نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

کیا قرآن و حدیث میں صیغہ امر (حکمیہ انداز) لازما واجب یا فرض ہوتا ہے ۔ (اصول الفقہ)


مسلمان صرف وحی کی اتباع کرتے ہیں ۔ یہ وحی ہمارے پاس دو شکلوں میں موجود ہے : ایک وحی متلو۔۔۔ یعنی وہ وحی جس کی تلاوت کی جاتی ہے،اس سے مراد قرآن الکریم ہے ۔ اور دوسرے وحی غیر متلو ۔۔۔یعنی وہ وحی جس کی تلاوت نہیں کی جاتی ۔ اس سے مراد حدیث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا اور رسول اللہ ﷺکی زبان بھی عربی ہی تھی۔ اس لیے عربی زبان کا فہم ہونااز حد ضروری ہے تبھی ہم شرعی مآخذ سے احکامات کو ٹھیک ٹھیک اخذ کرسکیں گے ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے سورۃ یوسف کی آیت نمبر 2میں ارشاد فرمایا:
(انا انزلنَہٗ قرء ٰ نًا عربیًا لَّعلکم تعقلون )
’’بے شک ہم نے اس قرآن کو نازل کیا تاکہ تم سمجھو‘‘
تاہم محض عربی زبان کی سمجھ شرعی مآخذ سے احکامات کو اخذ کرنے کے لیے کافی نہیں ۔ عربی زبان کا فہم ہوناشرعی متن یعنی (shariah Text) کو سمجھنے کی مختلف شرائط میں سے ایک شرط ہے۔ کیونکہ یہاں مقصد احکامات کو ایک خاص (قانونی ) متن سے اخذ کرنا ہے۔ جس کے لیے عربی زبان کی سمجھ کے علاوہ مزید امور کی بھی ضرورت ہے جیسے کہ وہ قرآئن جو فرائض اور حرام امور کا تعین کرتے ہیں، عام حکم اور اس کی تخصیص ، مطلق اور مقید یا پھر ناسخ اور منسوخ وغیرہ۔
اس مضمون میں عربی زبان میں استعمال ہونے والے صیغہ امر یعنی حکم کے صیغے کو بیان کیا جائے گا۔
کچھ لوگوں نے شرعی متن میں امر کے صیغے کے استعمال کو اس عمل کے فرض ہونے کی دلیل سمجھا ہے۔ جبکہ کچھ مجتہدین کی رائے یہ ہے کہ کسی آیت یا حدیث میں صرف امر کے صیغے کی موجودگی اس عمل کو فرض قرار دینے کے لیے کافی نہیں۔ بلکہ کسی عمل کو فرض قرار دینے کے لیے اضافی قرائن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس بحث پر تفصیلی نگاہ ڈالنے سے قبل اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ قرآن و سنت میں احکامات کس طرح بیان کیے گئے ہیں :
قرآن اور سنت میں احکامات کس طرح بیان کیے گئے ہیں :
اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے قرآن میں مختلف افعال کاحکم مختلف اندازسے دیا ہے ، مثلاً:
۱) فرض، واجب یا اس سے اخذ کردہ کوئی اور اصطلاح استعمال کر کے: جیسے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
(انما الصدقت للفقرا والمساکین والعملین علیہا والمولفۃ قلوبھم و فی الرقاب و الغرمین و فی سبیل اللہ وابنِ السبیل فریضۃ من اللہ و اللہ علیمٌ الحکیم)
’’بے شک صدقات (یعنی زکوٰۃ) صرف فقراء، اور مساکین، اوران لوگوں کے لیے جنہیں زکوۃ اکٹھا کرنے پر مقرر کیا گیا، اور ان لوگوں کے دل جیتنے کے لیے جو کہ اسلام کی طرف مائل ہو چکے ہیں اور غلاموں کو آزاد کرانے کے لیے اور مقروض اور اللہ کی خاطر اور اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے اور مسافر کے لیے ہے ، اللہ کی طرف سے یہ فرض ہے اور اللہ سب سے بہتر جاننے والا اور حکمت والا ہے۔
اس آیت کے شروع میں زکوۃ کے مصارف کا ذکر کیا گیا ہے اور آیت کے اختتام پر فریضہ کا لفظ استعمال کیا گیا جس کا مطلب ہے کہ یہ بات اللہ کی طرف سے فرض کی گئی ہے۔ تاہم اس آیت میں امر کا صیغہ استعمال نہیں کیا گیااور یہ ایک indirectحکم ہے۔ تاہم قرآن میں کسی فرض کو بیان کرنے کے لیے ہر حکم کے ساتھ یہ نہیں کہا گیا کہ یہ حکم اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے۔ بلکہ اس کے لیے مختلف الفاظ استعمال کیے گئے ہیں: مثلاً
۲) اجر کی خوشخبری اور سزا سے خبر دار کر کے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ یہ اللہ کا حکم ہے۔ مثال کے طور پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَ مَن یَعصِ اللہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُودَہٗ یُدْ خِلْہُ نَارًا خَلِدًافِیھَا وَ لَہُ عَذَابٌ مُّھِینٌ
’’اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اس کی حدوں سے تجاوز کرے ، ہم اسے جہنم کی آگ میں داخل کریں گے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘
۳) کسی فعل کو طلبِ ایمان کے ساتھ منسلک کر کے: مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
(لقد کان لکم فی رسول اللّٰہ اسوۃ حسنۃ لمن کان یرجو اللّٰہ و الیوم الاخر)
’’تحقیق تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات میں بہترین نمونہ موجود، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ کی اور روزِ قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے‘‘
یعنی جو روزِ قیامت اللہ سے بھلائی کی امید رکھتا ہے اسے چاہئے کہ وہ رسول اللہ کی اسوۃ کے مطابق زندگی بسر کرے۔
۱) خبر یعنی اطلاع کی شکل میں ، جو کہ ماضی، حال یا مستقبل میں وقوع پزیر ہوئیں لیکن اس خبر سے اس کام کو سرانجام دینے کا حکم مراد ہے۔ مثال کے طور پر:
یا ایھاالذین امنوا کتب علیکم الصّیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون۔
اے ایمان والو تم پر روزے لکھ دیے گئے جیسا کہ تم سے پہلی قوموں پر فرض کیے گئے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو
یہ آیت ہمیں خبر دیتی ہے کہ ہم پر روزے لکھ دیے گئے ہیں جیسا کہ ہم سے پہلی قوموں پر لکھ دیے گئے تھے۔ یہ ایک indirect حکم ہے اس میں صیغہ امر استعمال نہیں کیا گیا یعنی یہ نہیں کہا گیا کہ تم روزے رکھو۔
حکم کے مندرجہ بالا اندازکے علاوہ قرآن میں کسی حکم کو بیان کرنے کے لیے امر کا صیغہ بھی استعمال کیا گیا ہے۔ صیغہ ا مر سے کیا مراد ہے ، اسے جاننے کے لیے آئیں ہم عربی گرائمر کی طرف رجوع کرتے ہیں:
عربی زبان میں استعمال ہونے والے صیغے اور صیغہ امر:
انگریزی اور اردو گرائمر کی طرح عربی گرائمر میںِ بھی ماضی اور حال کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ماضی کے صیغے کو فعل ماضی کہتے ہیں اور حال کے صیغے کو فعل مضارع کہا جاتاہے۔ ماضی کا صیغہ وہ ہے جو اس بات کو ظاہر کرے کہ کوئی کام ماضی میں کیا گیا یا پھر یہ کہ ایک کام کیا جا چکا ہے ۔ اور حال کا صیغہ وہ ہے جو یہ ظاہر کرے کہ ایک کام کیا جا رہا ہے یا پھر کیا جاتا رہے گا۔ مثال کے طور پر لفظ کَتَبَ۔ لفظ کتب کا مطلب ہے اس نے لکھا اور یہ ماضی کا صیغہ ہے کیونکہ یہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ایک کام ماضی میں کیا گیا۔ جبکہ یکتب حال کا صیغہ ہے ، جس کا مطلب ہے وہ لکھتا ہے یا وہ لکھے گا۔ اس کی کچھ اور مثالیں یہ ہیں : ضرب یہ ماضی کا صیغہ ہے جس کا مطلب ہے اس نے مارا، یضربو یہ حال کا صیغہ ہے جس کا مطلب ہے وہ مارتا ہے ، جلس یہ ماضی کا صیغہ ہے جس کا مطلبب ہے وہ بیٹھا اور یجلس یہ حال کا صیغہ ہے جس کا مطلب ہے وہ بیٹھتا ہے ۔ شرب ماضی کا صیغہ ہے جس کا مطلب ہے اس نے پیا ، اور یشرب حال کا صیغہ ہے جس کا مطلب ہے وہ پیتا ہے ۔
اس کے علاوہ عربی زبان میں امر کا صیغہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کا مطلب ہے کسی بات کا حکم دینا یا درخواست کرنا۔ مثال کے طور پر اُکْتُبْ یعنی لکھو ، اَضْرَبْ یعنی مارو، اِجْلِسْ یعنی بیٹھو، اِقْرَا پڑھو، اَشْرَبْ یعنی پیو۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کسی چیز کا حکم دینے کے لیے امر کا صیغہ بھی استعمال کیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہوا:
(و اقیمو الصلاۃ)
’’نماز قائم کرو‘‘
یہاں لفظ اقیمو امر کا صیغہ جس کے معنی ہیں تم قائم کرو۔
ااسی طرح اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
(و اذا حییتم بتحیۃ فحیوا باحسن منھا او ردوھا)
’’اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم جواباًاس سے اچھا سلام دو یا انہی الفاظ کو دوہرا دو‘‘
یہاں لفظ حیواامر کا صیغہ ہے جس کا مطلب ہے تم سلام کرو۔
پس ظاہر ہوا کہ امر کا صیغہ ان بہت سے اسالیب میں سے ایک ہے جن کے ذریعے قرآن و سنت میں احاکم شرعیہ کو بیان کیا گیا ہے اور یہ لازم نہیں کہ کسی حکم کو بیان کرنے کے لیے لازمی طور پر امر کا انداز ہی اختیار کیا جائے۔ فقہا میں اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ کاخطاب مندرجہ بالا طریقوں میں سے کسی بھی طریقے کے مطابق ہو سکتاجیسا کہ قرآن و سنت سے ظاہر ہے۔ البتہ اس بات پر بحث کی گئی کہ آیا امر کا صیغہ استعمال کرنے سے وہ عمل خودبخود فرضیت کے ضمرے میں داخل ہو جاتا ہے یا نہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ امر کا صیغہ استعمال کرنے کا مطلب ہے کہ وہ چیز فرض ہے جب تک کہ اس کے بر خلاف کوئی دلیل نہ ہو۔ جبکہ کچھ لوگوں کی رائے یہ ہے کہ صیغہ امر کے استعمال کا مطلب یہ نہیں کہ وہ عمل لازمی طو رپر فرض ہے بلکہ یہ کسی فعل کو سرانجام دینے کی درخواست ہے اور اسے فرض کے زمرے میں شامل کرنے کے لیے اضافی قرآئن کی ضرورت ہوتی ہے۔
ان لوگوں کے دلائل جو کہتے ہیں کہ صیغہ امر بذاتِ خود کسی عمل کو فرض نہیں بناتا بلکہ اس کے لیے اضافی قرآئن کی ضرورت ہوتی ہے:
اہل عرب نے امرکے صیغے کو درخواست کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔ لہٰذاصیغہ امر کے استعمال سے متعلق یہ بات ثابت کرنے کے لیے کہ اس سے مراد ہمیشہ طلب جازم یعنی فرض ہی ہے، کسی دوسری دلیل سے قطع نظر بذات خود عربی زبان سے دلیل پیش کرنا ضروری ہے۔ لیکن عربی زبان میں ہمیں ایسی کوئی دلیل نہیں ملتی کہ صیغہ امر کا استعمال کسی کام کے لیے طلب جازم کا مطالبہ کرتا ہے۔
قرآن و سنت میں امرکا صیغہ کئی معانی میں استعمال ہوا ہے۔ علامہ سیف الدین الآمدی نے اپنی کتاب الاحکام فی اصول الاحکام میں اس کی پندرہ صورتیں بیان کی ہیں۔ مثلاً
فرض عمل کو بیان کرنے کے لیے : اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : و اقیمو الصلوۃ و اتو زکوۃ اورنماز کو قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو ۔ یہاں لفظ اقیمو استعمال کیا گیا جو کہ امر کا صیغہ ہے اور جس کا مطلب ہے تم قائم کرو۔
مندوب عمل کو بیان کرنے کے لیے: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اِذَا سَمِعْتُمْ صِیاحَ الدِّیَکَۃِ فَاسْاَلُوْا اللّٰہ مِنْ فَضْلِہٖ ’’جب تم مرغ کی اذان سنو تو اللہ سے اس کے فضل کا سوال کرو۔ یہاں پر لفظ اسالو استعمال کیا گیا جو کہ امر کا صیغہ ہے جس کا مطلب ہے تم سوال کرو۔
کسی چیز کی اجازت دینے کے لیے : اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: و کلو ا و اشربوا اور کھاؤ اور پیو۔ کلو اور اشربو دونوں امر کے صیغے ہیں یعنی تم کھاؤ اور پئیو۔ ایک اور جگہ پر
دھمکی کے طور پر : سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 282میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا اعملو ما شئتم اِنَّہٗ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیر ’’ جو چاہو کروبے شک جو تم کرتے ہو اسے اللہ دیکھ رہا ہے۔ ‘‘ یہاں لفظ اعملو امر کا صیغہ ہے جس کا لفظی مطلب ہے کہ تم عمل کرو، تاہم آیت میں اسکا استعمال یہ ظاہر کر رہا ہے کہ یہاں اللہ تعالی کسی عمل کا حکم نہیں فرما رہا بلکہ اسے دھمکی کے طور پر استعمال کیا گیا ہے، یعنی تم بے شک جو چاہو کرو اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے ۔
اپنے احسان اور کرم کا اظہار کرنے کے لیے: سورت المائدہ کی آیت نمبر88میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا وَ کُلُو مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہ ’’اور کھاؤ ان چیزوں میں سے جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں مہیا کی ہیں۔ ‘‘ اس آیت میں لفظ کلو امر کا صیغہ ہے جس کا مطلب ہے تم کھاؤ لیکن یہاں پر اللہ تعالی کسی چیز کے کھانے کا حکم نہیں دے رہا بلکہ اپنے احسان اور کرم کو ظاہر کرتے ہوئے فرما رہا ہے کہ تم ان چیزوں میں سے کھاؤ جو اللہ تعالی نے تمہیں عطا کی ہیں۔
عزت و تکریم ظاہر کرنے کے لیے: سورۃ قٓ کی آیت نمبر 34میں اللہ سبحانہ و تعالی نے ارشاد فرمایا اُدْخُلُوھَا بِسَلٰمٍ ذٰلک یوم الخُلُود اور وہاں امن اور سلامتی سے داخل ہو جاؤ۔
ذلیل اور حقیر ظاہر کرنا: سورۃ الدخان کی آیت نمبر 49 اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ذق انک انت العزیز الکریم ’’اس کو چکھو تم اے طاقت اور عزت کے دعوے دارو‘‘
دعا ئیا اندازمیں: سورۃ آلِ عمرٰن کی آیت نمبر 194میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا رَبَّنَا اَتِنَا مَا وَ عَدتَّنَا عَلَٰی رُسُلِکَ ’’اے ہمارے رب ہمیں عطا کر جو تو نے ہم سے اپنے پیغمبروں کے ذریعے وعدہ فرمایا ہے‘‘ ۔ یہاں لفظ اتنا امر کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں دو، لیکن جملے کا پس منظر یہ ہے کہ اللہ سے دعا کی جا رہی ہے اور اس سے وعدے کے پورا ہونے کا سوال کیا جا رہا ہے۔
چیلنج اور دوسرے کی نا قابلیت کے اظہار کے طورپر: سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 23میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا، فاتوا بسورۃ من مثلہ ’’اس جیسی ا یک سورت ہی بنا لاؤ۔‘‘ یہاں لفظ اتو امر کا صیغہ ہے جس کے لفظی معنی ہیں: بنا کر لاؤ، لیکن یہاں بنا کر لانے کا حکم نہیں دیا جا رہا بلکہ کفار کو چیلنج دیا جا رہا ہے۔
تحقیر کے طور پر: جیسا کہ سورۃ یونس میں ارشاد ہوا:
فلما جاء السَّحَرَۃُ قَالَ لَھُمْ مُّوسٰٓی اَلْقُوْا مَا اَنْتُمْ مُّلْقُوْنَ
’’جب جادو گر آئے تو موسیٰ نے ان سے کہا،جو تم نے ڈالنا ہے ڈالو‘‘
یہاں لفظ القو امر کا صیغہ ہے۔ جس کا لفظی مطلب ہے تم ڈالو لیکن اس سے یہ مراد نہیں کہ موسیٰ علیہ سلام جادوگروں کو جادو دکھانے کا حکم دے رہے ہیں بلکہ یہاں ان کو بے وقعت ظاہر کرنا مقصود ہے کہ تم جو بھی جادو دلھا سکتے ہو دکھا دو۔
تعجب کے معنوں میں: جیسا کہ سورۃ الفرقان میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
(اُنْظُرکَیفَ ضَرَبُوْ لَکَ الْاَمْثَالَ)
’’دیکھو(اے رسول ) یہ تمہارے بارے میں کس طرح کی باتیں کرتے ہیں‘‘
یہاں لفظ انظر امر کا صیغہ ہے، جس کا لفظی مطلب ہے دیکھو لیکن یہاں مراد یہ نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا جا رہا ہے کہ وہ جا کر دیکھیں بلکہ اس کفار کی ان باتوں پر تعجب ظاہر کرنا مقصود ہے، جو وہ رسول اللہ ﷺ کے متعلق کہا کرتے تھے۔
تو گویا امر کا صیغہ کئی مختلف انداز سے استعمال کیا جا سکتا ہے اور یہ ضروری نہیں کہ اس کے ذریعے ہر مرتبہ کسی بات کا ہی حکم دیا جائے لہٰذا امر کے انداز میں وارد ہونے والے شرعی متن کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بات لازمی طور پرفرض ہو گی۔ دراصل یہ وہ صورت حال یا اس سے متعلقہ قرآئن ہیں جو کہ صیغہ امر کو فرض بناتے ہیں۔ چنانچہ اقیمو الصلوۃ میں امر کا صیغہ استعمال کیا گیا یعنی نماز کو قائم کرو لیکن صرف اس کی بنیاد پر نماز کی فرضیت ثابت نہیں بلکہ کئی دوسری آیات اور احادیث ہیں جو کہ نماز کی فرضیت بیان کرتی ہیں اور اس کے تارک کی مذمت کرتی ہیں اور جو لوگ نماز ادا نہیں کرتے ان کے لیے عذاب کی وعید سناتی ہیں۔ جیسا کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
(مَا سَلَکَکُمْ فِی سَقَر قالوا لَم نَکُ مِنَ الْمُصَلِّین)
’’ان سے پوچھا جائے گا کس چیز نے تمہیں دوزخ میں ڈالا تو وہ کہیں گے کہ ہم نماز ادا کرنے والوں میں سے نہ تھے‘‘
اگر ہم صیغہ امر میں موجود ہر حکم کو فرض قرار دے دیں تو پھر دو تین یا چار عورتوں سے شادی کا حکم خودبخود فرض کے دائرے میں داخل ہو جائے گا:کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالی نے ارشاد فرمایا : فَاَنْکِحُوا مَا طَابَ لَکُمْ مِنَ النِّسَآءِ مِثْنَیٰ وَ ثُلَٰثَ وَ رُبَعَ اور اپنی پسند کی عورتوں سے شادی کرو دو تین یا چار۔ یہاں پر لفظ فانکحو استعمال کیا گیا جس کو مطلب ہے : تم نکاح کرو اور لفظ فانکحو امر کا صیغہ ہے ۔ اسی طرح جمعہ کے بعد منتشر ہو جانا فرض قرار پائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا: فاذا قضیت الصلوۃ فانتشرو فی الارض و ابتغوا من فضل اللہ واذ کرو اللہ کثیرا لعلکم تفلحون۔ اور جب جمعہ کی نمازختم ہو جائے تو تم زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اوراللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تم فلاح پا سکو۔ یہاں پر لفظ فانتشرو استعمال کیا گیا جو کہ امر کا انداز ہے اور اس کا مطلب ہے تم منتشر ہو جاؤ۔ اسی طرح امر کے صیغہ کو فرض تسلیم کرنے پر احرام اتارنے کے بعد شکار کرنا فرض ہو جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ((وَ اذا حَلَلْتُم فَاصْطَادُو))’’اور جب تم احرام اتار دو تو شکار کرو‘‘ یہاں اصطادو امر کا صیغہ ہے جس کا مطلب ہے تم شکار کرو۔ اور اسی طرح حیض کے بعد بیوی سے صحبت کرنا فرض ہو جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا: ((فاذا تطھرن فاتوھن من حیث امرکم اللہ)) ’’جب وہ حیض سے پاک ہو جائیں تو جس طرح اللہ نے ارشاد فرمایا ہے ان کے پاس جاؤ ‘‘
اب ہم ان لوگوں کے دلائل کا مطالعہ کرتے ہیں جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ کسی شرعی متن میں صیغہ امر کا استعمال اس حکم کی فرضیت پر دلالت کرتا ہے:
۱) اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اپنے حکم کو نہ ماننے پر ابلیس کو ملعون قرار دیا۔ اور اللہ کے امر کی اتباع کرنا فرض ہے۔
۲) اللہ تعالیٰ نے اپنی کئی آیات میں ان لوگوں کی مذمت کی ہے جو اس کے حکم کی اتباع نہیں کرتے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمُ ا رْکَعُو لَا یَرْ کَعُونَ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے سامنے جھکو تووہ رکوع نہیں کرتے۔
۳) اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: فَلْےَحْذَرِ الَّذِےْنَ ےُخَالِفُونَ عَنْ اَمْرِہِ اَنْ تُصِیبَہُمْ فِتْنَتٌ اَوْ یصِیْبَہُمْ عَذَابٌ اَلِیمٌ اور جو رسول ﷺ کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرنا چاہیے کہ کہیں ان پر زبر دست آفت نہ آپڑے یا کوئی دکھ کی مار نہ پڑے۔
۴) سورۃ طہٰ میں امر کے صیغے کو حکم کے انداز میں استعمال کیاگیا جب موسیٰ ؑ نے اپنی قوم کو بچھڑے کی پوجا کرتے ہوئے دیکھا تو ہارون ؑ سے کہا: اَلاَّتَتَّبِعَنِ اَفَعَصَیْتَ اَمْرِیْ تو میرے پیچھے پیچھے آ جاتا تو بھی میرے حکم کا نافرمان بن بیٹھا ۔
۵) اور سورۃ الاحزاب میں ارشاد ہوا: (یَااَیُّھَاالَّذِینَ آمَنُوا استَجِیبُوا للِّٰہِ وَلِلرَّسُولِ اِذَادَعَاکُم لِمَایُحیِیکُم وَاعلَمُوا اَنَّ اللّٰہَ یَحُولُ بَینَ المَرءِ وَقَلبِہٖ وَاَنَّہ اِلَیہِ تُحشَرُونَ ) ’’اے ایمان والو ! اللہ او ر اس کے رسولﷺ کی پکار پر لبیک کہو‘ جب وہ تمہیں اُس چیز کی طرف بلائیں جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے ۔او رجان لو کہ اللہ تعالیٰ بندے اور اُس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتاہے۔او ریہ کہ تم اسکے پاس جمع کئے جاؤ گے۔ ‘‘
اس کے علاوہ جو دلیل ہیش کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی اتباع کرنا فرض ہے لہٰذا ہر امر کی اتباع فرض ہے۔
ان تمام آیات سے متعلق سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہمیں دو مختلف امور کے درمیان فرق کو ملخوطِ خاضر رکھنا چاہیے۔
اللہ کے احکامات کی اتباع کرنا فرض ہے اور اس کے متعلق کسی مسلمان کو کلام نہیں۔ اسی طرح احکامِ شریعہ سے منہ موڑنا یا ان کی نافرمانی کرنا بلا شک و شبہ حرام ہے اور یہ دو طریقوں سے ہو سکتا ہے اول یہ کہ اللہ کے حکم کو اعمال کا پیمانہ ماننے سے انکار کردینا یا اس کی نافرمانی کرنا۔ لیکن یہاں پر جس چیز کے متعلق بحث کی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ کسی معاملے میں اللہ کا حکم کیا ہے۔ آیا اللہ نے کسی عمل کو فرض قرار دیا ہے یا اللہ کو ایک مندوب عمل مطلوب ہے یا پھر یہ کہ یہ عمل مباحات کے زمرے میں آتا ہے۔
اللہ کے حکم کو اپنی مرضی سے مندوب کی بجائے فرض قرار دینا، یا کسی مباح عمل کو مندوب بنا دینا یا کسی فرض کو مباح قرار دے دینا جائز نہیں۔ اس بات کا تعین کہ کوئی حکم فرض ہے یا مندوب ، مباح ہے یا مکروہ یا پھر حرام ، شرعی متن سے ہوتا ہے۔ چنانچہ کسی مندوب عمل کو فرض کے طور پر ادا کرنا احکامِ شریعہ کی مخالفت کرنا ہے۔
چنانچہ کسی حکم کی اتباع کا مطلب اس حکم کی فرضیت نہیں بلکہ اس حکم کو شرعی حکم تسلیم کرنا ہے۔ اور اتباع کا مطلب ہے کہ اس حکم کو اسی طرح ادا کیا جائے جیسے کہ وہ نازل کیا گیا اور اس کے سامنے سرتسلیم خم کیا جائے اور اسے قبول کیا جائے۔ چنانچہ فرض کو فرض سمجھ کر ادا کرنا چاہیے اور مندوب عمل کو مندوب سمجھ کر ادا کرنا چاہیے۔ نتیجتاً اگر ایک شخص کسی عمل کو مندوب سمجھتا ہے اور اسے ادا نہیں کرتا تو وہ گناہ گار نہیں ۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص مسواک نہیں کرتا عشا سے قبل چار رکعت نفل ادا نہیں کرتا تواس پر گناہ گار ہونے کا حکم عائد نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ وہ اس مندوب عمل کو حقیر نہ سمجھے یا اس حکم کے مندوب ہونے سے انکار نہ کرے یا اسے مباح عمل سمجھے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص نے حکم شرعی کو تبدیل کردیا ہے۔ اسی طرح کسی مندوب کو فرجیت میں داخل کر دینا بھی جائز نہیں۔
جہاں تک اس کے حق میں پیش کی جانے والی پہلی اور دوسری دلیل کا تعلق ہے ، تو مذکورہ حکم بذات خود فرض ہے۔ ابلیس کا طرز عمل باغیانہ تھااور اتباع سے انکار پر مبنی تھاجو کہ حرام ہے۔ اسی طرح نماز ادا کرنا فرض ہے اور رکوع بھی فرض ہے ۔ تیسری مثال جو پیش کی گئی وہ سورۃ نور کی آیت ہے جس اس بات کا حکم دیا جا رہا ہے کہ جو کچھ رسول اللہ ﷺ لے کر آئے ہیں اس کی اتباع کرو، یعنی کہ اسلام اس کی اتباع کرو۔ اور یہ حکم محض ایک امر سے کہیں زیادہ چیزوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ سورۃ الاحزاب کی آیت کا موضوع اسلام کو بنیاد بنانا اور اس کی اتھارٹی کو تسلیم کرنا ہے ، یہ موضوع صیغہ امر کی شرعی حیثیت سے مختلف ہے۔ صیغہ امر سے متعلق دلائل کہ آیا اس کا استعمال کسی حکم کو فرض بناتا ہے یا نہیں ، شریعت کی اتباع اور اطاعت کرنے اور اسلام کو معاملات کی بنیاد بنانے سے مختلف موضوع ہے۔
ان آیات کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث کو بھی دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جب رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو اس وقت بلایا جب کہ وہ نماز پڑھ رہا تھا اور لیکن اس شخص نے جواب نہ دیا۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے اس شخص سے پوچھا کہ تم نے اپنی نماز کو چھوڑ کر میری بات کیوں نہ سنی جبکہ تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: (یَااَیُّھَاالَّذِینَ آمَنُوا استَجِیبُوا للِّٰہِ وَلِلرَّسُولِ اِذَادَعَاکُم لِمَایُحیِیکُم وَاعلَمُوا اَنَّ اللّٰہَ یَحُولُ بَینَ المَرءِ وَقَلبِہٖ وَاَنَّہ اِلَیہِ تُحشَرُونَ ) ’’اے ایمان والو ! اللہ او ر اس کے رسولﷺ کی پکار پر لبیک کہو‘ جب وہ تمہیں اُس چیز کی طرف بلائیں جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے ۔او رجان لو کہ اللہ تعالیٰ بندے اور اُس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتاہے۔او ریہ کہ تم اسکے پاس جمع کئے جاؤ گے۔ ‘‘
تاہم اگر ہم اس حدیث کو بغور مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس بات کو جانتے تھے کہ وہ شخص نماز پڑھ رہا ہے اور وہ شخص بھی یہ جانتا تھا کہ رسول اللہ ﷺ جانتے ہیں کہ میں نماز پڑھ رہا ہوں۔ اور رسول اللہ ﷺ جانتے تھے کہ نماز پڑ ھنا فرض ہے اور نماز کو کسی وجہ کے بغیر توڑنا حرام ہے ۔ لہٰذا رسول اللہ ﷺ نے اسے ایک اور فرض عمل کی طرف بلایا جسے پورا کرنا اس شخص کے لیے ضروری تھا ، رسول اللہ ﷺ اسے کسی وجہ کے بغیر نماز توڑنے کے لیے نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ رسول اللہ ﷺ کوئی حرام کام کرنے کا حکم دیں۔ چنانچہ یہ صورت حال رسول اللہ ﷺ کے اس حکم کو فرض کے درجے میں پہنچاتی ہے ۔ لہٰذا صرف امر کا صیغہ استعمال کرنے سے رسول اللہ ﷺ کا یہ حکم فرض نہیں بنا بلکہ جس صورت حال میںیہ حکم دیا گیا وہ اس حکم کی فرضیت پر دلالت کرتی ہے۔ علاوہ ازیں اگر صرف صیغہ امر کا استعمال کرنا فرض ہوتا تو رسول اللہ ﷺ آیت کو بیان نہ کرتے کیونکہ صیغہ امر ہی کافی تھا۔
فرض کی شرعی تعریف یہ ہے کہ یہ ایک ایسا عمل ہے جس کے بجا لانا قطعی حکم سے ثابت ہو اور اس کو پورا کرنے پر ثواب جبکہ اس کو ترک کرنے پر عذاب کی وعید ہو۔ اس کے مقابلے میں مندوب اس عمل کو کہتے ہیں جس کو بجا لانے کے لیے کہا گیا ہے لیکن اس کام کو کرنے کے لیے طلب ، طلب جازم نہیں۔ ہر صیغہ امر کو فرضیت کی دلیل سمجھنے کا مطلب قطعی اور غیر قطعی امر کے درمیان فرق کا انکار کرنا ہے جو کہ ایک لا یعنی بات ہے۔ کیونکہ ہمیں شریعت میں قطعی اور غیر قطعی حکم دونوں ملتے ہیں مثلاً فجر کی دو فرض رکعات کا مطالبہ قطعی ہے جبکہ تہجد کی نماز پڑھنے کا مطالبہ قطعی نہیں۔
وہ چیز جو صیغہ امر کو فرائض یا مباحات کے دائرے میں داخل کرتی ہے وہ مختلف اشارے، دلائل اور قرائن ہیں جن کا تعلق اس حکم سے ساتھ ہوتا ہے جیسے کہ حکم کس موقع پر نازل ہوا، حکم کے ساتھ عذاب یا ثواب کا ذکر، کچھ الفاظ کا بار بار دہرانا، کسی عمل پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے غصے کا اظہار، کسی عمل کی مذمت ، کسی عمل کے کرنے پر اللہ یا اسکے رسول کی لعنت ، کسی عمل کے نتیجے میں ایمان کی نفی، کسی عمل پر اسلام کی بقا کا دارو مدار، کسی عمل سے اسلام کی حفاظت ، کسی عمل پر کسی دوسرے فرض عمل کی تکمیل کا دارومدار وغیرہ ۔
مثال کے طور پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: (وَلتَکُنْ مِّنکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَأمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَروَاُولٰءِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ) (آل عمران:۱۰۴) ْْْْْْْْْْْْٗآ’’اورتم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جوخیر کی طرف دعوت دے اور امر بالمعروف او رنہی عن المنکرکا کام کرے ۔اور در حقیقت یہی لوگ کامیاب ہیں۔‘‘ اس آیت میں ایک گروہ کے قیام کاحکم دیا گیا ہے اور اس کا انداز ایک غیر جازم طلب کا ہے۔ لیکن اس آیت میں موجود قرینہ اس جماعت کی موجودگی کو طلبِ جازم یعنی فرض بناتا ہے اور وہ قرینہ یہ ہے کہ جس جماعت کے قائم کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے اس کا کام امر باالمعروف اور نہی عن المنکر ہے جو کہ ایک فرض عمل ہے ، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: وَالَّذِی نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَتَامُرَنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَ لَتَنْھَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِاَو لِیُوشَکَنَّ اللّٰہُ اَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْکُمْ عِقَابًا مِّن عِنْدِہٖ ثُمَّ لَتُدْ عَنَّہُ وَ لَا یَسْتَجَابَ لَکُمْ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے تم پر لازم ہے کہ تم نیکی کا حکم کرتے رہو اور برائی سے روکتے رہو ورنہ اللہ تم پر اپنا عذاب نازل کرے گا اور پھر دعا کرو گے اور وہ قبول نہیں کرے گا۔ لہٰذا اس جماعت کا قیام جس کا اس آیت میں ،مطالبہ کیاگیا ایک طلب جازم یعنی فرض ہے۔
اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: صومو لرویتہ و افترو لرویتہ فان غبی علیکم فاکملوا عدۃ شعبان ثلاثین یوما اس چاندکے دیکھے جانے پر روزہ رکھو اور اس کے دیکھے جانے پر روزے ختم کرو ۔ اگر مطلع ابر آلود ہو تو تو شعبان کے تیس دن پورے کرلو۔ اس حدیث میں چاند کے دیکھے جانے پر رمضان کے آغاز کرنے اور اس کے دیکھے جانے پر رمضان کے اختتام کا حکم دیا گیااور حدیث میں صیغہ امر استعمال کیا گیا ، لیکن جو قرینہ اس حکم کو فرض بناتا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی آیت کے ذریعے رمضان کے روزوں کو مسلمانوں پر فرض کیا اور رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث کے ذریعے اس فرض کو چاند کے دیکھے جانے کے ساتھ منسلک کیا یعنی فرض کے پوراکرنے کا دارمدار چاند کے دیکھے جانے پر ہے اور اس کے بغیر شرعی حکم کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے لہٰذا چاند کے دیکھے جانے پر روزہ رکھنا فرض ہے۔ نیز رسول اللہ ﷺ نے عید فطر اور عید الاضحیٰ کے دن روزہ رکھنے کو شیطان کا عمل بتایاجو اس بات کو قطعی بناتا ہے کہ چاند نظر آنے پر رمضان کا اختتام کرنا فرض ہے۔
مندرجہ بالا تمام بحث اس بات کو واضح کر دیتی ہے کہ قرآن و سنت سے احکامات کو اخذ کرنے کے لیے عربی زبان کی سمجھ اور قرآن کے اسلوب اور اندازِ بیان کا فہم ایک مجتہد کے لیے کس قدر اہم ہے۔ اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کس طرح اصولی قوائد کے اختلاف سے ایک ہی شرعی متن سے مختلف احکام اخذ ہوتے ہیں۔ میں اپنی بات کا اختتام ان الفاظ پر کرتا ہوں:
ربنا لا توا خذ ناان سینا او اختنا

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

خلافت کیا ہے؟

آج کل جمہوریت اور آمریت کی ناکامی کے بعد ایسے مواقع کثرت سے آتے ہیں کہ خلافت کا تذکرہ نکل آتا ہے۔ تاہم لوگ اس خلافت سے ایک رومانوی محبت محسوس کرنے کے باوجود فکری اور علمی طور پر اس نظام کے خدوخال سے واقف نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض کم فہم اور الجھے ہوئے لوگ یا اسلام دشمن لوگ مغربی نظام کو معمولی ردوبدل کے بعد خلافت کی روح قرار دے کر لوگوں کو sell کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پس کسی کو ناروے، ڈنمارک وغیرہ "عمری خلافت" دکھتا ہے تو کسی کو برطانوی جمہوریت "مدینہ کا ماڈل" دکھائی دیتا ہے۔ ایسے تمام دوستوں کی سمجھ کیلئے یہ مضمون پیش خدمت ہے جو خلافت کا ایک اجمالی خاکہ لوگوں کے سامنے پیش کرنے کی کوشش ہے تاکہ امت اپنے ڈائریکشن کا درست تعین کر سکے اور کوئی انھیں گمراہ نہ کر سکے۔ اسلامی ریاست یعنی خلافت: اسلامی خلافت صرف اسی وقت قائم تصور کی جاتی ہے جب اس میں تمام نظام اسلام سے ہی اخذ کئے گئے ہوں اوراتھارٹی بھی مسلمانوں کے ہاتھ ہو۔ خلافت میں اقتصادی نظام، حکومتی نظام، معاشرتی نظام، نظام عدل، خارجہ پالیسی اور تعلیمی پالیسی مکمل طور پر شرعی مصادر سے اخذشدہ ہوتی ہے۔ آئیے فر

خلافت قائم کرنے کا طریقہ

1)     چونکہ خلافت کا قیام ایک فرض ہے بلکہ یہ مسلمان کے اوہر سب سے بڑا فرض ہے ۔ اور چونکہ ایک فرض کے قائم کرنےکا طریقہ اللہ سبحان و تعالیٰ نے انسان پر نہیں چھوڑا بلکہ ہر فرض کے طرح اس فرض کا بھی طریقہ کار اسلام نے بتایا ہوا ہے۔ اور یہ طریقہ کار ہم نبیﷺ کی سیرت سے جان سکتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ریاست کیسےقائم کی تھی۔، بالکل ویسے جس طرح ہم نماز، روزے، حج، جہاد اور دیگر فرائض کا طریقہ نبیﷺ سے اخذ کرتے ہیں۔ 2)   اگر عقل پر چھوڑ دیا جائےتو مختلف طریقے ذہن میں آتے ہیں، جیسے حکمرانوں کو صرف دعوت سے قائل کرنا کہ اسلام قائم کریں، یا ان کے خلاف جنگ کر کے ان کو ملیا میٹ کر کے اسلامی نظام قائم کرنا، یا اس ملک میں مروجہ دستور اور قانون کے مطابق نظام میں حصہ لے کر اس نظام کے اوپر پہنچ کر اسلام کا نظام قائم کرنا یا تمام لوگوں کو تبدیل کرنا ، یہ سوچ کرکہ جب تمام لوگ سچے، پکے مومن بن جائیں گے تو اسلامی نظام خود ہی قائم ہو جائے گاوغیرہ۔ لیکن یاد رہے کہ یہ سب عقل و منطق (logic)   سے نکلنے والے طریقے ہیں ۔ اور انسانی عقل کامل نہیں اسلئے اس طریقوں کی اپنی خوبیاں اور خامیاں ہونگی۔  لیکن جو طریقہ اللہ سبحانہ

شرعی دلائل کی روشنی میں خلافت اور جمہوریت کا تقابلی جائزہ

                                                                                                نوید بٹ   اسلام کا طالب علم جب قرآن و سنت پر نظر ڈالتا ہے تو اسے ’’جمہوریت‘‘ سے متعلق کوئی آیت یا حدیث تو درکنار صحابہ، آئمہ مجتہدین یا فقہائ کا ایک قول بھی نہیں ملتا۔ حالانکہ انسانیت اسلام سے ہزاروں سال قبل جمہوریت سے روشناس ہو چکی تھی۔ وہ اس شش و پنج کا بھی شکار ہوتا ہے کہ اگر اسلام کا نظام حکومت جمہوریت ہی ہے تو پھر کیا یونانیوں نے اسلام کے آنے سے قبل ہی ازخود ’’اسلامی نظام حکومت‘‘ دریافت کر لیا تھا؟ کیا اس ’’اسلامی نظام حکومت‘‘ کے نفاذ سے انہوں نے ایک اسلامی معاشرے کو جنم دے دیا تھا؟ کیا وہ نہ جانتے ہوئے بھی اسلام پر ہی چل رہے تھے؟ لیکن تاریخ کے کسی گوشے میں بھی یونانی تہذیب اور اسلامی تہذیب میں مماثلت کا کوئی شائبہ تک نہیں ملتا۔ اگر رسول مقبول ا جمہوریت ہی دے کر مبعوث کئے گئے تھے تو پھر آپ اکو یہ ارشاد فرمانے میں کیا تردد تھا کہ وہ وہی نظام لے کر آئے ہیں جو ارسطو اور یونانی فلاسفر انسانیت کو پہلے ہی دے چکے ہیں؟ جبکہ اسلامی عقائد کے بارے میں آپ ا نے بڑے واضح انداز میں فرمایا تھا کہ آ

آئین پاکستان کی نام نہاد "اسلامی دفعات" اور اس پر پاکستان کی ہائیکورٹس اور سپریم کورٹس کے مصدقہ فیصلے

آپ اور میں اپنے خواہش کے مطابق بے شک پاکستان کے آئین مین "اسلامی" دفعات پڑھ کر خوش ہوتے رہیں اور یہی کہتے رہپں کہ آئین دراصل اسلامی ہے ، اصل مسئلہ صرف نفاذ کا ہے لیکن آئین کی تشریح کا حق آپ کو یا مجھے نہیں، بلکہ عدالت کو ہے اور اس کی تشریح حتمی مانی جاتی ہے ۔ اور ان کے کچھ فیصلے ملاحظہ کریں: Sec 2. “Islam shall be the State religion of Pakistan.’’ ریاست کا سرکاری مذہب اسلام ہو گا۔ But when this Article 2 came to be interpreted in the Court of Law, a  Full Bench of the Sindh High Court comprising 5 judges, headed by its Chief Justice,  held that: ‘‘Article 2 is incorporated in the Introductory Part of the Constitution and as far as its language is concerned, it merely conveys a declaration. The question arises as to the intention of the Makers of the Constitution by declaring that ‘‘Islam shall be the State religion of Pakistan.’’ Apparently, what the Article means is that in its outer manifestation the State and its Government shall carry an Islamic Symbol. This A

ایک امت، ایک چاند، ایک رمضان اور ایک عید

تحریر: نوید بٹ اس سال روئیت ہلال کمیٹی کے سربراہ مفتی منیب الرحمن نے بڑے فخر سے اعلان فرمایا کہ اس دفعہ پورا پاکستان ایک دن رمضان شروع کر رہا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ اعلان درست نہ تھا کیونکہ نہ صرف پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین بلکہ وزیرستان کے مسلمان بھی ایک دن پہلے امت مسلمہ کے ساتھ رمضان کی شروعات کر چکے تھے۔ دوسرا اہم پہلو یہ کہ پاکستان نے قومیت کی بنیاد پر چاند قبول کرکے اپنے آپ کو امت مسلمہ سے الگ کر دیا اور امت کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا۔ مفتی منیب صاحب اس کے بارے میں کیا فرمائیں گے؟ کیا مفتی صاحب امت کو بتا سکتے ہیں کہ کہ قومیت پر مبنی روئیتِ ہلال کی اس بدعت کی شریعت سے کیا دلیل ملتی ہے۔  استعمار نے خلافت کا خاتمہ کر کے نہ صرف مسلمانوں کو چھوٹے چھوٹے حصوں تقسیم کر دیا بلکہ اس نے ہر حصے کو ایک مخصوص قومیت، قومی ترانہ، جھنڈا اور چاند بھی دے دیا۔ جھنڈے مسلمانوں کو سیاسی طور پر تقسیم کرنے کے لئے اور چاند امت کی مذہبی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لئے۔ لیکن اس سے زیادہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس نے ایسے افراد بھی عوام کے سروں پر بٹھا دئے جو اس تقسیم کو اسلام سے ثابت