نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

کیا اسلام جس عمل سے منع نہ کرے، وہ جائز ہے؟





حال ہی میں حکومت پاکستان کے زیر سرپرستی ہولی کا تہوار منایا گیا اور ہم نے اخباروں میں مشاہد حسین اور چودھری شجاعت کی تصاویر دیکھیں جن میں انہوں نے فخریہ انداز میں اپنی پیشانیوں پر رنگ لگا رکھا تھا۔ اس پر عوام الناس کے ایک گروہ نے اعتراض کیا کہ ا س ہندوانہ رسم، تہوار اور فعل کرنے کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ جبکہ دوسرے گروہ کا خیال تھا کہ آخر مذہبی رواداری اور ہندو مسلم بھائی چارے کے پیش نظرایک تہوار منا ہی لیا تو اس میں کیا حرج ہے۔ اسی طرح بسنت کے حوالے سے عوام میں کافی کنفیوژن پائی جاتی ہے۔ جہاں ایک طرف عوام کا ایک بڑا حصہ اسے اپنے مذہب اور روایات سے متصادم ہونے کے باعث پسند نہیں کرتا۔ وہاں دوسری طرف ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اشتہاری مہموں اور سرکاری سرپرستی سے متاثر ہو کر بے شمار لوگ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اسلام میں خوشی منانے یا پتنگ اڑانے کی کوئی ممانعت نہیں تو پھر بسنت منانا کیونکر حرام ہو گیا۔ یہی صورتحال کئی دوسرے امور میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ اسی طرح حال میں امریکہ میں آمنہ ودود کی امامت میں ادا ہونے والی مخلوط نماز جمعہ شدو مد سے زیر بحث رہی۔ اس گروہ کا کہنا یہ تھا کہ چونکہ عورت کی امامت کی ممانعت میں کوئی صریح آیت یا حدیث وارد نہیں ہوئی لہذا ایسا کرنا جائز ہے۔ جبکہ عامۃ الناس اس فعل کو اس لئے حرام سمجھتے ہیں کیونکہ قرآن و سنت سے عورت کی امامت کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ اسی طرح سٹاکس ایکسچینج کو ان لوگوں نے جائز ٹھہرالیا ہے جن کا کہنا ہے کہ اسلام میں چونکہ سٹاکس کے بارے میں واضح نہی موجود نہیں، اس لئے یہ اقتصادی غبارہ یقیناً حلال ہوگا۔ یہی معاملہ انٹیلیکچوئیل پراپرٹی رائٹس اور پیٹنٹ جیسے کئی مغربی قوانین کا بھی ہے جنہیں حکومت نے محض اس لئے اپنایا اور لاگو کیا ہے کہ وہ ’’قرآن و سنت کی کسی واضح نص کے خلاف نہیں‘‘۔ ایک گروہ کے نزدیک ٹی وی ، ڈش، کیبل انٹرنیٹ اور دوسری جدید ایجادات کافروں اور شیطان کے ہتھیار ہیں جن سے مسلمانوں کو نقصان پہنچ رہا ہے اور اسلام میں ان کی کوئی گنجائش نہیں۔ جبکہ دوسرے گروہ کے نزدیک یہ تمام اشیاء جائز ہیں اور اسلامی حدود کے دائرے میں رہتے ہوئے مسلمانوں کی بہتری اور بھلائی اور اسلام کی تبلیغ کے مقاصد کے لیے استعمال کی جاسکتی ہیں۔
مذکورہ بالا مسائل اور ان جیسے دیگر مسائل پر امت فکری طور پر منقسم اور انتشار کا شکار ہے جس کی وجہ سے ہم بحیثیت قوم آگے بڑھنے کی بجائے دائرے میں گھوم رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر اس انتشار اور امت کے مسائل کا حل کیا ہے؟ اسلام میں کن اشیاء کا استعمال حرام ہے اور کون کون سے افعال مردود ہیں؟ آخر اسلام ہمیں اشیاء اور افعال کے بارے میں کیا اصول فراہم کرتا ہے جس کی بدولت ہم سائنسی ترقی کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا اسلامی تشخص بھی برقرار رکھ سکیں؟ نیز یہ کہ ہم مغرب سے کیا من و عن لے سکتے ہیں اور کیا کچھ لینا قطعاً حرام ہے؟ یقیناً اس جواب کے لئے کسی بنیادی ماخذ کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے اور ہمارے لئے یہ بنیادی مآخذ قرآن و سنت ہی ہیں۔ پس آئیے قرآن و سنت کی روشنی میں ان مسائل کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ اسلام کس طرح ہماری کنفیوژن دور کرتا اور ایک واضح حل فراہم کرتا ہے۔

شریعت اشیاء اور افعال کے مابین فرق کرتی ہے اور ان کے متعلق دو مختلف اصول بیان کرتی ہے۔ یہ دونوں اصول کلیدی حیثیت کے حامل ہیں کیونکہ یہ اسلامی نظام کے بارے میں ہمارے Paradigm اور Frame of Mind کو متعین کرتے ہیں۔ فقہاء نے ان اصولوں کی تعریف کچھ اس انداز میں کی ہے:۔
۱) الاصل فی الاشیاء الاباحۃ: یعنی تمام اشیاء اصلاً مباح (جائز)ہیں الا یہ کہ ان میں سے بعض نصوص قرآنی یا حدیث نبوی ﷺ نے حرام ٹھہرائی ہوں۔ ۲) الاصل فی الافعال التقید بالحکم الشرعی:
اسلام کو رجعت پسندی اور مغربیت کی مذکورہ بالا انتہاؤں سے بچانے کے لئے یہ امر نہایت ہی ضروری ہے کہ ہم اشیاء اور افعال سے متعلق اصول فقہیہ کو بغور سمجھیں اور ان اصولوں کا اطلاق ان کے اپنے اپنے دائرہ کار میں کریں۔ آئیے اب ان دونوں اصولوں کا بغور جائزہ لیں اور دیکھیں کہ فقہاء نے ان اصولوں کو کن آیات اور احادیث سے اخذ کیا ہے۔
یعنی تمام افعال نہ تو اصلاً مباح(جائز) ہیں نہ حرام بلکہ اس میں شارع (اﷲ سبحانہ وتعالیٰ) کے احکام کو تلاش کر کے ان پر عملدرآمد کرنا فرض ہے۔ کسی بھی فعل پر فرض(واجب) ، مندوب(مستحب)، مکروہ، مباح یا حرام میں سے کوئی ایک حکم شرعی لاگو ہوتا ہے جس کو شرعی دلیل کی بنا پر جانا جاتا ہے۔ ایک عمل مباح بھی صرف اسی وقت گردانا جاتا ہے جب اس کے کرنے یا نہ کرنے کا اختیار شارع نے مکلف کو تفویض کیا ہو۔ یہ سمجھنا کہ کسی بھی عمل سے متعلق شریعت خاموشی اختیار کر لے تو وہ خود بخود مباح ہو جاتا ہے درحقیقت غلطی پر مبنی ہے۔ کیونکہ شریعت کسی بھی عمل پر خاموش نہیں۔
اس سے پہلے کہ میں ان دونوں اصولوں کے تفصیلی دلائل پیش کروں ان اصولوں کی اہمیت سمجھنا بہت ضروری ہے۔ گو کہ قرون اولیٰ کے مسلمان ان اصولوں کے بارے میں کسی ابہام کا شکار نہ تھے لیکن گزشتہ ڈیڑھ صدی کے دوران مسلمانوں نے ان دونوں اصولوں میں تفریق نہ کرکے بے حد نقصان اٹھایا۔ اکثر لوگوں نے افعال کا اصول اشیاء پر لاگو کر کے ہر نئی شئے پر حرمت کا لیبل لگا دیا۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ ان اشیاء کی حلت کے بارے میں چونکہ قرآن وسنت سے دلیل نہیں ملتی لہذا یہ سب حرام ہیں ۔ چنانچہ لاؤڈ سپیکر، پرنٹنگ پریس اور ٹرین وغیرہ جیسی اشیاء بھی حرام قرار پائیں۔ یوں اسلام کو ایک رجعت پسندانہ اور جامد مذہب بنا دیا گیا جس میں ٹیکنالوجی اور ایجادات کے لئے کوئی جگہ نہ تھی۔ اسی غلطی کو بنیاد بنا کر مشرف جیسے سیکولر حضرات آج بھی اسلام پر طعن و تشنیع کے تیر چلاتے اور اسے فرسودہ قرار دیتے ہیں۔ دوسری طرف ایک اور جماعت نے اشیاء کا اصول فقہیہ افعال پر بھی منطبق کر دیا جس کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ معیشت، عدالتی نظام، مغربی طرز حکمرانی وغیرہ کو چند کاسمیٹک تبدیلیوں کے بعد اسلامی قرار دے کر قبول کر لیا گیا۔ یوں اسلام کو محض ایک مذہب بنا کر سرمایہ دارانہ نظام کے پہلو میں ایک مؤدب غلام بنا کر کھڑا کر دیا گیا جس کے پاس اپنا کوئی اقتصادی، حکومتی، عدالتی، معاشرتی نظام نہ تھا بلکہ اس کا کام ہر سرمایہ دارانہ قانون اور اصول پر یہ کہہ کر ’’حلال‘‘ کی مہر ثبت کرنا تھا کہ قرآن و سنت میں اس مغربی قانون کے بارے میں کوئی صریح ’’نہی‘‘ وارد نہیں ہوئی۔ یہ وہی ’’پرامن‘‘ اور ’’compatable‘‘ اسلام ہے جو موجودہ گلوبلائیزیشن کے دور میں سرمایہ دارانہ نظام اور امریکا کی ضرورت ہے۔ اس ’’compatable اسلام‘‘ سے اس امر کا تقاضا کرنا کہ وہ موجودہ ورلڈ آرڈر کے مقابلے میں انسانیت کو کوئی اور آرڈر یا نظام فراہم کرسکتا ہے، دیوانے کا خواب ہے۔

پہلے اصول کے مطابق عمومی طور پر تمام اشیاء انسانوں کے تصرف اور استعمال کے لیے مباح کر دی گئی ہیں الا وہ جن کے بارے میں شریعت نے نہی بیان کر دی ہو۔ اس اصول کو درجہ ذیل آیات سے اخذ کیا گیا ہے۔ مثلاً کئی آیاتِ قرآنی اجمالاً اشیاء کا مباح (جائز) ہونا بیان کرتی ہیں۔ مثلاً (ہُوَالَّذِی خَلَقَ لَکُمْ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِےْعاً)(البقرۃ:29) ’’وہ ذات پاک ایسی ہے جس نے پیدا کیاتمہارے فائدے کے لیے جو کچھ بھی زمین میں موجود ہے سب کا سب‘‘۔ بعض آیات میں عمومی طور پر اباحت بیان کی گئی ہے۔ (أَلَمْ تَرَوْا أَنَ اﷲَ سَخَّرَ لَکُمْ مَّافِی الْاَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَےْکُمْ نِعَمَہُ ظٰھِرَۃً وَ بَاطِنَۃً)(لقمان:20) ’’کیا تم لوگ نہیں دیکھتے کہ اﷲ تعالیٰ نے تمہارے لیے مسخّر کر دیا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور اس نے تم پر اپنی نعمتیں ظاہری اور باطنی پوری کر دی ہیں۔‘‘ (وَأَنْزَلَ مِنَ الْسَّمَآءَ مَآءً فَأَخْرَجَ بِہِ مِنَ الْثَّمَرٰتِ رِزْقاً لْکُمْ)(البقرۃ:22)’’ اور برسایا آسمان سے پانی پھر اس (پانی) کے ذریعے پھلوں کو بطور غذا تم لوگوں کے واسطے نکالا‘‘ (قُلْ مَنْ حَرَمَ زِےْنَۃَ اﷲِ الَّتِیٓ أََخْرَجَ لِعِبَادِہِ وَالْطَّےِّبٰتِ مِنَ الْرِّزْقِ)(الاعراف:32)’’ آپ فرمائیے کہ اﷲ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی زینت کو جس کو اس نے اپنے بندوں کے واسطے بنایا ہے اور کھانے پینے کی طیب چیزوں کو کس شخص نے حرام کیا ہے۔‘‘
البتہ اشیاء سے متعلق عمومی اباحت کا یہ قاعدہ فقہیہ افعالِ انسانی پر منطبق نہیں ہوتا۔ افعال سے متعلق قائدہ فقہیہ یہ ہے کہ ہر فعل کرنے سے پہلے اس کے بارے میں شرعی حکم سے آگاہی حاصل کرنے کے بعد اس حکم پر عمل کیا جائے گا۔ قرآن میں بیشتر آیات میں اﷲ نے مسلمانوں کو اﷲ کے احکامات پر سختی سے عمل کرنے اور غیر اﷲ کی اتباع سے اجتناب کا حکم دیا ہے۔ نیز ایسی کوئی آیت نہیں جو افعال کی عمومی اباحت پر دلالت کرتی ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ وَلَاتَتَّبِعْ اَھْوَآءَ ھُمْ وَاحْذَرْھُمْ اَنْ یَّفْتِنُوْکَعَنْ بَّعْضِ مَااَنْزَلَ اللّٰہُ اِلَیْکَ) (المائدۃ:48) ’’لہٰذا آپ(ﷺ) لوگوں کے درمیان اللہ کے نازل کردہ(احکامات) کے مطابق فیصلہ کریں۔ اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں، اور محتاط رہیں کہ کہیں یہ آپ کو اللہ کے بعض نازل کردہ (احکامات) کے بارے میں فتنے میں نہ ڈال دیں ۔‘‘ اور ارشادِ باری ہے : (یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْا اِلَی الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْا اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖ) (النساء:۶۰) ’’او ر یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اپنے فیصلے طاغوت (غیر اللہ )کے پاس لے جائیں۔ حالانکہ انہیں حکم ہوچکاہے کہ اس (غیراللہ )کا انکار کردیں ۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو شریعت اسلامی کے علاوہ کسی اورنظریے یا مذہب سے کچھ اپنانے سے منع فرمایاہے۔ ارشاد ہے: (فلَاوَرَبِّکَ لَا یُؤمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ) (النساء:65) ’’(اے محمد ﷺ) تمہارے رب کی قسم! یہ اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتے جب تک کہ یہ آپ کو اپنے اختلافات میں فیصلہ کرنے والا نہ بنالیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ہم پر اس چیز کو اختیار کرنے کا حکم دیا ہے، جو رسول اللہﷺ لے کر آئے اور ہر اس کام سے رک جانے کا حکم دیا ہے، جس سے رسول اللہﷺ‘ نے منع فرمایاہے۔ارشاد ہے: (وَمَااٰتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا) (الحشر:7) ’’اور رسول تمہیں جس چیز کا بھی حکم دیں اسے اختیار کرلو ۔اور جس چیز سے منع کردیں ، اس سے رک جاؤ۔‘‘ اس آیت میں ’’ما‘‘ عموم کے لیے ہے۔ چنانچہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ہم رسول اللہﷺ کے ہر حکم کو اختیار کریں اور ہر اُس چیزسے بازرہیں،‘جس سے منع کیا گیاہے۔ اور آیت کا یہ بھی مفہوم ہے کہ رسول اللہﷺ کے لائے ہوئے احکامات کے علاوہ کسی اور نظریے، قانون یا مذہب سے کسی حکم کو نہ اپنایاجائے ۔ ان آیات کے علاوہ احادیث نبی ﷺ بھی مسلمانوں کو بڑی سختی کے ساتھ ان تمام افعال اور قوانین سے دور رہنے کا حکم دیتی ہیں جن کے کرنے کا حکم قرآن و سنت میں وارد نہیں ہوا۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ((ومن أَحْدَثَ فی أمرنا ھذا ما لیس منہ فھو رَدٌّ))(مسلم) ’’جو کوئی ہمارے حکم( دین) میں کوئی ایساحکم (قانون) داخل کرتا ہے جو اس (دین)میں سے نہیں تو وہ (قانون) مردود ہے‘‘ اور فرمایا: ((من عمل عملاً لیس علیہ أمرنا فھو رَدٌّ)) (مسلم) ’’جو کوئی بھی ایک ایسا عمل کرے جس کے (کرنے سے متعلق) ہمارا حکم نہ ہو، تو وہ (عمل) مردود ہے‘‘۔ نیز فرمایا: ((کُلُّ عَمَلٍ لَیْسَ عَلیْہِ اَمْرُ نَا فَھُوَرَدٌّ))’’ہرو ہ عمل جس پر ہمارا حکم نہیں، تو وہ مردود ہے۔ ‘‘ نیز فرمایا: ((فما بال رجال یشترطون شروطاً لیست فی کتاب اﷲ؟ ما کان من شرط لیس فی کتاب اﷲ فھو باطل۔))(بخاری و مسلم) ’’لوگوں کا کیا حال ہے کہ وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو اﷲ کی کتاب میں نہیں ہیں؟ جو شرط اﷲ کی کتاب میں نہ ہوگی وہ باطل ہوگی ۔‘‘ ان احادیث سے واضح ہو گیا کہ کوئی عمل جس کے کرنے سے متعلق قرآن و سنت سے دلیل نہ ملتی ہو اسے کرنا حرام ہے۔ نیز ایسی شرائط عائد کرنا جن کا وجود قرآن و سنت میں نہ ہو مردود ہے۔ اسی طرح کسی اور نظام یا نظریے سے قوانین اخذکر کے انہیں اسلامی نظام میں شامل کرنا بھی حرام ہے۔ چنانچہ اسلام کسی عمل کے کرنے کی اجازت صرف اسی وقت دیتا ہے جب قرآن و سنت میں اس کے حق میں صریح یا عمومی دلیل موجود ہو۔ بصورت دیگر وہ عمل رسول اﷲ ﷺ کے ارشاد کے مطابق مرددو (حرام) ہوگا۔ لہذا ان احادیث سے معلوم ہوا کہ ’’نہی‘‘ کی عدم موجودگی خود بخود کسی فعل کو مباح نہیں بنا دیتی۔ انہی آیات اور احادیت کی مدد سے فقہاء نے افعال کے لئے یہ اصول اخذ کیا کہ تمام افعال نہ تو اصلاً مباح ہیں نہ حرام بلکہ ہر فعل کے لئے شارع (اﷲ سبحانہ وتعالیٰ) کے احکام کو تلاش کر کے اس پر عملدرآمد کرنا فرض ہے۔
البتہ بعض اشیاء کو مجموعی اباحت کے حکم سے مستثنیٰ کر کے حرام ٹھہرایا گیا ہے مثلاً (اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَےْکُمُ الْمَےْتَۃَ وَالدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزِےْرِ وَمَا أُھِلَّ بِہِ لِغِےْرِاﷲِ) (البقرۃ:173)’’اﷲ تعالیٰ نے تو تم پر حرام کیا ہے مردار کو اور خون کو (جو بہتا ہو) اور خنزیر کے گوشت کو اور ایسے جانور کو جو غیر اﷲ کے لیے نامزد کر دیا ہو‘‘۔ (قُلْ لَآ أَجِدُ فِی مَآ أُوحِیَ إلَیَّ مُحَرَماً عَلَیٰ طَاعِمٍ ےَطْعَمُہُ إِلَّ�آ أَنْ یَّکُوْنَ مَےْتَۃً أَوْ دَماً مَّسْفُوْحاً۔۔۔) (الانعام:145) ’’آپ کہہ دیجئے کہ جو کچھ احکام بذریعہ وحی میرے پاس آئے ہیں ان میں تو میں، کسی کھانے والے کے لیے جو اس کو کھائے، کوئی حرام غذا پاتا نہیں مگر یہ کہ وہ مردار (جانور) ہو یا یہ کہ بہتا ہوا خون ہو۔۔۔‘‘
چنانچہ تمام ملموس اشیاء (Tangible objects)اور ایجادات مثلاً ٹی وی، ڈی وی ڈی، کلون شدہ جانوراور پودے وغیرہ مباح ہیں اور انہیں کسی بھی قوم اور ملک سے اخذ کیا جاسکتا ہے سوائے ان اشیاء کے، جن کے بارے میں قرآن وسنت میں نہی وارد ہوئی ہو۔ پس ہم اشیاء میں سے مجسموں، بتوں، خمراور خمر سے بننے والی اشیاء وغیرہ کو نہیں اپنا سکتے کیونکہ ان کے بارے میں نہی موجود ہے۔ اسی طرح ہر وہ شئے، رواج یا فیشن جو کسی اور مذہب ، نظریے یا قوم کے ساتھ خاص ہو وہ بھی حضور ﷺ کے فرمان کے مطابق اپنانا حرام ہے۔ کیونکہ حدیث مبارکہ ہے : ((من تشبہ بقوم فھو منھم)) (ابوداؤد) ’’جس نے کسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے‘‘۔ چنانچہ اس حدیث کے مطابق ہر شے جو اصلاً مباح تھی اب اس لئے حرام قرار پاتی ہے کیونکہ وہ کسی قوم مذہب یا تہذیب کی نشانی یا پہچان بن گئی ہو۔ چنانچہ ماتھے پر کوئی رنگ لگانا اصلاً (originally) مباح ہے لیکن چونکہ یہ ہندوؤں کی مذہبی رسوم کا حصہ ہے اور صدیوں سے ان کے ساتھ مخصوص ہو چکا ہے اس لئے حدیث کی رو سے مسلمانوں کے لئے ایسا کرنا حرام ہوگا۔ چنانچہ مسلمانوں کے لئے ماتھے پر تلک لگانا یا مانگ میں سندور بھرنا حرام ہے۔ اسی طرح صلیب جیسی ملموس شئے کو پہننا یا گھر میں لٹکانا بھی حرام ہے کیونکہ یہ عیسائیوں کے عقیدے سے نکلتی ہے اور ان کے لئے خاص ہے۔
یہاں پر یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر ہر عمل کے لئے دلیل چاہئے تو پھر چلنے پھرنے کھانے پینے یا اس جیسے اعمال کے لئے بھی کیا دلائل موجود ہیں؟ یقیناً ان کے لئے بھی شریعت میں دلائل موجود ہیں۔ درحقیقت ان تمام افعال کو ’’افعال جبلِّیہ‘‘ کہا جاتا ہے اور یہ سب بھی اس لئے حلال ہیں کیونکہ شریعت نے عمومی دلائل کے ذریعے انہیں حلال قرار دیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں: (قُلْ سِےْرُوا فِیْ الاَرْضِ ثُمَّ انْظُرُوا کَےْفَ کَانَ عَٰقِبَۃُ الْمُکَذِّبِےْنَ) (الانعام: 11) ’’کہو ’زمین میں چلو پھرو اور دیکھو کہ ان کا کیا حشر ہوا جنہوں نے حق کو جھٹلایا‘‘۔ نیز فرمایا: (وَ کُلُوا وَشْرَ بُوا وَلاَ تُسْرِفُوا) (الاعراف: 31)’’کھاؤ پیو اور اسراف نہ کرو‘‘۔ یہ اور ان جیسی دیگر آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ کھانے پینے، چلنے پھرنے اور دیکھنے سننے جیسے تمام افعال انسانی جبلت کا حصہ ہیں اور یہ سب کے سب مباح ہیں۔ نیز یہ تمام جبلی افعال خود رسول اﷲ ﷺ اور صحابہ کیا کرتے تھے اور رسول اﷲ نے ان پر سکوت فرمایا جو ان کے مباح ہونے کی ایک اور دلیل ہے۔ یہی معاملہ دیگر تمام افعال کا ہے جن میں خرید و فروخت، شراکت، شادی بیاہ، تجارت، خلیفہ کا چناؤ وغیرہ شامل ہیں جن کے احکامات بھی قرآن و سنت میں وارد ہوئے ہیں۔ ان احکامات سے ہٹ کر کوئی اور طریقہ کار یا قوانین اپنانا شرعاً حرام ہے۔
اگر ہم ایک لمحے کے لئے اس غلط اصول کو قبول کر لیں کہ ’’ہر وہ عمل جس کے خلاف قرآن و سنت میں نہی موجود نہ ہو مباح ہوتا ہے‘‘ تو پھر اسلام کی شکل مکمل طور پر تبدیل کرنے کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ یہ وہی اصول ہے جس کے تحت آج آمنہ ودود جیسی خواتین اسلام کی بنیادیں ہلانے کے درپے ہیں۔ ان ’’روشن خیال‘‘ خواتین کا بھی یہی کہنا ہے کہ عورت کی امامت کی ممانعت میں کوئی واضح آیت یا حدیث نہیں ملتی لہذا ایسا کرنا مباح ہے۔ جبکہ تمام مکاتب فکر کے نزدیک مردوں کے لئے عورت کی امامت اس لئے حرام ہے کیونکہ ایسا کرنے سے متعلق شریعت میں کوئی حجت یا دلیل نہیں ملتی۔ اسی طرح اسلام میں نکاح کا ایک مخصوص طریقہ کار ہے جبکہ آگ کے گرد سات پھیرے لگاکر شادی کرنے کی ممانعت میں کوئی صریح حکم نہیں ملتا۔ تو کیا اس طریقے سے نکاح کرنا جائز سمجھا جائے گا؟ اسی طرح شادی کرنے کا کوئی بھی نیا طریقہ کار اپنا ناجس کے بارے میں شریعت سے ممانعت نہ ملتی ہو، کیا جائز ہو جائے گا؟ ہر گز نہیں! ایسا کرنا اس لیے حرام ہوگا کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا: ((من عمل عملاً لیس علیہ أمرنا فھو رَدٌّ)) (مسلم) ’’جو کوئی بھی ایک ایسا عمل کرے جس کے (کرنے سے متعلق) ہمارا حکم نہ ہو، تو وہ (عمل) مردود ہے‘‘۔ لہذا وہ تمام افعال مردود ہیں جن کے کرنے کا حکم آیات مبارکہ یا نبی کریم ﷺ کی احادیث مطہرہ میں وارد نہیں ہوا۔
اسی طرح وہ تمام افعال یا رواج جو اصلاً حلال تھے وہ بھی اس صورت میں حرام ٹھہریں گے اگر وہ کسی خاص تہذیب، مذہب یا نظریے سے پھوٹتے ہو ں یا ان کی پہچان سمجھے جاتے ہوں۔ کیونکہ حدیث مبارکہ ہے : ((من تشبہ بقوم فھو منھم)) (ابوداؤد) ’’جس نے کسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے‘‘۔ چنانچہ پتنگ اڑانا یا رنگوں کے ساتھ کھیلنا حلال ہے۔ لیکن بسنت کے مخصوص دنوں میں بطور تہوار پتنگ اڑاناہندوؤں کے ساتھ مشابہ ہونے کے زمرے میں آئے گا لہذا ان دنوں میں حرام ٹھہرے گا۔ اسی طری ہولی کے دنوں میں رنگوں سے کھیلنا بھی حرام ہوگا۔ یہی کچھ نیو ائیر، کرسمس، ویلنٹائن ڈے، ہالووین وغیرہ منانے کا معاملہ ہے۔ لیکن اس کے علاوہ ایسے مباح اعمال کرنا جن کا تعلق کسی مذہب، یا تہذیب سے خاص نہ ہو اور اسے مختلف قومیں بلا تخصیص کرتی ہوں ، حلال ہے چاہے سب سے پہلے اسے کسی کافر ہی نے کیا ہو مثلاً باسکٹ بال یا کرکٹ کھیلنا، خلاء کا سفر، جہازیا گاڑی کا استعمال، پینٹ شرٹ یا جیکٹ کا پہننا وغیرہ۔
صحابہؓ افعال سے متعلق اصولِ فقہیہ کو سمجھتے تھے یہی وجہ تھی کہ وہ ہر نئے فعل کو مباح سمجھنے کے بجائے اس کے بارے میں آپ ﷺ سے حکم دریافت فرماتے۔ اور رسول اﷲ ﷺ بھی اس وقت تک خاموشی اختیار فرماتے جب تک کہ وحی کے ذریعے انہیں اﷲ کا حکم معلوم نہ ہو جاتا۔ نیز اس دوران صحابہ بھی اس فعل سے اجتناب برتتے۔ صحابہ اس قدر اس اصول پر کاربند تھے کہ انہوں نے ایک سائنسی مسئلے (یعنی کھجوروں کی افزائش کے لیے کی جانے والی Cross-pollination) پر بھی حضور ﷺ سے رائے طلب کی اور آپ ﷺ کی ذاتی رائے کو بھی حکم شرعی سمجھ کر اس پر عمل کیا۔ لیکن ایسا کرنے سے کھجوروں کی فصل اچھی نہ ہوئی ۔ اگلے سال جب وہ لوگ رسول اﷲ ﷺ کے پاس آئے اور فصل کا حال بیان کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ((إنما أنا بشر مثلکم، إِذا أمرتُکم بشیءٍ من أمر دینکم فخذوا بہ، وإذا أمرتکم بشیء من أُمور دنیاکم فإنما أنا بشر)) (مسلم)۔ ’’بے شک میں تمہارے ہی جیسا انسان ہوں، اگر میں تمہیں کسی ایسی شے کا حکم دوں جو تمہارے دینی امور (عقائد، نظام، معاملات وغیرہ) سے متعلق ہو تو اسے لے لو اور اگر میں تمہیں کسی ایسی شے کا حکم دوں جو تمہارے دنیاوی امور سے متعلق ہو تو پھر بے شک میں انسان ہی ہوں‘‘۔ یہاں ’’دینی امور‘‘ سے مراد معیشت، حکومت، عدالت غرض انسانی تعلقات اور عقائد کا احاطہ کرنے والے تمام پہلو ہیں جبکہ ’’دنیاوی امور ‘‘ سے مراد سائنس، ٹیکنالوجی اور پروڈکشن ہے جیسا کہ مذکورہ بالا کھجوروں کی افزائش (Cross-pollination)کا معاملہ تھا۔ ان کے علاوہ انتظامی امور سے متعلق قوانین (Administrative Laws) بھی ’’دنیاوی امور ‘‘کے زمرے میں آتے ہیں مثلاً ٹریفک کے قوانین،مینجمنٹ کے اصول، اکاؤنٹنگ سسٹم وغیرہ۔ شریعت ان کا کہیں سے بھی اخذ کرنا مباح قرار دیتی ہے الا یہ کہ وہ شریعت سے متصادم ہوں جیسا کہ حضرت عمرؓ نے اہل فارس سے دیوان کا نظام اپنایا جس پر تمام صحابہؓ کا اجماع ہے۔ چنانچہ تمام سائنسی علوم مثلاً طب، انجینیئرنگ، ریاضی، فلکیات، کیمیا، فزکس، زراعت، صنعت، مواصلات، بحری علوم، جغرافیہ اور پیداوار کی بڑھوتری کے علم وغیرہ کو کسی بھی قوم یا ملک سے اپنانا جائزہے ۔ کیونکہ یہ علوم آفاقی ہیں اور ان کا کسی بھی مذہب یا نظریے سے کوئی تعلق نہیں۔ لہٰذا ان کو اپنا نا اْس وقت تک جائز ہے جب تک یہ کسی اسلامی حکم کے خلاف نہ ہوں ۔ چنانچہ ڈارون کے نظریہ ارتقاء کو اختیار کرنا جائزنہیں کیونکہ اس نظریہ کے مطابق انسان بندر کی ارتقائی شکل ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:(وَبَدَأَ خَلْقَ الِْانْسَانِ مِنْ طِیْنٍ۔ ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہُ مِنْ سُلَالَۃٍ مِّنْ مَّآءٍ مَّھِیْنٍ) (السجدۃ:7-8) ’’اور انسان کی تخلیق کی ابتداء مٹی سے کی، پھر اس کی نسل کو حقیر پانی سے پیداکیا ۔‘‘
چنانچہ شریعت میں ہر فعل کے لیے یا تو قرآن وحدیث سے نص موجود ہے ‘یا قرآن وحدیث میں ایسا اشارہ موجود ہے‘ جو اس فعل کے مقصد اورعلت کو بیان کرتاہے تاکہ اس کا اطلاق ہر اْس فعل پر کیا جاسکے، جس میں یہ علت موجودہو۔ شرعاً یہ ممکن نہیں کہ انسان کے کسی فعل کی کوئی دلیل موجودنہ ہو، یاکم ازکم اس کے حکم پر دلالت کرنے کے لیے اشارہ نہ ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد عام ہے:(تِبْیَاناً لِّکُلِّ شَیءٍ)’’ ہر چیز کو صاف صاف بیان کرنے والی۔‘ ‘ علاوہ ازیں یہ بھی واضح اور صریح نص ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دین کو مکمل کردیا۔ چنانچہ قرآن ، سنت، اجماع الصحابہ اور قیاس وہ شرعی مآخذ ہیں جن سے ایک مجتہد انسانی زندگی سے متعلقہ تمام احکامات اخذ کرتا ہے۔ انسانی کلوننگ کی حرمت کے بارے میں آج سے چودہ سو سال قبل ہی شارع نے قرآن اور سنت میں احکامات دے دئے تھے جسے آج ایک مجتہد محض تلاش کر کے امت تک پہنچاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افعال اور نظام سے متعلق کسی دوسرے نظریے اور نظام حیات سے قوانین اخذ نہیں کئے جاسکتے کیونکہ اسلام نے پہلے ہی ان کے بارے میں احکامات دے دئے ہیں۔ چنانچہ یہ خیال کہ امریکی نظام حکومت میں چند ترامیم کے بعد اسلامی حکومتی نظام وجود میں آجاتا ہے ایک فاش غلطی پر مبنی ہے۔ اسی طرح سرمایہ دارانہ نظام معیشت میں سے سود نکال دینے کی صورت میں اسلامی اقتصادی نظام جنم نہیں لیتا۔ یا جمہوری نظام حکومت میں فقط حاکمیت الہی کی ایک شق ڈالنے کی وجہ سے پورا کا پورا نظام اسلامی نہیں ہو جاتا۔ وہ اس لئے کہ نظام سے متعلق ہر قانون یا اصول کو قبول کرنے سے قبل ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ آیا اس کے لئے قرآن وسنت میں دلیل موجود ہے یا نہیں۔ تو کیا امریکی نظام حکومت یا سرمایہ دارانہ معیشت فقط چند اصولوں کے علاوہ پورا کا پورا شرعی مآخذ سے اخذ کردہ ہے؟ ہر گز نہیں۔ ہاں البتہ امریکہ کے سائنس ‘صنعت اور ایجادات وغیرہ سے متعلقہ افکار اور سائنسی ترقی کے نتیجے میں وجود میں آنے والی ملموس اشیاء اور صنعت کو مکمل طور پر اپنایا جاسکتا ہے۔ سوائے ان صنعتوں اور سائنسی افکار کے جن کا اختیار کرنا شریعت میں ممنوع ہے۔
آج علم پر اجارہ داری قائم کرنے کے لئے پیٹنٹ اور کاپی رائٹس کے قوانین کو استعماری ادارے اسی غلط اصول کے تحت مسلمانوں کے لئے قابل قبول بنا رہے ہیں۔ ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ اسلام میں ان احکامات کے خلاف ممانعت نہیں ملتی حالانکہ چاہئے تو یہ تھا کہ پیٹنٹ کے قانون کے داعی اپنے دعوے کے حق میں شرعی دلیل لاتے۔ کیونکہ حضور ﷺ کے ارشاد کے مطابق ہمارے نظام میں کوئی بھی ایسا قانون داخل نہیں کیا جاسکتا جس پر اﷲ اور رسول ﷺ کی مہر توثیق نہ ہو۔ اسی طرح اسلام کے دئے گئے شراکت کے تفصیلی قوانین اور کمپنی سٹرکچر سے ہٹ کر سٹاکس پر مبنی پرائیویٹ اور پبلک لمیٹڈ کمپنیاں بھی غیر شرعی ہیں۔ لیکن آج سرمایہ دارانہ نظام نے انہیں پاکستان میں اسی بنیاد پر متعارف کروایا ہے کہ سٹاکس کے خلاف واضح دلیل نہیں ملتی۔ یہی وہ سرمایہ دارانہ شراکتی قوانین ہیں جو ایسی Fiat-Economy کو جنم دیتے ہیں جہاں بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں اور سرمایہ دار speculations کے ذریعے معیشت کے غبارے میں ہوا بھرتے ہیں اور بعد ازاں عوام کا پیسہ لوٹ کر غائب ہو جاتے ہیں۔ جبکہ اسلامی معیشت میں اسلامی شراکتی قوانین سے ہٹ کر کوئی قانون قبول کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ حال ہی میں کراچی اور لاہور سٹاکس ایکسچینج میں ہونے والے کریش کی وجہ یہی سرمایہ دارانہ شراکتی قوانین ہیں جنہیں افعال سے متعلق اسی غلط اصول کے تحت قبول کیا گیا ہے۔

ہمارے یہاں ایک اور بڑی غلط فہمی یہ بھی پائی جاتی ہے کہ اسلام نے بعض امور پر خاموشی اختیار کی ہے۔ اور محض چند موٹے موٹے اصول بیان کر دیے ہیں۔ قرآن اور سنت کسی بھی چیز میں خاموش نہیں بلکہ ایسا سمجھنا اسلام کو نامکمل گرداننے کے مترادف ہے، معاذ اﷲ۔ اﷲ تعالیٰ نے تو قرآن پاک میں فرمایا ہے : (وَنَزَّلْنَا عَلَےْکَ الْکِتٰبَ تِبْےٰناً لِّکُلِّ شَیْ ءٍ)(سورۃ النحل: 89) ’’اور ہم نے یہ کتاب تم پر نازل کر دی ہے جو ہر چیز کی صاف صاف وضاحت کرنے والی ہے‘‘۔ (مَافَرَّطْنَا فِی الْکِتَابِ منْ شیءٍ) (الانعام:38) ’’ہم نے اس کتاب میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ‘‘ (الْےَومَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِےْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَےْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِےْتُ لَکُمُ اْلإِسْلامَ دِےْنًا) (سورۃ المائدۃ: 3) ’’آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے پسند کر لیا‘‘۔ پس اسلامی شریعت نے بندے کے کسی فعل کو مہمل قرار نہیں دیا ۔ ایک عمل اس لئے مباح ٹھہرتا ہے کیونکہ اس کے کرنے یا نہ کرنے کا اختیار اﷲ تعالیٰ نے انسان کو تفویض کیا ہوتا ہے۔ یعنی مباح بذات خود ایک شرعی حکم ہے اور شارع کے خطاب ہی سے ایک عمل مباح قرار پاتا ہے نہ کہ اس کے عدم خطاب سے۔
یعنی ’’اسلام سے متصادم کوئی قانون سازی نہیں کی جاسکتی‘‘ بذات خود غلط ہے۔ کیونکہ اس شق کے مطابق قوانین قرآن و سنت کے علاوہ کسی بھی مآخذ سے اخذ کئے جاسکتے ہیں اور اس کے بعد یہ دیکھا جائے گا کہ قرآن و سنت میں اس قانون کے خلاف کوئی نہی موجود ہے یا نہیں۔ چنانچہ ڈھکے چھپے الفاظ میں یہ تسلیم کر لیا گیا ہے کہ قرآن و سنت کچھ چیزوں میں خاموش ہیں یا کچھ مسائل پر کوئی حل فراہم نہیں کرتے۔ حال ہی میں امریکی ایما پر بننے والے افغانی اور عراقی آئین میں بھی یہی شق شامل کر کے مخلص مسلمانوں کو دھوکہ دیا گیا ہے۔
پاکستان کا آئین بھی اسی غلط Paradigm اور Frame of Mind کی پیداوار ہے۔ آج پاکستان میں دیگر نظام ہائے حیات سے تمام نظریات، قوانین اور افکار اخذ کرنے کو اس بنیاد پر جائز قرار دیا جاتا ہے کہ وہ اسلام سے متصادم نہیں۔ لہذا اسی اصول کے تحت ہم پاکستان میں سرمایہ دارانہ نظام کو محض معمولی سے ردو بدل کے بعد پورا کا پورا نافذ العمل دیکھتے ہیں۔ ہم نے تمام مغربی قوانین، جملہ آزادیاں، سٹاک ایکسچینج،انشورنس، آزاد منڈی کے اصول، پبلک اور پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں، فیوچرز ٹریڈنگ، اننٹیلیکچوئل پراپرٹی رائٹس، تیل اور گیس کی نجکاری وغیرہ کو اس بنیاد پر قبول کر لیا ہے کہ اسلام میں ان کے خلاف کوئی واضح حکم موجود نہیں۔ یوں استحصالی سرمایہ دارانہ نظام کے نفاذ کے بعد یہ قانون ساز اداروں اور عوام کی ذمہ داری ٹھہرتی ہے کہ وہ اسلام کے مخالف قوانین چن چن کر نکالنے میں وقت ضائع کریں۔ جیسا کہ سود کے مسئلے پر واضح حکم الٰہی موجود ہونے کے باوجود برسہا برس اس پر ضائع ہو چکے ہیں۔ جبکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہر قانون کو قرآن، سنت، اجماع الصحابہ یا قیاس سے اخذ کیا جاتا۔ نیز یہ حکمران کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ہر قانون کے اسلامی ہونے کی دلیل فراہم کرے نہ کہ عوام کی۔ لہذا آئین کی یہ شق کہ:
"No Law should be made repugnant to Qur'an and Sunnah" "No law can be contrary to the sacred religion of Islam" (Constitution of Afghanistan Article 3) "No law that contradicts the universally agreed tenets of Islam,... may be enacted" (Iraq's Interim Constitution Article 7)
انجینئر عبد الجبار مسلم (لاہور)
امریکہ نے یہ شق اسی لئے عراق اور افغانستان کے آئین میں داخل کی ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس شق کو نافذ کرکے اسلامی نظام جنم نہیں لے گا ۔ دراصل صحیح شق یہ ہونی چاہئے تھی کہ ’’قرآن، سنت، اجماع الصحابہ اور قیاس کے علاوہ کسی بھی مآخذ سے قانون اخذ نہیں کیا جائیگا‘‘
"Legislation cannot be taken from any source other than Qur'an, Sunnah, Ijma-e-Sahaba and Qiyas"
یہ شق حکمرانوں کو ہر قانون کے لئے اسلامی مآخذ کی طرف رجوع کرنے پر مجبور کرتی ہے جس کی بدولت اسلامی نظام نافذ ہوتا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلامی نظام کے بارے میں صحیح نکتہ نظر رکھنے اور اس کے نفاذ کے لئے یہ دونوں اصول فقہیہ کس قدر اہمیت کے حامل ہیں ۔ امت کی نشاۃِ ثانیہ کے لئے از حد ضروری ہے کہ ہم اس غلط Paradigm کو کہ ’’جو اسلام سے متصادم نہیں وہ عین اسلام ہے‘‘ مسترد کر کے یہ درستParadigm اپنائیں کہ ’’جس عمل کا حکم اسلام نہیں دیتا وہ عمل کرنا حرام ہے‘‘۔ صرف اسی صورت میں اسلام ایک مکمل نظریے اور نظام کے طور پر ابھر کر سامنے آسکتا ہے۔ نیزاسی Paradigm کے ذریعے امت نہ صرف فکری انتشار سے نکل سکتی ہے بلکہ اپنے مسائل کا حل اسلام سے تلاش کرسکتی ہے۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

کیا قرآن و حدیث میں صیغہ امر (حکمیہ انداز) لازما واجب یا فرض ہوتا ہے ۔ (اصول الفقہ)

مسلمان صرف وحی کی اتباع کرتے ہیں ۔ یہ وحی ہمارے پاس دو شکلوں میں موجود ہے : ایک وحی متلو۔۔۔ یعنی وہ وحی جس کی تلاوت کی جاتی ہے،اس سے مراد قرآن الکریم ہے ۔ اور دوسرے وحی غیر متلو ۔۔۔یعنی وہ وحی جس کی تلاوت نہیں کی جاتی ۔ اس سے مراد حدیث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا اور رسول اللہ ﷺکی زبان بھی عربی ہی تھی۔ اس لیے عربی زبان کا فہم ہونااز حد ضروری ہے تبھی ہم شرعی مآخذ سے احکامات کو ٹھیک ٹھیک اخذ کرسکیں گے ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے سورۃ یوسف کی آیت نمبر 2میں ارشاد فرمایا: (انا انزلنَہٗ قرء ٰ نًا عربیًا لَّعلکم تعقلون ) ’’بے شک ہم نے اس قرآن کو نازل کیا تاکہ تم سمجھو‘‘ تاہم محض عربی زبان کی سمجھ شرعی مآخذ سے احکامات کو اخذ کرنے کے لیے کافی نہیں ۔ عربی زبان کا فہم ہوناشرعی متن یعنی (shariah Text) کو سمجھنے کی مختلف شرائط میں سے ایک شرط ہے۔ کیونکہ یہاں مقصد احکامات کو ایک خاص (قانونی ) متن سے اخذ کرنا ہے۔ جس کے لیے عربی زبان کی سمجھ کے علاوہ مزید امور کی بھی ضرورت ہے جیسے کہ وہ قرآئن جو فرائض اور حرام امور کا تعین کرتے ہیں، عام حکم اور اس کی تخصیص ، مطلق اور مقید ی...

شرعی دلائل کی روشنی میں خلافت اور جمہوریت کا تقابلی جائزہ

                                                                                                نوید بٹ   اسلام کا طالب علم جب قرآن و سنت پر نظر ڈالتا ہے تو اسے ’’جمہوریت‘‘ سے متعلق کوئی آیت یا حدیث تو درکنار صحابہ، آئمہ مجتہدین یا فقہائ کا ایک قول بھی نہیں ملتا۔ حالانکہ انسانیت اسلام سے ہزاروں سال قبل جمہوریت سے روشناس ہو چکی تھی۔ وہ اس شش و پنج کا بھی شکار ہوتا ہے کہ اگر اسلام کا نظام حکومت جمہوریت ہی ہے تو پھر کیا یونانیوں نے اسلام کے آنے سے قبل ہی ازخود ’’اسلامی نظام حکومت‘‘ دریافت کر لیا تھا؟ کیا اس ’’اسلامی نظام حکومت‘‘ کے نفاذ سے انہوں نے ایک اسلامی معاشرے کو جنم دے دیا تھا؟ کیا وہ نہ جانتے ہوئے بھی اسلام پر ہی چل رہے تھے؟ لیکن تاریخ کے کسی گوشے میں بھی یونانی تہذیب اور اسلامی تہذیب میں مماثلت کا کوئی شائبہ تک نہیں ملتا۔ اگر رسول مقبول...

خلافت قائم کرنے کا طریقہ

1)     چونکہ خلافت کا قیام ایک فرض ہے بلکہ یہ مسلمان کے اوہر سب سے بڑا فرض ہے ۔ اور چونکہ ایک فرض کے قائم کرنےکا طریقہ اللہ سبحان و تعالیٰ نے انسان پر نہیں چھوڑا بلکہ ہر فرض کے طرح اس فرض کا بھی طریقہ کار اسلام نے بتایا ہوا ہے۔ اور یہ طریقہ کار ہم نبیﷺ کی سیرت سے جان سکتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ریاست کیسےقائم کی تھی۔، بالکل ویسے جس طرح ہم نماز، روزے، حج، جہاد اور دیگر فرائض کا طریقہ نبیﷺ سے اخذ کرتے ہیں۔ 2)   اگر عقل پر چھوڑ دیا جائےتو مختلف طریقے ذہن میں آتے ہیں، جیسے حکمرانوں کو صرف دعوت سے قائل کرنا کہ اسلام قائم کریں، یا ان کے خلاف جنگ کر کے ان کو ملیا میٹ کر کے اسلامی نظام قائم کرنا، یا اس ملک میں مروجہ دستور اور قانون کے مطابق نظام میں حصہ لے کر اس نظام کے اوپر پہنچ کر اسلام کا نظام قائم کرنا یا تمام لوگوں کو تبدیل کرنا ، یہ سوچ کرکہ جب تمام لوگ سچے، پکے مومن بن جائیں گے تو اسلامی نظام خود ہی قائم ہو جائے گاوغیرہ۔ لیکن یاد رہے کہ یہ سب عقل و منطق (logic)   سے نکلنے والے طریقے ہیں ۔ اور انسانی عقل کامل نہیں اسلئے اس طریقوں کی اپن...

ایک امت، ایک چاند، ایک رمضان اور ایک عید

تحریر: نوید بٹ اس سال روئیت ہلال کمیٹی کے سربراہ مفتی منیب الرحمن نے بڑے فخر سے اعلان فرمایا کہ اس دفعہ پورا پاکستان ایک دن رمضان شروع کر رہا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ اعلان درست نہ تھا کیونکہ نہ صرف پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین بلکہ وزیرستان کے مسلمان بھی ایک دن پہلے امت مسلمہ کے ساتھ رمضان کی شروعات کر چکے تھے۔ دوسرا اہم پہلو یہ کہ پاکستان نے قومیت کی بنیاد پر چاند قبول کرکے اپنے آپ کو امت مسلمہ سے الگ کر دیا اور امت کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا۔ مفتی منیب صاحب اس کے بارے میں کیا فرمائیں گے؟ کیا مفتی صاحب امت کو بتا سکتے ہیں کہ کہ قومیت پر مبنی روئیتِ ہلال کی اس بدعت کی شریعت سے کیا دلیل ملتی ہے۔  استعمار نے خلافت کا خاتمہ کر کے نہ صرف مسلمانوں کو چھوٹے چھوٹے حصوں تقسیم کر دیا بلکہ اس نے ہر حصے کو ایک مخصوص قومیت، قومی ترانہ، جھنڈا اور چاند بھی دے دیا۔ جھنڈے مسلمانوں کو سیاسی طور پر تقسیم کرنے کے لئے اور چاند امت کی مذہبی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لئے۔ لیکن اس سے زیادہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس نے ایسے افراد بھی عوام کے سروں پر بٹھا دئے جو اس تقسیم کو اسلام سے ث...

آئین پاکستان کی نام نہاد "اسلامی دفعات" اور اس پر پاکستان کی ہائیکورٹس اور سپریم کورٹس کے مصدقہ فیصلے

آپ اور میں اپنے خواہش کے مطابق بے شک پاکستان کے آئین مین "اسلامی" دفعات پڑھ کر خوش ہوتے رہیں اور یہی کہتے رہپں کہ آئین دراصل اسلامی ہے ، اصل مسئلہ صرف نفاذ کا ہے لیکن آئین کی تشریح کا حق آپ کو یا مجھے نہیں، بلکہ عدالت کو ہے اور اس کی تشریح حتمی مانی جاتی ہے ۔ اور ان کے کچھ فیصلے ملاحظہ کریں: Sec 2. “Islam shall be the State religion of Pakistan.’’ ریاست کا سرکاری مذہب اسلام ہو گا۔ But when this Article 2 came to be interpreted in the Court of Law, a  Full Bench of the Sindh High Court comprising 5 judges, headed by its Chief Justice,  held that: ‘‘Article 2 is incorporated in the Introductory Part of the Constitution and as far as its language is concerned, it merely conveys a declaration. The question arises as to the intention of the Makers of the Constitution by declaring that ‘‘Islam shall be the State religion of Pakistan.’’ Apparently, what the Article means is that in its outer manifestation the State and its Government shall carry an Islamic Symbol. This A...