نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

خلافت کا قیام اُمّ الفرائض ہے

نوید بٹ

اسلام ایک مسلمان کو انفرادی فرائض مثلاً نماز، روزہ، حج اور زکاۃ کے ساتھ ساتھ اجتماعی فرائض کی پابندی کا بھی حکم بھی دیتا ہے۔ جس طرح اسلام ہمیں روزے فرض کرنے کے لئے ’’کُتِبَ عَلَےْکُمُ الْصِّےَامُ‘‘ (روزے تم پر فرض کردیے گئے ہیں)کا حکم دیتا ہے بالکل اسی پیرائے میں ’’کُتِبَ عَلَےْکُمُ الْقِصَاصُ‘‘ (قصاص لینا تم پر فرض کر دیا گیا ہے)کا حکم بھی دیتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلا حکم انفرادی نوعیت کا ہے جبکہ دوسرا حکم اجتماعی نوعیت کا۔ ایک مسلمان انفرادی طور پر روزے تو رکھ سکتا ہے لیکن انفرادی طور پر اﷲ کی حدوود یا جنایات مثلاً قصاص نافذ نہیں کرسکتا۔ الحمد للہ عام طور پر انفرادی فرائض کی پاس داری کے لئے مسلمان ایک دوسرے کو یاد دہانی کراتے رہتے ہیں۔ لیکن جہاں تک اجتماعی فرائض کا تعلق ہے تو اس کو پورا کرنے کے لئے کما حقہُ آواز سننے کو نہیں ملتی۔ 

اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنے اجتماعی فرائض کو پورا کرنے کا ایک واضح طریقہ کار بتایا ہے۔ مثال کے طور پر قصاص کے اجتماعی حکم کو نافذ کرنے کے لئے اسلام ایک شرعی قاضی کی موجودگی کا حکم دیتا ہے اور یہ اختیار فقط قاضی کو تفویض کرتا ہے کہ وہ ثبوت کی موجودگی میں سزا کا حکم صادر کرے۔ نیز اسلامی ریاست (یعنی خلافت) اس سزا کو نافذ کرنے کے لئے قاضی کو پولیس اور عملہ مہیا کرتی ہے جو فی الفور اس سزا کو نافذ کرتا ہے۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ اسلام بیشتر اجتماعی فرائض سے عہدہ براء ہونے کے لئے اسلامی ریاست (یعنی خلافت) کی موجودگی کو پیشگی شرط (pre condition) بنا تا ہے۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ اسلام قصاص جیسے اجتماعی فرض سے عہدہ براء ہونے کے لئے شرعی اسلامی ریاست (یعنی خلافت) کی موجودگی کو پیشگی شرط (pre condition) قرار دیتا ہے۔ اگر خلافت موجود نہیں ہے تو کوئی بھی شخص یہ استحقاق نہیں رکھتا کہ وہ کسی قاتل کو قتل کر دے۔ لہذا حقیقت یہ ہے کہ خلافت کی عدم موجودگی میں انفرادی طور پر یہ قصاص نافذ کرنے کا یہ فرض ادا نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح مسلمانوں پر یہ بھی اجتماعی طور پر فرض ہے کہ ان کے معاشرے میں ایک بھی شخص رات کو بھوکا نہ سوئے، مظلوم کو انصاف ملے اور ظالم کا ہاتھ روکا جائے، مسلمانوں کے تمام مقبوضہ علاقوں کو کافروں کی تسلط سے آزاد کرایا جائے، کشمیر، عراق، چیچنیا، فلسطین میں ہونے والے مسلمانء پر ظلم کو روکا جائے، حکمران اسلام کے تحت حکومت کریں، اسلام کے درست فہم کو پورے معاشرے تک پہنچایا جائے، اسلامی دعوت کو پوری دنیا تک پھیلانے اور عَلا کلمۃِ اﷲ کے لئے منظم جہاد کیا جائے وغیرہ۔ یہ امر واضح ہے کہ یہ تمام اجتماعی فرائض ہر شخص فرداً فرداً پور نہیں کرسکتا اسی لئے اسلام نے ہمیں ان فرائض کو پورا کرنے کا طریقہ کار بتایا ہے۔ اس طریقہ کار کے مطابق مسلمان ان اجتماعی فرائض کی ذمہ داری، جو کہ درحقیقت ’’فرض کفایہ‘‘ ہیں، ایک شخص کی گردن پر ڈال دیتے ہیں اور اس سے سمعہ و طاعۃ کی بیت کرتے ہیں؛ اس شرط پر کہ وہ ان پر اسلام نافذ کرتے ہوئے ان تمام اجتماعی فرائض سے عہدہ براء ہوگا۔ تمام مسلمان ان فرائض کی انجام دہی میں اس کے حکم کی اتباع اور اس کی مدد کریں گے۔ چنانچہ یہ خلیفہ ہی ہوتا ہے کہ جو مسلمانوں سے خراج،عشر، زکاۃ وغیرہ اکھٹی کر کے انہیں مستحقین میں تقسیم کرتا ہے تاکہ کوئی بھوکا نہ رہے۔ یہ خلیفہ ہی ہوتا ہے جو ان مسلمانوں کو منظم کر کے ایک طاقتور فوج تشکیل دیتا ہے جس کے ذریعے جہاد کیا جاتا ہے اور اسلام کی دعوت کو پوری دنیا تک پھیلایا جاتا ہے۔ یہ خلیفہ ہی ہوتا ہے جو قاضی کو متعین کرتا ہے جو اسلام کے احکامات اور حدود نافذ کر کے مظلوم کو انصاف فراہم کرتا اور ظالم کا ہاتھ روکتا ہے۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ بیشتر اجتماعی فرائض سے عہدہ براء ہونے کے لئے اسلام شرعی اسلامی ریاست (یعنی خلافت) کی موجودگی کو شرط (pre condition) بناتا ہے۔ لہذا آج اسلام کے بیشتر اجتماعی فرائض خلافت اور شرعی اتھارٹی کے بغیر پورے ہی نہیں ہو سکتے۔ اسلام کی رو سے ہر وہ عمل جس پر کسی فرض کا دارو مدار ہو اور جس کے نہ کرنے کی بنا پر ایک فرض ادا نہ ہو سکتا ہو تو اس عمل کا کرنا بھی فرض ہو جاتا ہے۔ شرعی اصول ہے (مالا یتم الواجب الا بہٖ فہو واجب) ’’جس عمل کے کئے بغیر واجب ادا نہ ہوسکے تو پھر اس کا کرنا بھی واجب ہے‘‘۔ اب چونکہ خلافت کی عدم موجودگی میں تقریباً تمام اجتماعی احکامات پر عمل در آمد نہیں ہوسکتا اسی لئے فقہاء اقامت خلافت کو ’’اُمَّ الفرائض ‘‘قرار دیتے ہیں۔

اﷲ تعالی نے قرآن میں فرماتے ہیں:ھُوْ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہُ بِالْہُدَیٰ وَ دِےْنِ الْحَقِّ لِےُظْھِرَہُ عَلَی الدِّےْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ) (التوبۃ: 33)’’وہی وہ ذات ہے جس نے بھیجا اپنا رسول ہدایت اور دین حق کیساتھ تاکہ غالب کر دے اسے تمام ادیان پر خواہ (یہ بات) مشرکوں کو کتنی ہی ناگوارہ ہو ‘‘یہ امر بدہی ہے کہ قرآن کے مندرجہ بالا حکم پر چلنے کے لئے یعنی اسلام کو تمام ادیان پر غالب کرنے کے لئے، ایک طاقتور ریاست کی ضرورت ہے جو یقیناً خلافت کے علاوہ کچھ نہیں۔ ابن تیمیہؒ نے اپنی کتاب ’’السیاسۃ الشرعیہ‘‘ (صفحہ 189) پر اس کی یوں وضاحت فرمائی : ’’ریاست (خلافت) کی زبردست طاقت کے بغیر دین خطرے میں ہوتا ہے اور الہامی قوانین (شریعت) کے نفاذ کے بغیر ریاست جابرانہ ادارہ بن جاتی ہے۔‘‘خلافت کی فرضیت کو رسول اﷲ ﷺ نے اپنی احادیث مبارکہ کے ذریعے بڑے واضح انداز میں بیان فرمایا۔

امام مسلمؒ نے ابن عمرؓ سے روایت کیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا : (مَن خَلَعَ یَدًا مِّنْ طَاعَۃٍ ‘ لَقِیَ اللّٰہَ یَومَ القِیَامَۃِ ‘ لَاحُجَّۃَ لَہُ ‘ وَمَن مَاتَ وَلَیسَ فِی عُنُقِہٖ بَیعَۃٌ ‘ مَاتَ مِیتَۃً جَاھِلِیَّۃً) ’’جو شخص (امیر کی )اطاعت سے اپنا ہاتھ کھینچ لے تو قیامت کے دن وہ اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملے گا کہ اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوگی ۔اور جو کوئی اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں بیعت (کا طوق) نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا ۔‘‘اس حدیث میں دور جاہلیت میں مرنے سے مراد یہ ہر گز نہیں کہ وہ شخص نعوذ باﷲ کافر مرے گا بلکہ یہ اس بات کو نہایت ہی بھرپور انداز میں بیان کرنے کا طریقہ ہے کہ کوئی بھی مسلمان ایسی حالت میں زندگی بسر نہ کرے کہ اس کی گردن میں خلیفۂ وقت کی بیعت موجود نہ ہو۔ یعنی یہ حدیث اس امر کو بڑی سختی سے بیان کر رہی ہے کہ کوئی ایسا دور نہ گزرے جب مسلمان خلافت کے بغیر ہوں۔ لہذا اس حدیث کے ذریعے اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں پر یہ فرض قراردیا ہے کہ ہر مسلمان کی گردن میں خلیفہ کی بیعت کا طوق ہو، یہ نہیں فرض کیا کہ ہر مسلمان خلیفہ کی بنفس نفیس بیعت کرے ۔ خلیفہ کے موجود ہونے سے ہر مسلمان کی گردن میں بیعت کا طوق ہوتاہے چاہے وہ بالفعل بیعت نہ بھی کرے ۔ چنانچہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ خلیفہ کا تقرر اور خلافت کا ہونا فرض ہے۔ایک اور حدیث میں رسول اﷲ ﷺ نے خلیفہ کے لئے شرعی اتھارٹی یعنی سلطان کا لفظ استعمال کرتے ہوئے اس کی اطاعت کو فرض قرار دیا ہے۔ صحیح مسلم میں ابن عباسؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا : (مَن کَرِہَ مِنْ اَمِیرِہٖ شَیءًا فَلیَصْبِرْ عَلَیہِ ‘ فَاِنَّہُ لَیْسَ اَحَدٌ مِّنَ النَّاسِ یَخْرُجُ مِنَ السُّلطَانِ شِبرًا ‘ فَمَاتَ عَلَیہِ ‘ اِلَّا مَاتَ مِیتَۃً جَاھِلِیَّۃً) ’’جس نے اپنے امیر کی کسی چیز کو ناپسند کیا تو لازم ہے کہ وہ اس پر صبر کرے۔ کیونکہ لوگوں میں سے جس نے بھی سلطان (یعنی شرعی اتھارٹی) کی اطاعت سے بالشت برابر بھی خروج کیا اوروہ اس حالت میں مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔ ‘‘اس حدیث میں نہ صرف سلطان (شرعی اختیار کے حامل شخص)سے علیحدگی اختیار کرنے کو حرام قرار دیا گیا ہے بلکہ یہ حدیث اس امر کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ مسلمانوں پر اپنے لیے ایک ایسے سلطان کو مقرر کرنا واجب ہے جس کی اطاعت کی جائے اور جو ان پر اسلام نافذکرے ۔اس سے ملتی جلتی حدیث میں آپ ﷺ نے جماعت سے بغاوت کرنے کی حرمت بیان فرمائی ہے۔ یہ واضح رہے کہ یہاں جماعت سے مراد کوئی سیاسی پارٹی یا گروہ نہیں بلکہ ’’جماعت المسلمین‘‘ ہے یعنی خلیفہ تلے متحد امت مسلمہ۔ درحقیقت مسلمانوں کو اسلام کے جھنڈے تلے جمع کرنے والا محض خلیفہ ہی ہوتا ہے۔ جب خلیفہ موجود ہوگا تو مسلمانوں کی جماعت بھی ہوگی اور مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ مل کر رہنا فرض او ران کے خلاف بغاوت حرام ہوگی۔ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (مَنْ رَاٰی مِنْ اَمِیرِہٖ شَیءًا یَکْرَھُہُ فَلیَصْبِرْ عَلَیہِ ‘ فَاِنَّہُ مَن فَارَقَ الجَمَاعَۃَ شِبرًا فَمَاتَ اِلَّا مَاتَ مِیتِۃً جَاھِلِیَّۃً) ’’جو شخص اپنے امیر کے کسی ناپسندیدہ کام کو دیکھے تو اس پر صبر کرے۔ کیونکہ جس نے بھی جماعت سے بالشت بھر علیحدگی اختیار کی او راس حالت میں مرگیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔ ‘‘واضح رہے کہ یہ دونوں احادیث اُس وقت خلیفہ کی اطاعت کو فرض قرار دیتی ہیں جب وہ اسلامی نظام تو نافذ کر رہا ہو لیکن انفرادی طور پر کچھ خامیوں اور برائیوں کا شکار ہو یا کچھ لوگوں پر ظلم کررہا ہو اور کچھ کو نواز رہا ہو ۔ لیکن اگر وہ اسلام کے بجائے کسی بھی کفر کے ذریعے حکومت کرے تو اس کی اطاعت لازم نہیں رہتی جس کا حکم رسول اﷲ ﷺ کی دیگر صحیح احادیث میں ملتا ہے۔مزید برآں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خلفاء کی اطاعت اور ان کی خلافت میں تنازعہ کرنے والوں سے قتال کا حکم دیاہے ۔اس سے واضح ہوتاہے کہ خلافت کو قائم کرنا اور اس کی حفاظت کرنا اور اس میں تنازعہ کرنے والوں کے خلاف جنگ کرنا مسلمانوں پر فرض ہے ۔ مسلمؒ نے نبی ﷺسے روایت کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:(وَمَنْ بَایَعَ اِمَامًا فَاَعْطَاہُ صَفْقَۃَ یَدِہٖ وَثَمَرَۃَ قَلْبِہٖ ‘ فَلْیُطِعْہُ اِن استَطَاعَ ‘ فََاِنْ جَآءَ آخَرُ یُنَازِعہُ فَاضرِبُوا عُنُقَ الآخَرِ)’’اورجوشخص کسی امام( خلیفہ) کی بیعت کرے تو اسے اپنے ہاتھ کا معاملہ اور دل کا پھل دے دے (یعنی سب کچھ اس کے حوالہ کردے)‘پھر اسے چاہیے کہ وہ حسبِ استطاعت اس کی اطاعت بھی کرے ۔اگر کوئی دوسراشخص آئے اور پہلے خلیفہ سے تنازعہ کرے تو دوسرے کی گردن اڑا دو ۔‘‘امام کی اطاعت کا حکم اس کی اقامت کا حکم بھی ہے او را س کے ساتھ جھگڑنے اور اس کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے والے کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم خلیفہ کے ایک ہونے پر حتمی حکم (طلبِ جازم)کے لیے واضح قرینہ ہے ۔ ایک دوسری حدیث میں تو آپ ﷺ نے اس کو نہایت ہی سادے اور کھلے انداز میں یوں بیان فرمایا:((اِذَا بُوْیِعَ لِخَلِیْفَتَیْنِ‘ فَاقْتُلُوا الْ�آخَرَمِنْھُمَا))(صحیح مسلم)’’اگر دو خلفاء کے لیے بیعت کی جائے تو ان میں سے بعد والے کو قتل کردو ۔‘‘((مَنْ أَتَاکُمْ ‘ وَأَمْرُکُمْ جَمِیْعٌ ‘ عَلٰی رَجُلٍ وَّا حِدٍ ‘ یُرِیْدُ أنْ یَّشُقَّ عَصَاکُمْ‘ أوْ یُفَرِّقَ جَمَاعَتَکُمْ ‘ فَاقْتُلُوْہُ)(صحیح مسلم)’’تم کسی ایک شخص پر (امارت کے لئے) متفق ہو ا ورکوئی شخص آئے اور تمہاری صفوں میں رخنہ ڈالنا چاہے یا تمہاری جماعت میں تفرقہ ڈالے تو اسے قتل کردو۔ ‘‘اس حدیث سے وضح ہو گیا کہ اسلامی ریاست تمام مسلمانوں کے لئے ایک ہی ہوتی ہے اور مسلمانوں میں ایک سے زائد خلیفہ اور اسلامی ریاست کی کوئی گنجائش نہیں۔ چنانچہ مغرب سے حاصل شدہ ’’قومی ریاستوں‘‘ (Nation States) کے تصور کو اسلام سختی سے رد کرتا ہے۔ اس ضمن میں امام شافعیؒ (202ھ) ’’الرسالۃ‘‘ میں صفحہ 260 میں لکھتے ہیں: ’’مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ خلیفہ ایک فردِ و احد ہی ہوسکتا ہے‘‘۔ نیز امام الشوکانی ؒ اپنی تفسیر ’’القرآن العظیم‘‘ جلد 2 صفحہ 215 پر لکھتے ہیں: ’’یہ ’’معلوم فی الاسلام بالضرورۃ ‘‘(وہ علم جس کا جاننا ہر مسلمان پر ضروری ہے مثلاً نماز، روزہ کے احکامات وغیرہ) میں سے ہے کہ اسلام نے مسلمانوں کے مابین تفریق اور ان کے علاقوں کی تقسیم کو حرام قرار دیا ہے۔‘‘چنانچہ مذکورہ بالا بحث میں وارد شدہ احادیث خلافت کو قائم کرنے ، اس کی حفاظت کرنے، اس کی وحدت کو برقرار رکھنے اور خلیفہ کی اتھارٹی کو چیلینج کرنے والے کے خلاف قتال کرنے کو فرض قرار دیتی ہیں۔ لہذا نہ صرف خلافت کا قیام ایک اولین فریضہ ہے بلکہ رسول اﷲ ﷺ نے اس کو قائم رکھنے اور اس کی حفاظت کرنے کے لئے مسلمانوں کو اپنی جانیں تک نچھاور کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہاں میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ رسول اﷲ ﷺ نے نہ صرف واضح انداز میں ہمارے نظام حکومت کا نام بتایا ہے بلکہ یہ بھی بتایا ہے کہ امت میں فقط چار یا پانچ خلیفہ نہیں آئیں گے بلکہ ان کی تعداد کثیر ہوگی۔ ہاں البتہ اسلام کے آغاز میں رشد و ہدایت یافتہ خلیفہ چالیس سال تک رہیں گے جیسا کہ احادیث میں وارد ہوا ہے۔ یہ حدیث ’’خلافت راشدہ‘‘ کے دور کا چالیس سال تک قائم ہونے کی بشارت دیتی ہیں ۔ لیکن یہ احادیث اس کی ہر گز نفی نہیں کرتیں کہ خلفاء راشدین کے بعد آنے والے حکمران خلفاء نہ ہونگے ۔ جبکہ مندرجہ ذیل حدیث ان خلفاء کی کثرتِ تعداد پر دلالت کرتی ہے۔ مسلم ؒ نے ابو حازم سے روایت کیاہے کہ انہوں نے کہا :’’میں پانچ سال تک ابو ہریرہؓ کی صحبت میں رہا۔میں نے انہیں نبی ﷺسے یہ بیان کرتے ہوئے سناکہ آپ ﷺ نے فرمایا :(کَانَتْ بَنُوْ اِسرَاءِیلَ تَسُوسُھُمُ الاَنبِیَاءُ ‘ کُلَّمَاھَلکَ نَبِیٌّ خَلَفَہُ نَبِیٌّ‘ وَاِنَّہُ لَا نَبِیَّ بَعدِی ‘ وَسَتَکُونُ خُلَفَاءُ فَتَکثُرُ ‘ قَالُوا: فَمَا تَأمُرُنَا؟ قَالَ: فُوْا بِبَیْعَۃِ الاَوَّلِ فَالاَوّلِ‘ وَاعْطُوہُم حَقَّھُم ‘ فَاِنَّ اللّٰہَ سَاءِلُھُم عَمَّا اسْتَرعَا ھُمْ)’’بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کرتے تھے ۔جب کوئی نبی وفات پاتا تو دوسرا نبی اس کی جگہ لے لیتا‘جبکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے‘ بلکہ بڑی کثرت سے خلفاء ہوں گے۔صحابہؓ نے پوچھا: آپ(ﷺ) ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا: ’’تم ایک کے بعد دوسرے کی بیعت کو پوراکرو اور انہیں ان کا حق اداکرو۔کیونکہ اللہ تعالیٰ ان سے ان کی رعایا کے بارے میں پوچھے گا‘ جو اُس نے انہیں دی ۔‘‘خلافت چالیس سال کے بعد بھی برقرار رہی لیکن ان کو چلانے والے انفرادی طور پر اس مقام پر فائز نہ تھے جو خلفاء راشدین کا تھا نیز اسلامی نظام کے نفاذ میں بھی کمزوریاں دیکھنے کو ملیں۔ اس لئے آپ ﷺ نے پہلے چالیس سالہ دور کو ’’راشدہ‘‘ کے لاحقے کے ذریعے بقیہ خلافت کے ادوار سے ممتاز فرمایا۔ چنانچہ وہ حضرات جو سمجھتے ہیں کہ خلافت محض چالیس سالوں اور چار خلفاء تک محدود تھی وہ مندرجہ بالا حدیث کی روشنی میں اپنی تصحیح کر لیں۔ نیز وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ یہ کہاں لکھا ہے کہ ’’خلافت ‘‘ ہی مسلمانوں کا نظام حکومت ہے تو وہ بھی اس حدیث سے جان گئے ہوں گے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ہمیں خبر دی ہے کہ مسلمانوں کے سیاسی امور کی دیکھ بھال ’’خلفاء‘‘ کیا کریں گے۔ نیز مسلمانوں کے لئے یہ حکم صادر فرمایا کہ وہ مسلسل خلافت کو برقرار رکھنے کے لئے ایک کے بعد ایک خلیفہ کو بیعت دیتے رہیں۔ جہاں تک خلافت کی فرضیت کے بارے میں کتاب اﷲ سے دلیل کا تعلق ہے تو قرآن مسلمانوں کو اﷲ تعالیٰ کے نازل کردہ احکامات کے علاوہ کسی بھی نظام، نظریہ یا قانون کے تحت حکومت کرنے کی سختی سے ممانعت کرتا ہے۔ قرآن میں واردہوا ہے۔(وَ مَنْ لَّمْ ےَحْکُمْ بِمَآ أَنْزَلَ اﷲُ فَأُوْلٰٓءِکَ ہُمُ الْکَفِرُوْنَ)’’اور جو اﷲ تعالیٰ کے نازل کردہ (احکامات) کے مطابق فیصلہ نہ کرے تو ایسے لوگ ہی کافرہیں‘‘۔ (المائدہ : 44 )(وَ مَنْ لَّمْ ےَحْکُمْ بِمَآ أَنْزَلَ اﷲُ فَأُوْلٰٓءِکَ ہُمُ الْظَّلِمُوْنَ)’’اور جو اﷲ تعالیٰ کے نازل کردہ (احکامات) کے مطابق فیصلہ نہ کرے تو ایسے لوگ ہی ظالم ہیں ‘‘۔ (المائدہ : 44 )(وَ مَنْ لَّمْ ےَحْکُمْ بِمَآ أَنْزَلَ اﷲُ فَأُوْلٰٓءِکَ ہُمُ الْفَسِقُوْنََ)’’اور جو اﷲ تعالیٰ کے نازل کردہ (احکامات) کے مطابق فیصلہ نہ کرے تو ایسے لوگ ہی فاسق ہیں‘‘۔ (المائدہ : 44 )یہ آیات اس میں صریح ہیں کہ اﷲ کے قوانین کے ذریعے حکومت کرنا اچھا، بہتر، مندوب یا مستحب نہیں بلکہ فرض ہے۔ قرآن میں وار دشدہ تمام آیات جو ’’ما انزل اﷲ‘‘ (اﷲ تعالیٰ کے نازل کردہ )کے ذریعے حکومت کرنے کا حکم دیتی ہیں بالواسطہ اس شرعی اتھارٹی اور حکومت کو قائم کرنے کا بھی حکم دے رہی ہیں جو ’’ما انزل اﷲ‘‘ کے مطابق حکومت کریگی۔ خلافت ہی وہ واحد اسلامی نظام حکومت ہے جسے سنت اور اجماع الصحابہ سے ثابت کیا جاسکتا ہے ۔ جیسا کہ میں پہلے ایک حدیث کے ذریعے واضح کر چکا ہوں کہ رسول اﷲ ﷺ نے نبوت کے بعد کثیر خلفاء کے ہونے کی خوش خبری سنائی ہے اور مسلمانوں کو ایک کے بعد ایک خلیفہ کی بیعت کر کے اس سلسلے کو قائم رکھنے کا حکم دیا۔ نیز بیعت کی بیشمار احادیث مسلمانوں کو خلیفہ کی اطاعت اور خلافت کے قیام کی تلقین کرتی ہیں۔ جہاں تک ’’ما انزل اﷲ‘‘ کو جمہوریت ، آمریت یا کسی بھی دوسرے نظام کے ذریعے نافذ کرنے کا تعلق ہے تو چونکہ کسی اور طریقۂ حکومت کی قرآن، سنت، اجماع الصحابہ اور قیاس جیسے شرعی مآخذ سے کوئی دلیل نہیں ملتی اس لئے ہم ان کی طرف رجوع نہیں کر سکتے۔ اس کی ممانعت ہمیں رسول اﷲ کی اس حدیث میں ملتی ہے جس کے مطابق ہر وہ عمل، یا نظام جس کی شریعت سے دلیل نہ ملے مردود ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ((کُلُّ عَمَلٍ لَیْسَ عَلیْہِ اَمْرُ نَا فَھُوَرَدٌّ)) ’’ہرو ہ عمل جس پر ہمارا حکم نہیں، تو وہ مردود ہے۔ ‘‘ چنانچہ معلوم ہوا کہ مندرجہ بالا تمام آیات ہمیں بالواسطہ جس شرعی اتھارٹی کے قیام کا حکم دے رہی ہیں وہ خلافت کے علاوہ اور کوئی نظام حکومت نہیں۔مندرجہ بالا آیات کے علاوہ بھی کئی آیات ہیں جو مسلمانوں کو ’’ما انزل اﷲ ‘‘ (اﷲ کے نازل کردہ ) ہی کے ذریعے حکومت کرنے کا حکم دیتی ہیں جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں: ارشاد باری تعالیٰ ہے : (فَاحْکُمْ بَینَھُمْ بِمَا اَنزَلَ اللّٰہُ وَلَا تَتَّبِعْ اَھوَاءَ ھُم عَمَّا جَآءَکَ مِنَ الْحَقِّ) (المائدۃ:۴۸)’’پس ان کے درمیان اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ (احکامات) کے مطابق فیصلہ کریں ‘اور جو حق آپ کے پاس آیا ہے ‘ اس کے مقابلے میں ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں۔‘‘مزید برآں یہ آیت اس امر میں بھی واضح ہے کہ ہمیں اسلام نافذ کرنے کا حکم ہے نہ کہ لوگوں کی اکثریت یا اقلیت کی خواہشات کی پیروی کرنے کا۔ آج اسلام محض اس لئے ایوانوں سے باہر ہے کیونکہ نام نہاد عوامی نمائندوں کی اکثریت نے اسلام کے قوانین پر مہر تثبیت ثبت نہیں کی ہوئی۔ ہم سوال پوچھتے ہیں کہ یہ 51% کی رضامندی کی شرط کس نے لگائی ہے؟ جبکہ مندرجہ بالا آیت واضح انداز میں ہمیں حکم دے رہی ہے کہ اﷲ کے احکامات کے نفاذ میں لوگوں کے ھویٰ اور خواہشات کی پابندی کرنا ہر گز جائز نہیں۔ لہذا اس آیت کی روشنی میں واضح ہو گیا کہ جمہوریت وہ نظام حکومت نہیں جس کے قیام کا یہ آیت تقاضا کرتی ہے۔ یہ خلافت ہی ہے جس میں انسانی تعلقات کو منظم کرنے کے لئے درکار قوانین میں کسی قسم کی اکثریت ملحوظ نہیں رکھی جاتی بلکہ خلیفہ انہیں محض نافذ کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ ان قوانین کو اخذ کرنے میں اسلام ہمیں اکثریت و اقلیت نہیں بلکہ قوی شرعی دلیل پر عمل کرنے کا حکم دیتا ہے۔ (وَإِن تُطِعْ أَکْثَرَ مَنْ فی الْ�أَرْضِ ےُضِلُّوْکَ عنْ سَبِےْلِ اﷲِ ۔۔۔) (الانعام: 116)’’اور (اے محمد ﷺ!) اگر آپ لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلیں، جو زمین میں بستے ہیں، تو وہ آپ کو اﷲ کے راستہ سے بھٹکا دیں گے۔۔۔‘‘یہ آیت جمہوریت کے بنیادی فلسفے ہی کو رد کر دیتی ہے۔ ہاں البتہ کچھ مباح معاملات اور خلیفہ کے چناؤ میں اسلام ہمیں مسلمانوں کی اکثریت یا ان کے نمائندوں کی اکثریت کو ملحوظ رکھنے کا حکم دیتا ہے جو دیگر احادیث سے ثابت ہے۔ (اس کی تفصیل جاننے کے لئے ملاحظہ کیجئے حزب التحریر کی کتاب ’’اسلام کا نظامِ حکومت‘‘۔)

ایک دوسری آیت میں اﷲ تعالیٰ نے نہ صرف خلافت کی موجودگی اور اﷲ کے نازل کردہ کے مطابق حکومت کرنے کو فرض قرار دیا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو سختی کے ساتھ خبردار بھی کیا ہے کہ کہیں وہ کمپرومائز اور سمجھوتے کی دلدل میں پھنس کر اسلام کے بعض احکامات کو نظر انداز نہ کر بیٹھیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :(وَاَنِ احْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَااَنزَلَ اللّٰہُ وَلَا تَتَّبِعْ اَھوَاءَ ھُم وَاحْذَرْھُمْ اَنْ یَّفتِنُوکَ عَن بَّعْضِ مَا اَنزَلَ اللّٰہُ اِلَیکَ) (المائدۃ:۴۹)’’اور یہ کہ( آپ ﷺ) ان کے درمیان اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ (احکامات )کے مطابق فیصلہ کریں اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں۔ او ر ان سے محتاط رہیں کہ کہیں یہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ بعض (احکامات )کے بارے میں آپ کو فتنے میں نہ ڈال دیں۔‘‘ لہذا مسلمان تحریکوں کو خبردار رہنا چاہئے کہ وہ کہیں استعمار یا ان کے ایجنٹوں کی خوشنودی کی خاطر، ’’قوم کے وسیع تر مفادمیں‘‘ یا سیاست چمکانے کی خاطر ’اﷲکے نازل کردہ بعض‘ احکامات پر سمجھوتہ نہ کر بیٹھیں۔ اگر ایسا کیا تو نہ صرف یہ کہ اس دنیا میں کچھ ہاتھ نہ آئیگا بلکہ آخرت میں بھی شرمندگی اور ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑیگا۔ اﷲ تعالیٰ نے سمجھوتہ کر کے کچھ اسلام کے نفاذ میں تاخیر یا کچھ کو پس پشت ڈالنے والوں کو ان الفاظ میں وعید سنائی ہے۔(أَفَتُؤْ مِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتَبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ، فَمَا جَزَآءُ مَنْ یَّفْعَلُ ذَلِکَ مِنْکُمْ اِلَّا خِزْیٌ فِی الْحَےٰوۃِ الدُّنْیا ، وَےَوْمَ الْقِےٰمَۃِ ےُرَدُّوْنَ اِلآی اَشَدِّ الْعَذَابِ) (البقرء:5 8)’’کیا تم کتاب کے کچھ حصے پر ایمان رکھتے ہو اور کچھ حصے کا انکار کرتے ہو؟ اور جو شخص ایسا کریگا تو دنیا میں اس کے لئے رسوائی ہے اور آخرت کے دن ان لوگوں کو سخت ترین عذاب کی طرف لوٹایا جائیگا۔‘‘نیز اﷲ تعالیٰ نے بڑی سختی کے ساتھ اپنے حبیب کو دین اور وحی میں سمجھوتے اور کمپرومائز کرنے سے روکا اور فرمایا:(وَإِن کَادُوْا لَےَفْتِنُوْنَکَ عَنِ الَّذِیٓ أَوْحَےْنآ إِلَےْکَ لِتَفْتَرِیَ عَلَےْنَا غَےْرَہُ ، وَإِذًا لَّ�آ تَّخَذُوکَ خَلِیلاً O وَلَوْلَ�آ أَنْ ثَبَّتْنٰکَ لَقَدْ کِدتَّ تَرْکَنُ إلَےْہِمْ شَےْءًا قَلےِیلاً O إِذًا لَّ�أَ ذَقْنٰکَ ضِعْفَ الْحَےَوٰۃِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَکَ عَلَےْنَا نَصِےْراً ) (الاسراء: 73-75)’’اور وہ لوگ تو چاہتے تھے کہ آپ ﷺکو بچلا دیں اس چیز سے کہ جو وحی بھیجی ہم نے آپ ﷺکی طرف تاکہ جھوٹ بنا لائیں آپ ہم سے وحی کے علاوہ اور تب تو بنا لیتے آپ کو دوست۔ اور اگر یہ نہ ہوتا کہ ہم نے آپ کو سنبھالے رکھا تو آپ ان کی طرف تھوڑا سا جھکنے لگ جاتے۔ تب آپ کو ضرور چکھاتے ہم دگنا مزہ زندگی میں اور دگنا مرنے میں ، پھر نہ پاتے آپ اپنے واسطے (ہمارے خلاف )کوئی مدد کرنے والا‘‘آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ کافر نظام میں اسلام کے کچھ احکامات پر کمپرومائز کر کے حکومتیں اور وزارتیں لی جاتی ہیں اور پھر یہ استعمار کے ایجنٹ حکمران ان لوگوں سے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتے اور وہ ان کو دوست گرداننے لگتے ہیں۔ اسلام خلافت کے علاوہ کسی بھی کفریہ نظام چاہے وہ جمہوریت ہو یا آمریت، حصہ لینے کی سختی سے ممانعت کرتا ہے۔ کیونکہ ان نظاموں کا حصہ بن کر اسلام کبھی بھی نافذ نہیں کیا جاسکتا؛ ترکی اردن، مصر اور پاکستان کی مثالیں سب کے سامنے ہیں۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے اولو الامر ( صاحبِ اقتدار )کی اطاعت کو بھی مسلمانوں پر فرض کیا ہے ۔اس سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ مسلمانوں کا اولوالامر ہونا فرض ہے ۔ ارشاد ہے:(یَااَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اَطِیْعُوااللّٰہَ وَاَطِیْعُواالرَّسُوْلَ وَاُولیِ الْاَمْرِمِنْکُمْ) ’’اے ایمان والو! اللہ اوررسول( ﷺ )کی اطاعت کرو اور اپنے میں سے اولوالامر (حکمرانوں) کی بھی۔ (النساء:۵۹)اللہ تعالیٰ کبھی بھی اس شخص کی اطاعت کا حکم نہیں دیتاجس کا وجود ہی نہ ہو۔ چنانچہ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اولوالامر کاہونا واجب ہے ۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے اولوالامر کی اطاعت کا حکم دیا تو اس کے وجود کا حکم بھی اسی میں شامل ہے۔ کیونکہ اولوالامر کے وجود پر شرعی حکم کا دارو مدار ہے اور اس کے نہ ہونے کی صورت میں شرعی حکم ضائع ہوجاتاہے۔ لہٰذا اس کا وجود فرض ہے۔یہ تو تھے خلافت کی فرضیت بارے قرآن سے دلائل ۔ اب آتے ہیں سیرت نبوی کی طرف۔ جب ہم آپ ﷺ کی مکی زندگی کی طرف نظر ڈالتے ہیں تو ہم آپ ﷺ کو کافروں کو انفرادی طور پر اسلام کی طرف دعوت دینے کے ساتھ ساتھ ریاست کے قیام کے لئے جدوجہد کرتے ہوئے بھی پاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پورے مکی دور میں آپ ﷺ نے ریاست کے قیام کے ذریعے اﷲ کا نظام نافذ کرنے اور اس کی دعوت کو پوری دنیا میں پھیلانے کے لئے انتھک جدوجہد فرمائی۔ آپ ﷺجانتے تھے کہ اسلام پوری دنیا پر غالب ہونے کے لئے آیا ہے۔ اسی طرح کفار مکہ بھی جانتے تھے کہ آپ ﷺ کا پیغام محض چند عقائد یا اخلاقیات پر مبنی ایک مذہب نہیں۔ نہ ہی یہ فقط مسلمانوں کی ذاتی زندگی کو منظم کرتا ہے بلکہ یہ معاشرے کو بدلنے اور انسان کو زندگی گزارنے کے نئے نظام سے متعارف کروانے کے لئے نازل فرمایا گیا۔ یہ آفاقی پیغام انسانوں سے محض اﷲ کو عقیدتاً ایک رب تسلیم کروانے پر مطمئن نہیں ہوتا بلکہ اس واحد القہار کی ربوبیت اور وحدانیت کو انسانی معیشت، معاشرت، حکومت عدالت، تعلیم الغرض انسان کے تمام تعلقات میں عملاً نافذ کرنے کا خواہاں ہے۔ یہی ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کا حقیقی تقاضا اور ’’اُدخلوا فی السلم کآفۃ‘‘ کا درست مفہوم ہے۔ ’’لا الہ الا اللہ‘‘ پڑھنے والا کبھی بھی معیشت میں ایک سے زائد خداؤں کو تسلیم نہیں کر سکتا۔ اِنِ الْحُکْمُ اِلاَ لِلَّہِ (حکم تو صرف اﷲ ہی کے لئے ہے) پر ایمان رکھنے والا اسمبلیوں میں بیٹھے 500 سے زائد خداؤں کی قانون سازی کو کبھی تسلیم نہیں کر سکتا۔ قریش اسلام سے قبل ایک رب پر محض عقیدۃً ایمان رکھنے والوں کو کسی قسم کی ایذا نہیں پہنچایا کرتے تھے کیونکہ دین حنیف پر قائم یہ لوگ کسی نئے نظام کے داعی نہ تھے۔ یہ لوگ قریش کے معاشی استحصال کے خلاف کوئی متبادل نظام پیش نہ کر رہے تھے۔ وہ قریش کے معاشرتی اصولوں مثلاً بیٹیوں کی زندہ دفن کرنے کے خلاف احتجاج نہ کر رہے تھے۔ نہ ہی وہ غلاموں اور یتیموں کے استحصال کے خلاف کوئی آواز بلند کر رہے تھے۔ یہ تو محض رسول اﷲ ﷺ ہی تھے جو قرآنی آیات کی روشنی میں ایک مکمل اور مربوط متبادل نظام کی جھلک پیش کر رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قریش اسلام کو اپنی حاکمیت اور چودھراہٹ کے لئے ایک کھلا خطرہ اور چیلنج سمجھتے تھے۔ قریش نے جب آپ ﷺ کو اپنے مقاصد میں ثابت قدم پایا تو انہوں نے آپ ﷺ کو اپنی روش سے ہٹانے کے لئے پیشکش کرنا شروع کر دیں تاکہ آپ ﷺ کوّ کمپرومائزاور سمجھوتے کے ذریعے اپنی روش سے ہٹایا جاسکے اور ان کے دو ٹوک نکتہء نظر میں نرمی لائی جاسکے۔ اس ضمن میں آپ ﷺ کو مال، عورتوں اور یہاں تک کے بادشاہت تک کی پیش کش کی گئی۔ اگر کمپرومائزکی شریعت میں اجازت ہوتی تو آپ ﷺ یہ سوچ سکتے تھے کہ آج یہ کفار اسلام کی بات تک سننے کے روادار نہیں۔ صحابہؓ پر حیات تنگ کر دی گئی ہے، تو کیوں نہ حکومت اور اقتدار حاصل کر لیا جائے کم ازکم ایسے میں مسلمانوں کو ایذا اور تکالیف کا سامنا تو نہ کرنا پڑیگا۔ کافر ہمارے مطیع ہونگے۔ پہلے پہل نظام کو چھوڑ کر محض عقائد اور اخلاقیات کی تعلیم دی جائے اور پھر اسلام تھوڑا تھوڑا کر کے نافذ کر دیا جائے۔ اس جیسے یا اس سے بہتر منصوبے تک آپ ﷺ جیسا ذہین اور معاملہ فہم شخص باآسانی پہنچ سکتا تھا۔ لیکن ایسا اس لئے نہ کیا گیا کہ کیونکہ اسلام شریعت کو اقساط میں یا تدریجاً نافذ کرنے کی ہر گز اجازت نہیں دیتا۔ امام نووی شرح المسلم (صحیح مسلم کی شرح) میں فرماتے ہیں: ’’کسی عالم نے یہ کبھی نہیں کہا کہ اسلام بتدریج نافذ ہو سکتا ہے۔‘‘ اسی طرح قریش کے ’’ ایک سال تمہارا خدا اور ایک سال ہماراخدا‘‘ کی پیش کش کو بھی اﷲ تعالیٰ نے’’ لکم دینکم ولی دین ‘‘کہہ کر مسترد کر دیا۔ اسلام حق اور باطل کو خلط ملط کر کے ایک ملغوبہ بنانے کی ہر گز اجازت نہیں دیتا۔ پانی کے ایک گلاس میں ایک قطرہ نجاست تمام پانی کو ناپاک بنا دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ :(وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبٰطِلِ وَتٖکْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعَلَمُونَ) (البقرۃ: 42)’’باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بناؤ اور نہ جانتے ہوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو‘‘رسول اﷲ ﷺ نے اسی خالص اسلام کے نفاذ کے لئے ’’دار الندویٰ‘‘ میں شمولیت اختیار نہ کی جو کہ اس زمانے میں قریش کی پارلیمنٹ سمجھی جاتی تھی۔ بلکہ اسلامی ریاست کے قیام کے لئے مکہ کے گلی کوچوں میں اپنی فکری اور سیاسی جدوجہد جاری رکھی۔ آپ ﷺمعاشرے میں نافذ ظالمانہ نظام کی دھجیاں بھی اُڑاتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ قریش کے سرداروں کی سیاسی ساکھ پر کاری ضرب لگانے کے لئے ’’ تَبَّتْ ےَدَآ أَبِی لَہَبٍ وَّ تَبَّ‘‘ کا نعرہ بھی بلند فرماتے تھے۔ اسی جدوجہد میں کہیں تو آپ ﷺ کو ابو لہب کے گھٹیا اور درشت الفاظ کے تیر سہنے پڑے تو کہیں اوجھ کے وزن تلے سجدے کرنے پڑے۔ کہیں آپ شعب ابی طالب کے قید خانے میں پتھر باندھے نظر آئے تو کہیں آپ ﷺ طائف کی گلیوں میں لہو لہان تیز تیز قدم اٹھاتے دیکھے گئے۔ لیکن ان تمام مصائب میں آپ ﷺ نے ایک لمحے کے لئے کسی شارٹ کٹ کا سوچا اور نہ ہی کفار کے ساتھ کمپرومائز کی طرف مائل ہوئے۔ آپ ﷺ وہ فریضہ ادا کرنے میں مصروف رہے جس کا حکم قرآن (ان الحکم الا للہ) ’’حکومت تو فقط اﷲ ہی کے لئے ہے‘‘ کی شکل میں دیتا ہے۔ اس کی ایک اور دلیل کہ آپﷺ اپنی مکی زندگی کے دوران ایک ریاست کے قیام کی جدوجہد ہی میں مصروف تھے اس واقعہ سے ملتی ہے جسے امام طبریؒ نے اپنی کتاب میں کچھ یوں بیان کیا ہے۔ ’’آپ ﷺ بنی عامر بن صعصعہ کے پاس گئے اور ان کو اﷲ کی طرف بلایا اور اپنے کو پیش کیا۔ ان کے ایک شخص بحیرہ بن فہرس نے کہا: ’اگر میں قریش کے اس جوانمرد کو ساتھ لے لوں تو سارے عرب کو ہضم کر لوں گا‘۔ پھر اس نے رسول اﷲ ﷺ سے کہا : ’اچھا اگر ہم آپ کی دعوت میں آپ کے ساتھ ہو جائیں اور اﷲ آپ کے مخالفین پر آپ کو غالب کردے تو کیا آپ کے بعد اس دعوت کے مالک ہم بن سکیں گے۔‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ’یہ معاملہ (حکومت) اﷲ کے قبضہ میں ہے وہ جسے چاہے دے۔‘ اس نے کہا تو اس کے معنے یہ ہوئے کہ آپ کی حمایت میں ہم اپنے سینوں کو عربوں کا نشانہ بنائیں اور جب آپ کو غلبہ حاصل ہو تو یہ اقتدار ہماے علاوہ دوسروں کو مل جائے۔ اس شکل میں ہمیں کوئی ضرورت نہیں کہ آپ کے شریک ہوں ‘‘۔ (تاریخ طبری، ج 1، ص 112)اس مکالمے سے واضح ہو جاتا ہے کہ عرب قبائل خوب جانتے تھے کہ آپ ﷺ ان قبائل سے کس قسم کی مدد و نصرت طلب کر رہے ہیں۔وہ جانتے تھے کہ آپ ﷺ درحقیقت ایک ریاست قائم کر نے کے لئے مدد طلب کر رہے ہیں ؛ آپ ﷺ اس ریاست کے سربراہ ہونگے جس کی حفاظت کے لئے ان قبائل کو تمام عرب سے لڑنا پڑیگا۔ ان کا سوال یہ تھا کہ آپ ﷺ کے بعد امر (یعنی حکومت) کس کے ہاتھ ہوگا۔ اگر تو آپﷺ زمام کار کی ضمانت دے دیتے تو بنو عامر کا قبیلہ نصرت و مدد دینے کے لئے تیار تھا۔ لیکن چونکہ آپ ﷺ قبائل سے بغیر کسی دنیوی منفعت و فائدے کے محض اﷲ کی رضا اور جنت کے عوض مدد کے طالب تھے اسی لئے آپ ﷺنے بنو عامر کی حکومت حاصل کرنے کی شرط مسترد کر دی۔ سیرت کی کتب میں آپ ﷺ کا چالیس سے زائد قبائل سے نصرت طلب کرنا مذکور ہے۔ امام المقریزی (861ھ) ’’کتاب الخُطَب‘‘ میں اور امام نوویری (753ھ) ’’نہاےۃ العرب‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’رسول اﷲ ﷺ نے انصار کی نصرت (مدد) سے اسلام نافذ اور قائم فرمایا۔‘‘ ابن ھشام جو سیرت نبویؐ کے مشہور مصنف ہیں، مدینہ میں اسلام ریاست کے قیام کے حوالے سے فرماتے ہیں۔ ’’ جب رسول اﷲ ﷺ مدینہ میں اطمنان ہوگیا اور انہیں تمکین حاصل ہوگئی اور آپ ؐ کے مہاجرین بھائی اپنے انصاری بھائیوں کے ساتھ مدینہ میں اکھٹے ہو گئے تو اسلام مضبوطی سے قائم ہو گیا۔ پس نماز قائم کی گئی، زکواۃ اور صوم فرض قرار پائے، حدود نافذ ہوئیں، حلال و حرام کا تعین ہوا اور اسلام ان کے مابین طاقتور ہوگیا۔‘‘

چنانچہ معلوم ہوا کہ رسول اﷲ ﷺ کی مکی زندگی کا محور لوگوں کو انفرادی طور پر مسلمان بنانے کے ساتھ ساتھ اسلامی ریاست کے قیام کے فریضے کے لئے جدوجہد کرنا تھا تاکہ اسلام کو بحیثیت نظام عملی طور پر پورے معاشرے پر نافذ کیا جاسکے۔ نیز اس اسلامی ریاست کومرکز (base) بناتے ہوئے اسلام کی دعوت کو پورے عالم تک پھیلانے کی سعی کی جاسکے۔ رسول اﷲ ﷺ کے وصال کے بعد صحابہ کرامؓ نے بھی اسلامی ریاست یعنی خلافت کی بقاء کو ایک اہم ترین فریضہ گردانا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ صحابہ جو آپ ﷺ پر جان چھڑکتے تھے، آپ ﷺ کے وضو کے پانی کو تبرکاً حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے سے مسابقت کرتے تھے۔ آپ ﷺ کو اپنے نفوس اور اپنے ماں باپ پر فوقیت دیتے تھے، آپ ﷺ کے وصال کے بعد ثقیفہ بنی صاعدہ میں جمع ہو کر خلافت کے اہم ترین فریضے میں جُت جاتے ہیں اور آپ ﷺ کے جسد پاک کی تجہیز و تدفین کو مؤخر کردیتے ہیں۔ حالانکہ اسلام کسی بھی مسلمان کی وفات کی صورت میں اس کے عزیز و اقارب کو اس کی تجہیز و تدفین جلد از جلد کرنے کا حکم دیتا ہے۔ لیکن اکابر صحابہؓ جن میں حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عبد الرحمان بن عوفؓ اور سعد بن عبادہؓ شامل تھے انصار کی ایک کثیر جماعت کے ساتھ ثقیفہ بنی سعدہ میں نئے خلیفہ کے انتخاب کے عمل میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔ نیز کوئی بھی صحابی انہیں رسول اﷲ ﷺ کی تجہیز و تدفین کو ایک دن تک مؤخر کر کے خلافت کے قیام میں مصروف ہو جانے پر ملامت یا تنقید کا نشانہ نہیں بناتا۔ صحابہؓ سے بڑھ کر اسلام اور شریعت کو کوئی نہیں جانتا اور نہ ہی ان سے بڑھ کر شریعت کا کوئی پابند ہو سکتا ہے۔ چنانچہ یہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب تمام صحابہؓ ایک ایسی حدیث جانتے ہوں جس کے مطابق خلیفہ کا انتخاب رسول اﷲ ﷺ کی تجہیز و تدفین سے بھی بڑھ کر اہم اور فوری فریضہ ہو۔ یہ ہے خلافت کی فرضیت پر اجماع الصحابہ سے دلیل۔ امام الحیثمی (807ھ) ’’صواعق الحراکۃ‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’یہ امر سب کو معلوم ہے کہ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین متفق تھے کہ دور نبوت کے خاتمے پر امام کا انتخاب واجب تھا۔ بلاشبہ انہوں نے اس فرض کو دیگر تمام فرائض پر فوقیت دی اور رسول اﷲ ﷺ کی تدفین کے بجائے اس (فرض کی تکمیل )میں جُت گئے۔‘‘ خلافت کی اہمیت اور اس کی فرضیت کی اجماع الصحابہ سے ایک اور دلیل ہمیں حضرت عمرؓ کے عمل سے ملتی ہے۔ حضرت عمرؓ کے زخمی ہو جانے کے بعد آپؓ نے لوگوں کے اصرار پر عشرہ مبشرہ میں سے اس وقت حیات چھ صحابہ کو آپس میں سے ایک خلیفہ چننے کے لئے نامزد کیا۔ نیز ان پر حضرت ابو طلحہؓ کی سرکردگی میں پچاس انصار کو متعین فرمایا اور ان کو نہایت واضح انداز میں احکامات صادر فرمائے۔ حضرت عمرؓ نے حضرت ابو طلحہؓ کو حکم دیاکہ اگر یہ چھ اصحاب میری وفات کے تین دن گزر جانے کے بعد بھی آپس میں ایک خلیفہ چننے میں ناکام رہیں اور تنازعہ کریں تو پھر اگر پانچ ایک طرف ہوں اور ایک دوسری طرف تو پھر اس ایک کی گردن اڑا دینا۔ اگر چار ایک پر متفق ہوں اور دو تنازع کریں تو پھر ان دو کی گردن مار دینا۔ اور اگر تین تین کا گرو ہ بن جائے تو پھر عبداللہ بن عمرؓ ثالثی کریں ، لیکن اگر پھر بھی تنازع ختم نہ ہو تو پھر دیکھنا کہ عبد الرحمنؓ بن عوف کس گروہ کے ساتھ ہیں اور دوسرے گروہ کو قتل کر دینا۔ یعنی اگر اکثریت کے فیصلے کو تسلیم نہ کیا جائے تو ایسی صورت میں جھگڑا کرنے والی اقلیت کو قتل کر دیا جائے۔ گو کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسلام سرے سے سیاسی اختلاف رائے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ اسلام اکثریتی رائے کے ظاہر ہو جانے کے بعد اقلیت کو اس فیصلے کی پابندی کا حکم دہتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ایک مسلمان کا قتل کس قدر بڑا جرم ہے کجا کہ عشرہ مبشرہ میں سے کسی صحابی کا قتل کیا جائے۔ لیکن کسی بھی صحابی نے حضرت عمرؓ کے ان احکامات پر اعتراض نہ فرمایا۔ جبکہ وہ تو لمبی قمیض پر بھی عمرؓ کی سرزنش کرنے سے نہ گھبراتے تھے۔ یہ صحابہؓ کا اجماع اس بات کی دلیل ہے کہ تمام صحابی شریعت کا یہ حکم جانتے تھے کہ خلیفہ کی تقرری تین دن کے اندر اندر ہونی چاہئے اور اگر اس دوران اس فریضے کو پورا کرنے میں کوئی رخنہ ڈالے تو پھر اسے قتل بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ خلافت کس قدر بڑا فرض ہے کہ جس کے لئے حضرت عمرؓ نے عشرۂ مبشرہ کے قتل تک کا حکم صادر فرمایا۔چودہ سو سال تک فقہاء اس فریضے کی اہمیت کو سمجھتے رہے۔ آخر میں میں قرون اولیٰ کے علماء مجتہدین کے اقوال نقل کرنا چاہوں گا تاکہ قارئین کو خلافت کی ’’اُم الفرائض‘‘ ہونے میں کوئی شک و تأمل باقی نہ رہے۔ یہ عرض کرتا چلوں کہ فقہی ابحاث میں ’’امام‘‘ کا لفظ بھی خلیفہ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ ہم رسول اﷲ کو بھی احادیث مبارکہ میں امام کا لفظ خلیفہ کے لئے استعمال کرتے ہوئے پاتے ہیں۔ * امام جوزی ؒ (508ھ) الفقہ علی المذاہب الاربعۃ میں فرماتے ہیں: ’’چاروں امام ؒ (امام ابو حنیفہؒ ، امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ ) اس بات پر متفق ہیں کہ امامت (خلافت) ایک فرض ہے اور مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ ایک امام (خلیفہ) کا انتخاب کریں جو دین کے احکامات نافذ کرے اور مظلوموں کو ظالموں کے خلاف انصاف فراہم کرے۔ مسلمانوں کے لئے دنیا میں بیک وقت دو اماموں (خلفاء) کا ہونا حرام ہے خواہ ایسا باہمی رضا مندی سے ہو یا تنازعے کے نتیجے میں‘‘۔* امام قرطبی سورۃ البقرۃ کی آیت 30 کی تفسیر میں لکھتے ہیں: یہ آیت امام اور خلیفہ کے انتخاب کے لئے مآخذ ہے۔ جس کو سنا جائے اور اس کی اطاعت کی جائے۔ کیونکہ دنیا اس کے ذریعے وحدت اختیار کرتی ہے اور خلافت کے قوانین اس کے ذریعے سے نافذ ہوتے ہیں۔ اور اس کے فرض ہونے میں امت اور آئمہ کرام کے مابین کوئی اختلاف نہیں ماسوائے معتزلہ کے۔‘‘* امام نووی ؒ شرح المسلم جلد 12 صفحہ205 میں کہتے ہیں: ’’علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مسلمانوں پر خلیفہ کی تقرری فرض ہے‘‘۔* عبد الحامد بن یحیےٰ بن سعید العامری(132ھ) اپنی کتاب ’’خلیفہ کو نصیحت‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’خلافت تمام فرائض کے سر کاتاج اور نگینہ ہے۔‘‘* ابن تیمیہؒ اپنی کتاب سیاستہ الشرعےۃ کے باب ’’حکمران کی اطاعت کی فرضیت‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’یہ جاننا فرض ہے کہ عوام الناس پر حکومتی اختیارات کا حامل عہدہ یعنی خلافت کا عہدہ دین کے اہم ترین فرائض میں سے ایک ہے۔ درحقیقت دین کا نفاذ اس کے بغیر ناممکن ہے۔ یہی سلف آئمہ کرام مثلاً فضل ابن الایاد اور امام احمد بن حنبل ؒ وغیرہ کی رائے ہے۔‘‘* امام غزالی ’’الاقتصاد فی الاتقاد‘‘ صفحہ 240 میں خلافت کے خاتمے کے ممکنہ نتائج بیان فرماتے ہوئے کہتے ہیں: ’’قاضی معطل ہو جائیں گے، ولایات (صوبے) ختم ہو جائیں گے، اختیارات کے حامل افراد کے فیصلوں پر عملدرآمد رک جائے گا اور تمام لوگ حرام کے دہانے پر پہنچ جائیں گے۔‘‘* امام ابن حزمؒ (452ھ) ’’فصل من النہال‘‘ جلد 4 صفحہ 87 میں کہتے ہیں: ’’تمام اہل السنہ کا اتفاق ہے کہ امامت کا قیام مسلمانوں پر فرض ہے۔ اور ان پر فرض ہے کہ وہ احکام الہیہ کے نفاذ کے لئے ایک امام تلے رہیں جو ان کی احکام شرعیہ کے مطابق قیادت کرے۔‘‘* امام بغدادیؒ (463ھ) ’’کتاب الفَرَق بین الفِرَق ‘‘ صفحہ 210 میں رقمطراز ہیں: ’’امت پر امامت (خلافت) فرض ہے تاکہ شریعت کے نفاذ اور اطاعت کے لئے امام مقرر کیا جاسکے۔‘‘* امام ماوردی ؒ احکام السلطانیہ صفحہ 56 میں کہتے ہیں: ’’امام مقرر کرنا فرض ہے۔‘‘* امام ابن خلدونؒ ’’المقدمہ‘‘ کے صفحہ 210پر کہتے ہیں: ’’امام کی تقرری فرض ہے جو صحابہ کرام اور تابعین کے اجماع کی وجہ سے ہر ایک کو معلوم ہے۔ رسول اﷲ ﷺ کے صحابہ کرامؓ نے رسول اﷲ ﷺ کے وصال کے بعد حضرت ابو بکرؓ کو خلیفہ مقرر کرنے میں جلدی کی اس کے بعد ہر عہد میں مسلمانوں کا خلیفہ رہا اور وہ کسی بھی دور میں حالت انتشار اور افرتفری میں نہ رہے (یعنی خلیفہ کے بغیر نہیں رہے)۔ اسے ہمیشہ علماء کا اجماع سمجھا گیا ہے کہ امام (خلیفہ) کی تقرری فرض ہے۔‘‘* امام ابو عبد اﷲ بن مسلم دینوری (276ھ) ’’امامۃ والسیاسۃ‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’خلافت دین و دنیا کے تمام معاملات میں مسلمانوں کے لئے اعلیٰ ترین اتھارٹی ہے۔‘‘* امام عبد الحامد بن یحییٰ بن سعید العامری (132ھ) ’’رسالۃ فی نصیحۃ و لی العھد‘‘ میں کہتے ہیں: ’’خلافت بہترین زیور ہے جو انمول ہے کیونکہ یہ مسلمانوں کی پناہ گاہ ہے۔ مذکورہ بالا بحث کے بعد ، جس میں قرآن، سنت، اجماع الصحابہ اور شرعی اصول سے دلائل اخذ کئے گئے تھے، کسی بھی مسلمان کے لئے خلافت کی فرضیت کے بارے میں کوئی شک باقی نہیں رہ جانا چاہئے۔ اب یہ ذمہ داری ہر مسلمان پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اس ’’اُمّ الفرئض‘‘ کے لئے منہج نبوی کے مطابق سعی اور کوشش کرے تاکہ وہ دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو سکے۔ وما علینا الابلاغ

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

کیا قرآن و حدیث میں صیغہ امر (حکمیہ انداز) لازما واجب یا فرض ہوتا ہے ۔ (اصول الفقہ)

مسلمان صرف وحی کی اتباع کرتے ہیں ۔ یہ وحی ہمارے پاس دو شکلوں میں موجود ہے : ایک وحی متلو۔۔۔ یعنی وہ وحی جس کی تلاوت کی جاتی ہے،اس سے مراد قرآن الکریم ہے ۔ اور دوسرے وحی غیر متلو ۔۔۔یعنی وہ وحی جس کی تلاوت نہیں کی جاتی ۔ اس سے مراد حدیث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا اور رسول اللہ ﷺکی زبان بھی عربی ہی تھی۔ اس لیے عربی زبان کا فہم ہونااز حد ضروری ہے تبھی ہم شرعی مآخذ سے احکامات کو ٹھیک ٹھیک اخذ کرسکیں گے ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے سورۃ یوسف کی آیت نمبر 2میں ارشاد فرمایا: (انا انزلنَہٗ قرء ٰ نًا عربیًا لَّعلکم تعقلون ) ’’بے شک ہم نے اس قرآن کو نازل کیا تاکہ تم سمجھو‘‘ تاہم محض عربی زبان کی سمجھ شرعی مآخذ سے احکامات کو اخذ کرنے کے لیے کافی نہیں ۔ عربی زبان کا فہم ہوناشرعی متن یعنی (shariah Text) کو سمجھنے کی مختلف شرائط میں سے ایک شرط ہے۔ کیونکہ یہاں مقصد احکامات کو ایک خاص (قانونی ) متن سے اخذ کرنا ہے۔ جس کے لیے عربی زبان کی سمجھ کے علاوہ مزید امور کی بھی ضرورت ہے جیسے کہ وہ قرآئن جو فرائض اور حرام امور کا تعین کرتے ہیں، عام حکم اور اس کی تخصیص ، مطلق اور مقید ی...

شرعی دلائل کی روشنی میں خلافت اور جمہوریت کا تقابلی جائزہ

                                                                                                نوید بٹ   اسلام کا طالب علم جب قرآن و سنت پر نظر ڈالتا ہے تو اسے ’’جمہوریت‘‘ سے متعلق کوئی آیت یا حدیث تو درکنار صحابہ، آئمہ مجتہدین یا فقہائ کا ایک قول بھی نہیں ملتا۔ حالانکہ انسانیت اسلام سے ہزاروں سال قبل جمہوریت سے روشناس ہو چکی تھی۔ وہ اس شش و پنج کا بھی شکار ہوتا ہے کہ اگر اسلام کا نظام حکومت جمہوریت ہی ہے تو پھر کیا یونانیوں نے اسلام کے آنے سے قبل ہی ازخود ’’اسلامی نظام حکومت‘‘ دریافت کر لیا تھا؟ کیا اس ’’اسلامی نظام حکومت‘‘ کے نفاذ سے انہوں نے ایک اسلامی معاشرے کو جنم دے دیا تھا؟ کیا وہ نہ جانتے ہوئے بھی اسلام پر ہی چل رہے تھے؟ لیکن تاریخ کے کسی گوشے میں بھی یونانی تہذیب اور اسلامی تہذیب میں مماثلت کا کوئی شائبہ تک نہیں ملتا۔ اگر رسول مقبول...

خلافت قائم کرنے کا طریقہ

1)     چونکہ خلافت کا قیام ایک فرض ہے بلکہ یہ مسلمان کے اوہر سب سے بڑا فرض ہے ۔ اور چونکہ ایک فرض کے قائم کرنےکا طریقہ اللہ سبحان و تعالیٰ نے انسان پر نہیں چھوڑا بلکہ ہر فرض کے طرح اس فرض کا بھی طریقہ کار اسلام نے بتایا ہوا ہے۔ اور یہ طریقہ کار ہم نبیﷺ کی سیرت سے جان سکتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ریاست کیسےقائم کی تھی۔، بالکل ویسے جس طرح ہم نماز، روزے، حج، جہاد اور دیگر فرائض کا طریقہ نبیﷺ سے اخذ کرتے ہیں۔ 2)   اگر عقل پر چھوڑ دیا جائےتو مختلف طریقے ذہن میں آتے ہیں، جیسے حکمرانوں کو صرف دعوت سے قائل کرنا کہ اسلام قائم کریں، یا ان کے خلاف جنگ کر کے ان کو ملیا میٹ کر کے اسلامی نظام قائم کرنا، یا اس ملک میں مروجہ دستور اور قانون کے مطابق نظام میں حصہ لے کر اس نظام کے اوپر پہنچ کر اسلام کا نظام قائم کرنا یا تمام لوگوں کو تبدیل کرنا ، یہ سوچ کرکہ جب تمام لوگ سچے، پکے مومن بن جائیں گے تو اسلامی نظام خود ہی قائم ہو جائے گاوغیرہ۔ لیکن یاد رہے کہ یہ سب عقل و منطق (logic)   سے نکلنے والے طریقے ہیں ۔ اور انسانی عقل کامل نہیں اسلئے اس طریقوں کی اپن...

کیا اسلام جس عمل سے منع نہ کرے، وہ جائز ہے؟

حال ہی میں حکومت پاکستان کے زیر سرپرستی ہولی کا تہوار منایا گیا اور ہم نے اخباروں میں مشاہد حسین اور چودھری شجاعت کی تصاویر دیکھیں جن میں انہوں نے فخریہ انداز میں اپنی پیشانیوں پر رنگ لگا رکھا تھا۔ اس پر عوام الناس کے ایک گروہ نے اعتراض کیا کہ ا س ہندوانہ رسم، تہوار اور فعل کرنے کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ جبکہ دوسرے گروہ کا خیال تھا کہ آخر مذہبی رواداری اور ہندو مسلم بھائی چارے کے پیش نظرایک تہوار منا ہی لیا تو اس میں کیا حرج ہے۔ اسی طرح بسنت کے حوالے سے عوام میں کافی کنفیوژن پائی جاتی ہے۔ جہاں ایک طرف عوام کا ایک بڑا حصہ اسے اپنے مذہب اور روایات سے متصادم ہونے کے باعث پسند نہیں کرتا۔ وہاں دوسری طرف ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اشتہاری مہموں اور سرکاری سرپرستی سے متاثر ہو کر بے شمار لوگ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اسلام میں خوشی منانے یا پتنگ اڑانے کی کوئی ممانعت نہیں تو پھر بسنت منانا کیونکر حرام ہو گیا۔ یہی صورتحال کئی دوسرے امور میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ اسی طرح حال میں امریکہ میں آمنہ ودود کی امامت میں ادا ہونے والی مخلوط نماز جمعہ شدو مد سے زیر بحث رہی۔ اس گروہ کا کہنا ...

آئین پاکستان کی نام نہاد "اسلامی دفعات" اور اس پر پاکستان کی ہائیکورٹس اور سپریم کورٹس کے مصدقہ فیصلے

آپ اور میں اپنے خواہش کے مطابق بے شک پاکستان کے آئین مین "اسلامی" دفعات پڑھ کر خوش ہوتے رہیں اور یہی کہتے رہپں کہ آئین دراصل اسلامی ہے ، اصل مسئلہ صرف نفاذ کا ہے لیکن آئین کی تشریح کا حق آپ کو یا مجھے نہیں، بلکہ عدالت کو ہے اور اس کی تشریح حتمی مانی جاتی ہے ۔ اور ان کے کچھ فیصلے ملاحظہ کریں: Sec 2. “Islam shall be the State religion of Pakistan.’’ ریاست کا سرکاری مذہب اسلام ہو گا۔ But when this Article 2 came to be interpreted in the Court of Law, a  Full Bench of the Sindh High Court comprising 5 judges, headed by its Chief Justice,  held that: ‘‘Article 2 is incorporated in the Introductory Part of the Constitution and as far as its language is concerned, it merely conveys a declaration. The question arises as to the intention of the Makers of the Constitution by declaring that ‘‘Islam shall be the State religion of Pakistan.’’ Apparently, what the Article means is that in its outer manifestation the State and its Government shall carry an Islamic Symbol. This A...

ایک امت، ایک چاند، ایک رمضان اور ایک عید

تحریر: نوید بٹ اس سال روئیت ہلال کمیٹی کے سربراہ مفتی منیب الرحمن نے بڑے فخر سے اعلان فرمایا کہ اس دفعہ پورا پاکستان ایک دن رمضان شروع کر رہا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ اعلان درست نہ تھا کیونکہ نہ صرف پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین بلکہ وزیرستان کے مسلمان بھی ایک دن پہلے امت مسلمہ کے ساتھ رمضان کی شروعات کر چکے تھے۔ دوسرا اہم پہلو یہ کہ پاکستان نے قومیت کی بنیاد پر چاند قبول کرکے اپنے آپ کو امت مسلمہ سے الگ کر دیا اور امت کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا۔ مفتی منیب صاحب اس کے بارے میں کیا فرمائیں گے؟ کیا مفتی صاحب امت کو بتا سکتے ہیں کہ کہ قومیت پر مبنی روئیتِ ہلال کی اس بدعت کی شریعت سے کیا دلیل ملتی ہے۔  استعمار نے خلافت کا خاتمہ کر کے نہ صرف مسلمانوں کو چھوٹے چھوٹے حصوں تقسیم کر دیا بلکہ اس نے ہر حصے کو ایک مخصوص قومیت، قومی ترانہ، جھنڈا اور چاند بھی دے دیا۔ جھنڈے مسلمانوں کو سیاسی طور پر تقسیم کرنے کے لئے اور چاند امت کی مذہبی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لئے۔ لیکن اس سے زیادہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس نے ایسے افراد بھی عوام کے سروں پر بٹھا دئے جو اس تقسیم کو اسلام سے ث...