نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

امت خلافت کا نظام قبول کرنے کیلئے تیار ہے!


سوال: یہ آپ خلافت خلافت کرتے رہتے ہیں؟ مجھے تو گراؤنڈ پر کوئی خلافت کی بات کرتا نظر نہیں آتا؟ یہ خلافت کہاں ہے؟
جواب:
1) کون کہتا ہے کہ لوگ اسلام نہیں چاہتے یا لوگ خلافت کیلئے تیار نہیں! امریکی پیو ریسرچ نے پانچ سال تک انتہائی وسیع پیمانے پر مسلم امت کو سمجھنے کیلئے 39 ملکوں ، 38000 مسلمانوں سے 80 مختلف زبانوں میں سروے کیا ۔ اور اس سروے کے نتائج انتہائی شاندار ہیں۔ اس سروے کے مطابق 99 فیصد افغانی، 89 فیصد فلسطینی، 84 فیصد پاکستانی، 83 فیصد مراکشی، 74 فیصد مصری، 72 فیصد انڈونیشیائی، اور 71 فیصد نائیجیرین "مکمل اسلام کے نفاذ " کے حق میں ہیں۔
https://www.thenews.com.pk/archive/print/630230-84pc-of-pakistani-muslims-want-sharia,-says-pew-survey
http://www.pewforum.org/2013/04/30/the-worlds-muslims-religion-politics-society-beliefs-about-sharia/
2) 2011 میں پاکستان کے تیس بڑے شہروں اور 60 دیہاتوں میں عالمی سروے تنظیم MEMRB نے لوگوں سے "پاکستان میں کونسا نظام حکومت ہونا چاہئے" کا سوال کیا اور لوگوں کا جواب خلافت 53٪، مارشل لاء 22 فیصد، اور جمہوریت 11 فیصد جبکہ اسلامی جمہوریت صرف 2 فیصد کا جواب تھا۔ یاد رہے کہ لوگوں کی عام فہم میں اسلامی حکمران فوج کا کمانڈر انچیف بھی ہوتا ہے، اسلئے انھیں مارشل لاء بھی جمہوریت سے زیادہ بھاتا ہے، بشرطیکہ ان کی نظر میں وہ "اسلام کے خلاف" اقدامات نہ کرے، وگرنہ مشرف جیسوں کو وہ جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔
(http://duniyatimes.blogspot.com/2014/01/memrb-survey-report-about-ruling-system.html )
(https://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1101187547&Issue=NP_LHE&Date=20110309)

3) پاکستان کی 43 فیصد خواتین کے مطابق شوہر کا بیوی کو پیٹنا جائز ہے۔ Can you imagine? ۔ قطع نظر اس کے کہ یہ درست ہے یا غلط، اس سے بڑھ کر ایک عورت کی اللہ کی رضامندی کیلئے اپنی خواہشات کا گلہ گونٹنا کیا ہو سکتا ہے کہ انھیں جو اسلام لگتا ہے وہ اس کیلئے اپنی مار کو بھی برداشت کرنے پر تیار ہیں۔ ؟ پاکستان کے 98 فیصد خواتین پردے کے حق میں ہیں ، اور 32 فیصد چہرہ چھپانے کے حق میں ہیں۔
(https://tribune.com.pk/story/656864/respondents-from-muslim-countries-pick-appropriate-clothing-for-women/)
http://www.bbc.com/urdu/pakistan/2014/01/140122_pakistan_population_health_survey_zz.shtml
4) کیا مشرف جب آیا تھا تو دو کتوں کو ہاتھ میں پکڑ کر، اتاترک کو آئیڈیل ڈکلئیر کر کے سیکولر نظام کا نعرہ لے کر نہیں آیا تھا۔ اور یہی مشرف تین سال بعد "روشن خیال اعتدال پسند " اسلام کا نعرہ لگا رہا تھا۔ اور وہ جان گیا تھا کہ اسلام پاکستان کی رگ رگ میں پھیلا ہوا ہے۔ بےشک وہ فکری اسلام نہ ہو، لیکن یہ قوم اسلامی جذبات سے شدت سے لبریز ہے۔ اسلئے دھوکا صرف اسلام کے ذریعے ہی دیا جا سکتا ہے۔ عمران خان جیسے سیکولر لبرل کو کس پاگل کتے نے کاٹا ہے کہ تقریروں کو "ایاک نعبد و ایاک نستعین " سے شروع کرے اور ہر تقریر میں اعلان کرتا پھرے کہ وہ عمر فاروق کی خلافت راشدہ کو آئیڈیل سمجھتا ہے؟کیا آپ کو ممتاز قادری اور سلمان تاثیر کو جنازوں کا فرق نظر نہیں آتا؟ کیا آپ کو پاکستان کی تاریخ تحریک خلافت کی بنیاد پر بنتی نظر نہیں آتی جو برصغیر کے مسلمانوں کی پہلی سیاسی تحریک تھی جس کے دوران ہندوستان کی عورتوں نے 17000 سونے کی چوڑیاں خلافت عثمانی بھیجی؟ کیا آپ کو پاکستان کا مطلب کیا الا الہ الا اللہ پاکستان کے عوام کی رگوں میں دوڑتے خون کی مانند نظر نہیں آتا جس کیلئے ایک ملین مسلمانوں نے قربانیاں دی؟ کیا آپ کے ہر محلے سے افغانستان جہاد میں دو دو غازی اور ایک شہید نہیں بنے؟ کیا موجودہ جنگ میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگ ان امریکی ایجنٹوں کی جیلوں میں نہیں؟آخر کیوں؟ حتی کہ ان امریکی ایجنٹ حکمرانوں نے قبائلی جہادیوں کو شکست دینے کیلئے ہر حربہ آزمایا لیکن ناکام رہے اور آخرکار اسلام کا حربہ ہی انھیں شکست دینے میں کارآمد ہوا جب انھوں نے احادیث کی تاویلات کر کے "خوارج" کا نظریہ پیش کرکے پاکستان میں ان کے خلاف رائے عامہ بنوائی۔ پس یہ امت دھوکا بھی کھاتی ہے تو صرف اسلام سے!!! آج ہر دوسرا سکول آکسفورڈ اور اسلامی تعلیمات کا بنڈل پیش کر رہا ہے، کیوں؟ ہر ٹی وی چینل پرائم ٹائم میں اسلامی پروگرام پیش کر رہے ہیں جو پہلے پی ٹی وی کے دور میں صرف رات 12 بجے فرمان الہی ہوا کرتا تھا۔ مدارس اور مسجدیں 70 کی دہائی سے 4-5 گنا زیادہ ہو چکی ہیں (اگرچہ حکومتی سرپرستی میں پروان چڑھی فرقہ واریت بھی موجود ہے)، جس میں اس وقت صرف چند بوڑھے نماز پڑھتے تھے، آج جوانوں سے بھری ہوئی ہیں۔
4) آج تمام کی تمام جہادی تنظیمیں ، مقامی اور بین الاقوامی،صرف اور صرف خلافت کے نعرے پر منتقل ہو چکی ہیں۔ حتیٰ کہ جو امارت اسلامی کا نام بھی لیتے ہیں، وہ بھی اسے خلافت کی پہلی سیڑھی سمجھتے ہیں۔ کیا امت مسلمہ میں کون ہے جو امت کو ایک نہیں ہوتے دیکھنا چاہتا۔ 2011 کےعرب بہار میں امت اسلام کے علاوہ بھلا اور کونسے نعرے پر اٹھی اور پانچ حکومتیں گرا ڈالی۔ "اشعب یرید اسقاط النظام"(ہم اس نظام کا انہدام چاہتے ہیں) کے نعرے کا کیا مطلب تھا؟ کونسا نظام۔ یہ برطانوی، فرانسیسی اور اب امریکی استعماری نظام کاانہدام اور واپس اسلامی خلافت کی بحالی۔
5) اگر امت خلافت نہیں چاہتی تو امریکہ کو داعش کی شکل میں ایک جعلی خلافت بنا کر اسے بدنام کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی، قطع نظراس کہ اس کے ذریعے بعض مخلص لوگوں کو بھی استعمال کیا گیا، لیکن امریکہ آخر ایک "ولن" جیسی خلافت بنا کیوں رہا تھا اور ان کے ذریعے وحشیانہ اقدامات کیوں کروا کر خلافت کے نظام کو بدنام کرنا چاہتا تھا؟ کیونکہ خلافت ان کے سر پر کھڑی ہے۔
6) ہماری اسلامی جمہوری جماعتیں، مدارس اور علماء بھی مختلف موقع پر خلافت کی دہائی دینی شروع ہو گئی ہیں۔ جمہوریت کا ٹائی ٹینک پوری امت کے سامنے ڈوب رہا ہے ۔ اور اگر آج مین سٹریم میڈیا صرف ایک ہفتہ یہ موضوع زیر بحث لائے تو آپ امت کا رسپانس دیکھ لیں گے۔ کفار اس امت سے مایوس ہو چکے ہیں۔ ان کے تھنک ٹینک ہر گزرتے دن رپورٹس پر رپورٹس لکھ رہے ہیں کہ ان کا امت کے اندر پروجیکٹ ناکام ہو چکا ہے۔ امت کا جہاد اور اسلام کے ذریعے منہ توڑ جواب نے ان کے جبڑے ہلا کر دکھ دئیے ہیں۔ دل و دماغ کی جنگ وہ سرکاری طور ہار چکے ہیں۔ مسلمان گلیاں ان کے ہاتھوں سے نکل چکی ہیں۔
7) امت کے جذبات ایک جیسے ہیں۔ برما، فلسطین، افغانستان ہو یا شام۔ امت ایک طرح سوچتی ہے۔ کشمیر سے لے کر افغانستان، پوری امت برما کے درد کو محسوس کرتی رہی۔ شام کیلئے روتی رہی۔ یہ ایک سادہ سی مثال دیکھ لیں ۔ جب الجیریا اور فلسطین کا فٹبال میچ ہے اور الجیریا کے عوام اپنے ملک کی جگہ فلسطین کی حمایت کر رہے ہیں۔
https://www.facebook.com/hizbaust/videos/776806069119051/?hc_ref=ARSU1Md5d4CFyHpS3o7vPiMe8YQmBGsnxIj1Y1dhA1UrcfAKekVPfNIZhhrtfau8bbo)
8) یہ ایک غلط نظریہ ہے کہ جب تک امت ساری کی ساری اسلام پر نہ چلیں، تب تک اسلام نہیں آ سکتا۔ اگست 19177 میں روس میں کمیونسٹ انقلاب سے پہلے کتنے فیصد عوام کمیونزم کو سمجھتے تھے، سوائے اس بنیادی سوچ کے کہ موجودہ جاگیردار اور سرمایہ دار ظالم ہیں، ہمیں لوٹ کھسوٹ رہیں ہیں، اور ہمارا استحصال کرتے ہیں اور جب انقلاب آئے گا تو سب کو دو روٹی ملے گی. اور بس!
کمیونسٹ مفکرین نے کمیونزم کی فکر کو موٹے نعروں کی شکل میں عوام تک سیاسی انداز میں پہنچایا. جب انقلاب آیا تو تب اس فکر کی گہرائی کو ریاست، تعلیم، سیاست اور ابلاغ کے ذریعے عوام تک پہنچایا گیا، حتی کہ ایک کروڑ لوگوں کو جلایا اور ایک کروڑ لوگوں کو جلا وطن بھی کیا گیا. یہ ریاست چند ہی سالوں میں سپر پاور بن گئی.
1740 اور 1790 میں برطانیہ اور فرانس میں سرمایہ دارانہ انقلاب آیا. اس انقلاب کے آنے سے پہلے کتنے فیصد لوگ سرمایہ داری، لبرلزم کی سوچ کی گہرائیوں سے واقف تھے. وہ بس یہ جانتے تھے کہ چرچ ظالم اور دھوکےباز ہے، اور ہمیں اپنی مرضی جینے کا حق ہونا چاہیے. اور انقلاب کے بعد ہم چرچ اور بادشاہ کے چنگل سے نجات حاصل کر لیں گے. یہ تو جب یہ انقلاب آیا تو اس کے بعد سرمایہ داریت کی سوچ گہرائی سے ریاست، تعلیم، ابلاغ اور سیاست کے ذریعے عوام تک پہنچی. اور یہ ریاستیں بھی جلد ہی سپر پاور بن گئی.
مدینہ منورہ میں جب ریاست قائم ہوئی تو ایک تہائی سے بھی کم مسلمان تھے، وہ بھی تازہ تازہ. جو اسلامی احکامات کی تفصیلات سے ابھی ناواقف تھے.( سوائے سوا سو مہاجر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اجمعین کے، جن کی تربیت ہو چکی تھی ). مدینے کے لوگ تو اوس خزرج کی لڑائیوں سے عاجز آ چکے تھے. سیاسی استحکام کی تلاش میں تھے. جب ایک نبی کی آمد کا سنا تو سوچا کہ یہود سے پہلے اس نبی کریم( ص)کو اپنا لیا جائے، جو ہمیں متحد کر دے گا. اسلام کا پیغام دل جو لگا. یہ تو ریاست کے قیام کے بعد مدینے کے مسلمانوں کی تربیت ہوئی جس نے انھیں کندن بنا دیا...
روس میں انقلاب سے ایک دن پہلے بھی لوگ پچھلے نظام کے مطابق ہی چل رہے تھے.. ایسا ہی برطانیہ اور فرانس میں تھا، اور ایسا ہی مدینہ میں تھا. نظام قائم ہونے سے پہلے لوگ پچھلے نظام کے مطابق ہی چل رہے ہوتے ہیں. ہاں تبدیلی لانے کیلئے لازم ہے کہ وہ موجودہ نظام سے بیزار، عاجز اور نئے نظام کی خواہش، تمنا اور آرزو رکھتے ہوں. اور ایسا تینوں انقلابات میں تھا.
لوگوں سے یہ طمع رکھنا کہ نظام قائم ہونے سے پہلے نئے نظام کا مکمل شعور رکھتے یو، خام خیالی، ذہنی بلوغت کی کمی، سطحی سوچ اور معاشروں کی ساخت اور تعامل سے ناواقفیت ہے. نئے نظام کی حمایت، چاہت اور موجودہ نظام سے بیزار ہونا ہی دراصل نئے نظام کیلئے لوازم ہیں.
9) 80 فیصد لوگ سود کے باعث اکاؤنٹ نہیں کھولتے، جو کھولتے ہیں وہ بھی کرنٹ اکاؤنٹ۔ 99.9 فیصد کریڈٹ کارڈ نہیں بناتے، کوئی انشورنس نہیں کرتا، کوئی ٹیکس نہ دے اگر ان کا بس چلے، لیکن زکواۃ جتنی بنتی ہے، اس سے زیادہ دیتے ہیں. قطار میں پانچ منٹ انتظار نہیں کرتے، دو منٹ میں نماز جنارے میں قطاریں بنا لیتے ہیں، خواہ ہزاروں ہو. ٹریفک اشارے پر 25 سیکنڈ نہیں رکتے، 30 سال زنا سے بچنے کیلئے انتظار کر لیتے ہیں. جمہوریت ملیا میٹ ہو جائے، آئین پامال ہو جائے، اک جوں ان پر نہیں رینگتی، قرآن یا رسول اللہ ص کی بے حرمتی پر دیوانہ وار نکل آتے ہیں. اتنی برے معاشی حالات کے باوجود سڑک پر نہیں نکلے لیکن اسلام سے متعلقہ قانون کو ذرا سا کوئی چھیڑے بھی تو سڑک پر گولیاں بھی کھا لیتے ہیں۔ یہ اسلام سے والہانہ عقیدت نہیں تو کیا ہے؟ یہ بہرصورت نظام نافذ کرنے کے لیے کم از کم کے درجے سے بہت اعلٰی درجہ ہے. لوگ اس نظام پر دو آنے کا اعتبار نہیں کرتے. نہ ان عدالتوں پر، نہ سیاستدانوں پر. ان سے کہو کہ پارلیمنٹ پر بم گر جائے تو تمہیں افسوس ہو گا، آپ جانتے ہیں کہ صرف کنٹرول میڈیا کے علاوہ کہیں افسوس نہیں ہو گا، بلکہ جشن ہو گا. امت مجموعی طور پر نوے کی دہائی میں اسلام کے نظام کو قبول کرنے کا درجہ کراس کر چکی ہے.
10) جب لوگ وحدت اور اسلام کے نظام سے متفق ہیں، تو یہ خلافت نہیں تو اور کیا ہے۔ مین سٹریم دو دن اس کی بات کرے تو ابھی ہر سو خلافت خلافت ہو جائے۔
11) آخر میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر لوگ اسلام چاہتے ہیں تو اسلامی پارٹیوں کو ووٹ کیوں نہیں دیتے تاکہ ملک میں شریعت قائم ہو جائے؟
اس کی کئی وجوہات ہیں؛
اول) جمہوری الیکشن اس لئے نہیں ہوتے کہ یہ فیصلہ کیا جائے کہ ملک میں کونسے نظام کو نافذ کیا جائے؟ یہ "عوام کونسا نظام چاہتے ہیں" کا ریفرنڈم نہیں. اگر آپ واقعی یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ عوام کونسا نظام ملک میں چاہتے ہیں تو ووٹ کی پرچی پر "جمہوریت، آمریت، خلافت" لکھ کر ریفرنڈم کر لیں. پھر دیکھیں کہ لوگ کیا چاہتے ہیں، گر خلافت، شریعت یا اسلام نہ چاہیں، تو جو چور کی سزا وہ میری سزا. اس طرح کے محدود پیمانے پر کئے جانے والے سروے پہلے ہی 84، 85 فیصد "سخت شریعت" کے حق میں ثابت ہو چکے ہیں. اب بےشک بڑا ریفرنڈم کر لیں.
دوم) جمہوری الیکشن میں عوام کچھ بڑے سیاسی ایشوز پر پارٹیوں کے موقف، یا پھر لوکل مسائل کے حل کے لئے بہتر سیاستدان، یا برادری وغیرہ کی جانب جاتے ہیں تاکہ ان کے برادری کے مسئلے، ٹرانسفارمر، نوکری، پکی گلی، گیس کنکشن وغیرہ حل ہو سکے. دوہراتے ہوئے، یہ ملک میں کیا نظام نافذ ہو گ کا الیکشن نہیں( بےشک اسلامی جماعتیں اس سے یہ خودساختہ مفہوم نکالتی رہیں کہ "چونکہ وہ ہمیں ووٹ نہیں دے رہی، اس لئے وہ ابھی اسلام نہیں چاہتے"، یہ ان کی خام خیالی ہے). اسلامی جماعتیں اکثر اوقات دعوی کرتی ہیں کہ وہ ٹرانسفارمر، نوکری اور پکی گلی کی سیاست نہیں کرتی، تو پھر ان سیاسی ایشوز پر عملاً اسلامی جماعتوں کا کوئی بہادرانہ موقف بھی تو نہیں، بلکہ ان کے موقف انتہائی پھسپھسے،" حکمت " کے نام پر کمپرومائز، اور غیر واضح ہیں. مثلاً کونسی اسلامی جماعت کہتی ہے کہ ہم حکومت میں آ کر کشمیر کو افواج پاکستان کے جہاد سے آزاد کرائیں گے. یا افغانستان ایگزٹ پلان مستقل قبضے کا دھوکا ہے، اور ہم حکومت میں آتے ہی امریکہ سے اتحاد ختم کر دیں گے. یہ تو خود اسلامی موقف سے شرماتے ہیں، تو عوام کیسے ان پر بھروسہ کریں. انھوں نے لوڈشیڈنگ کا حل عمران خان اور نواز شریف سے کس طرح مختلف دیا ہے؟ انھوں نے صرف نعرے سے بڑھ کر کونسی اسلامی پالیسی پیش کی ہے جو انقلابی نوعیت کی ہو؟ پس وہ عوام کو کس چیز کا دوش دیتے ہیں. عوام نے 2001 میں اسلامی جماعتوں کو یہ سوچ کر ووٹ نہیں دیا کہ یہ لوگ امریکی جنگ کے خلاف ہیں؟ لیکن 17 ویں ترمیم یو، یا 21 ویں، یہ جماعتیں کیا کر سکی؟.
سوم) جب لوگ MNA کیلئے ووٹ دیتے ہیں تو ان کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ وہ ایک ایسے عملی انسان کو ووٹ دینا چاہتے ہیں جو ان کے مسائل حل کر سکے، نہ کہ ایسا بندہ جس سے وہ نماز کے مسائل اور نکاح و طلاق کے احکامات پوچھ سکیں. تو جب ہمارے علماء کرام ریاست کی انڈسٹریلائزیشن، ماحول، توانائی، روزگار، زراعت، درآمدات، زرمبادلہ کے بارے میں اسلام کے احکامات پیشکش کرنے سے قاصر ہیں تو وہ عملی لوگ تو نہ رہے نہ. عملی لوگ تو سیکولر ہی ہوئے نہ. لوگوں کے مسئلے تو وہی لوگ( غلط یا صحیح ) ڈیل کر رہے ہیں، تو ووٹ تو انھی کو ملے گا. ہاں لوگ مسجد کی امامت کیلئے ان سیکولر لوگوں کو کبھی ووٹ نہیں دیں گے. صرف اسلام اسلام کا سلوگن اور نعرے سے تو بات نہیں بنتی نا.
پس اصل ایشو یہ نہیں کہ لوگ اسلام نہیں چاہتے. اصل ایشو، جمہوری الیکشن کو لوگوں کے اسلام چاہنے نہ چاہنے کا معیار بنانا ہے. کسی دوست نے کیا خوب لکھا، کہ "جاہل" عوام تو بالکل خلافت چاہتی ہے، بس ہمارے کچھ "اہل علم" دوست اس کے مخالف ہے.
12) یہ طمع رکھنا کہ لوگ توحید کی قسموں کو نہیں سمجھتے، یا وہ بدعت کرتے ہیں، یا ان کا ایمان نہیں بنا، یا ان کے عمل ٹھیک نہیں، اسلئے نظام نہیں آ سکتا یا مستحکم نہیں ہو گا، یہ صرف ریاست، اسلام اور معاشروں کو نہ سمجھنے کے باعث ہے. اسلام فرشتوں پر نافذ نہیں ہوتا، یہ کمزور گناہگار، غیر خالص مسلمانوں پر نافذ ہوتا ہے. تین سال مدینہ میں حکومت کے بعد بھی احد میں 1000 میں تین سو منافق تھے. جو واپس آ گئے تھے.
کیا لوگ سود چاہتے ہیں؟ یا چکلے کھولنے کی ڈیمانڈ کر رہے ہیں؟ کیا لوگ اس عدالتوں کے نظام کے خواہاں ہیں، جو لاکھوں خاندانوں کی زندگیاں ویران کر چکی ہیں؟ کیا لوگوں ان ٹیکسوں سے خوش ہیں؟ یا وہ بجلی، گیس کے بلوں سے محبت کرتے ہیں؟ کیا انھوں دہشتگردی کی جنگ سے پیار ہے، یا بھوک، ننگ اور گردوں کی فروخت سے؟ یا وہ اپنی بہن بیٹیوں اور اولاد کیلئےفحاشی کے دلدادہ ہیں؟ کیا ہمارے لوگوں نے سعودی عرب سے آ کر وہاں کے زبردستی کے پردے کی شکایتیں کی ہیں؟ یا وہ فلسطین، کشمیر، شام، برما کے مظالم کوانجوائے کرتے ہیں؟ یا انھیں یہ غلامی کی خارجہ پالیسی سے سکون ملتا ہے؟ یا وہ توہین رسالت کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرتے ہیں؟ یا وہ روزگار اور تنخواہوں اور کاروبار کی فراوانی سے پھولے نہیں سما رہے؟ یا انھیں پردے اور نماز سے شدید ترین نفرت ہے؟ یا وہ ان حکومتوں اور نظام کو i love you کارڈ بھیجتے ہیں؟ کیا ہمیں کچھ نظر نہیں آتا؟
صبح شام مزاروں، غیر اللہ سے مانگنے جیسے شرکوں پر فوکس کرنا، جو کہ ریاست بہت کم وقت میں تربیت، میڈیا، شعور بڑھانے اور کچھ رٹ کے ذریعے ہینڈل کر سکتی ہے، ذہنی بلوغت کی کمی ہے. یاد رکھیں، پاکستان میں غالب نکتہ نظر ان مزاروں کے شرکوں کے خلاف ہے. یہ اصل ایشو نہیں. اصل ایشو کی جگہ پر توحید توحید کی گردان کرنا اور اس سے آگے کا کوئی پروگرام نہ ہونا کہ اسے نافذ کیسے کیا جائے، ایک ٹرک کی بتی ہے، جیسے ایمان مکمل ہونا ایک لامتناہی ٹرک کی بتی جیسا ہے.
امت خلافت کیلئے بالکل تیار ہے، بس ہمیں اپنے paradigm سے باہر دیکھنے کی صلاحیت پیدا کرنی ہے.
(محمد عمران)

تبصرے

  1. عمران بھائی اگر ایسا ہے تو لوگ افغانستان میں جہازوں کے ٹائر سے لٹک کر امریکہ کیوں جانا چاہتے ہیں

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

کیا قرآن و حدیث میں صیغہ امر (حکمیہ انداز) لازما واجب یا فرض ہوتا ہے ۔ (اصول الفقہ)

مسلمان صرف وحی کی اتباع کرتے ہیں ۔ یہ وحی ہمارے پاس دو شکلوں میں موجود ہے : ایک وحی متلو۔۔۔ یعنی وہ وحی جس کی تلاوت کی جاتی ہے،اس سے مراد قرآن الکریم ہے ۔ اور دوسرے وحی غیر متلو ۔۔۔یعنی وہ وحی جس کی تلاوت نہیں کی جاتی ۔ اس سے مراد حدیث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا اور رسول اللہ ﷺکی زبان بھی عربی ہی تھی۔ اس لیے عربی زبان کا فہم ہونااز حد ضروری ہے تبھی ہم شرعی مآخذ سے احکامات کو ٹھیک ٹھیک اخذ کرسکیں گے ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے سورۃ یوسف کی آیت نمبر 2میں ارشاد فرمایا: (انا انزلنَہٗ قرء ٰ نًا عربیًا لَّعلکم تعقلون ) ’’بے شک ہم نے اس قرآن کو نازل کیا تاکہ تم سمجھو‘‘ تاہم محض عربی زبان کی سمجھ شرعی مآخذ سے احکامات کو اخذ کرنے کے لیے کافی نہیں ۔ عربی زبان کا فہم ہوناشرعی متن یعنی (shariah Text) کو سمجھنے کی مختلف شرائط میں سے ایک شرط ہے۔ کیونکہ یہاں مقصد احکامات کو ایک خاص (قانونی ) متن سے اخذ کرنا ہے۔ جس کے لیے عربی زبان کی سمجھ کے علاوہ مزید امور کی بھی ضرورت ہے جیسے کہ وہ قرآئن جو فرائض اور حرام امور کا تعین کرتے ہیں، عام حکم اور اس کی تخصیص ، مطلق اور مقید ی

خلافت کیا ہے؟

آج کل جمہوریت اور آمریت کی ناکامی کے بعد ایسے مواقع کثرت سے آتے ہیں کہ خلافت کا تذکرہ نکل آتا ہے۔ تاہم لوگ اس خلافت سے ایک رومانوی محبت محسوس کرنے کے باوجود فکری اور علمی طور پر اس نظام کے خدوخال سے واقف نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض کم فہم اور الجھے ہوئے لوگ یا اسلام دشمن لوگ مغربی نظام کو معمولی ردوبدل کے بعد خلافت کی روح قرار دے کر لوگوں کو sell کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پس کسی کو ناروے، ڈنمارک وغیرہ "عمری خلافت" دکھتا ہے تو کسی کو برطانوی جمہوریت "مدینہ کا ماڈل" دکھائی دیتا ہے۔ ایسے تمام دوستوں کی سمجھ کیلئے یہ مضمون پیش خدمت ہے جو خلافت کا ایک اجمالی خاکہ لوگوں کے سامنے پیش کرنے کی کوشش ہے تاکہ امت اپنے ڈائریکشن کا درست تعین کر سکے اور کوئی انھیں گمراہ نہ کر سکے۔ اسلامی ریاست یعنی خلافت: اسلامی خلافت صرف اسی وقت قائم تصور کی جاتی ہے جب اس میں تمام نظام اسلام سے ہی اخذ کئے گئے ہوں اوراتھارٹی بھی مسلمانوں کے ہاتھ ہو۔ خلافت میں اقتصادی نظام، حکومتی نظام، معاشرتی نظام، نظام عدل، خارجہ پالیسی اور تعلیمی پالیسی مکمل طور پر شرعی مصادر سے اخذشدہ ہوتی ہے۔ آئیے فر

خلافت قائم کرنے کا طریقہ

1)     چونکہ خلافت کا قیام ایک فرض ہے بلکہ یہ مسلمان کے اوہر سب سے بڑا فرض ہے ۔ اور چونکہ ایک فرض کے قائم کرنےکا طریقہ اللہ سبحان و تعالیٰ نے انسان پر نہیں چھوڑا بلکہ ہر فرض کے طرح اس فرض کا بھی طریقہ کار اسلام نے بتایا ہوا ہے۔ اور یہ طریقہ کار ہم نبیﷺ کی سیرت سے جان سکتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ریاست کیسےقائم کی تھی۔، بالکل ویسے جس طرح ہم نماز، روزے، حج، جہاد اور دیگر فرائض کا طریقہ نبیﷺ سے اخذ کرتے ہیں۔ 2)   اگر عقل پر چھوڑ دیا جائےتو مختلف طریقے ذہن میں آتے ہیں، جیسے حکمرانوں کو صرف دعوت سے قائل کرنا کہ اسلام قائم کریں، یا ان کے خلاف جنگ کر کے ان کو ملیا میٹ کر کے اسلامی نظام قائم کرنا، یا اس ملک میں مروجہ دستور اور قانون کے مطابق نظام میں حصہ لے کر اس نظام کے اوپر پہنچ کر اسلام کا نظام قائم کرنا یا تمام لوگوں کو تبدیل کرنا ، یہ سوچ کرکہ جب تمام لوگ سچے، پکے مومن بن جائیں گے تو اسلامی نظام خود ہی قائم ہو جائے گاوغیرہ۔ لیکن یاد رہے کہ یہ سب عقل و منطق (logic)   سے نکلنے والے طریقے ہیں ۔ اور انسانی عقل کامل نہیں اسلئے اس طریقوں کی اپنی خوبیاں اور خامیاں ہونگی۔  لیکن جو طریقہ اللہ سبحانہ

شرعی دلائل کی روشنی میں خلافت اور جمہوریت کا تقابلی جائزہ

                                                                                                نوید بٹ   اسلام کا طالب علم جب قرآن و سنت پر نظر ڈالتا ہے تو اسے ’’جمہوریت‘‘ سے متعلق کوئی آیت یا حدیث تو درکنار صحابہ، آئمہ مجتہدین یا فقہائ کا ایک قول بھی نہیں ملتا۔ حالانکہ انسانیت اسلام سے ہزاروں سال قبل جمہوریت سے روشناس ہو چکی تھی۔ وہ اس شش و پنج کا بھی شکار ہوتا ہے کہ اگر اسلام کا نظام حکومت جمہوریت ہی ہے تو پھر کیا یونانیوں نے اسلام کے آنے سے قبل ہی ازخود ’’اسلامی نظام حکومت‘‘ دریافت کر لیا تھا؟ کیا اس ’’اسلامی نظام حکومت‘‘ کے نفاذ سے انہوں نے ایک اسلامی معاشرے کو جنم دے دیا تھا؟ کیا وہ نہ جانتے ہوئے بھی اسلام پر ہی چل رہے تھے؟ لیکن تاریخ کے کسی گوشے میں بھی یونانی تہذیب اور اسلامی تہذیب میں مماثلت کا کوئی شائبہ تک نہیں ملتا۔ اگر رسول مقبول ا جمہوریت ہی دے کر مبعوث کئے گئے تھے تو پھر آپ اکو یہ ارشاد فرمانے میں کیا تردد تھا کہ وہ وہی نظام لے کر آئے ہیں جو ارسطو اور یونانی فلاسفر انسانیت کو پہلے ہی دے چکے ہیں؟ جبکہ اسلامی عقائد کے بارے میں آپ ا نے بڑے واضح انداز میں فرمایا تھا کہ آ

آئین پاکستان کی نام نہاد "اسلامی دفعات" اور اس پر پاکستان کی ہائیکورٹس اور سپریم کورٹس کے مصدقہ فیصلے

آپ اور میں اپنے خواہش کے مطابق بے شک پاکستان کے آئین مین "اسلامی" دفعات پڑھ کر خوش ہوتے رہیں اور یہی کہتے رہپں کہ آئین دراصل اسلامی ہے ، اصل مسئلہ صرف نفاذ کا ہے لیکن آئین کی تشریح کا حق آپ کو یا مجھے نہیں، بلکہ عدالت کو ہے اور اس کی تشریح حتمی مانی جاتی ہے ۔ اور ان کے کچھ فیصلے ملاحظہ کریں: Sec 2. “Islam shall be the State religion of Pakistan.’’ ریاست کا سرکاری مذہب اسلام ہو گا۔ But when this Article 2 came to be interpreted in the Court of Law, a  Full Bench of the Sindh High Court comprising 5 judges, headed by its Chief Justice,  held that: ‘‘Article 2 is incorporated in the Introductory Part of the Constitution and as far as its language is concerned, it merely conveys a declaration. The question arises as to the intention of the Makers of the Constitution by declaring that ‘‘Islam shall be the State religion of Pakistan.’’ Apparently, what the Article means is that in its outer manifestation the State and its Government shall carry an Islamic Symbol. This A

ایک امت، ایک چاند، ایک رمضان اور ایک عید

تحریر: نوید بٹ اس سال روئیت ہلال کمیٹی کے سربراہ مفتی منیب الرحمن نے بڑے فخر سے اعلان فرمایا کہ اس دفعہ پورا پاکستان ایک دن رمضان شروع کر رہا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ اعلان درست نہ تھا کیونکہ نہ صرف پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین بلکہ وزیرستان کے مسلمان بھی ایک دن پہلے امت مسلمہ کے ساتھ رمضان کی شروعات کر چکے تھے۔ دوسرا اہم پہلو یہ کہ پاکستان نے قومیت کی بنیاد پر چاند قبول کرکے اپنے آپ کو امت مسلمہ سے الگ کر دیا اور امت کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا۔ مفتی منیب صاحب اس کے بارے میں کیا فرمائیں گے؟ کیا مفتی صاحب امت کو بتا سکتے ہیں کہ کہ قومیت پر مبنی روئیتِ ہلال کی اس بدعت کی شریعت سے کیا دلیل ملتی ہے۔  استعمار نے خلافت کا خاتمہ کر کے نہ صرف مسلمانوں کو چھوٹے چھوٹے حصوں تقسیم کر دیا بلکہ اس نے ہر حصے کو ایک مخصوص قومیت، قومی ترانہ، جھنڈا اور چاند بھی دے دیا۔ جھنڈے مسلمانوں کو سیاسی طور پر تقسیم کرنے کے لئے اور چاند امت کی مذہبی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لئے۔ لیکن اس سے زیادہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس نے ایسے افراد بھی عوام کے سروں پر بٹھا دئے جو اس تقسیم کو اسلام سے ثابت