلامی احکامات کے خلاف نہیںہیں ۔ انہوں نے ان جمہوری افکار او رجمہوری نظام پر اسلام کارنگ چڑھا دیااور کہاکہ یہ اسلام کے مخالف یا اسلام سے متصادم نہیں، بلکہ یہ تو اسلا م سے ہی ہیں کیونکہ یہ بعینہٰ شورٰی ہے اور یہی امر بالمعروف او رنہی عن المنکر اورحکام کا محاسبہ ہے ۔ چنانچہ اس بات نے مسلمانوں کو بہت متاثر کیا۔ یہاں تک کہ مغربی افکار اور مغربی تہذیب مسلمانوں کے اندر سرایت کرگئی ۔
 حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت اسلام کے ساتھ اپنے مصدر، اپنے عقیدے، اپنی اساس، اپنے افکار اور نظاموں الغرض ہر لحاظ سے متصادم ہے۔ جمہوریت کا منبع انسان ہے اور اس نظام میں محض عقل ہی کسی عمل کے اچھے یا برے ہونے کا حکم لگاتی ہے۔ اس کے بانی یورپ کے وہ فلاسفر اور مفکرین ہیں جو یورپ میں بادشاہوں او رعوام کے درمیان خوفناک جنگ کے بعد ابھر کر سامنے آئے۔ چنانچہ جمہوریت انسان کا بنایاہوا نظام ہے اور اس میں حکمران انسانی عقل ہے ۔ گو کہ اسلام مسلمان کو اﷲ کے وجود، قرآن کے منجانب اﷲ ہونے اور محمد ا کا رسول ہونے پر عقلی دلائل کی روشنی میں ایمان لانے کی ترغیب دیتا ہے۔ لیکن جہاں تک اسلامی احکامات کا تعلق ہے تو اس کا ماخذ انسانی عقل نہیں بلکہ وحی ہے جو اللہ تعالیٰ نے محمد ا کی طرف نازل فرمائی جیسا کہ قرآن اس کی شہادت دیتا ہے :
﴿وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلَّاوَحْیٌ یُّوْحٰی﴾ 
’’﴿محمدا﴾ اپنی خواہشات سے نہیں بولتے، یہ تو صرف وحی ہے، جو ان کی طرف آتی ہے ۔‘‘ ﴿النجم:3-4﴾
وہ اس لئے کہ عقل کے پاس ہر خیر یا شر کا از خود فیصلہ کرنے کی استطاعت موجود نہیں۔ لہذا بیشتر معاملات میں انسان مکمل علم و ادراک نہ رکھنے کی وجہ سے کبھی بھی صحیح حل تک نہیں پہنچ سکتا ۔ مثال کے طور پر انسان کبھی بھی مرد اور عورت کے مابین پائی جانے والی جسمانی، جذباتی، شعوری اور عقلی مماثلت یا اختلاف کا سو فیصدی ادراک نہیں کرسکتا۔ اس لئے جب بھی وہ ان کے لئے ذمہ داریاں یا حقوق کا تعین اپنی عقل سے کریگا وہ لامحالہ کسی نہ کسی جنس کے ساتھ زیادتی کا مرتکب ہو جائیگا۔ ان تمام صلاحیتوں میں جن میں مرد اور عورت بالکل ایک جیسے ہیں ان میں مختلف ذمہ داری دینا ظلم ہے اسی طرح جن صلاحیتوں میں دونوں میں اختلاف ہے ان میں دونوں جنسوں کو ایک ہی ذمہ داری تفویض کرنا بھی انصاف کے منافی ہے۔ کیا عورت کی زچگی کی ذمہ داری کو مرد مساوی انداز میں بانٹ سکتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر مساوات کا خواب کبھی بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ یہ دونوں جنسیں مختلف ہیں اور خالق کے سوا کوئی بھی انسان ان دونوں میں انصاف پر مبنی تقسیم کار نہیں دے سکتا جو ان کی صلاحیتوں کے عین مطابق ہو۔ انسانی عقل اس سے عاجز ہے کہ وہ انسان کے معاملات اور ان کے باہمی تعلقات کی تنظیم میں مبنی بر انصاف نظام فراہم کر سکے۔ عقل کے اسی عجز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿کُتِبَ عَلَےْکُمُ الْقِتَالُ وَھُوَکُرْہٌ لَّکُمْ وَعَسٰیٓ اَنْ تَکْرَھُوْا شَےْئاًوَّ ھُوَ خَےْرٌ لَّکُمْ  وَعَسٰیٓ اَنْ تُحِبُّوْا شَےْئاً وَّ ھُوَشَرٌّ لَّکُمْ وَاﷲُ ےَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾
 ’’جنگ تم پر فرض کر دی گئی ہے اور وہ تمہیں ناگوار ہے ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار ہو اور وہی تمہارے لئے خیر ہو اور ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند ہو اور وہی تمہارے لئے شر ہو۔ اﷲ جانتا ہے، تم نہیں جانتے‘‘﴿البقرۃ:216﴾
 اس آیت سے واضح ہو گیا کہ انسانی عقل محدود ہونے کی وجہ سے اس امر سے قاصر ہے کہ وہ انسانوں کی تمام ضروریات اور باہمی تعلقات کو منظم کرنے کے لئے ازخود ایک مربوط نظام مہیا کر سکے جو تمام خامیوں سے پاک ہو۔
چنانچہ انسانی زندگی سے متعلق تمام امور پر احکامات صادر کرنے کے لیے اسلام میںجس چیز کی طرف رجو ع کیا جاتاہے وہ اللہ تعالیٰ کی شریعت ہے نہ کہ انسانی عقل۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿اِنِ الْحُکْمُ اِلَّالِلّٰہِ﴾
’’حکم تو صرف اللہ تعالیٰ کاہے۔‘ ‘ ﴿یوسف:67﴾
اور فرمایا:
﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ﴾
’’اگر کسی چیز میں تمہارے درمیان تنازع کھڑا ہو، تو اس کو اللہ اوررسول﴿ا﴾کی طرف لوٹادو ۔‘‘ ﴿النسائ:59﴾
جمہوریت جس عقیدے سے نکلی ہے، وہ دین کا زندگی اور ریاست سے علیحدگی کا عقیدہ ہے ۔ یہ عقیدہ اس’’ درمیانے حل‘‘ پر مبنی ہے جوعیسائیوں میں سے دینی لوگوں ﴿رجالِ دین ﴾ اور اُن فلاسفر اور مفکرین کے درمیان ہواتھا، جو دین او ررجالِ دین کے اقتدار کے منکر تھے ۔ اگرچہ اس عقیدے نے دین کے وجود کا انکارتو نہیں کیا، لیکن زندگی اور ریاست میں اس کے کردار کو معطل کرکے رکھ دیا۔ جس کے نتیجے میں پھرانسان نے اپنے لیے نظام خود بنایا ۔
یہ عقیدہ ہی وہ فکری قاعدہ ہے، جس پر مغرب نے اپنے افکار کی بنیاد رکھی اور اسی سے ان کا نظام نکلا۔ اسی کی بنیاد پرانہوںنے اپنے فکری رخ اور زندگی کے بارے میں اپنے نقطۂ نظر کا تعیّن کیااور اسی سے جمہوری نظام وجودمیںآیا۔ اسلامی نظام اس کے بالکل برعکس ہے کیونکہ وہ اُس اسلامی عقیدے پرمبنی ہے جو زندگی اور ریاست کے تمام معاملات کو اللہ تعالیٰ کے اوامر ونواہی کے مطابق چلانے کو فرض قرار دیتاہے۔ یعنی ان احکامِ شرعیہ کے مطابق جواس عقیدے پر مبنی ہیں۔ انسان اپنا نظام خود نہیں بناسکتا۔ اس پر صرف یہ فرض ہے کہ وہ اللہ کے بنائے ہوئے نظام پرچلے ۔ اسی عقیدے کی بنیاد پر اسلامی تہذیب قائم ہے اور زندگی کے بارے میں اس کا نقطۂ نظر بھی اسی بنیاد پر ہے ۔
جمہوریت جس اساس پر قائم ہے‘ وہ بنیادی طورپر دو افکار ہیں:
﴿۱﴾حاکمیت ِ اعلیٰ (Sovereignty) عوام کی ہے
﴿۲﴾ قوت کا سرچشمہ (Authority)عوام ہیں
جمہوریت کی رْو سے عوا م خود اپنے ارادوں کے مالک ہیں، بادشاہ اور قیصرِ﴿روم﴾نہیںاور عوام اپنے ارادے خود نافذ کریں گے ۔ بالادست اوراپنے ارادے کامالک ہونے کی وجہ سے ان کو قانون سازی کا حق حاصل ہے۔ چنانچہ وہ ایسے قوانین بنائیں گے، جو تمام عوام کی خواہشات کی عکاسی کرتے ہوں۔ وہ قانون سازی کے لیے اپنے نمائندے منتخب کریں گے، جو ان کی نمائندگی کرتے ہوئے قوانین بنائیں گے ۔ انہوں نے اپنے نمائندوں کے ذریعے یہ قانون بھی بنوایاکہ دین کو تبدیل کیا جا سکتا ہے یا چھوڑا جاسکتاہے۔ اسی طرح قانون کی رو سے زنا اور لواطت بھی جائز ہیں۔ حتیٰ کہ ان کا موں کو بطورِ پیشہ اختیار کیا جاسکتاہے ۔ چونکہ جمہوریت میں عوام ہی طاقت کا سرچشمہ ہیں، اس لیے وہ اپنے من پسند حاکم کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ تاکہ وہ ان کے اپنے بنائے ہوئے قوانین کو ان پر نافذ کرے۔ یہ حاکم کو معزول بھی کرسکتے ہیں اور حکمران کو تبدیل بھی کرسکتے ہیں۔ کیونکہ یہ طاقت کا سرچشمہ ہیں، اور حکمران ان کے سہارے حکومت کرتاہے۔
جبکہ اسلام میں بالادستی شریعت کو حاصل ہے، نہ کہ امت کو۔ صرف اللہ تعالیٰ قانون ساز ہے۔ پوری امت مل کر بھی ایک حکم نہیں بناسکتی۔ چنانچہ تمام مسلمان جمع ہو جائیںاور اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کے لیے سود کے مباح ہونے پر اجماع کریںیاخاص خاص مقامات پر زنا کے جواز پر اجماع کریں تاکہ زنا عام نہ ہوپائے یا انفرادی ملکیت کے خاتمے پراجماع کریں یا روزے کی فرضیت کو ختم کرنے پر اجماع کریں یاعام آزادیوں کے لیے اجماع کریں تاکہ مسلمانوں کو عقیدے کی آزادی ہواور جو عقیدہ وہ پسند کریں اسے اختیارکریں یا یہ کہیں کہ مال کو بڑھانے کے لیے کسی بھی طریقہ کو بروئے کار لایاجاسکتاہے، اگر چہ وہ طریقہ فی نفسہٰ حرام ہو یا شخصی آزادی کو مباح قرار دیں تاکہ زندگی سے لطف اٹھائیں، خواہ یہ شراب پی کر ہو یا زنا کے ذریعے سے ہو، تو اس اجماع کی کوئی قدرو قیمت نہیں ہوگی۔ اسلام کی نظر میں اس کی حیثیت مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں۔ مسلمانوں میں سے اگر کوئی گروہ اس قسم کا ارادہ ظاہر کرے تو اس سے قتال فرض ہے ، یہاں تک کہ وہ اس سے رجوع کرے۔ مسلمانوں کے لیے کوئی ایک عمل بھی خلافِ اسلام کرنا جائز نہیں۔ اسی طرح کوئی ایک حکم بنانا بھی جائزنہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی قانون ساز ہے۔ ارشاد ہے:
 ﴿فلَاوَرَبِّکَ لَا یُؤمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ﴾
’’﴿اے محمدا﴾ تمہارے رب کی قسم! یہ اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتے جب تک کہ یہ آپ کو اپنے اختلافات میں فیصلہ کرنے والا نہ بنالیں۔‘‘ ﴿النسائ:65﴾
 اور ارشادفرمایا گیاکہ حکومت تو صرف اللہ کے لیے ہے ۔مزید فرمایا:
﴿اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ آمَنُوْا بِمَااُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْآ اِلَی الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْآ اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٰ﴾
 ’’ کیا آپ﴿ ا﴾نے نہیں دیکھا ان لوگوں کو، جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ایمان لائے ہیں، اس پر جو آپ کی طرف اورآپ سے پہلے نازل ہوا۔ وہ چاہتے ہیں کہ اپنے فیصلے طاغوت ﴿غیر اللہ ﴾کے پاس لے جائیں ۔ حالانکہ انہیں حکم ہو چکاہے کہ طاغوت کا انکار کردیں۔‘﴿النسائ:60﴾‘
طاغوت کے پاس اپنے فیصلے لے جانے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے فیصلے غیر اللہ یعنی انسان کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق کرنا۔ارشاد ہے:
﴿اَفَحُکْمَ الْجَاھِلِیَّۃِ یَبْغُوْنَ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ حُکْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ﴾
’’کیا یہ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں، حالانکہ اللہ سے اچھا فیصلہ کرنے والا اورکون ہے؟ یہ بات ایسی قوم کے لیے ہے جو یقین رکھتی ہے۔ ‘‘﴿المائدۃ:50﴾
حکمِ جاہلیت سے مرادہر وہ حکم ہے جس کو رسول اللہ ا لے کر نہیں آئے۔ بلکہ اس کو خود انسان نے بنایااور ارشاد باری ہے:
﴿فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٰ اَنْ تُصِیْبَھُمْ فِتْنَۃٌ اَؤ یُصِیْبَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ﴾
 ’’جو اس ﴿محمدا﴾کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انہیں اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی فتنہ یا دردناک عذاب میں مبتلانہ ہوجائیں۔‘‘﴿النور:63﴾
رسول ا للہ ا کے حکم کی مخالفت سے مراد انسان کے بنائے ہوئے قوانین کو اختیار کرنااور رسول اللہ ا کی لائی ہوئی شریعت کو چھوڑدینا ہے۔ رسول اللہ ا کا ارشاد ہے:
﴿مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَیْسَ عَلَیْہِ اَمْرُنَا فَھُوَرَدٌّ﴾
’’جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں ‘ تو وہ عمل مسترد ہے۔‘‘
 اس حدیث میں ہمارے حکم سے مراد اسلام ہے ۔
بے شمار آیات اور احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اقتدار اعلیٰ (sovereignty) صرف شریعت کو حاصل ہے اور قانون ساز صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ انسان کو قانون سازی کا کوئی حق نہیں۔ انسان کا فرض ہے کہ وہ اپنی زندگی کے تمام اعمال اللہ تعالیٰ کے اوامر ونواہی کے مطابق سر انجام دے۔  اسلام نے اللہ کے اوامرو نواہی کی تنفیذ کو مسلمانوں پر فرض قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کو نافذ کرنے کے لیے ایک ایسے اقتدار کی ضرورت ہے، جو ان کو نافذکرے۔ چنانچہ امت کو اختیاردیاگیا ہے، یعنی حاکم کے انتخاب کاحق، تاکہ وہ حاکم اللہ تعالیٰ کے اوامرو نواہی نافذ کرے۔
اگر چہ شریعت نے امت کو شریعت کے نفاذ کے لیے اپنا حاکم بذریعہ بیعت منتخب کرنے کا اختیار دیاہے، لیکن جمہوری نظام کی طرح حاکم کومعزول کرنے کا اختیار نہیں دیا۔ اس لیے حدیث میں ہے کہ خلیفہ کی اطاعت فرض ہے چاہے وہ لوگوں کو ناپسند ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن یہ اطاعت اس وقت تک ہے جب تک کہ وہ گناہ کے کام کا حکم نہ دے۔ ابن عباس(رض) سے روایت ہے ۔رسول اللہ ا نے فرمایا:
﴿﴿مَنْ رَاٰی مِنْ اَمِیْرِہٰ شَیْئًا یَکْرَھُہُ ‘ فَلیَصْبِرْ ‘ فَاِنَّہُ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَۃَ شِبْرًا فَمَاتَ ‘ فَمِیْتَۃٌ جَاھِلِیَۃٌ﴾﴾
’’جو شخص اپنے امیر کے کسی ناپسندیدہ کام کو دیکھے تو اس پر صبر کرے کیونکہ جو جماعت سے ایک بالشت بھی جداہوا اور اس حالت میں مرگیا تووہ جاہلیت کی موت مرا ۔‘‘
اور عوف(رض) بن مالک سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ا کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
﴿﴿...وَشِرَارُ اَئِمَّتِکُمُ الَّذِینَ تُبْغِضُوْنَھُمْ وَیُبْغِضُوْنَکُمْ وَتَلْعَنُوْنََھُمْ وَیَلْعَنُوْنَکُُمْ ‘ قَالَ: قَالُوْا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اَفَلا نُنَابِذُھُمْ عِنْدَذَالِکَ؟ قَالَ: لَا ‘ مَااَقَامُوْا فِیکُمُ الصَّلاَۃَ ‘ الَا مَنْ وَلِیَ عَلَیْہِ وَالٍ فَرَآہُ یَٲْتِیْ شَیْئًا مِنْ مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ ‘ فَلْیَکْرَھْ مَایَٲْتِیْ مِنْ مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ ‘ وَلَا یَنْزِعَنَّ یَدًا مِّنْ طَاعَۃٍ﴾﴾
’’...اورتمہارے برے اماموں میںسے وہ لوگ ہیں جنہیں تم ناپسند کرتے ہو اور وہ تمہیں ناپسند کرتے ہیں۔ تم ان پر لعنت بھیجتے ہو اور وہ تم پر لعنت بھیجتے ہیں ‘‘ راوی کہتاہے کہ ہم نے کہا : ’’یا رسول اللہ﴿ا﴾! کیااس وقت ہم انہیں ﴿حکومت سے باہر نکال﴾پھینک نہ دیں؟ آپ﴿ا﴾نے فرمایا: نہیں! جب تک کہ وہ تمہارے درمیان نماز قائم کرتے رہیں۔ سنو ! جس پرکوئی والی بناپھر اس نے دیکھا کہ وہ والی ایسا کام کرتاہے جس میں اللہ کی نافرمانی ہے، تو اس آدمی کو چاہیے کہ وہ اللہ کی نافرمانی کو تو ناپسند کرے، لیکن والی کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچے‘‘
 اقامت صلاۃ سے مراد اسلام کے مطابق حکومت کرناہے ۔ یعنی یہاں جز بول کر کل مرا د لیاگیاہے۔
حکمران کے خلاف خروج اس وقت تک جائزنہیں، جب تک کہ وہ کھلم کھلا کفر کا ارتکاب نہ کرے ۔جیسا کہ عبادہ(رض) بن الصامت کی روایت میں ہے :
﴿﴿.فَبَایَعْنَاہُ ‘ فَقَالَ فِیْمَا اَخَذَ عَلَیْنَا اَنْ بَایَعْنَا عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ فِیْ مَنْشَطِنَا وَمَکْرَھِنَا ‘ وَعُسْرِنَا وَیُسْرِنَا ‘ وَاَثَرَۃً عَلَیْنَا ‘ وَاَنْ لَّا نُنَازِعَ الْا َمْرَ اَھْلَہُ اِلَّا اَنْ تَرَوْاکُفْرًا بَوَاحًا عِنْدَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ فِیْہِ بُرْھَانٌ﴾﴾
’’.ہم نے آپ﴿ ا﴾ سے بیعت کی۔ آپ نے ہم سے عہد لیاکہ ہم اپنی خوشی و ناراضی ، تنگی وفراخی اور ہم پر کسی کو ترجیح دئیے جانے پر بھی سنیںاور اطاعت کریں اور یہ کہ ہم اولوالامر سے جھگڑا نہ کریں۔﴿آپ ا نے فرمایا:﴾ مگر اس وقت جب کہ تم کفر بواح ﴿کھلم کھلاکفر﴾ دیکھو ،جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے پاس واضح دلیل ہو۔‘‘
خلیفہ کو صرف محکمۃ المظالم ہی معزول کرسکتاہے۔ یہ اس لیے کہ جن امور کی وجہ سے خلیفہ کو معزول کیا جاتاہے انہیں قاضی کے سامنے اس کو ثابت کرنا لازمی ہے۔ چنانچہ خلیفہ کو ہٹانے یا اسے برقرار رکھنے کا اختیار محکمۃ المظالم کو حاصل ہے ۔
جمہوریت چونکہ اکثریت کی حکومت ہوتی ہے اور اکثریت ہی قانون سازی کرتی ہے۔ اس لیے حکمرانوں، پارلیمنٹ کے اراکین، اداروں اور تنظیموں کے اراکین کاانتخاب اکثریت ہی کی بنیاد پر ہوتاہے۔ اسی طرح پارلیمنٹ میں قانون سازی، معاہدے اور فیصلے بھی اکثریت کی بنیاد پرہوتے ہیں ۔
لہٰذا جمہوریت میں اکثریت کی رائے حکمرانوں اور عوام سب کے لیے لازمی ہے، کیونکہ اکثریت کی رائے ہی کو عوام کاارادہ سمجھا جاتاہے اور اقلیت کے لیے اکثریت کے سامنے سرجھکانے کے علاوہ اورکوئی چارہ نہیں ۔
اسلام میں یہ معاملہ بالکل مختلف ہے ۔  اسلام میں قانون سازی کی بنیاداکثریت یااقلیت نہیں بلکہ صرف شرعی نصوص ہیں کیونکہ قانون ساز صرف اللہ ہے، نہ کہ امت۔ احکام کو اختیارکرنے اور ان کو نافذ کرنے کا اختیارصرف خلیفہ کوحاصل ہے۔ خلیفہ احکامات کو صحیح ترین نصوصِ شرعیہ، جو کتاب اللہ اورسنت رسول ا میں سے ہوں، اجتہاد کے ذریعے حاصل ہونے والی مضبوط ترین دلیل سے اختیار کرے گا ۔ خلیفہ کے لیے احکامات میں سے کسی حکم کو نافذ کرنے کے لیے مجلس امت کی رائے لینا جائزہے، لیکن ضروری نہیں۔ کیونکہ خلفائے راشدین کسی حکم کو اختیار کرتے وقت صحابہ (رض) کی طرف ان کی رائے معلوم کرنے کے لیے رجوع کیا کرتے تھے۔ جیساکہ عمر(رض) بن خطاب نے شام، مصر اور عراق کی مفتوحہ اراضی کے بارے میں حکم لگانے کے لیے مسلمانوں سے رائے لی ۔
اس لیے خلیفہ احکامات کی ’’تبنی ‘‘ ﴿کسی حکم کو ملکی قانون کے طور پر اختیار کرنے﴾ کے لیے مجلس امت کی طرف رجوع کرے، تو مجلس امت کی رائے اس کے لیے لازم نہیں، اگرچہ یہ اجتماعی یا اکثریتی رائے ہو۔ کیونکہ رسول اللہ ا نے صلح حدیبیہ میں اعتراض کرنے والے مسلمانوں کی رائے چھوڑ دی، حالانکہ وہ اکثریت میں تھے، اورمعاہدہ کر ڈالا اور ارشاد فرمایا:
 ﴿اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُوْلَہُ وَلَنْ اُخَالِفَ اَمْرَہُ﴾
 ’’میں اللہ کابندہ او راس کا رسول ہوں، میں ہرگز اس کے حکم کی مخالفت نہیں کروں گا۔ ‘‘
 اور صحابہ (رض) کا بھی اس بات پر اجماع ہے کہ امام ﴿خلیفہ﴾متعیّن احکام اختیار کرسکتاہے اور ان پر عمل کا حکم دے سکتا ہے۔ اور مسلمانوں پر اپنی آرائ کو چھوڑکر خلیفہ کے حکم پر چلنا فرض ہے۔ مثلاً ابو بکر (رض) نے قرآن و سنت کے احکامات سے اس رائے کو زیادہ درست جانا کہ وہ مسلمانوں میں مالِ غنیمت کی مساوی طور پر تقسیم کریں کیونکہ اس مال پر تمام مسلمانوں کا حق برابر ہے۔  حضرت عمر (رض) نے اس بات کو درست نہ جانا کہ وہ لوگ، جنہوں نے قبول اسلام سے قبل رسول اﷲ (رض) کے خلاف جنگ کی انہیں اس شخص کے برابر مال عطا کیا جائے جس نے رسول اﷲ ا کے ساتھ مل کر جنگ کی یا وہ ضرورت مند کو بھی اتنا ہی دیں جتنا کہ مالدار کو دیا جائے۔ اسی طرح حضرت ابو بکر(رض) نے اپنی خلافت کے دوران صحابہ(رض) کی اکثریتی رائے کو مسترد کرتے ہوئے اپنی رائے کو نافذ کیا اور مرتدین زکوٰۃ، جھوٹی نبوت کے دعوے داروں اور رومیوں کے خلاف ایک ساتھ لشکر کشی فرمائی۔ نیز حضرت عمر(رض) نے عراق کے مفتوحہ علاقوں پر خراج نافذ کرنے کے اپنے اجتہاد کو نافذ فرمایا اگرچہ حضرت بلال(رض) اور اکابر صحابہ(رض) کا اجتہاد ان سے مختلف تھا۔ مزیدبرآں حضرت ابو بکر(رض) نے اپنے دور خلافت میں طلاق اور وراثت میں اپنے اجتہادات کو نافذ فرمایا جبکہ حضرت عمر(رض) نے اپنے دور میں انہی مسائل پر مختلف اجتہادات کو لاگو فرمایا۔ حضرت ابو بکر(رض) اور عمر(رض) کے اس طریقہ کار پر تمام صحابہ(رض) کا اجماع ہے جو ہمارے لئے شرعی دلیل ہے۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ خلیفہ اپنے اجتہاد کے مطابق وہ نافذ کرتا ہے جسے وہ اﷲ کا حکم سمجھتا ہے نیز اس پر لوگوں کی اکثریت کی رائے پر عمل کرنا لازم نہیں ہوتا۔ جبکہ مسلمانوں کے لیے ان احکامات کی پابندی کرنا لازم ہے، اگرچہ وہ اپنے اجتہاد کی بنا پر اس حکم سے متفق نہ بھی ہوں۔ نیز ان پر لازم ہے کہ وہ اپنی رائے اور اجتہاد کو چھوڑ دیں۔ یہ تبنی شدہ احکامات دراصل قوانین ہوتے ہیں۔ چنانچہ قوانین کی تبنی کرنا صرف خلیفہ کے لیے ہے کسی اور کو یہ حق حاصل نہیں۔
خلیفہ کے تبنی شدہ (adopted) احکام کی اتباع اس سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اولوالامر کی اطاعت کا حکم دیاہے، ارشاد ہے:
﴿اَطِیْعُواللّٰہَ وَاَطِیْعُوالرَّسُوْلَ وَاُولِی اْلا َمْرِ مِنْکُمْ ﴾
’’اللہ اوررسول ﴿ا﴾ کی اطاعت کرواو راپنے میں سے اولوالامر ﴿حکمرانوں﴾ کی بھی۔‘‘ ﴿النسائ:59﴾
 اور یہاں اولوالامر سے مراد حکام ہیں۔
اسی سے یہ مشہور فقہی قواعد بنے ہیں:
۱۔اَمْرُ الِْامَامِ یَرْفَعُ الْخِلَافِ
 ’’امام کا حکم اختلاف کو ختم کرتاہے ۔‘‘
۲۔اَمْرَُالْاِمَامِ نَافِذًٌ ظَاہِرًا وَبَاطِنًا
’’امام کا حکم ظاہری اور باطنی طورپر نافذ ہوتاہے۔‘‘
۳۔لِلسُّلْطَانِ اَنْ یُّحْدِثَ مِنَ الْاقْضِیَۃِ بِقَدْرِ مَایُحْدِثُ مِنْ مُشْکِلَاتٍ
’’سلطان نئے مسائل کے لیے بقدرِ ضرورت نیا حل تلاش کرتاہے ۔‘‘
جہاں تک اقتصادی، اجتماعی، حکومتی اور عدالتی نظاموں، تعلیمی اور خارجہ پالیسی وغیرہ کا تعلق ہے تو یہ تمام کے تمام خلیفہ مندرجہ بالا اصول کے تحت قرآن وسنت سے مضبوط دلیل کی بنیاد پر تبنی کرتا ہے کیونکہ اسلام ان نظاموں کی مکمل عملی تفصیل دیتا ہے۔ چنانچہ ان قوانین کو قرآن و سنت سے اخذ کرنے میں اسلام ہمیں اکثریت و اقلیت نہیں بلکہ قوی شرعی دلیل پر عمل کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے بھی آپ ا کو ہر معاملے میں اکثریت کی رائے قبول کرنے سے منع فرمایا۔ ارشاد باری تعالیٰ
 ہے:
﴿وَ
Êِن تُطِعْ ٲَکْثَرَ مَنْ فی الْا َٔرْضِ ےُضِلُّوْکَ عنْ سَبِےْلِ اﷲِ ﴾
 ’’اور ﴿اے محمد ا!﴾ اگر آپ لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلیں، جو زمین میں بستے ہیں، تو وہ آپ کو اﷲ کے راستہ سے بھٹکا دیں گے‘‘ ﴿الانعام:116﴾
یہ آیت جمہوریت کے بنیادی فلسفے کو رد کرنے کے لئے کافی ہے۔
لیکن مباح امور میں شوریٰ کا عمل دخل ہوتا ہے جسے بعض لوگوں نے مغالطہ میں پورے حکومتی نظام پر چسپاں کر دیا اور یوں اسے جمہوریت کے مماثل قرار دے ڈالا۔ جبکہ دراصل مباح امور کی دو اقسام میں سے محض ایک قسم میں ہی اکثریتی رائے لازم ہے جبکہ دوسری قسم میں رائے تو لی جاسکتی ہے لیکن اس میں اکثریت کی اتباع لازمی نہیں۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے:
چونکہ فنی اورفکری امور سے متعلق قانون سازی میں تجربے، سوچ اور غور و فکر ضروری ہے۔ اس لیے اس میں درست رائے کا اعتبار ہوگا، اکثریت اور اقلیت کو نہیں دیکھا جائے گا۔ چنانچہ اس معاملے میں ماہرینِ فن کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ فوجی امور میں فوجی ماہرین، فقہی امور میں فقہائ اور مجتہدین، طبی امور میں ماہر اطبائ، انجینئیرنگ میںماہر انجینیئرز اور فکری امور میں بڑے مفکرین کی طرف رجو ع کیا جائے گا۔ علی ھٰذا القیاس ان جیسے امور میں رائے اور فکرکی درستی کا اعتبار ہوگا، اکثریت کانہیں۔ صحیح بات اس کے ماخذ سے لے لی جائے گی اوروہ ماہرین فن ہوں گے نہ کہ اکثریت۔ اس کی دلیل غزوۂ بدر کا واقعہ ہے، جب رسول اللہا نے حباب (رض)بن منذر کی رائے سے اس جگہ کو بدل دیا، جہاں آپ ا اترے تھے او رحباب(رض) کی رائے کو ترجیح دی کیونکہ حباب(رض) کو ٹھکانوں کا زیادہ علم تھا۔ آپ ا نے اس معاملے میں کسی اورصحابی سے مشورہ نہیں کیا۔ اس کے برعکس جمہوری نظام میں پارلیمنٹ کے اراکین، چاہے مسلمان ملکوں میں ہوں، یامغرب میں، عموماً ماہرین نہیں ہوتے او ران امور میں گہری سوجھ بوجھ بھی نہیں رکھتے۔ چنانچہ ان امور میں اراکین کی اکثریت کی رائے کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ ان کی مخالفت یا موافقت برائے نام ہوتی ہے، کسی علم یا معرفت کی بنیاد پرنہیں۔ چنانچہ ان امور میں اکثریت کی رائے کو اختیار کرنا ضروری نہیں۔
 وہ امور جن میں عملی اقدام کی ضرورت ہوتی ہے، سوچ بچار اور غوروفکر کی ضرورت نہیں ہوتی، انہی امور میں اکثریت کی رائے کو قبول کرنا خلیفہ پر لازم ہوگا۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اکثریت ان امور کا ادراک کرتی ہے۔ ممکن ہے کہ وہ کوئی ایسی رائے دیں جس میں سہولت اورآسانی ہو یا اس میں مصلحت ہو۔ مثلاً کیا ہم فلاں کو خلیفہ یا اپنا نمائندہ منتخب کریں یا فلاں کو؟ سڑکیں پہلے بنائی جائیں یا ہسپتال؟ سیوریج کا نظام پہلے درست ہو یا مواصلاتی نظام؟ ان جیسے امور کو ہرانسان جانتاہے۔ اس لیے اس میں کوئی بھی اچھی رائے دے سکتاہے۔ تو اس میں اکثریت کی رائے کا اعتبا ر ہوگا او راکثریت کی رائے لازم ہوگی۔ اس کی دلیل غزوۂ احد کاواقعہ ہے کہ رسول اللہ ا اوربڑے صحابہ(رض) کی رائے یہ تھی کہ مدینہ سے نہ نکلا جائے ،جبکہ اکثریت خصوصاً جوان صحابہ (رض) کی رائے تھی کہ نکل کر قریش کا مقابلہ کیا جائے۔ گویا رائے نکلنے اور نہ نکلنے کے بارے میں تھی۔ جب اکثریت نے نکلنے کی رائے دی تو رسول اللہ ا اپنی اور کبار صحابہ(رض) کی رائے رد کرتے ہوئے مقابلے کے لیے مدینہ سے باہر نکل کھڑے ہوئے ۔
جمہوریت کے نمایاں ترین افکار میں سے ایک فکر عام آزادیوں کا نظریہ ہے۔ یہ جمہوریت کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ فرد کی آزادی جمہوری نظام میں ایک مقدس چیز ہے۔ لہٰذا فردیا ریاست اس آزادی کو ختم نہیں کرسکتے۔ چنانچہ سرمایہ دارانہ جمہوری نظام انفرادی نظام سمجھاجاتاہے۔ عام آزادیوں کی حفاظت کو ریاست کی اہم ذمہ داریوں میں شمار کیا جاتاہے ۔ اسلام میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ ہر مسلمان اپنے تمام افعال اور اقوال میں نصوصِ شرعیہ کا پابند ہے۔ اس کے لیے کوئی ایسا عمل کرنایا کوئی ایسی بات کہنا، جو نصوصِ شرعیہ کے خلاف ہو، جائز نہیں۔ اس لیے ایک مسلمان اسی رائے کو اختیار کرسکتاہے اور اسی کی طرف دعوت دے سکتاہے، جس کی نصوصِ شرعیہ اجازت دیں۔ مسلمان کے لیے جائزنہیں کہ ایسی رائے کا علمبردار بنے یا اس کی طرف دعوت دے، جس کی نصوصِ شرعیہ اجازت نہیں دیتے۔ اگر پھر بھی وہ ایسا کرے تو اسے سزا دی جائے گی۔ لہٰذا مسلمان رائے کے اعتبار سے احکامِ شرعیہ کا پابند ہے ،آزادنہیں ۔
اسلام نے زنا ،اغلام بازی، ہم جنس پرستی، شراب نوشی، عریانی وغیرہ سب کو حرام قرارد یا اور ان پر سخت سزا مقرر کی ہے۔ اسلام نے اعلیٰ اخلاق اپنانے اور اچھی خصلتیں اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور اسلامی معاشرہ کو پاکیزگی اور پاک دامنی کا معاشرہ اور بلند اقدار کا معاشرہ بنایا ہے ۔
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوگیا کہ مغربی تہذیب، مغربی اقدار، مغربی نقطۂ نظر، مغربی جمہوریت اور عام آزادیاں اسلامی احکامات سے کلی طورپر متصاد م ہیں۔ وہ کافرانہ افکار،کافرانہ تہذیب، کافرانہ نظام اور کافرانہ قوانین ہیں۔ یہ کہنا انتہائی جہالت اور گمراہی ہے کہ اسلام میں جمہوریت ہے اور شورٰی اسی کانام ہے اور جمہوریت امربالمعروف او رنہی عن المنکر بھی ہے اوریہی حکام کا محاسبہ ہے۔ شورٰی، امر بالمعروف و نہی عن المنکر اورحکام کا محاسبہ، یہ سب احکامِ شرعیہ ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے مقر ر کیا ہے اور مسلمانوں کو ان پر کاربند رہنے کا حکم دیا ہے۔ جمہوریت کوئی حکمِ شرعی نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ نہیں، بلکہ اس کو خو دانسان نے وضع کیا ہے۔ یہ شورٰی سے بالکل مختلف ہے، کیونکہ شورٰی اظہار ِرائے ہے اور جمہوریت زندگی کے بارے میں ایک نقطہ نظر ہے۔ یہ دستوروں، نظاموں اور قوانین کی قانون سازی ہے، جسے انسان اپنی عقل سے وضع کرتاہے، عقل ہی کی بنیاد پر اپنے مفادات کے لیے اس کی قانون سازی کی جاتی ہے اور وحی کااس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔
اس لیے مسلمانوں کے لیے اسے اختیار کرنا، اس کی طرف دعوت دینا، اس کی بنیاد پر جماعتیں بنانا، زندگی کے بارے میں اس کے نقطہ نظر کو اپنانا، اسے نافذ کرنا، اسے دستوروں اور قوانین کے لیے اساس بنانا، قوانین او ردستوروں کا اسے مصدر بنانا اور تعلیم یا اس کے مقصدکی بنیاد بنانا بالکل حرام ہے۔
یہ نجس ہے اور اس کو جڑسے اکھاڑ پھینکنا مسلمانوں پر فرض ہے۔ یہ طاغوت ہے اوریہی کافرانہ افکا رکا مجموعہ ہے۔ یہ کافرانہ نظام او رقوانین کا مرکب ہے۔ اسلام کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔
مسلمانوں پرا سلام کو مکمل طورپر زندگی، ریاست او رمعاشرے میں نافذ کرنافرض ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ م بَّعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٰ مَاتَوَلّٰی وَنُصْلِہٰ جَھَنَّمَ وَسآئَ تْ مَصِیْرًا﴾
’’اورجوشخص رسول ﴿ا﴾ کی مخالفت پر کمربستہ ہو اور راہِ راست کے واضح ہوجانے کے بعد بھی اہلِ ایمان کی روش کے سوا کسی او رروش پر چلے۔ تو اسے ہم اسی طرف چلتا کردیں گے، جدھر وہ خود پھر گیا۔ اورہم اسے جہنم میں جھونک دیں گے‘ جو بدترین جائے قرار ہے ۔‘‘﴿النساء

نوید بٹ پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان ہیں

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

کیا قرآن و حدیث میں صیغہ امر (حکمیہ انداز) لازما واجب یا فرض ہوتا ہے ۔ (اصول الفقہ)

مسلمان صرف وحی کی اتباع کرتے ہیں ۔ یہ وحی ہمارے پاس دو شکلوں میں موجود ہے : ایک وحی متلو۔۔۔ یعنی وہ وحی جس کی تلاوت کی جاتی ہے،اس سے مراد قرآن الکریم ہے ۔ اور دوسرے وحی غیر متلو ۔۔۔یعنی وہ وحی جس کی تلاوت نہیں کی جاتی ۔ اس سے مراد حدیث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا اور رسول اللہ ﷺکی زبان بھی عربی ہی تھی۔ اس لیے عربی زبان کا فہم ہونااز حد ضروری ہے تبھی ہم شرعی مآخذ سے احکامات کو ٹھیک ٹھیک اخذ کرسکیں گے ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے سورۃ یوسف کی آیت نمبر 2میں ارشاد فرمایا: (انا انزلنَہٗ قرء ٰ نًا عربیًا لَّعلکم تعقلون ) ’’بے شک ہم نے اس قرآن کو نازل کیا تاکہ تم سمجھو‘‘ تاہم محض عربی زبان کی سمجھ شرعی مآخذ سے احکامات کو اخذ کرنے کے لیے کافی نہیں ۔ عربی زبان کا فہم ہوناشرعی متن یعنی (shariah Text) کو سمجھنے کی مختلف شرائط میں سے ایک شرط ہے۔ کیونکہ یہاں مقصد احکامات کو ایک خاص (قانونی ) متن سے اخذ کرنا ہے۔ جس کے لیے عربی زبان کی سمجھ کے علاوہ مزید امور کی بھی ضرورت ہے جیسے کہ وہ قرآئن جو فرائض اور حرام امور کا تعین کرتے ہیں، عام حکم اور اس کی تخصیص ، مطلق اور مقید ی...

خلافت قائم کرنے کا طریقہ

1)     چونکہ خلافت کا قیام ایک فرض ہے بلکہ یہ مسلمان کے اوہر سب سے بڑا فرض ہے ۔ اور چونکہ ایک فرض کے قائم کرنےکا طریقہ اللہ سبحان و تعالیٰ نے انسان پر نہیں چھوڑا بلکہ ہر فرض کے طرح اس فرض کا بھی طریقہ کار اسلام نے بتایا ہوا ہے۔ اور یہ طریقہ کار ہم نبیﷺ کی سیرت سے جان سکتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ریاست کیسےقائم کی تھی۔، بالکل ویسے جس طرح ہم نماز، روزے، حج، جہاد اور دیگر فرائض کا طریقہ نبیﷺ سے اخذ کرتے ہیں۔ 2)   اگر عقل پر چھوڑ دیا جائےتو مختلف طریقے ذہن میں آتے ہیں، جیسے حکمرانوں کو صرف دعوت سے قائل کرنا کہ اسلام قائم کریں، یا ان کے خلاف جنگ کر کے ان کو ملیا میٹ کر کے اسلامی نظام قائم کرنا، یا اس ملک میں مروجہ دستور اور قانون کے مطابق نظام میں حصہ لے کر اس نظام کے اوپر پہنچ کر اسلام کا نظام قائم کرنا یا تمام لوگوں کو تبدیل کرنا ، یہ سوچ کرکہ جب تمام لوگ سچے، پکے مومن بن جائیں گے تو اسلامی نظام خود ہی قائم ہو جائے گاوغیرہ۔ لیکن یاد رہے کہ یہ سب عقل و منطق (logic)   سے نکلنے والے طریقے ہیں ۔ اور انسانی عقل کامل نہیں اسلئے اس طریقوں کی اپن...

کیا اسلام جس عمل سے منع نہ کرے، وہ جائز ہے؟

حال ہی میں حکومت پاکستان کے زیر سرپرستی ہولی کا تہوار منایا گیا اور ہم نے اخباروں میں مشاہد حسین اور چودھری شجاعت کی تصاویر دیکھیں جن میں انہوں نے فخریہ انداز میں اپنی پیشانیوں پر رنگ لگا رکھا تھا۔ اس پر عوام الناس کے ایک گروہ نے اعتراض کیا کہ ا س ہندوانہ رسم، تہوار اور فعل کرنے کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ جبکہ دوسرے گروہ کا خیال تھا کہ آخر مذہبی رواداری اور ہندو مسلم بھائی چارے کے پیش نظرایک تہوار منا ہی لیا تو اس میں کیا حرج ہے۔ اسی طرح بسنت کے حوالے سے عوام میں کافی کنفیوژن پائی جاتی ہے۔ جہاں ایک طرف عوام کا ایک بڑا حصہ اسے اپنے مذہب اور روایات سے متصادم ہونے کے باعث پسند نہیں کرتا۔ وہاں دوسری طرف ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اشتہاری مہموں اور سرکاری سرپرستی سے متاثر ہو کر بے شمار لوگ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اسلام میں خوشی منانے یا پتنگ اڑانے کی کوئی ممانعت نہیں تو پھر بسنت منانا کیونکر حرام ہو گیا۔ یہی صورتحال کئی دوسرے امور میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ اسی طرح حال میں امریکہ میں آمنہ ودود کی امامت میں ادا ہونے والی مخلوط نماز جمعہ شدو مد سے زیر بحث رہی۔ اس گروہ کا کہنا ...

ایک امت، ایک چاند، ایک رمضان اور ایک عید

تحریر: نوید بٹ اس سال روئیت ہلال کمیٹی کے سربراہ مفتی منیب الرحمن نے بڑے فخر سے اعلان فرمایا کہ اس دفعہ پورا پاکستان ایک دن رمضان شروع کر رہا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ اعلان درست نہ تھا کیونکہ نہ صرف پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین بلکہ وزیرستان کے مسلمان بھی ایک دن پہلے امت مسلمہ کے ساتھ رمضان کی شروعات کر چکے تھے۔ دوسرا اہم پہلو یہ کہ پاکستان نے قومیت کی بنیاد پر چاند قبول کرکے اپنے آپ کو امت مسلمہ سے الگ کر دیا اور امت کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا۔ مفتی منیب صاحب اس کے بارے میں کیا فرمائیں گے؟ کیا مفتی صاحب امت کو بتا سکتے ہیں کہ کہ قومیت پر مبنی روئیتِ ہلال کی اس بدعت کی شریعت سے کیا دلیل ملتی ہے۔  استعمار نے خلافت کا خاتمہ کر کے نہ صرف مسلمانوں کو چھوٹے چھوٹے حصوں تقسیم کر دیا بلکہ اس نے ہر حصے کو ایک مخصوص قومیت، قومی ترانہ، جھنڈا اور چاند بھی دے دیا۔ جھنڈے مسلمانوں کو سیاسی طور پر تقسیم کرنے کے لئے اور چاند امت کی مذہبی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لئے۔ لیکن اس سے زیادہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس نے ایسے افراد بھی عوام کے سروں پر بٹھا دئے جو اس تقسیم کو اسلام سے ث...

آئین پاکستان کی نام نہاد "اسلامی دفعات" اور اس پر پاکستان کی ہائیکورٹس اور سپریم کورٹس کے مصدقہ فیصلے

آپ اور میں اپنے خواہش کے مطابق بے شک پاکستان کے آئین مین "اسلامی" دفعات پڑھ کر خوش ہوتے رہیں اور یہی کہتے رہپں کہ آئین دراصل اسلامی ہے ، اصل مسئلہ صرف نفاذ کا ہے لیکن آئین کی تشریح کا حق آپ کو یا مجھے نہیں، بلکہ عدالت کو ہے اور اس کی تشریح حتمی مانی جاتی ہے ۔ اور ان کے کچھ فیصلے ملاحظہ کریں: Sec 2. “Islam shall be the State religion of Pakistan.’’ ریاست کا سرکاری مذہب اسلام ہو گا۔ But when this Article 2 came to be interpreted in the Court of Law, a  Full Bench of the Sindh High Court comprising 5 judges, headed by its Chief Justice,  held that: ‘‘Article 2 is incorporated in the Introductory Part of the Constitution and as far as its language is concerned, it merely conveys a declaration. The question arises as to the intention of the Makers of the Constitution by declaring that ‘‘Islam shall be the State religion of Pakistan.’’ Apparently, what the Article means is that in its outer manifestation the State and its Government shall carry an Islamic Symbol. This A...