نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

قیام خلافت کے منہج کے شرعی دلائل


آج کل مغربی تہذیب کے زیر اثر یہ عام سی بات ہے کہ ہر چیز کو "مفاد" یا pragmatism کی بنیاد پر دیکھا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ امور جو شریعت نے مقرر کر دئیے ہیں، ان کو بھی ہم اپنی کوتاہ بینی کے باعث اللہ کے احکامات کے طور پر لینے کے بجائے ایسے ڈسکس کرتے ہیں کہ یہ کتنا ممکن ہے، کتنا اچھا ہے، کتنا مشکل ہے اور کتنا ناممکن ہے۔ اور اسے بھی ایک تجزیاتی چیز بنا دیا ہے۔ اس کی وجہ وہی غلط اصول ہے کہ اسلام نے کچھ موٹے اصول دئیے ہیں اور اس کے بعد سب تفصیلات ہم پر چھوڑ دی ہیں۔ حالانکہ اسلام نے ہمارے تفصیلی رہنمائی کی ہے۔ ہمیں دراصل سمجھنا ہے کہ منہج اللہ کے احکام ہوتے ہیں، جبکہ اسالیب وقت کے ساتھ بدلتے ہیں۔ اور اصول فقہ اور دلائل سے اس کا علم ہو گا کہ کیا چیز منہج کا حصہ ہے اور کیا شے اسالیب ہے، یہ ہم اپنی لاجکس سے تعین نہیں کر سکتے۔
اگلے صفحات میں خلافت کے قیام کے مختلف سٹیجز، اور ان کے شرعی دلائل دئیے ہیں اور بتایا ہے کہ کس طرح سے اس منہج میں مختلف کام کئے جاتے ہیں۔ یقیناً یہ ایک شرعی اجتہاد ہے اور اس سے اختلاف کی گنجائش ہے۔ لیکن شرعی اجتہاد سے اختلاف شرعی دلائل پر کیا جاتا ہے۔ تجزئیوں اور pragmatism سے نہیں۔ علماء سے گزارش ہے کہ ان دلائل کا مطالعہ کریں۔ کہ کس طرح رسول اللہﷺ نے ریاست قائم کی۔ کیونکہ خلافت صرف ایک دفعہ قائم ہوئی ہے۔ اس کے بعد اس کا پھیلاؤ اور دفاع تو ضرور ہوا لیکن دوبارہ یہ ریاست قائم نہیں ہوئی۔ اور یہی مکی دور کی جدوجہد سے مدینہ میں قائم ہونے والی جدوجہد ہی شرعی منہج ہے۔ یہ طریقہ کار نہ تو منسوخ ہوا ہے۔ نہ ہی اس میں کوئی ترمیم ہوئی ہے۔ اور اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ ہم مکی دور میں رہ رہے ہیں اور مدینہ میں نازل ہونے والے فرائض ہم پر فرض نہیں۔ ہم خلافت کے قیام کا منہج اس جدوجہد سے اخذ کرتے ہیں جس جدوجہد سے نبی کریم ﷺ اور صحابہ نے ریاست قائم کی۔
نیچے دئیے گئے اجتہاد کی دیگر تفصیل، دیگر طریقہ کار کی شرعی غلطیاں وغیرہ سب اس مضمون کے آخر میں ایک لنک میں دئیے گئے کتاب میں دی گئی ہیں۔ ان تفصیلات کیلئے وہ کتاب ملاحظہ کریں!
پہلے مرحلہ کے دلائل
قرآن:
( یٰٓاَیُّھَا الْمُدَّثِّرُُ، قُمْ فَاَنْذِرْ، وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ، وَثِیَا بَکَ فَطَھِّرْ، وَالرُّجْزَ فَاھْجُرْ)۵-۱:۴۷
(اے کپڑا اوڑھنے والے، کھڑا ہو جا اور آگاہ کردے، اور اپنے رب کی بڑائیاں بیان کر،
اپنے کپڑوں کو پاک رکھا کر، اور ناپاکی کو چھوڑ دے)
لفظ ِ‘قُمْ’سے مرادحقیقی قیام بھی ہوسکتا ہے اور دعوت کے کام کے لیے مستعد اور تیار ہونا بھی یعنی آپؐ ہمت کرکے خلقِ خدا کی اصلاح کی خدمت سنبھالیئے۔ لفظ ِ‘ ثیاب’ثوبکی جمع ہے، اس کے حقیقی معنی کپڑے کے ہیں اورمجازی طور پر قلب اور عمل کو بھی ثوب اور لباس کہا جاتا ہے، نیز انسان کے جسم کو بھی لباس سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ بطو ر عمو م مجاز کے اگر ان الفاظ سے سبھی معنی مراد لئے جاویں تو معنی اس حکم کے یہ ہونگے کہ اپنے کپڑوں اور جسم کو ظاہری ناپاکیوں اور قلب و نفس کو باطل عقائد و اعمال سے پاک رکھئے۔ آخری آیت میں لفظ ِ‘رُجز’کو اس جگہ پر ا ہلِ تفسیر نے بُت یا گناہ و معصیت قرار دیا ہے۔ لہذا معنی آیت کے یہ ہیں کہ بتوں کو یا گناہ و معصیت کو چھورئیے۔ [۷[ ان باتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے دروس سے صحابہ کرام کی جو ذہنی صفائی ہوئی، اس میں اس دور کے مشرکانہ افکار کے اسلامی فکر سے تضاد کو سمجھنا شامل تھا تاکہ ان دونوں کے مابین فرق واضح اور شفاف ہوجائے۔ یوں ذہنوں میں اسلامی فکر شرک کی آ لودگی سے پاک ہو جاوے اورا س سے مکمل طور پر بچنا اور اسے چھوڑنا ممکن ہوسکے۔
سنت: پہلی آیت کے نزول کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اپنی دعوت ِ اسلامی کا آغاز کیا اور اس کے لیے شروع میں آپؐ لوگوں کے گھر جاتے۔ پیغامِ الٰہی کو لوگوں کے سامنے، پرجوشی اور عزم کے ساتھ، پیش کرتے اور آپ ؐ نے سب کو، خواہ وہ قریبی ہوں یا غیر، آزاد ہوں یا غلام، اللہ کی طرف پکارا اور لوگوں کے راضی یا ناراض ہونے کی کچھ پرواہ نہ کی۔ [۸۲[پہلے تین سال دعوت کا سلسلہ ایک ایک دودو افراد کے ساتھ جاری رہا(یعنی انفرادی نوعیت کی دعوت)۔[۷[ام المومنین خدیجہؓ کے بعدپہلے حضرت علیؓ ابن ابی طالب اسلام لائے، پھر حضرت زیدؓ ابن حارثہ اور ان کے بعد حضرت ابو بکر ؓ۔ اسلام لانے کے بعد حضرت ابو بکر ؓ کو جن دوستوں اور ہم نشینوں پر اعتماد ہوتا، ان کو آپؓ راہ ِ راست کی طرف بلاتے۔ آ پ کی راہنمائی سے حضرت عثمانؓابن عفّان، زبیرؓابن عوام، سعدؓ ابن ابی وقاص اور طلحہؓ ابن عبیداللہ اسلام سے روشناس ہوئے۔ دعوت کے نتیجہ میں کئی اور لوگ بھی اسلام میں داخل ہوئے۔[۸۲[ دوسرے مرحلہ کے آغاز تک مسلمانوں، مرد و عورتوں، کی کل تعداد چالیس کے قریب تھی۔ [۹۲[
قرآن:
(اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْماً فَاٰوٰی ، وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَھَدٰی، وَوَجَدَکَ عَآءِلاً فَاَغْنٰی،... وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ)۰۱-۶:۳۹
(کیا اس نے تجھے یتیم پا کر جگہ نہ دی؟ اور تجھے راہ بھلا پاکر ہدایت نہیں دی؟
اور تجھے نادار پا کر تونگر نہیں بنا دیا؟.... اور اپنے رب کی نعمتوں کو بیا ن کرتا رہ)
طبریؒ کے مطابق’فحدث‘ کے معنی یہ ہیں کہ اس کو بیان کرو اوراس کی طرف بلاؤ۔[۰۳[ آخری آیت سے مراد یہ ہے کہ آپؐ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا لوگوں کے سامنے ذکر کیا کریں کہ یہ بھی ایک طریقہ شکر گزاری کا ہے۔[۷[چنانچہ یہاں ایک اہم اسلامی فکر‘ شکر’کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی عظمت پر فکروتدبر کی دعوت دی جارہی ہے۔
سنت: اس حکم کی تعمیل وبیان میں رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا، جو اس نے آپؐ اور اپنے بندوں پر کی ہیں، ذکر فرمانے لگے اور جس پر آپ ﷺ کو اطمینان ہوتا، خفیہ طور سے اس کو کلمات ِ حق سمجھاتے۔ [۸۲[دارالارقم کو رسول اللہ ﷺ نے جماعت سازی کا مرکز بنایا اور یہاں قرآنِ پاک کی تفہیم ہوا کرتی۔ [۹۲[
قرآن:
(یٰٓاَیُّھَا الْمُزَّمِّلُ، قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلاً ، نِصْفَہُ اَوِانْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلاً، اَوْزِدْعَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرتِیْلاً، اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلاً ثَقِیْلاً،...رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغرِبِ لَآاِلٰہَ اِلَّا ھُوَ فَتَّخِذْہُ وَکِیْلاً ، وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَاھْجُرْھُمْ ھَجْرًا جَمِیْلاً،...اِنَّ رَبَّکَ یَعْلَمُ اَنَّکَ تَقُوْمُ اَدْنٰی مِنْ ثُلُثَیِ الَّیْلِ وَنِصْفَہُ وَ ثُلُثَہُ وَطَآءِفَۃٌ مِّنَ الَّذِیْنَ مَعَکَ)۰۲-۱:۳۷
(اے کپڑے میں لپٹنے والے،رات کے وقت نماز میں کھڑے ہوجاؤ مگر کم،آدھی رات یا اس سے بھی کچھ کم کرلے،یا اس پر بڑھا دے اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر (صاف) پڑھا کر،یقیناً ہم تجھ پر بہت بھاری بات عنقریب نازل کریں گے،....مشرق و مغرب کا پروردگار جس کے سوا کوئی معبود نہیں تو اسی کو اپنا کارساز بنالے، اور جو کچھ وہ کہیں تو سہتا رہ اور وضعداری کے ساتھ ان سے الگ تھلگ رہ،....آپ کا رب بخوبی جانتا ہے کہ آپ اور آپ کے ساتھ کے لوگوں کی ایک جماعت قریب دو تہائی رات کے اور آدھی رات کے اور ایک تہائی رات کے تہجد پڑھتی ہے)
سنت: پہلی آیات میں رات کو نماز ِ تہجد میں صرف کرنے کا حکم ہے۔ بغویؒ احادیث کی بنا پر کہتے ہیں کہ اس حکم کی تعمیل میں رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام ؓ رات کے اکثر حصہ کو نمازِ تہجد میں صرف فرماتے تھے یہاں تک کہ ان کے قدم ورم کر جاتے۔ ایک سال بعد مسلمانوں کے لیے تخفیف کا حکم ہوا یعنی فرض کو استحباب میں بدل دیا گیا مگر حضور ﷺ پر اس نماز کی فرضیت جاری رہی۔ [۱۳[ صحابہ کرام ؓ کا یہ قاعدہ ہوا کرتا تھا کہ اپنی قوم اور قبیلہ سے پوشیدہ پہاڑوں کی گھاٹیوں میں نماز پڑھا کرتے تھے۔ [۸۲[چوتھی آیت میں‘ترتیل’کے لفظی معنی کلمہ کو سہولت اور استقامت کے ساتھ منہ سے نکالنے کے ہیں۔ [۲۳[ مطلب آیت کا یہ ہے کہ تلاوت ِ قرآن میں جلدی نہ کریں بلکہ ترتیل و تسہیل کے ساتھ ادا کریں اور ساتھ ہی ان کے معانی میں تدبّر وغور کریں۔ [۳[اگلی آیت میں‘ثقیل’کے معنی بھاری، بوجھ، وزن دار کے ہیں۔ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ مستقبل میں آپؐ کو ایک بھاری ذمہ داری (دعوت ِاسلامی) اٹھانا پڑے گی۔ اس آیت میں اس طرف اشارہ پایا جاتاہے کہ نماز ِ تہجد کا حکم اس لیے دیاگیا ہے کہ انسان مشقت اٹھانے کا خوگر بنے اور اس کے ذریعہ ثقیل بھوجل احکام (جن میں کفر کے خلاف فکری و سیاسی جدوجہد کے اصول شامل ہیں) کی برداشت آسان ہوجائے جو قرآن میں نازل ہونے والے ہیں یعنی آپ ﷺ کو جو قرآن کی خدمت سپرد ہونے والی تھی اس مشقت سے بڑی مشقت ہے۔ چھٹی آیت میں لفظ ِ‘وکیل’سے لغت میں وہ شخص مراد ہے جس کو کوئی کام سپرد کیا جائے۔ اس آیت کا مفہوم یہ ہوا کہ اپنے سب کاروبار، معاملات اور حالات کو اللہ کے سپرد کرو، اسی کا نام اصطلاح میں توکّلہے۔ اس سے پہلے اللہ کی صفت رَبُّ الْمشْرِقِ وَ الْمَغرِبِ بیان کر کے اس طرف اشارہ کردیا کہ جو ذات ِ پاک سارے جہان کی پالنے والی ہے اور ان کی تمام ضروریات ابتدا سے انتہا تک پورا کرنے کی متکفّل ہے، توکّل اور بھروسہ کرنے کے قابل صرف وہی ذات ہوسکتی ہے اور اس پر بھروسہ کرنے والاکبھی محروم نہیں رہ سکتا۔ اگلی آیت میں دعوت کے نتیجہ میں ایذاؤں اور گالیوں پر صبرِ جمیل(انتقام کا ارادہ بھی نہ کرنے)کا حکم دیا گیا ہے۔ لفظ ِ‘صبر’کے لفظی معنی اپنے نفس کو روکنے اور قابو میں رکھنے کے ہیں۔ اس لئے صبر کے مفہوم میں یہ بھی داخل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی پر اپنے نفس کو قائم رکھے اور یہ بھی داخل ہے کہ اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں سے نفس کو روکے اور یہ بھی داخل ہے کہ مصائب اور تکالیف میں اپنے اختیار کی حد تک جزع فزع اور شکایت سے بچے۔ سورۃ ِ المدثر میں آپؐ کو جو حکم دیا گیا ہے کہ عام خلقِ خدا تعالیٰ کو دینِ حق کی طرف دعوت دیں اور کفر وشرک اور معاصی سے روکیں، اس میں یہ ظاہر ہے کہ اس کے نتیجہ میں بہت سے لوگ مخالفت وعداوت اور ایذاء رسانی پر آمادہ ہو جائیں گے اس لئے داعیِ حق کو صبرو ضبط کا خوگر ہونا چاہیے۔[۷[ آخری آیت میں لفظ ِ‘طائفۃ’سے قرآن میں اس بات کی تصدیق ہے کہ آپؐ کے ساتھ مسلمانوں کا ایک (خاص) گروہ ہوا کرتا تھا۔ یہی وہ جماعت ہے جس کی آپؐ ذہنی تربیت فرماتے اور ان کو مشقت کا عادی بناتے تاکہ اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط ہوجائے، یہاں تک کہ یہ لوگ مستقبل یعنی دوسرے مرحلے میں آنے والی آزمائشوں کو خوب برداشت کر نے کے قابل بن سکیں۔
ان تمام دلائل سے پہلے مرحلے کی سرگرمیاں ثابت ہوتی ہیں جوکہ مندرجہ ذیل ہیں:
۱) آپ ؐ کا ایک جماعت تشکیل دینا۔
۲) آپؐ نے سب کو عام دعوت دی اور اس وجہ سے مکہ میں اسلام کا چرچا ہونا شروع ہوا مگر مسلمانوں کی یہ جماعت کہاں ملتی ہے اور یہ کونسے لوگوں پر مشتمل ہے، اس بات کو کفار ِ مکہ سے پوشیدہ رکھا گیا۔
۳) آپؐ کو جس پر اطمینان ہوتا اسے اس جماعت میں شریک کرلیتے اور دوسرے (مشکل) مرحلے کے لیے اس جماعت کی نفسی و روحانی اور ذہنی تیاری کا اہتمام ہوتا۔ نفسی و روحانی تیاری نمازوعبادت کے ذریعہ ہوتی اور ذہنی تیاری اسلامی افکار میں رنگنے سے۔ ان افکار سے جماعت کے ارکان کو آپس میں مربوط کیا گیا اور انہی کے ذریعہ سے ان لوگوں کی جماعت سازی ہوئی۔ اس تدریس و تثقیف کے سلسلہ میں کفریہ افکار کے بطلان وفسادکوظاہر کیا گیااور ان کو اسلامی افکار سے رد کیاجاتا تاکہ یہ جماعت اسلامی فکر کے سانچے میں پوری طرح سے ڈھل جائے۔ ان افکار کی مثالیں یہ ہیں: اللہ تعالیٰ کے وجود کے دلائل، رسالت ِ محمد ﷺ کے دلائل، صداقت ِ قرآن کے دلائل، آخرت، رزق، نصر، توکل، صبر، اجل، شکر وغیرہ۔
نیچے انہی کے چند قرآنی نمونے پیش کیے جارہے:
اللہ کا وجود:
(وَ مِنْ اٰیٰتِہِ الَّیْلُ وَالنَّہَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لَا تَسْجُدُوْا وَلِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوْا لِلّٰہِ اَلَّذِیْ خَلَقَھُنَّ اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ)۷۳:۱۴
(اور دن رات اور سورج چاند بھی (اسی کی) نشانیوں میں سے ہیں،تم سورج کو سجدہ نہ کرو نہ چاند کو بلکہ اس اللہ کے لیے کرو جس نے ان سب کو پیدا کیا ہے اگر تمہیں اسی کی عبادت کرنی ہے تو)
صبر:
(اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْآ اَنْ یَّقُوْلُوْآ اٰمَنَّاوَھُمْ لَایُفْتَنُوْنَ)۲:۹۲
(کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ان کے صرف اس دعوے پر کہ ہم ایمان لائے ہیں ہم انہیں بغیر آزمائے ہوئے ہی چھوڑ دیں گے)
توکل:
(مَثَلُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَوْلِیَآءَ کَمَثَلِ الْعَنْکَبُوْتِ اِتَّخَذَتْ بَیْتًا وَاِنَّ اَوْھَنَ الْبُیُوْتِ لَبَیْتُ الْعَنْکَبُوْتِ لَوْکَانُوْا یَعْلَمُوْنَ)۱۴:۹۲
(جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کارساز مقرر کر رکھے ہیں ان کی مثال مکڑی کی سی ہے کہ وہ بھی ایک گھر بنا لیتی ہے، حالانکہ تمام گھر وں سے زیادہ بودہ گھر مکڑی کا گھر ہی ہے، کاش وہ جان لیتے)
(وَ کَاَیِّنْ مِّنْ دَآبَّۃٍ لَّاتَحْمِلُ رِزْقُھَا اللّٰہُ یَرْزُقُھَاوَاِیَّاکُمْ وَھُوَالسَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ)۰۶:۹۲
(اور بہت سے جانور ہیں جو اپنی روزی اٹھائے نہیں پھرتے،ان سب کواور تمہیں بھی اللہ تعالیٰ ہی روزی دیتا ہے، وہ بڑا سننے جاننے والا ہے)
نصر:
(وَالَّذِیْنَ جٰھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِ یَنَّھُمْ سُبُلَنَا وَاِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْن)۹۶:۹۲
(اور جو لوگ ہماری راہ میں مشقتیں برداشت کرتے ہیں ہم انھیں اپنی راہیں ضرور دکھا دیں گے،یقیناً اللہ تعالیٰ نیکو کاروں کا ساتھی ہے)
موت:
(کُلُّ نَفْسٍ ذَآءِقَۃُ الْمَوْتِ، ثُمَّ اِلَےْنَا تُرْجَعُوْنَ)۷۵:۹۲
(ہر جاندار موت کا مزہ چکھنے والا ہے اور تم سب ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤگے)
دوسرے مرحلہ کے دلائل
ْقرآن:
(فاَصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ)۴۹:۵۱
(پس آپ اس حکم کو جو آپ کو کیا جا رہا ہے کھول کر سنا دیجئے اور مشرکوں کی پرواہ مت کیجئے)
حضرت ابن عباسؓ نے‘اصْدَعْ’کا ترجمہ‘ظاہر کرنا’کیا ہے۔ [۱۳[ اور اس کے معنی‘کھول کر بیان کرنے’کے بھی آئے ہیں۔ [۸۱[ لفظ ِ‘تؤمر’امر سے مشتق ہے اور اس کا مطلب‘حکم دینا ’ہے۔ یہاں اس لفظ کا استعمال وجوب کا قرینہ ہے یعنی یہ آیت اعلانیہ دعوت ِاسلامی کے لازم ہونے پر دلالت کررہی ہے۔ اس اعلانیہ دعوت کے نتیجہ میں مشرکین کی طرف سے جو مخالفت متوقع ہے اس کی ہرگز پرواہ نہ کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے یعنی دعوت ِحق کو روکنے کے لیے مشرکین جو بھی حربے استعمال کریں، ان سے آپ ؐ اس (طریقہ ِ دعوت کے) حکم سے ہٹ نہ جائیں بلکہ اس پر ثابت قدم رہیں۔
سنت: پس آپؐ نے اس حکم کے بعد مشرکوں کے معبودوں کی عیب جو ئی، ان کو برا بھلا، بے وجود اور باپ دادا کو جاہل و گمراہ کہنا شروع کیا جس کے بعد مشرک آپؐ کے مزاحم ہوئے جوکہ اس سے پہلے نہ تھے۔[۸۲[ ان کی مخالفت وایذارسانیوں میں مال و دولت وغیرہ کی پیشکش، مذاق اور جھوٹی افوائیں اڑانا، نفسیاتی و جسمانی اذیتیں دینا اور مسلمانوں سے مقاطعہ شامل ہے۔ ان تمام تکالیف اور آزمائشوں کے باوجود یہ جماعت ثابت قدم رہی اور کلمہ ِ حق کی راہ میں قربانیاں دینے میں اس نے کبھی گریز نہیں کیا۔ جب قریش کے وفد نے رسول اللہ ﷺ کو اس دعوت سے ہٹنے کی قیمت پیش کی تو اس پر آپؐ کا یہ جواب تھا:
’‘یَا عَمِّ! وَاللّٰہِ لَوْ وَضَعُوْا الشَّمْسَ فِی یَمِیْنِی وََالْقَمَرَ فِی یَسَارِی عَلَی أَنْ اَتْرُکَ ھَذَا الأَمْرَ حَتَّی یُظْھِرَہُ اللّٰہُ أَوْأُہْلَکَ فِیْہِ’‘[۸۲[
(اے میرے چچا! اگر یہ لوگ میری دائیں طرف سورج اور بائیں طرف چاند بھی لا کر رکھ دیں تب بھی میں اس کام کو نہیں چھو ڑ سکتا یہاں تک کہ خدا اس کو پورا کردے یا میں خود اس میں ہلاک ہوجاؤں)
آپؐ کا اس کے لیے اپنی جان دینے کا قول بھی اس عمل کے وجوب کا قرینہ ہے۔ یعنی اگر کفار کے عقائد واعمال پر تنقید اور ان کی مخالفت لازم نہ ہوتی تو حضور ﷺ کوئی اور انداز اختیار کر سکتے تھے جس سے کفار کی مخالفت میں تخفیف ممکن ہوتی، مگر آپؐ کی اسی بات پر استقامت اسی طریقہ کے التزام پر دلالت کرتی ہے۔
آج بھی دشمنانِ اسلام مختلف حربوں سے داعیانِ اسلام کو اپنے مقصد سے ہٹانے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں جن میں ان پر پابندیاں لگانا، انھیں ذہنی و جسمانی ا ذیتیں دینا اور ہر طرح سے ان پر دباؤ ڈالنا شامل ہے۔ افسوس ہے کہ کئی جماعتیں ان باتوں سے گھبرا کر اپنے موقف سے ہٹ جاتی ہیں اور ان حالات میں ضم ہوکر رہ جاتی ہیں جنھیں وہ بدلنے نکلی تھیں۔ وہ اس بات سے ناواقف معلوم ہوتی ہیں کہ ایمان و کفر کی اس جنگ کی راہ میں بیشمار کانٹے ہیں اور اس جدوجہد میں بیشمار قربانیاں درکار ہیں۔ مذکورہ نصوص میں ہمارے لیے یہ سبق ہے کہ یہ دعوت اعلانیہ ہونی چاہیے نہ کہ پوشیدہ جیسے بعض لوگوں کا دعویٰ ہے اور یہ کہ معاشروں یا حکومتوں کی ہرگز پرواہ نہ کرتے ہوئے، ڈٹ کر کفر کا مقابلہ کیا جائے۔
معلوم ہوا کہ یہاں سے دعوت کے دوسرے مرحلہ کا آغاز ہوا جس میں اس جماعت نے اس کفریہ معاشرہ کے خلاف جدوجہد کی۔ ایک دوسری جہت سے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
(فَلَا تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَجَاھِدْھُمْ بِہٖ جِھَادًا کَبِیْرًا)۲۵:۵۲
(پس آپ کافروں کا کہنا نہ مانیں اور قرآن کے ذریعہ ان سے پوری طاقت سے بڑا جہاد کریں)
۱) پس اس آیت ِ مبارکہ کے بیان میں، اس جماعت نے کھلے عام اس معاشرہ کے باطل افکار و نظاموں کو چیلنج کیا اور ان کی خامیوں کو کھول کھول کر بیان کیا یعنی ان کی تردید کی اور اس کے ساتھ ہی اسلام کے صحیح و متبادل افکار و حل کو بھی پیش کیا گیا۔
۲) اس معاشرہ کے سردارو ں و حاکموں کے خلاف تحریک چلائی، ان کی سازشوں کو بے نقاب کیا اور ان کے اقدار کو چیلنج کیا۔ یعنی اس جماعت نے معاشرہ کے خلاف فکری اور سیاسی جدوجہد کی، جس کے قرآنی نمونے آگے آرہے ہیں۔ یاد رہے کہ مذکورہ آیت‘ مبیّن’ہے جس کا حکم فرض ہے، لہذا اس‘ مبیّن’کا‘ بیان’بھی فرض ٹھہرا۔ یعنی جس طریقہ سے یہ‘ جِھَادًا کَبِیْرًا’((قرآن کے ذریعہ سے) بڑاجہاد)کیا گیا، وہی طریقہ ہم پر لازم ہوگا۔ یہ طریقہ ملاحظہ ہو:
باطل عقائد کو چیلنج:
مشرکینِ مکہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ اس بات کی تردید میں یہ آیت نازل ہوئی:
(اَلَکُمُ الذَّکَرُوَلَہُ الْاُنْثٰی، تِلْکَ اِذًاقِسْمَۃٌ ضِےْزٰی، اِنْ ھِیَ اِلَّآاَسْمَآءٌ سَمَّیْتُمُوْھَآ
اَنْتُمْ وَاٰبَآؤُکُمْ مَّآاَنْزَلَ اللّٰہُ بِھَا مِنْ سُلْطٰنٍ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ الَّاالظَّنَّ وَمَا تَھْوَی الْاَنْفُسُ)۳۲-۱۲:۳۵
(کیا تمہارے لیے لڑکے اور اللہ کے لیے لڑکیاں؟ یہ تو اب بڑے نا انصافی کی تقسیم ہے،دراصل یہ صرف نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے ان کے رکھ لئے ہیں اللہ نے ان کی کوئی دلیل نہیں اتاری یہ لوگ توصرف اٹکل کے اور اپنی نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں)
(وَمَا یَتَّبِعُ اَکْثَرُ ھُمْ اِلَّا ظَنًّا اِنَّ الظَّنَّ لَایُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْءًا)۶۳:۰۱
(ان میں اکثر ظن کی پیروی کرتے ہیں اور کچھ شک نہیں کہ ظن حق کے مقابلہ میں کچھ بھی کارآمد نہیں ہوسکتا)
(اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَھَنَّمَ اَنْتُمْ لَھَا وَارِدُوْنَ)۸۹:۱۲
(تم اور اللہ کے سوا جن جن کی تم عبادت کرتے ہو سب دوزخ کا ایند ھن بنو گے تم سب دوزخ میں جانے والے ہو)
(وَ ضَرَبَ لَنَا مَثَلاً وَّ نَسِیَ خَلْقہٗ قَالَ مَنْ یُّحْیِ الْعِظَامَ وَھِیَ رَمِیْمٌ،
قُلْ یُحْیِیْھَاالَّذِیْ اَنْشَاَھَآ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَھُوَبِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیْمُ)۹۷-۸۷:۶۳
(اور اس نے ہمارے لیے مثال بیان کی اپنی(اصل) پیدائش کو بھول گیا کہنے لگا ان گلی سڑی ہڈیوں کو کون زندہ کرسکتا ہے؟ آپ جواب دیجئے کہ انھیں وہ زندہ کریگا جس نے انھیں پہلی مرتبہ پیدا کیا جو سب طرح کی پیدائش کا بخوبی جاننے والا ہے)
( اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰہُ قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِسُوَرٍمِّثْلِہٖ مُفْتَرَیٰتٍ وَّادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُم صٰدِقِیْنَ)۳۱:۱۱
(کیا یہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو اسی نے گھڑا ہے جواب دیجئے پھر تم بھی اسی کے مثل دس سورتیں گھڑی ہوئی لے آؤ اور اللہ کے سوا جسے چاہو اپنے ساتھ بلا بھی لو اگر تم سچے ہو)
باطل نظاموں کو چیلنج:
(وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ، الَّذِیْنَ اِذَا اکْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ وَاِذَا کَالُوْھُمْ اَوْوَّزَنُوْھُمْ یُخْسِرُوْنَ)۳-۱:۳۸
(بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی،کہ جب لوگوں سے ناپ کر لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں اور جب انہیں ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں)
(اَرءَ یْتَ الَّذیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِ، فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ، وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ) ۳-۱:۷۰۱
(کیا تو نے اسے دیکھا جو روز ِ جزا کو جھٹلاتا ہے؟ یہی وہ ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے،اور مسکین کو کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا)
(وَاِذَا الْمَوْءٗ دَۃُ سُءِلَتْ، بِاَیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ)۹-۸:۱۸
(اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے سوال کیا جائے گا،کہ کس گناہ کی وجہ سے وہ قتل کی گئی؟)
(وَیْلٌ لِّکُلِّ ھُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِ، الَّذِیْ جَمَعَ مَالاًوَّعَدَّدَہٗ،
یَحْسَبُ اَنَّ مَالَہٗ اَخْلَدَہٗ، کَلَّالَیُنْبَذَنَّ فِی الْحُطَمَۃِ)۴-۱:۴۰۱
(بڑی خرابی ہے ہر ایسے شخص کی جو عیب ٹٹولنے والا غیبت کرنے والا ہو، جو مال کو جمع کرتا جائے اور گنتا جائے، وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال اس کے پاس سدا رہے گا، ہرگز نہیں یہ تو ضرور توڑ پھوڑ دینے والی آگ میں پھینک دیا جائے گا)
سرداروں کو چیلنج اور ان کی سازشوں کی بے نقابی:
(ابو لہب)
(تَبَّتْ یَدَآاَبِیْ لَھَبٍ وَّتَبَّ، مَآ اَغْنٰی عَنْہُ مَالُہٗ وَمَا کَسَبَ، سَیَصْلٰی نَارًا ذَاتَ لَھَبٍ)۳-۱:۱۱۱
(ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ خود ہلاک ہو گیا، نہ تو اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ اس کی کمائی،وہ عنقریب بھڑکنے والی آگ میں جائے گا)
یہاں پر بعض مفسرین کے مطابق‘ید’(ہاتھ) سے مراد مال و ملک (آتھارٹی) ہے۔ [۱۳[
(ولید ابن مغیرہ)
(فَلَا تُطِعِ الْمُکَذِّبِیْنَ، وَدُّوْا لَوْتُدْھِنُ فَیُدْھِنُوْنَ، وَلَا تُطِعْ کُلَّ حَلَّافٍ مَّھِیْنٍ، ھَمَّازٍمَّشَّآءٍ بِنَمِیْمٍ،
مَّنَّاعٍ لِّلْخیْرِ مُعْتَدٍاَثِیْمٍ، عُتُلٍّ بَعْدَذَلِکَ زَنِیْمٍ، اَنْ کَانَ ذَامَالٍ وَّبَنِیْنَ، اِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِ اٰیٰتُنَا قَال
اَسَاطِیْرُالْاَوَّلِیْنَ، سَنَسِمُہٗ عَلَی الْخُرْطُوْمِ)۶۱-۸:۸۶
(پس تو جھٹلانے والوں کی نہ مان،وہ چاہتے ہیں کہ تو ذرا ڈھیلا ہوتو یہ بھی ڈھیلے پڑ جائیں،اور تو کسی ایسے شخص کابھی کہا نہ ماننا جو زیادہ قسمیں کھانے والا، بے وقار،کمینہ،عیب گو،چغل خور، بھلائی سے روکنے والا گنہگار،گردن کش پھر ساتھ ہی بے نسب ہو، اس کی سرکشی صرف اس لیے ہے کہ وہ مال
والا اور بیٹوں والا ہے، جب اس کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہہ دیتا ہے کہ یہ اگلوں کے قصے ہیں، ہم بھی اس کے سونڈ (ناک) پر داغ دیں گے)
(ولید ابن مغیرہ)
(اِنَّہٗ فَکَّرَ وَقَدَّرَ، فَقُتِلَ کَیْفَ قَدَّرَ، ثُمَّ قُتِلَ کَےْفَ قَدَّرَ، ثُمَّ نَظَرَ، ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ،ثُمَّ اَدْبَرَوَاسْتَکْبَرَ، فَقَالَ اِنْ ہٰذَآ اِلَّا سِحْرٌیُّؤثَرُ، اِنْ ہٰذَآ اِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ، سَاُصْلِیْہِ سَقَرَ)۶۲-۹۱:۴۷
(اس نے غور کر کے تجویز کی،اسے ہلاکت ہو کیسی (تجویز)سوچی؟ وہ پھر غارت ہو کس طرح اندازہ کیا،اس نے پھر دیکھا،پھر تیوری چڑھائی اور منہ بنایا،پھر پیچھے ہٹ گیا اور غرور کیا،اورکہنے لگا یہ توصرف جادو ہے جو نقل کیا جاتا ہے، سوائے انسانی کلام کے کچھ بھی نہیں،میں عنقریب اسے دوزخ میں ڈالوں گا)
(وَاِذْیَمْکُرُ بِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ اَوْیَقْتُلُوْکَ اَوْیُخْرِجُوْکَ وَیَمْکُرُوْنَ وَ یَمْکُرُاللّٰہُ وَاللّٰہُ َیْرُالْمٰکِرِیْنَ)۰۳-۸
(اور یاد کر یں وہ وقت جبکہ کافر لوگ آپ کی نسبت تدبیر سوچ رہے تھے کہ آپ کو قید کرلیں یا آپ کوقتل کر ڈالیں یا آپ کو خارجِ وطن کردیں اور ادھر تو وہ چال چل رہے تھے اور ادھر اللہ چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے)
ان تمام آیات کے فکری وسیاسی طرز سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مکہ میں، اسلام اور شرک کے مامین، کس زبردست نوعیت کا مقابلہ ہوا۔ نیز یہ آیات، بعض جماعتوں کے دعوت ِ اخلاق وعبادات پر اکتفاء کو بالکل غلط ثابت کرتی ہیں۔
کفار کے اس سمجھوتے کے خلاف جس میں انھوں نے یہ پیشکش کی کہ نبی کریم ﷺ ان کے خداؤں کی ایک سال عبادت کریں اور وہ آپؐ کے خدا کی ایک سال عبادت کریں گے، یہ آیت نازل ہوئی:
(قُلْ یٰٓاَیُّھَاالْکٰفِرُوْنَ، لَآاَعْبُدُ مَاتَعْبُدُوْنَ، وَلَآاَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآاَعْبُدُ، وَلَآ اَنَا عَابِدٌمَّا عَبَدْتُّمْ، وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآاَعْبُدُ، لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ)۶-۱:۹۰۱
(آپ کہہ دیجئے کہ اے کافرو! نہ میں عبادت کرتا ہوں اس کی جس کی تم عبادت کرتے ہو،نہ تم عبادت کرنے والے ہواس کی جس کی میں عبادت کرتا ہوں،
اور نہ میں عبادت کروں گا جس کی تم عبادت کرتے ہو،اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کررہا ہوں، تمہارے لیے
تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین ہے)
آج بھی دعوت ِ اسلام کے علمبرداروں کو سمجھوتا کرنے پر اکسایا جاتا ہے۔ افسوس ہے کہ بیشتر جماعتیں اسلام پر سمجھوتا کرنے پر راضی ہوجاتی ہیں، مثلًا موجودہ کفریہ نظاموں میں شریک ہوکر یہ اپنے اصلی مقصد سے بہت دور ہوجاتی ہیں کیونکہ یہاں حکومتیں انھیں اپنے اغراض کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ علاوہ ازیں ان کفریہ نظاموں کو ہٹانے کے بجائے یہ جماعتیں ان کی بقا کا باعث بنتی ہیں اور یوں وہ ان باطل نظاموں کے خاتمہ میں، خود بڑی رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ آیت ِ کریمہ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ دشمنانِ اسلام کی طرف سے کوئی پیشکش کتنی ہی پرکشش کیوں نہ ہو، اسلام کے ایک حکم پر بھی سمجھوتے کی گنجائش نہیں، یہ جماعتیں تو بیشتر اسلامی احکام کا سودا کرتی ہیں!
طلب ِ نصرت
جب حضور ﷺ کے چچا ابو طالب کی وفات ہوئی تو آپ ؐ طائف تشریف لے گئے جہاں پر آپؐ نے بنی ثقیف کو اسلام کی دعوت دی اور قریش کے مقابلہ میں ان کی مدد طلب کی، مگر انھوں نے اس بات سے انکار کردیا اور غنڈوں کے ہاتھوں آپؐ کو پتھروں سے لہولہان کردیا جس سے آپ ؐ غمزدہ ہوئے۔ آپ ؐ نے بنو ثقیف سے کہا میرے آنے کا کسی سے ذکر نہ کرنا (خفیہ رکھنا)۔ [۸۲[یہ اس وجہ سے تھا کہ قریش آپ ؐکی مخالفت نہ کریں۔[۳۳[ابن اسحاق ؒ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کے چچا ابو طالب کی وفات کے بعد آپؐ کا یہ قاعدہ تھا کہ جب حج کا موسم ہوتا یا مختلف تہوار منائے جاتے تو آپ ؐ قبائل کو دعوت فرماتے اور جب آپؐ سنتے کہ کوئی شریف یا سردار شخص مکہ میں آیا ہے، تواس سے مل کر اسے بھی دعوت اور ہدایت فرماتے کہ اے بنی فلاں میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں، تم کو اس بات کا حکم کرتا ہوں کہ تم سوا اللہ کے کسی چیز کی پرستش نہ کرو اور بت پرستی چھوڑ دو اور مجھ پر ایمان لاکر میری تصدیق کرو اور مجھے تحفظ دو تاکہ میں اس بات کو ظاہروبیان کر سکوں جس کے ساتھ اللہ نے مجھے بھیجا ہے۔ [۸۲[
حاکم اور بیہقی کی روایت ہے کہ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ ”جب اللہ نے اپنے رسول کو یہ حکمدیا کہ وہ قبائلِ عرب کے سامنے اپنے آپ کو پیش کریں تو آپؐ میرے اور ابو بکر کے ساتھ منیٰ کی طرف روانہ ہوئے جہاں پر عربوں کی ایک مجلس ہو رہی تھی“۔[۳۳[ آپؐ نے بنی عامر ابن صعصعہ کو دعوت دی، ان میں ایک شخص نے کہا واللہ اگر میں اس جوان کو قریش سے لے لوں توپھر تمام عرب کو نگل جاؤں اور پھر اس نے آپؐ سے کہا کہ یہ بتلاؤ اگر ہم تمہارے تابع ہوں اور پھر خدا تم کو تمہارے مخالفین پر غالب کرے تو تمہارے بعد اقتدار ہمارا ہوگا؟ رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا کہ یہ بات اللہ کے قبضہ میں ہے وہ جس کو چاہے دیگا۔ اس شخص نے کہا تو پھر اس کی کیا وجہ ہے کہ ہم تو تمہاری طرف ہوکر تمام عرب کے سامنے سینہ سپر کریں اور پھر تمہارے بعد اقتدار کسی اور کے پاس چلا جائے۔ غرضیکہ اس قبیلہ نے بھی انکار کردیا۔[۸۲[ آپؐ نے پھر بنی قیس ابن ثلعبہ اور بنی کعب ابن ربیعہ کو دعوت دی اور انسے ان کی تعداد اور ان کے تحفظ کے بارے میں پوچھا۔ [۳۳[
حاکم اور بیہقی کی روایت میں ہے کہ جب آپ ؐ نے بنی شیبان ابن ثلعبہ کو دعوت دی تو حضرت ابو بکرؓ نے اس قبیلہ سے ان کی تعداد اور تحفظ کے بارے میں پوچھا، نیز دشمنوں سے ان کی جنگی کیفیت پوچھی۔ اس کے ایک سردار نے جواب دیا کہ جنگ میں ہم سب سے غصیلے ہیں اور ہمیں اپنے بیٹوں سے زیادہ اپنے جنگی سازوسامان پر ناز ہے۔ یہ قبیلہ رسول اللہ ﷺ کو عربوں کے خلاف تحفظ دینے پر تو راضی ہوگیا مگراہلِ فارس پر اس بات پر راضی نہ ہوا۔ آپ ؐ نے اس پیشکش سے انکار کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کے دین کی صرف وہ لوگ خدمت کرسکتے ہیں جوکہ چاروں طرف سے اس کے گرد حلقہ ڈال سکیں۔ [۳۳[
’الروض الانف’میں ان قبائل کی کل تعداد 40بتائی گئی ہے جن کے سامنے حضور ﷺ نے اپنے آپ کو پیش کرتے ہوئے ان سے نصرت طلب کی۔
ان تمام احادیث سے کئی باتیں ثابت ہوتیں ہیں:
۱) حضرت علی ؓ کا یہ کہنا کہ آپؐ کو اللہ کی طرف سے حکم ہوا، طلب ِ نصرت کے وجوب کا قرینہ ہے۔ نیز آپؐ نے قریش کی مزاحمت کا خطرہ مول لیا اور اس امر کے لیے آپؐ کا خون بھی بہا، لیکن اس کے باوجود آپؐ اس کام پر ڈٹے رہے اور مختلف قبیلوں سے نصرت طلب کرنا نہ چھوڑا۔ یعنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے آپ ؐ کا طلب ِ نصرت کی سرگرمیوں کو مستقل طور پر سرانجام دینا جس کو ابن اسحاق نے آپؐ کا قاعدہ ہونا بتایا ہے، یہ بھی اس فعل کے واجب ہونے کا قرینہ ہے۔
۲) رسول اللہ ﷺ کا قبائل سے تحفظ مانگنا تاکہ آپؐ اپنے مقصد کو ظاہر کرسکیں اور اس کے بعد مدنی دور میں آپؐ کا احکامِ الٰہی کو جاری کرنا، اس مقصد کو ظاہر کرنے کا بیان ہے۔ یعنی اس طلب ِ نصرت کی وجہ یہ تھی کہ اس تحفظ کے ذریعہ سے آپؐ شریعت ِ اسلامی کو لوگوں پر نافذ کر سکیں۔
۳) بنی عامر ابن صعصعہ کا آپؐ سے یہ پوچھنا کہ آپؐ کے بعد یہ اقتدار کسے ملے گا، یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ اس قبیلہ کو معلوم تھاکہ رسول اللہ ﷺ حکومت چاہتے ہیں۔ اس پر آپؐ کا یہ جواب کہ اقتدار دینا اللہ کی مرضی پر ہے، اس بات میں بھی اس اعتراف کا اشارہ ہے کہ آپؐ کے طلب ِ نصرت کا مقصد اقداروحکومت حاصل کرنا تھا(تاکہ اللہ کے پیغام کو ظاہر کیا جاسکے)۔
۴) آپؐ کا قبیلوں کی تعدادوتحفظ اور جنگی صلاحیتوں کی تفتیش کرنا اور تحفظ کے کامل نہ ہونے پر اس کا انکار کر دینا، اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ طلب ِ نصرت محض ان لوگوں سے کرنا مقصود تھا جو درحقیقت اس بات کی صلاحیت رکھتے ہوں یعنی اہلِ قوت۔
بالآخر بنی اوس اور بنی خزرج آپ ؐ پر ایمان لائے، آپؐ سے تحفظ اور نصرت کا وعدہ کیا اور ان باتوں پر آپؐ کی بیعت کی:
(بیعت ِ عقبہ ثانیہ)
ہر حالت میں سننے اور اطاعت کی، خوشی اور غم میں، تنگی اور فراخی میں، کسی اہل شخص کی امارت کے تقرر پر اس سے جھگڑا نہ کرنے پر، جہاں ہوں سچ بات کہنے پر، اللہ کی اطاعت کرنے پر اور کسی کی ملامت سے نہ ڈرنے پر اور اس پر کہ اگر رسول اللہ ﷺ مدینہ آجائیں تو ان کی نصرت
کرنے پر اور جیسے یہ لوگ اپنی جانوں، اپنی بیویوں اور اولاد کو بچاتے ہیں و یسے آپؐ کو بھی بچانے پر۔ پھر ان کے لیے جنت ہوگی۔ [۴۳،۸۲[
یہ عقد مدینہ کے نمائندوں اور حضور ﷺ کے مابین ہوا جسے اصطلاحِ فقہ میں‘ بیعت ِ انعقاد ’کہا جاتا ہے۔ اس حدیث میں جو ہر حال میں اطاعت کرنے کا ذکر ہے اس سے آتھارٹی کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی رسول اللہ ﷺ کا اسلامی ریاست کے سربراہ(امام) ہونے کی حیثیت سے آپ ؐکی اطاعت۔ یہ بیعت نبوت پر نہیں تھی کیونکہ کئی لوگوں نے مسلمان ہونے کے باوجود آپ ؐ کی بیعت نہیں کی اور اس امر پر رسول اللہ ﷺ کا سکوت اس بات کی دلیل ہے کہ یہ بیعت امارت (آتھارٹی) کی بیعت تھی۔ علاوہ ازیں امراء کا تقرراسی شخص کے لیے ممکن ہے جس کے پاس یہ اقتدار(آتھارٹی) ہو، لہذا اس بات سے آتھارٹی مراد ہے۔ آپؐ کے فرمان ’‘اگر میں آجاؤں تو تم میری نصرت کرو’‘، اس سے مراد اسلامی ریاست کے عملی قیام کاوقت ہے۔ نیز اس بیعت کو بیعت ِ حرب سے موسوم کیا جاتا ہے کیونکہ اس عقد میں ان تمام قوتوں (ہر سرخ و سیاہ) سے لڑنا بھی شامل ہے جوکہ اس نئی حالت (اسلامی ریاست کے قیام) کی مخالفت کریں گی جیسا کہ حقیقتاً ہواجب آپ ؐ،ہجرت کے حکم کے بعد، مدینہ تشریف لے گئے۔ یہاں پر آپؐ نے ایک اسلامی ریاست قائم کی، احکام شرعیہ جاری کیے اور کلمہ ِ حق کو بلند کرنے کے لیے دشمنانِ اسلام سے جہاد کیا۔ اس حدیث میں یہ جو کہا گیا کہ ’‘تم اللہ کی اطاعت کرو....پھر تمہارے لیے جنت ہے ’‘، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس اسلامی ریاست کی بنیاد ایک فکر یعنی عقیدہ پر رکھی گئی نہ کہ قوانین پر، کیونکہ اکثر احکام تو بعد میں نازل ہوئے۔
اس بیعت سے دو برس قبل حضور ﷺ نے حضرت مصعب ابن عمیرؓ کو مدینہ بھیجا تھا تاکہ وہ وہاں کے لوگوں کو اسلام سمجھائیں۔ یہ سلسلہ اتنا کامیاب رہا کہ حضرت مصعب ؓابن عمیر فرماتے ہیں کہ مدینہ میں کوئی ایسا گھر نہیں بچا جہاں اسلام کی بات نہ ہو۔ [۸۲[ لہذا انصار کی بیعت سے پہلے مدینہ میں اسلام کے حق میں رائے عامہ ہموار کر دی گئی تھی تاکہ وہاں بعد میں قائم ہونے والی ریاست کے لئے زمین زرخیز ہو۔ رائے عامہ قائم کرنے کی کامیابی کے بعد ہی رسول اللہ ﷺ اور انصار کے مابین عقد ہوا۔ یہیں سے معلوم ہوا کہ آج جو لوگ اسلامی ریاست کے لیے کوشاں ہیں انہیں پہلے قوم کو اس بات پر تیار کرنا پڑے گا اور بات محض اقدار حاصل کرنے تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔
یاد رہے کہ ”انصار“ (مددگار) کا لقب اس گروہ کو اس وجہ سے دیا گیا ہے کیونکہ اس نے رسول اللہ ﷺ (اسلام) کی مدد کی۔ اسی وجہ سے کئی آیات میں انصار کی مدح پائی جاتی ہے۔ اگلی آیت ِ مبارکہ میں اہلِ نصرت کی مدح ہے اور اس کے بعد والی آیت سے بھی اس نصرت کا مقصد ظاہر ہورہا ہے:
(اَلَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ بِغَیْرِ حَقٍ اِلَّآاَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَااللّٰہُ....وَلَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ انَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ، اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوْاالصَّلٰوۃَ
وَاٰتَوُاالزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ اَلْاُمُوْرِ)۱۴-۰۴:۲۲
(یہ وہ ہیں (مہاجرین) جنھیں ناحق اپنے گھروں سے نکالا گیا صرف ان کے اس قول پر کہ ہمارا پروردگار فقط اللہ ہے....جو اللہ کے دین کی مدد کریگا اللہ بھی ضرور اس کی مدد کرے گا بے شک اللہ تعالیٰ بڑی قوتوں والا بڑے غلبہ والا ہے، یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر اللہ ان کو زمینپر حکو مت دے تو یہ پوری پابندی سے نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں اور اچھے کاموں کا لوگوں کو حکم کریں اور برے کاموں سے لوگوں کو روکیں تمام کاموں کا انجام اللہ کے اختیار میں ہے)
یہاں اس مدد کا سبب دین کو قائم کرنا بتایا گیا ہے، جس سے اس موضوع کی مزید توضیح ہوتی ہے۔
اس بحث کے بعد اسلامی ریاست کے قیام کا لازم و صحیح طریقہ، تفصیلی شرعی دلائل کی روشنی میں، واضح ہوجانا چاہیے۔ اس طریقہ کا لب ِ لباب یہ ہے:
۱) اس جماعت کے افراد کی ایک ایسی باصلاحیت ثقافت سے تیاری جس کے ذریعہ اس جماعت کااپنے مقصد کو حاصل کرنا ممکن ہوسکے۔ اس زبردست ثقافت کی بدولت یہ دورِ حاضر کے نفسی، فکری اور سیاسی چیلنجز کا مقابلہ کرسکے۔
۲) یہ جماعت موجودہ غیراسلامی(کفریہ) افکار کے خلاف فکری جدوجہد کرے تاکہ ان پر لوگوں کا اعتماد ختم ہو جاوے اور اس کے ساتھ ہی یہ اسلامی افکار کے حق میں رائے عامہ قائم کرنے کا بھی کام کرے۔ نیز یہ جماعت استعماری قوتوں اور امت میں ان کے ایجنٹوں (حکمرانوں) کے خلاف سیاسی جدوجہد کرے (جس میں ان کی سازشوں کو بے نقاب کرنا شامل ہے) تاکہ ان کے نافذشدہ کفریہ نظام کو ہٹا کر نظامِ خلافت قائم کی جائے۔ اس کام کے لیے اہلِ قوت سے نصرت طلب کی جائے تاکہ یہ لوگ دعوتِ اسلامی کو تحفظ دیں اور اسلامی ریاست کے قیام میں اس جماعت کی مدد وحمایت کریں۔
لہذا آج جو بھی جماعت اسلامی ریاست کے قیام کے لیے جدوجہد کررہی ہے، اس کے لیے یہ کام اسی طریقہ کے مطابق کرنا لازم ہوگا جو ثابت کیا گیا ہے۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

کیا قرآن و حدیث میں صیغہ امر (حکمیہ انداز) لازما واجب یا فرض ہوتا ہے ۔ (اصول الفقہ)

مسلمان صرف وحی کی اتباع کرتے ہیں ۔ یہ وحی ہمارے پاس دو شکلوں میں موجود ہے : ایک وحی متلو۔۔۔ یعنی وہ وحی جس کی تلاوت کی جاتی ہے،اس سے مراد قرآن الکریم ہے ۔ اور دوسرے وحی غیر متلو ۔۔۔یعنی وہ وحی جس کی تلاوت نہیں کی جاتی ۔ اس سے مراد حدیث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا اور رسول اللہ ﷺکی زبان بھی عربی ہی تھی۔ اس لیے عربی زبان کا فہم ہونااز حد ضروری ہے تبھی ہم شرعی مآخذ سے احکامات کو ٹھیک ٹھیک اخذ کرسکیں گے ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے سورۃ یوسف کی آیت نمبر 2میں ارشاد فرمایا: (انا انزلنَہٗ قرء ٰ نًا عربیًا لَّعلکم تعقلون ) ’’بے شک ہم نے اس قرآن کو نازل کیا تاکہ تم سمجھو‘‘ تاہم محض عربی زبان کی سمجھ شرعی مآخذ سے احکامات کو اخذ کرنے کے لیے کافی نہیں ۔ عربی زبان کا فہم ہوناشرعی متن یعنی (shariah Text) کو سمجھنے کی مختلف شرائط میں سے ایک شرط ہے۔ کیونکہ یہاں مقصد احکامات کو ایک خاص (قانونی ) متن سے اخذ کرنا ہے۔ جس کے لیے عربی زبان کی سمجھ کے علاوہ مزید امور کی بھی ضرورت ہے جیسے کہ وہ قرآئن جو فرائض اور حرام امور کا تعین کرتے ہیں، عام حکم اور اس کی تخصیص ، مطلق اور مقید ی

خلافت کیا ہے؟

آج کل جمہوریت اور آمریت کی ناکامی کے بعد ایسے مواقع کثرت سے آتے ہیں کہ خلافت کا تذکرہ نکل آتا ہے۔ تاہم لوگ اس خلافت سے ایک رومانوی محبت محسوس کرنے کے باوجود فکری اور علمی طور پر اس نظام کے خدوخال سے واقف نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض کم فہم اور الجھے ہوئے لوگ یا اسلام دشمن لوگ مغربی نظام کو معمولی ردوبدل کے بعد خلافت کی روح قرار دے کر لوگوں کو sell کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پس کسی کو ناروے، ڈنمارک وغیرہ "عمری خلافت" دکھتا ہے تو کسی کو برطانوی جمہوریت "مدینہ کا ماڈل" دکھائی دیتا ہے۔ ایسے تمام دوستوں کی سمجھ کیلئے یہ مضمون پیش خدمت ہے جو خلافت کا ایک اجمالی خاکہ لوگوں کے سامنے پیش کرنے کی کوشش ہے تاکہ امت اپنے ڈائریکشن کا درست تعین کر سکے اور کوئی انھیں گمراہ نہ کر سکے۔ اسلامی ریاست یعنی خلافت: اسلامی خلافت صرف اسی وقت قائم تصور کی جاتی ہے جب اس میں تمام نظام اسلام سے ہی اخذ کئے گئے ہوں اوراتھارٹی بھی مسلمانوں کے ہاتھ ہو۔ خلافت میں اقتصادی نظام، حکومتی نظام، معاشرتی نظام، نظام عدل، خارجہ پالیسی اور تعلیمی پالیسی مکمل طور پر شرعی مصادر سے اخذشدہ ہوتی ہے۔ آئیے فر

خلافت قائم کرنے کا طریقہ

1)     چونکہ خلافت کا قیام ایک فرض ہے بلکہ یہ مسلمان کے اوہر سب سے بڑا فرض ہے ۔ اور چونکہ ایک فرض کے قائم کرنےکا طریقہ اللہ سبحان و تعالیٰ نے انسان پر نہیں چھوڑا بلکہ ہر فرض کے طرح اس فرض کا بھی طریقہ کار اسلام نے بتایا ہوا ہے۔ اور یہ طریقہ کار ہم نبیﷺ کی سیرت سے جان سکتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ریاست کیسےقائم کی تھی۔، بالکل ویسے جس طرح ہم نماز، روزے، حج، جہاد اور دیگر فرائض کا طریقہ نبیﷺ سے اخذ کرتے ہیں۔ 2)   اگر عقل پر چھوڑ دیا جائےتو مختلف طریقے ذہن میں آتے ہیں، جیسے حکمرانوں کو صرف دعوت سے قائل کرنا کہ اسلام قائم کریں، یا ان کے خلاف جنگ کر کے ان کو ملیا میٹ کر کے اسلامی نظام قائم کرنا، یا اس ملک میں مروجہ دستور اور قانون کے مطابق نظام میں حصہ لے کر اس نظام کے اوپر پہنچ کر اسلام کا نظام قائم کرنا یا تمام لوگوں کو تبدیل کرنا ، یہ سوچ کرکہ جب تمام لوگ سچے، پکے مومن بن جائیں گے تو اسلامی نظام خود ہی قائم ہو جائے گاوغیرہ۔ لیکن یاد رہے کہ یہ سب عقل و منطق (logic)   سے نکلنے والے طریقے ہیں ۔ اور انسانی عقل کامل نہیں اسلئے اس طریقوں کی اپنی خوبیاں اور خامیاں ہونگی۔  لیکن جو طریقہ اللہ سبحانہ

شرعی دلائل کی روشنی میں خلافت اور جمہوریت کا تقابلی جائزہ

                                                                                                نوید بٹ   اسلام کا طالب علم جب قرآن و سنت پر نظر ڈالتا ہے تو اسے ’’جمہوریت‘‘ سے متعلق کوئی آیت یا حدیث تو درکنار صحابہ، آئمہ مجتہدین یا فقہائ کا ایک قول بھی نہیں ملتا۔ حالانکہ انسانیت اسلام سے ہزاروں سال قبل جمہوریت سے روشناس ہو چکی تھی۔ وہ اس شش و پنج کا بھی شکار ہوتا ہے کہ اگر اسلام کا نظام حکومت جمہوریت ہی ہے تو پھر کیا یونانیوں نے اسلام کے آنے سے قبل ہی ازخود ’’اسلامی نظام حکومت‘‘ دریافت کر لیا تھا؟ کیا اس ’’اسلامی نظام حکومت‘‘ کے نفاذ سے انہوں نے ایک اسلامی معاشرے کو جنم دے دیا تھا؟ کیا وہ نہ جانتے ہوئے بھی اسلام پر ہی چل رہے تھے؟ لیکن تاریخ کے کسی گوشے میں بھی یونانی تہذیب اور اسلامی تہذیب میں مماثلت کا کوئی شائبہ تک نہیں ملتا۔ اگر رسول مقبول ا جمہوریت ہی دے کر مبعوث کئے گئے تھے تو پھر آپ اکو یہ ارشاد فرمانے میں کیا تردد تھا کہ وہ وہی نظام لے کر آئے ہیں جو ارسطو اور یونانی فلاسفر انسانیت کو پہلے ہی دے چکے ہیں؟ جبکہ اسلامی عقائد کے بارے میں آپ ا نے بڑے واضح انداز میں فرمایا تھا کہ آ

آئین پاکستان کی نام نہاد "اسلامی دفعات" اور اس پر پاکستان کی ہائیکورٹس اور سپریم کورٹس کے مصدقہ فیصلے

آپ اور میں اپنے خواہش کے مطابق بے شک پاکستان کے آئین مین "اسلامی" دفعات پڑھ کر خوش ہوتے رہیں اور یہی کہتے رہپں کہ آئین دراصل اسلامی ہے ، اصل مسئلہ صرف نفاذ کا ہے لیکن آئین کی تشریح کا حق آپ کو یا مجھے نہیں، بلکہ عدالت کو ہے اور اس کی تشریح حتمی مانی جاتی ہے ۔ اور ان کے کچھ فیصلے ملاحظہ کریں: Sec 2. “Islam shall be the State religion of Pakistan.’’ ریاست کا سرکاری مذہب اسلام ہو گا۔ But when this Article 2 came to be interpreted in the Court of Law, a  Full Bench of the Sindh High Court comprising 5 judges, headed by its Chief Justice,  held that: ‘‘Article 2 is incorporated in the Introductory Part of the Constitution and as far as its language is concerned, it merely conveys a declaration. The question arises as to the intention of the Makers of the Constitution by declaring that ‘‘Islam shall be the State religion of Pakistan.’’ Apparently, what the Article means is that in its outer manifestation the State and its Government shall carry an Islamic Symbol. This A

ایک امت، ایک چاند، ایک رمضان اور ایک عید

تحریر: نوید بٹ اس سال روئیت ہلال کمیٹی کے سربراہ مفتی منیب الرحمن نے بڑے فخر سے اعلان فرمایا کہ اس دفعہ پورا پاکستان ایک دن رمضان شروع کر رہا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ اعلان درست نہ تھا کیونکہ نہ صرف پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین بلکہ وزیرستان کے مسلمان بھی ایک دن پہلے امت مسلمہ کے ساتھ رمضان کی شروعات کر چکے تھے۔ دوسرا اہم پہلو یہ کہ پاکستان نے قومیت کی بنیاد پر چاند قبول کرکے اپنے آپ کو امت مسلمہ سے الگ کر دیا اور امت کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا۔ مفتی منیب صاحب اس کے بارے میں کیا فرمائیں گے؟ کیا مفتی صاحب امت کو بتا سکتے ہیں کہ کہ قومیت پر مبنی روئیتِ ہلال کی اس بدعت کی شریعت سے کیا دلیل ملتی ہے۔  استعمار نے خلافت کا خاتمہ کر کے نہ صرف مسلمانوں کو چھوٹے چھوٹے حصوں تقسیم کر دیا بلکہ اس نے ہر حصے کو ایک مخصوص قومیت، قومی ترانہ، جھنڈا اور چاند بھی دے دیا۔ جھنڈے مسلمانوں کو سیاسی طور پر تقسیم کرنے کے لئے اور چاند امت کی مذہبی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لئے۔ لیکن اس سے زیادہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس نے ایسے افراد بھی عوام کے سروں پر بٹھا دئے جو اس تقسیم کو اسلام سے ثابت