نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

خلافت کیا ہے؟

آج کل جمہوریت اور آمریت کی ناکامی کے بعد ایسے مواقع کثرت سے آتے ہیں کہ خلافت کا تذکرہ نکل آتا ہے۔ تاہم لوگ اس خلافت سے ایک رومانوی محبت محسوس کرنے کے باوجود فکری اور علمی طور پر اس نظام کے خدوخال سے واقف نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض کم فہم اور الجھے ہوئے لوگ یا اسلام دشمن لوگ مغربی نظام کو معمولی ردوبدل کے بعد خلافت کی روح قرار دے کر لوگوں کو sell کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پس کسی کو ناروے، ڈنمارک وغیرہ "عمری خلافت" دکھتا ہے تو کسی کو برطانوی جمہوریت "مدینہ کا ماڈل" دکھائی دیتا ہے۔ ایسے تمام دوستوں کی سمجھ کیلئے یہ مضمون پیش خدمت ہے جو خلافت کا ایک اجمالی خاکہ لوگوں کے سامنے پیش کرنے کی کوشش ہے تاکہ امت اپنے ڈائریکشن کا درست تعین کر سکے اور کوئی انھیں گمراہ نہ کر سکے۔
اسلامی ریاست یعنی خلافت:
اسلامی خلافت صرف اسی وقت قائم تصور کی جاتی ہے جب اس میں تمام نظام اسلام سے ہی اخذ کئے گئے ہوں اوراتھارٹی بھی مسلمانوں کے ہاتھ ہو۔ خلافت میں اقتصادی نظام، حکومتی نظام، معاشرتی نظام، نظام عدل، خارجہ پالیسی اور تعلیمی پالیسی مکمل طور پر شرعی مصادر سے اخذشدہ ہوتی ہے۔ آئیے فرداً فرداً ان نظاموں کے اہم نکات کی پر نظر ڈالیں۔

حکومتی نظام :
1) خلیفہ عوام کے بالواسطہ یا بلاواسطہ انتخاب سے منتخب ہوتا ہے۔ منتخب ہونے والا امیدوار امت کی بیعت سے خلافت کے منصب پر فائز ہوتا ہے۔ اس انتخاب میں عوام الناس پر کسی قسم کا دباؤ یا جبر نہیں ہونا چاہیے۔ نیز بیعت اس شرط پر لی جاتی ہے کہ منتخب شخص ان پر مکمل اسلام نافذ کریگا۔
2) اسلام نے نظام سے متعلق اصولی ہی نہیں بلکہ جزوی قوانین بھی دئے ہیں۔ مثال کے طور پر معاشی نظام میں اراضی، سود، کرنسی، عوامی ملکیت سے متعلق شرعی احکامات؛ خارجہ پالیسی میں جہاد، بین الاقوامی معاہدات،سفارتی تعلقات سے متعلق احکامات؛ نظام حکومت میں انتخاب، بیعت، والیوں کے تقرر اور ان کی تنزلی سے متعلق احکامات وغیرہ میں شریعت کے تفصیلی احکامات موجود ہیں۔ خلیفہ ان قوانین کو من وعن نافذ کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ نیز خلیفہ کو ان احکامات کو نافذ کرنے کے لیے عوام کے نمائندوں کی اکثریت کی اجازت درکار ہوتی اور نہ ہی وہ ان معاملات میں اپنی ذاتی پسند یا نا پسند پر عمل کر سکتا ہے۔ چنانچہ ان تمام معاملات میں خلیفہ اور عوامی نمائندوں کے پاس اپنی مرضی اورمنشاء سے قانون سازی کا کوئی اختیار نہیں۔ لہذا خلافت میں اﷲ اور رسول ﷺ کے احکامات کو ملکی قوانین بننے کے لیے اکثریت کی بیساکھی یا توثیق کی ضرورت نہیں ہوتی جو کہ جمہوری طرز حکومت میں قانون سازی کے لیے ایک لازمی شرط ہوتی ہے۔ آج پاکستان میں اسلام کے نفاذ میں اکثریت کی شرط ہی سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ یوں خلافت میں اقتدار اعلیٰ یا قانون سازی کا اختیار عملاً عوام کی اکثریت کی بجائے اﷲ تعالیٰ کو حاصل ہوتا ہے۔ یہ اس سے یکسر مختلف ہے جو آج پاکستان میں رائج ہے جس میں حقیقی اقتدار پالیمنٹ میں بیٹھے افراد یا باوردی ڈکٹیٹر کے پاس ہوتا ہے ۔
3) اسلام انفرادی ڈکٹیٹرشپ اور مخصوص گروہ کی ڈکٹیٹرشپ (جمہوریت) دونوں کو یکسر مسترد کرتا ہے اور قانون سازی کا اختیار رب کو سونپ کر اﷲ کی حاکمیت کو عملاً نافذ کرتا ہے۔ یوں استعمار کے لیے قانون سازی کا چور دروازہ بند ہو جاتا ہے جس کے ذریعے داخل ہو کر وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے قانون سازی کرواتا ہے۔ ڈکٹیٹرشپ میں ایک شخص کو خریدنا پڑتا ہے جبکہ جمہوریت میں ایک اکثریتی گروہ کو، جو آئینی ترامیم کے ذریعے سیاہ کو سفید بنا سکیں۔ سترھویں ترمیم کے ذریعے ایک ڈکٹیٹر کے بنائے ہوئے کفریہ قوانین کو جمہوری طریقہ کار کے ذریعہ آئینی حیثیت دی گئی۔ جہاد کو دہشتگری قرار دے دیاگیا، امریکی اڈوں کو قانونی حیثیت حاصل ہوئی اور افغانستان کی جنگ میں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کا قتل عام ملکی مفاد میں جائز ٹھہرا۔
4) مباح اور انتظامی امور سے متعلق حکومتی فیصلے قانون سازی (legislation) سے مختلف ہیں کیونکہ ان امور کو شارع (اﷲ) نے پہلے ہی حلال قرار دے دیا ہے حکومت فقط یہ فیصلہ کرتی ہے کہ آیا ان حلال امور کو اختیار کیاجائے یا نہیں۔ اﷲ نے ہمیں اختیار دیا ہے کہ ہم ان امور میں اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کریں۔ مباح امور کی دو قسمیں ہیں: وہ امور جن میں عوام خاطر خواہ علم رکھتے ہیں اور وہ امور جن کے بارے میں صرف اہل علم اور تکنیکی ماہرین ہی صحیح رائے دے سکتے ہوں اور عوام ان کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔
ا) وہ مباح امور جن میں عوام خاطر خواہ علم رکھتے ہیں ان میں عوام کی اکثریت کی رائے پر خلیفہ چلنے کا پابند ہوتا ہے مثلاً اگر خلیفہ ایک شہر کے باسیوں سے یہ استفسار کر لے کہ انہیں ہسپتالوں یا اسکولوں میں سے کون سی شے کی زیادہ ضرورت ہے تو ایسی صورت میں عوام کی اکثریت (یعنی ان کے نمائندوں کی اکثریت) کا فیصلہ خلیفہ کے لیے نافذ کرنا لازمی ہوگا۔
ب) دوسری طرف خلیفہ مباح تکنیکی مسائل میں عوام الناس کی بجائے فقط ماہرین سے رجوع کرتا ہے اور ان سے مشورے کے بعد اس کی نظر میں جو بھی رائے زیادہ مناسب ہو وہ اسے اختیار کرتا ہے۔ اس میں عوام کی یا تکنیکی ماہرین کی اکثریت کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا۔ چنانچہ اگر پانی کی قلت کا سامنا ہو تو خلیفہ تکنیکی ماہرین سے مشورہ کرنے کے بعد حتمی فیصلہ کرنے کا مجاز ہوگا کہ ڈیم کہاں اور کتنا بڑا بنایا جائے۔ لیکن ان تمام امور میں امت اور ان کے نمائندے خلیفہ کا محاسبہ کرنے کا حق رکھتے ہیں تاکہ وہ اپنے اختیارات کا استعمال عوامی بھلائی میں کرے نہ کہ ذاتی مفاد میں۔
* جمہوری نظام حکومت میں مذکورہ بالاتینوں جہتوں میں (یعنی قانون سازی اور دونوں مباح امور میں) آخری فیصلے کے لیے عوام کی اکثریت ہی سے رجوع کیا جاتا ہے جبکہ خلافت میں عوام کی اکثریت صرف ایک پہلو میں فیصلے کا اختیار رکھتی ہے۔ اسی طرح ڈکٹیٹرشپ میں تینوں جہتوں کے بارے میں ایک فرد واحد فیصلہ صادر کرتا ہے لیکن خلافت میں خلیفہ کے پاس صرف ایک جہت میں اپنی مرضی نافذ کرنے کا اختیار ہوتا ہے یعنی مباح تکنیکی امور میں۔ یوں خلافت نہ ہی ڈکٹیٹرشپ ہے اور نہ ہی جمہوریت۔ قوانین بنانے اور اہم امور پر فیصلہ کرنے کا یہ بنیادی فرق ایسے نظام اور معاشرے کو جنم دیتا ہے جو اپنی اساس اور جزئیات میں آمریت اور جمہوریت سے جنم لینے والے نظام اور معاشرے سے مکمل طور پر مختلف ہوتا ہے۔
* خلیفہ مندرجہ بالا تینوں جہتوں میں مشاورت کا خیر مقدم کریگا اور ملک میں ایک مثبت مشاورت کی فضاء کو یقینی بنائے گا۔
5) خلیفہ مطلق العنان نہیں ہوتا بلکہ اس کا محاسبہ کرناعوام کا انفرادی اور اجتماعی فریضہ ہوتا ہے۔ نیز قاضی مظالم بدعنوانی کی صورت میں خلیفہ کو معزول تک کر سکتاہے۔
6) مجلس امت عوام کے نمائندوں پر مشتمل ایک ایسا ادارہ ہوتا ہے جس کی ذمہ داریوں میں خلیفہ کو مشورہ دینے کے ساتھ ساتھ اس کا محاسبہ کرنا بھی شامل ہے
7) ایک سے زائد سیاسی جماعتیں قائم کرنے کی اجازت ہوگی۔ لیکن تمام سیاسی جماعتوں کی اساس اسلام پر ہونا لازمی ہے۔ سیکولر، سوشلسٹ یا کسی بھی اور نظریے پر پارٹی قائم کرنے کی اجازت نہ ہوگی۔
8) پوری مسلم امت کی ایک ہی ریاست اور ایک ہی خلیفہ ہو سکتا ہے۔ ایک سے زائد ریاست بنانا یا ایک خلیفہ کی موجودگی میں کوئی دوسرا خلیفہ مقرر کرنا شرعاً حرام ہے۔ مسلمانوں کی وحدت اور طاقت ایک ریاست اور ایک امیر میں مضمر ہے جس کی اسلام بڑی سختی سے تلقین کرتا ہے۔ امت صرف اسی صورت میں استعماری تسلط اور صلیبی یلغار سے باہر نکل سکتی ہے جب وہ دنیا کے چالیس فیصد وسائل اور ایک بلین سے زائد افرادی قوت کو ایک ریاست تلے متحد کرے۔ یہ وحدت ہی کافروں کی صفوں میں کھلبلی مچانے کے لیے کافی ہے۔
* امت کفراً بواحاً (واضح کفر) کے نفاذ پر خلیفہ کو طاقت کے ساتھ اتار نے کی قانوناً مجاز ہوتی ہے۔

اقتصادی نظام:
1) اسلام میں کچھ متعین ٹیکس اور صدقات ہیں مثلاً خراج، عشر، جزیہ، زکوٰۃ، خمس، ہنگامی حالات میں صرف امیروں پر ٹیکس وغیرہ۔ ان متعین ٹیکسوں اور صدقات کے علاوہ عوام پر کسی قسم کا کوئی ٹیکس لگانا شرعاً حرام ہے۔ چنانچہ خلافت میں مروجہ جی ایس ٹی، انکم ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس، ٹول ٹیکس نہیں ہوتے۔ پیسے اور مال پر سال کے آخر میں ڈھائی فیصد زکوٰۃ تو لی جاتی ہے لیکن اس کے علاوہ کسی قسم کا کوئی ٹیکس عائد نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح مسلمان تاجر کے درآمدی یا برآمدی اشیاء پر صرف ڈھائی فیصد زکوٰۃ لی جاتی ہے اور اس کے علاوہ کوئی امپورٹ اور ایکسپورٹ ڈیوٹی عائد نہیں کی جاتی۔ چنانچہ جی ایس ٹی، انکم ٹیکس جیسے استحصالی ٹیکسوں کی عدم موجودگی میں ایک عام شہری کو فوری ریلیف ملتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امپورٹ اور ایکسپورٹ ڈیوٹیوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے تجارت کو بھی فروغ ملتا ہے۔ نیز خراج، عشر، زکوٰۃ کی شکل میں پیسے اس سے لیے جاتے ہیں جو جاگیریں اور پیسہ رکھتا ہے اور وہ بھی اتنا جس سے امیر لوگوں پر بھی بوجھ نہ پڑے جبکہ ایک غریب نادار پر کسی بھی قسم کا کوئی ٹیکس لاگو نہیں ہوتا۔ اﷲ کے احکام ہونے کے ناطے ان قوانین کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا اور یوں اﷲ انسان سے قانون سازی کا اختیارات چھین کر انسانیت کو ظلم سے بچالیتا ہے۔
2) اسلام میں ہر مرد پر اپنی اور اپنے اہل خانہ کی کفالت فرض ہے۔ ناداری کی صورت میں اس کے قریبی رشتہ داروں پر نان نفقہ کی ذمہ داری آن پڑتی ہے ۔ قریبی رشتہ داروں کی طرف سے عدم عدائیگی کی صورت میں ایک شخص اپنا حق عدالت کے ذریعہ وصول کر سکتا ہے۔ وہ تمام لوگ جن کی بنیادی ضروریات ان دونوں ذرائع سے بھی پوری نہ ہو سکیں تو پھر یہ ذمہ داری ریاست کی ہو گی کہ ان کی بنیادی ضروریات پوری کرے۔ ان میں خوارک، لباس، چھت، تعلیم، صحت وغیرہ شامل ہیں۔ یوں لوگوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنا اسلامی ریاست کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے جبکہ ایک سرمایہ دارانہ ریاست میں ایسا نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کے امیر ترین ملک، امریکہ میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے گھر ہیں اور رات کھلے آسمان کے نیچے گزارنے پر مجبور ہیں۔
3) ایک سرمایہ دار یا ملٹی نیشنل کو عوامی اثاثہ جات پر ملکیت کی اجازت نہیں ہوتی مثلاً تیل اور گیس کے کنوئیں، معدنیات کی کانیں، نہریں، شاہراہیں، پبلک پارکس وغیرہ۔ چنانچہ ہر وہ شئے جس پر عوام کا انحصار ہو اور جس کی عدم موجودگی کی صورت میں وہ منتشر ہو جائیں ذاتی ملکیت میں نہیں آسکتی۔ آج ملٹی نیشنل کمپنیوں کی صورت میں پیسے کا اتکاز صرف اسی لیے ہو رہا ہے کہ تمام تر وسائل کو ذاتی ملکیت کے نام پر چند ہاتھوں میں مرکوز کر دیا گیا ہے اور عوام ان کو حاصل کرنے کے لیے انہیں منہ مانگا منافع دینے کے لیے مجبور ہیں جیسا کہ پاکستان میں آئی پی پی (انڈیپنڈنٹ پاور پلانٹس) کے قیام کے بعدبجلی کا حشر ہوا۔ خلافت ان عوامی اثاثہ جات کو عوام تک مفت فراہم کریگی یا اس قیمت پر ،جتنا انہیں مہیا کرنے پر خرچ آیا۔ یوں تیل، گیس، بجلی، پانی وغیرہ ایک شہری کو نہایت ہی سستی ملے گی جس کو حاصل کرنے میں آج انہیں دو دو نوکریاں کرنی پڑتی ہیں۔ نیز پاکستان کی زرعات اور انڈسٹری کو نئی زندگی ملے گی۔ چنانچہ اسلام کا ایک حکم مغربی سرمایہ دارانہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کو عوام ا لناس کی بنیادی ضروریات پر ڈاکہ ڈالنے سے روک دیتا ہے اور پیسے کو چند ہاتھوں میں مرتکز ہونے سے روکتا ہے۔
4) مزارعت یا کاشت کے لیے زمین کرائے پر دینے کی اجازت نہیں ہوگی۔ تاہم زمیندار کو کاشتکاری کے لیے اجرت پر مزدور رکھنے کی اجازت ہوگی۔
5) اگر ایک زمیندار خود اپنی زمین کاشت نہ کر سکے تو اسے کسی دوسرے مسلمان کو بغیر معاوضہ دینے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ اور اگر وہ تین سال تک ایک خطۂ اراضی کاشت کرنے سے قاصر رہے تو ریاست اس زمین کو ضبط کر کے کسی دوسرے شہری کو دینے کی مجاز ہوتی ہے۔
6)شہری علاقے سے باہر ایک بنجر زمین کو قابل کاشت بنانے والا اس زمین کا مالک بھی بن جاتا ہے۔ اس وقت تقریباً40% اراضی بنجر پڑی ہے جسے قابل کاشت بنایاجاسکتا ہے۔ مالکانہ حقوق کی پرکشش ترغیب گاؤں میں رہنے والے 70% آبادی کو نہ صرف باعزت روزگار حاصل کرنے کے لیے متحرک کریگی بلکہ ملکی پیداوار میں خاطر خواہ اضافے کا باعث بھی بنے گی۔ نیز اس اراضی سے خراج اور عشر کی مد میں خطیر رقم بیت المال میں جمع ہوگی۔
7) شہری علاقے سے باہر ایک بنجر زمین پر گھر بنانے یا باڑ لگا کر اس میں مویشی پالنے یا اس پر صنعت لگانے سے بھی ایک شخص اس بنجر زمین کا مالک بن جاتا ہے۔ رہائشی زمین کی قیمتوں میں جو آج آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، فوری کمی آئے گی اور یوں عوام الناس کا چھت کامسئلہ بڑی آسانی سے حل ہوجائے گا۔
8) کرنسی مکمل طور پر سونے اور چاندی پر منحصر ہوگی یوں پیسے کے قیمت میں ہو شربا کمی ختم ہو جائے گی اور قرض خواہ کی سود مانگنی کی توجیح بھی ختم ہو جائیگی۔
* سونے چاندی (کرنسی) کی ذخیرہ اندوزی حرام ہوتی ہے۔ یوں پیسے کے ارتکاز کی حوصلہ شکنی ہوگی اور پیسہ اقتصادی چکر سے باہر نہیں نکلے گا۔
اسلامی نظام عدل:
1) تمام مقدمات کا فیصلہ صرف اور صرف اﷲ کے قوانین کے تحت کیاجاتا ہے۔ جج کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے اسے کسی اور عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی وجہ سے حقدار کو ایک عدالت سے دوسری عدالت تک چکر نہیں لگانے پڑتے اور مجرم کو فوری سزا ملتی ہے۔ فریقین جج کے خلاف مقدمہ کر سکتے ہیں اگر وہ اسلامی احکامات کی صریح خلاف ورزی یا حقائق کو نظر انداز کرکے فیصلہ صادر کرے۔
2) ملزم اس وقت تک بری تصور کیا جاتا ہے جب تک کہ اس کا جرم سو فیصد ثابت نہ ہوجائے۔ چنانچہ ایک شخص کو محض شک کی بنیاد پر گرفتار کیا جائے گا اور نہ ہی سزا سنائی جائے گی۔ آج جھوٹیFIR کی مدد سے ایک غریب کو جیل بھجوا دیا جاتا ہے جہاں وہ ضمانت کی عدم موجودگی کی وجہ سے سال ہا سال سڑتا رہتا ہے۔ آج خواتین حدود آرڈیننس کی وجہ سے ظلم کا شکار نہیں بلکہ انگریز کے دیے گئے ان procedrual laws کے تحت ظلم کی چکی میں پس رہی ہیں ۔
3) اسلامی عدالتی نظام میں اعلیٰ اور ذیلی عدالتوں کا کوئی تصور نہیں تاہم مختلف نوعیت کے جرائم کی بنیاد پر عدالتوں کی تین اقسام ہیں۔ قاضی محتسب، قاضی عام اور قاضی مظالم۔ قاضی محتسب معاشرے کے خلاف ہونے والے جرائم اور مجموعی معاشرتی حقوق کی خلاف ورزی سے نمٹتا ہے مثلاً ناپ تول میں کمی، غیر قانونی تجاوزات وغیرہ۔ قاضی عام دو شہریوں کے مابین تنازعات سنتا ہے نیز ریاست کے خلاف ہونے والے جرائم بشمول حدود اور تعزیرات کے فیصلے صادر کرتا ہے۔ قاضی مظالم عوام اور ریاست /حکمرانوں کے مابین تنازعات پر فیصلہ کرتا ہے۔
4) خلیفہ کا جرم ثابت ہونے کی صورت میں قاضی مظالم اسے سزا دینے یا معزول کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ نیز مقدمہ کے دوران خلیفہ قاضی مظالم کومعزول کرنے کا حق نہیں رکھتا۔
5) عدالت میں صرف ایک ہی قاضی فیصلہ کا مجاز و مختار ہوتا ہے۔ دیگر قاضی حضرات اسے فیصلہ کرنے میں مشورہ اور مدد دے سکتے ہیں۔ نیز اسلام میں جیوری کا کوئی تصور نہیں۔
6) جھوٹی گواہی دینے والے کو قرار واقعی سزا دی جاتی ہے۔ نیز لمبے اور غیر ضروری پروسیجرل قوانین (procedural laws) سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ نتیجتاً عوام کو فوری اور سستا انصاف مہیا ہوگا۔
7) عدل مہیاکرنا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے چنانچہ خلافت میں کسی قسم کی کوئی کورٹ فیس یا ٹیکس نہیں ہوتا۔
8) عدلیہ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ تمام شہریوں کو رنگ، نسل اور دین سے بالا تر ہو کر ایک ہی نظر سے دیکھے۔ سوائے ان مسائل کے جو غیر مسلموں کی ذاتی زندگی سے متعلق ہوں مثلاً شادی بیاہ وغیرہ جن میں ہر شخص کے مذہب کے مطابق فیصلے کئے جائیں گے۔
خارجہ پالیسی:
1) اسلام کی دعوت اور اس کے نظاموں کا فروغ خارجہ پالیسی کی بنیاد اور اساس ہوتی ہے۔ جس کا عملی طریقہ دعوت اور جہاد ہوگا تاکہ انسانیت کو استعماری نظام کے ظلم سے نجات دلائی جاسکے۔
2) ریاست کو کسی بھی ایسے بین الاقوامی ادارے کا حصہ بننے کی اجازت نہیں ہوگی جس میں غلبہ اور مجموعی اختیار کفار کے پاس ہو مثلاً اقوام متحدہ، نیٹو، WTO وغیرہ
3) مسلم علاقوں میں قائم غیر شرعی ریاستوں کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ ان علاقوں کو خلافت میں ضم کرنے کے لیے ریاست پر امن ذرائع استعمال کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی تاہم ضرورت پڑنے پر عسکری ذرائع بھی استعمال کئے جاسکتے ہیں۔
4) وہ ممالک جو مسلمانوں کے خلاف عملاً بر سرپیکار ہیں مثلاً اسرائیل، امریکہ، برطانیہ، ہندوستان وغیرہ کے ساتھ کسی قسم کے سفارتی تعلقات نہیں ہونگے۔ ان ممالک کے ساتھ حالت جنگ کے شرعی قوانین لاگو ہوں گے۔
5) دیگر غیر مسلم ریاستوں سے محدود مدت کے معاہدے کر کے سفارتی تعلقات قائم کئے جائیں گے تاکہ ان کے ساتھ مل کر بڑے سیاسی حریف کے خلاف سیاسی اور اقتصادی بلاک بنایا جاسکے۔
6) معاہد ریاستوں کے ساتھ دو طرفہ تجارت اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے روابط بڑھائے جائیں گے تاکہ ریاست کو ہر شعبے میں خودکفالت سے ہمکنار کیا جاسکے۔
7) خلافت مسلمانوں کے وسائل اور فوجوں کو متحد کرتے ہوئے کشمیر، فلسطین، عراق، افغانستان اور دیگر مسلم مقبوضہ علاقوں کو بذریعہ جہاد حریت دلائی گی۔
معاشرتی نظام:
1) عفت و عصمت کی حفاظت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ چنانچہ مرد اور عورت پر تہمت لگانے والے کو سخت سزا دی جائے گی۔ نیز تمام تمدنی پہلوؤں یعنی لباس کی تراش خراش، عمارتوں کی تعمیر وغیرہ میں اسی بنیاد کو ملحوظ رکھا جائے گا ۔ چنانچہ مسلمان اور غیر مسلم عورتیں چہرے اور ہاتھوں کے علاوہ جسم کا کوئی حصہ برہنہ کر کے باہر نہیں آسکیں گی۔ اسی طرح مردو ں کو بھی اپنے ستر ڈھانپ کر نکلنا ہو گا۔
2) نان نفقہ کی ذمہ داری مرد کی ہے۔ بچوں اور گھر کی دیکھ بھال عورت کی اولین ذمہ داری ہے۔
3) عورت کے بھی وہی حقوق اور فرائض ہیں جو مرد کے ہیں سوائے ان کے جو اسلام نے بحیثیت عورت اس کے ساتھ مخصوص کردئے ہیں۔ چنانچہ عورت تجارت، زراعت، تدریس، طب صنعت و حرفت، سیاست وغیرہ میں اپنا مثبت کردار ادا کر سکتی ہے بشرطیکہ اس کی اولین ذمہ داری متاثر نہ ہوتی ہو۔
4) عورت تمام حکومتی عہدوں پر فائز ہوسکتی ہے سوائے خلیفہ، محکمۃ المظالم کے قاضی، والی (گورنر)، عامل اور ایسے عہدہ کے ،جو براہ راست حکمرانی کے زمرے میں آتا ہو۔
5) عورتوں اور مردوں کی جنسیت کو پیسے کمانے کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ چنانچہ وہ تمام پیشے رکھنے کی اجازت نہ ہوگی جو عورت اور مرد کی جنسیت کو استعمال کرتے ہیں۔
اسلامی تعلیمی پالیسی:
1) تعلیم کا بنیادی مقصد اسلامی شخصیت پیدا کرنا اور طالب علم کو زندگی کے مسائل سے متعلق علوم اور معارف سے لیس کرنا ہے۔
2) پرائمری اورسکینڈری اسکول تک تعلیم مفت فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوگی۔ نیز یہ تمام پر لازمی بھی ہوگی۔
3) ہر مرد اور عورت پر یہ فرض ہے کہ وہ روز مرہ زندگی سے متعلق شرعی احکامات کا خاطر خواہ علم رکھتا ہو۔
4) پوری ریاست میں تعلیمی نصاب ایک ہی ہوگا اور پرائیوٹ تعلیمی اداروں یا مدارس کو ریاست کے نصاب کے علاوہ کسی دوسرے نصاب کے اپنانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ چنانچہ آغا خان فاؤنڈیشن اور او اینڈ اے لیولز کے مغربی اور کفریہ نصاب پڑھانے کی ہر گز اجازت نہ ہوگی۔
5) کسی بھی غیر ملکی اسکول کی اجازت نہ ہوگی۔
6) مخلوط تعلیم کی اجازت نہیں ہوگی۔ سوائے بصورت مجبوری اگر اعلیٰ تعلیمی شعبے میں الگ الگ جامعات بنانے کے لیے ریاست کے پاس فنڈز نہ ہوں۔
7) سائنس اور ٹیکنالوجی اور ان کے ثمرات غیر مسلموں سے بھی اخذ کئے جاسکتے ہیں مثلاً اسلحہ، خلائی ٹیکنالوجی، ٹی وی، ڈی وی ڈی، انٹرنیٹ، پودوں اور جانوروں کی کلوننگ وغیرہ۔ لیکن وہ مضامین جو مغربی ثقافت اور ان کے نظریات مثلاً ڈارون ازم وغیرہ کو فروغ دیں، ان کی پرائمری اور سیکنڈری درجات میں تدریس کی اجازت نہ ہوگی۔ تاہم یہ موضوعات مع ان کے ردّ، اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھائے جائیں گے۔
8) علم کے چھپانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ چنانچہ کاپی رائیٹ اور انٹیلیکچویل پراپرٹی رائٹس کے سرمایہ دارانہ قوانین کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی جن کا مقصد ہوشربا منافع بنانے کے علاوہ دیگر اقوام کو سائنسی میدان میں پسماندہ رکھنا ہوتا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی پر غاصبانہ تسلط قائم رکھنے کے لئے مغرب نے WTO کے نام پر جو قوانین متعارف کروائے ہیں انہیں ریاست کسی طورقبول نہیں کریگی۔ لہذا ادویات، بیج، مشینری اور دیگر ٹیکنالوجی وغیرہ نہایت ہی سستے داموں میسر ہونگے اور عوام الناس ان ثمرات سے بخوبی فائدہ اٹاسکیں گے۔
9) دفاعی اور بھاری صنعت کی ترقی کو ترجیحی بنیادوں پر استوار کیاجائے گا نیز یہاں پر ہونے والی تحقیق کو دیگر انڈسٹری کے ساتھ باہم مربوط کیا جائے گا تاکہ تحقیق کے فوائدعام آدمی تک پہنچ سکیں۔

متفرق اصول و قوانین:
1) فقط کتاب اﷲ، سنت رسول ﷺ، اجماع صحابہؓ اور قیاس ہی شرعی احکامات اخذ کرنے کے لیے معتبر ذرائع ہوتے ہیں۔
2) اسلام میں شرعی مصادر سے احکامات اخذ کرنے کے عمل (process) کو اجتہاد کہتے ہیں۔ کسی بھی دور میں پوری امت میں کم از کم ایک مجتہد کا ہونا فرض کفایہ ہے جو امت کو نئے مسائل کے بارے میں حکم، شرعی مصادر سے استنباط کر کے دے سکے۔ ہر مسلمان کو اجتہاد کا حق حاصل ہے بشرطیکہ اس کے اندر اجتہاد کی شرائط پائی جاتی ہوں۔ نیز یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ اجتہاد کسی مجتہد کی اپنی پسند نا پسند پر مبنی نہیں ہوتا بلکہ یہ فقط قرآن اور سنت میں وارد شدہ اﷲ کے احکامات کو سمجھنے اور تلاش8 کرنے کا نام ہے۔ اسی لئے ہر مجتہد مستنبط شدہ حکم کے لئے شرعی مصادر سے دلیل پیش کرنے کا پابند ہوتا ہے تاکہ دیگر علماء اور مقلدین اس حکم کی صحت کی جانچ پڑتال کر سکیں۔ یہ ایک غلط سوچ ہے کہ اجتہاد اس مسئلے کے بارے میں کیا جاتا ہے جو شرعی مصادر میں بیان نہ کیا گیا ہو کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ شریعت کسی بھی مسئلے پر خاموش نہیں ہے۔ اجتہاد ہر اس مسئلے میں درکار ہے جس میں شرعی نصوص سے ایک سے زائد معنی کا احتمال ہو یعنی جس کے بارے میں قطعی دلیل کے بجائے ظنی دلیل ہو۔ چنانچہ مجتہد غالب ظن کی بنیاد پر ان مسائل میں لوگوں کی راہنمائی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نماز اور روزے جیسے مسائل پر مجتہدین نے اجتہاد کے ذریعے تفصیلی احکامات استنباط کئے ہیں گو کہ یہ کوئی نئے مسائل نہیں اور مسلمان یہ مناسک رسول اﷲ ﷺ کے دور سے ادا کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اس کے برعکس ختم نبوت، سود کی حرمت، چور کے ہاتھ کاٹنے، زانی کو سو درے لگانے وغیرہ جیسے قطعی احکامات اور عقائد پر کسی قسم کا جتہاد نہیں ہو سکتا کیونکہ ان تمام احکامات پر شرعی نصوص واضح اور روایت کے لحاظ سے قطعی ہیں اور ان میں مفہوم کے لحاظ سے کسی قسم کا کوئی ابہام یا ظن موجود نہیں۔
3) ریاست میں فقہی اختلاف کی مکمل اجازت ہوگی سوائے قطعی احکام اور عقائد میں کیونکہ ان میں اختلاف سے ایک شخص اسلام سے خارج ہوجا تا جیسا کہ قادیانیوں کا معاملہ ہے۔ کسی اختلافی مسئلے میں ریاست کسی مخصوص رائے کو صرف اسی وقت اختیار (تبنی) کرتی ہے اگر اس مسئلے کا تعلق معاشرے کے اجتماعی پہلوں سے ہو یا اس کا تعلق نظام سے ہو ۔ عموماً انفرادی پہلوں اور عبادات سے متعلق احکامات پر ریاست کوئی خاص فقہی رائے اختیار یا نافذ نہیں کرتی ۔ چنانچہ مسلمانوں کو ان کے ذاتی مسائل اور عبادات میں کسی بھی درست اجتہاد پر عمل کرنے کی اجازت ہوگی خواہ وہ صلاحیت رکھنے کی صورت میں خود اجتہاد کریں یا کسی مجتہد کی پیروی کریں۔ نظام سے متعلقہ اسلامی احکامات ریاست قوت دلیل کی بنیاد پر اختیار (تبنی) کرتی ہے جو ریاست کے تمام شہریوں پر یکساں طور پر نافذکیا جاتا ہے ۔ مزیدبرآں عوام کے پاس ریاست کے نافذ کردہ احکامات کی شرعی حیثیت کو چیلینج کرنے کا اختیار ہوتا ہے جس پر قاضی مظالم کا فیصلہ ختمی ہوتا ہے۔
4) ریاست ذرائع ابلاغ کو اسلام کی تشہیر و تعلیم اور امت کی سیاسی بیداری اور یکجہتی کے لیے استعمال کریگی۔ نیز پرائیویٹ اور ریاستی ذرائع ابلاغ کو حکمرانوں کے محاسبے کی کھلی اجازت ہوگی۔
5) ایک ذمی (غیر مسلم شہری) کی جان، مال، عزت کو تحفظ فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ انہیں جیسا چاہیں اعتقاد رکھنے اور جس طرح چاہیں عبادت کرنے کا حق حاصل ہوگا۔
مندرجہ بالا نکات خلافت کے نظاموں اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی سوسائٹی کی ایک جھلک فراہم کرتی ہے۔ یہ بھی یاد رہے یہ تمام نکات کسی بھی انسان کی ذہنی اختراع نہیں بلکہ یہ سب مذکورہ بالاشرعی دلائل سے اخذ کئے گئے ہیں۔ میں نے اختصار کو پیش نظر رکھتے ہوئے شرعی دلائل پیش نہیں کئے۔ قارئین کو اگر کسی بھی نکتہ کی دلیل درکار ہو تو وہ دستیاب ہیں۔ اس کے علاوہ اگر کسی قاری کو اسلامی ریاست کا آئین درکار ہو تو وہ www.hizb-ut-tahrir.org سے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

کیا قرآن و حدیث میں صیغہ امر (حکمیہ انداز) لازما واجب یا فرض ہوتا ہے ۔ (اصول الفقہ)

مسلمان صرف وحی کی اتباع کرتے ہیں ۔ یہ وحی ہمارے پاس دو شکلوں میں موجود ہے : ایک وحی متلو۔۔۔ یعنی وہ وحی جس کی تلاوت کی جاتی ہے،اس سے مراد قرآن الکریم ہے ۔ اور دوسرے وحی غیر متلو ۔۔۔یعنی وہ وحی جس کی تلاوت نہیں کی جاتی ۔ اس سے مراد حدیث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا اور رسول اللہ ﷺکی زبان بھی عربی ہی تھی۔ اس لیے عربی زبان کا فہم ہونااز حد ضروری ہے تبھی ہم شرعی مآخذ سے احکامات کو ٹھیک ٹھیک اخذ کرسکیں گے ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے سورۃ یوسف کی آیت نمبر 2میں ارشاد فرمایا: (انا انزلنَہٗ قرء ٰ نًا عربیًا لَّعلکم تعقلون ) ’’بے شک ہم نے اس قرآن کو نازل کیا تاکہ تم سمجھو‘‘ تاہم محض عربی زبان کی سمجھ شرعی مآخذ سے احکامات کو اخذ کرنے کے لیے کافی نہیں ۔ عربی زبان کا فہم ہوناشرعی متن یعنی (shariah Text) کو سمجھنے کی مختلف شرائط میں سے ایک شرط ہے۔ کیونکہ یہاں مقصد احکامات کو ایک خاص (قانونی ) متن سے اخذ کرنا ہے۔ جس کے لیے عربی زبان کی سمجھ کے علاوہ مزید امور کی بھی ضرورت ہے جیسے کہ وہ قرآئن جو فرائض اور حرام امور کا تعین کرتے ہیں، عام حکم اور اس کی تخصیص ، مطلق اور مقید ی

خلافت قائم کرنے کا طریقہ

1)     چونکہ خلافت کا قیام ایک فرض ہے بلکہ یہ مسلمان کے اوہر سب سے بڑا فرض ہے ۔ اور چونکہ ایک فرض کے قائم کرنےکا طریقہ اللہ سبحان و تعالیٰ نے انسان پر نہیں چھوڑا بلکہ ہر فرض کے طرح اس فرض کا بھی طریقہ کار اسلام نے بتایا ہوا ہے۔ اور یہ طریقہ کار ہم نبیﷺ کی سیرت سے جان سکتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ریاست کیسےقائم کی تھی۔، بالکل ویسے جس طرح ہم نماز، روزے، حج، جہاد اور دیگر فرائض کا طریقہ نبیﷺ سے اخذ کرتے ہیں۔ 2)   اگر عقل پر چھوڑ دیا جائےتو مختلف طریقے ذہن میں آتے ہیں، جیسے حکمرانوں کو صرف دعوت سے قائل کرنا کہ اسلام قائم کریں، یا ان کے خلاف جنگ کر کے ان کو ملیا میٹ کر کے اسلامی نظام قائم کرنا، یا اس ملک میں مروجہ دستور اور قانون کے مطابق نظام میں حصہ لے کر اس نظام کے اوپر پہنچ کر اسلام کا نظام قائم کرنا یا تمام لوگوں کو تبدیل کرنا ، یہ سوچ کرکہ جب تمام لوگ سچے، پکے مومن بن جائیں گے تو اسلامی نظام خود ہی قائم ہو جائے گاوغیرہ۔ لیکن یاد رہے کہ یہ سب عقل و منطق (logic)   سے نکلنے والے طریقے ہیں ۔ اور انسانی عقل کامل نہیں اسلئے اس طریقوں کی اپنی خوبیاں اور خامیاں ہونگی۔  لیکن جو طریقہ اللہ سبحانہ

شرعی دلائل کی روشنی میں خلافت اور جمہوریت کا تقابلی جائزہ

                                                                                                نوید بٹ   اسلام کا طالب علم جب قرآن و سنت پر نظر ڈالتا ہے تو اسے ’’جمہوریت‘‘ سے متعلق کوئی آیت یا حدیث تو درکنار صحابہ، آئمہ مجتہدین یا فقہائ کا ایک قول بھی نہیں ملتا۔ حالانکہ انسانیت اسلام سے ہزاروں سال قبل جمہوریت سے روشناس ہو چکی تھی۔ وہ اس شش و پنج کا بھی شکار ہوتا ہے کہ اگر اسلام کا نظام حکومت جمہوریت ہی ہے تو پھر کیا یونانیوں نے اسلام کے آنے سے قبل ہی ازخود ’’اسلامی نظام حکومت‘‘ دریافت کر لیا تھا؟ کیا اس ’’اسلامی نظام حکومت‘‘ کے نفاذ سے انہوں نے ایک اسلامی معاشرے کو جنم دے دیا تھا؟ کیا وہ نہ جانتے ہوئے بھی اسلام پر ہی چل رہے تھے؟ لیکن تاریخ کے کسی گوشے میں بھی یونانی تہذیب اور اسلامی تہذیب میں مماثلت کا کوئی شائبہ تک نہیں ملتا۔ اگر رسول مقبول ا جمہوریت ہی دے کر مبعوث کئے گئے تھے تو پھر آپ اکو یہ ارشاد فرمانے میں کیا تردد تھا کہ وہ وہی نظام لے کر آئے ہیں جو ارسطو اور یونانی فلاسفر انسانیت کو پہلے ہی دے چکے ہیں؟ جبکہ اسلامی عقائد کے بارے میں آپ ا نے بڑے واضح انداز میں فرمایا تھا کہ آ

آئین پاکستان کی نام نہاد "اسلامی دفعات" اور اس پر پاکستان کی ہائیکورٹس اور سپریم کورٹس کے مصدقہ فیصلے

آپ اور میں اپنے خواہش کے مطابق بے شک پاکستان کے آئین مین "اسلامی" دفعات پڑھ کر خوش ہوتے رہیں اور یہی کہتے رہپں کہ آئین دراصل اسلامی ہے ، اصل مسئلہ صرف نفاذ کا ہے لیکن آئین کی تشریح کا حق آپ کو یا مجھے نہیں، بلکہ عدالت کو ہے اور اس کی تشریح حتمی مانی جاتی ہے ۔ اور ان کے کچھ فیصلے ملاحظہ کریں: Sec 2. “Islam shall be the State religion of Pakistan.’’ ریاست کا سرکاری مذہب اسلام ہو گا۔ But when this Article 2 came to be interpreted in the Court of Law, a  Full Bench of the Sindh High Court comprising 5 judges, headed by its Chief Justice,  held that: ‘‘Article 2 is incorporated in the Introductory Part of the Constitution and as far as its language is concerned, it merely conveys a declaration. The question arises as to the intention of the Makers of the Constitution by declaring that ‘‘Islam shall be the State religion of Pakistan.’’ Apparently, what the Article means is that in its outer manifestation the State and its Government shall carry an Islamic Symbol. This A

ایک امت، ایک چاند، ایک رمضان اور ایک عید

تحریر: نوید بٹ اس سال روئیت ہلال کمیٹی کے سربراہ مفتی منیب الرحمن نے بڑے فخر سے اعلان فرمایا کہ اس دفعہ پورا پاکستان ایک دن رمضان شروع کر رہا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ اعلان درست نہ تھا کیونکہ نہ صرف پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین بلکہ وزیرستان کے مسلمان بھی ایک دن پہلے امت مسلمہ کے ساتھ رمضان کی شروعات کر چکے تھے۔ دوسرا اہم پہلو یہ کہ پاکستان نے قومیت کی بنیاد پر چاند قبول کرکے اپنے آپ کو امت مسلمہ سے الگ کر دیا اور امت کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا۔ مفتی منیب صاحب اس کے بارے میں کیا فرمائیں گے؟ کیا مفتی صاحب امت کو بتا سکتے ہیں کہ کہ قومیت پر مبنی روئیتِ ہلال کی اس بدعت کی شریعت سے کیا دلیل ملتی ہے۔  استعمار نے خلافت کا خاتمہ کر کے نہ صرف مسلمانوں کو چھوٹے چھوٹے حصوں تقسیم کر دیا بلکہ اس نے ہر حصے کو ایک مخصوص قومیت، قومی ترانہ، جھنڈا اور چاند بھی دے دیا۔ جھنڈے مسلمانوں کو سیاسی طور پر تقسیم کرنے کے لئے اور چاند امت کی مذہبی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لئے۔ لیکن اس سے زیادہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس نے ایسے افراد بھی عوام کے سروں پر بٹھا دئے جو اس تقسیم کو اسلام سے ثابت