نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

آخرطلب نصرہ کیوں؟ - سوال و جواب


جب بھی ہم کہتے ہیں کہ تبدیلی لانے کا درست طریقہ ایک جماعت کا تبدیلی کیلئے رائے عامہ بنانا اور اہل قوت سے نصرہ حاصل کرنا ہے۔ تو ہمارے اکثر دوست اعتراض کرتے ہیں کہ آپ اہل قوت سے نصرہ کی بات کیوں کرتے ہیں؟  اگرچہ بہت بڑا طبقہ اس کی اہمیت کو سمجھتا ہے لیکن ایک بہت بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو اس کو نہ سمجھنے کے باعث طنز کرتے ہیں، بعض رائے عامہ بنانے کے دہائیوں کے کام کو نظر انداز کر کے سمجھتے ہیں کہ شائد یہ کوئی شارٹ کٹ کا چکرہے، بعض استعماری طاقتوں کے مسلم افواج میں اثر و نفوذ کے باعث اسے ناممکن جانتے ہیں، بعض کے لئے ہماری افواج کے ہاتھوں سے استعماری مفادات میں ہونے والی جنگوں میں مسلمانوں کے قتل عام کے باعث  یہ حد درجہ مضحکہ خیز چیز ہے۔   اور اس میں اچھے خاصے سمجھدار لوگ بھی شامل ہے۔ ان سب دوستوں کی سہولت کیلئے چند سوال و جواب پیش ہیں ؛



سوال: کیا طلب النصرہ خلافت کے قیام کا شرعی منہج  (طریقہ کار)ہے؟

جواب: خلافت قائم کرنے کا شرعی منہج رسول اللہ ﷺ کے وہ تمام اعمال ہیں جو ریاست قائم کرنے کیلئے مکہ میں کئے گئے جو مدینہ میں ایک ریاست کے قیام پر منتج ہوئے۔  اس منہج میں ایک جماعت کا قیام، ان کی تربیت، معاشرے کے ساتھ تفاعل (interaction) ، تاکہ معاشرے میں اسلام کے نظام کے قیام کیلئے رائے عامہ قائم ہو، اور طلب النصرہ سب شامل ہیں۔ پس شرعی منہج یہ تمام اعمال ہیں۔ طلب النصرہ اس کا ایک لازمی جز ہے ، اور شرعی منہج کا ایک حصہ ہے۔ بعض اوقات کسی امر کو واضح کرنے یا زور ڈالنے کیلئے اس کو ہی منہج کہہ دیا جاتا ہے، پس طلب النصرہ اسی انداز میں منہج ہے۔

سوال: طلب النصرہ کیا ہے؟

جواب: نصرۃ لغت میں ’’احسن انداز میں مدد‘‘ کو کہتے ہیں۔ عربی لغات میں بیان کیا گیا ہے کہ نصر کا مطلب ظلم کے شکار لوگوں کی مدد کرنا ہے، اور انصار کا معنی ہے وہ گروہ جو مدد مہیا کرے۔  شرعاً ، اس کا معنی دو لحاظ سے ہے۔ ایک اس دعوت کیلئے مدد و حفاظت، جبکہ دوسرا مطلب اس دین کے نفاذ کیلئے مادی قوت۔ نبی ﷺ نے انھی دو امور کیلئے نُصرۃ طلب کی۔  اول: اپنی حفاظت کے لیے اور ایذاوتکلیف کو دور رکھنے کیلئے تاکہ وہ اپنے رب کا پیغام پہنچا سکیں اور دوئم: اسلام کو ریاست اور اختیار و اقتدار کی پوزیشن پر لانے کیلئے۔ دونوں کے دلائل نیچے درج ہیں۔ 

جہاں تک پہلے مقصد کا تعلق ہے ،تو حاکم نے اپنی مستدرک میں جابررض سے حدیث روایت کی جو کہ شیخین (بخاری و مسلم)کی شرائط پر پورا اترتی ہے:

’’رسول اللہ ﷺلوگوں پر اپنے آپ کو پیش کرتے اور کہتے: کیا ایسا کوئی ہے جو مجھے اپنے لوگوں کے پاس لے جائے، یہ قریش مجھے اپنے رب کا پیغام پہنچانے سے روک رہے ہیں؟ بنی ہمدان سے ایک شخص رسول اللہ ﷺکے پاس آیااور کہا:میں لے جاتا ہوں۔ آپﷺنے پوچھا:کیا تمہاری قوم کے پاس قوت ہے۔ اس شخص نے جواب دیا :ہاں۔ آپ ﷺنے اُس شخص سے پوچھا کہ تم کہاں سے ہو۔ اس شخص نے کہا کہ وہ بنی ہمدان سے ہے۔ پھر اس شخص کو خوف ہوا کہ اس کے لوگ شا ید اسے شرمندہ کر یں(اس کا حفاظت کا وعدہ پورا نہ کریں)، پس وہ رسول اللہ ﷺکے پاس آیا اور کہا:میرے لوگ آ رہے ہیں، آپ ان سے بات کریں ، اور میں آپ سے اگلے سال ملاقات کرونگا۔ رسول اللہ ﷺ نے کہا:اچھا‘‘۔ 

سیرت ابنِ ہشام میں ابنِ اسحٰق سے مروی ہے:

’’رسول اللہ ﷺ حج کے ایام میں عرب قبائل سے رابطہ کرتے ، انہیں اللہ کی جانب پکارتے اور نُصرۃ طلب کرتے، آپ انہیں بتاتے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور ان سے کہتے کہ وہ ان پر ایمان لائیں اور ان کی حفاظت کریں ،یہاں تک کہ اللہ اس کو غالب کر دے جو اللہ نے نازل کیا ہے‘‘۔ 

جہاں تک نُصرۃطلب کرنے کے دوسرے مقصد، یعنی اسلام کو ریاست اور اتھارٹی کی پوزیشن پر لانے کا تعلق ہے، تو یہ وہ ہے جس کے متعلق آپ ﷺنے بنی شعبان سے ان کے خیموں میں گفتگو کی اور ان سے نصرۃ طلب کی،لیکن انھوں نے انکار کر دیا۔ اسی طرح وہ گفتگو جو آپ انے بنی عامر بن صعصعہ اور بنی کندہ سے کی لیکن انھوں نے آپ کے بعد اقتدار کا مطالبہ کیا، نبی ﷺنے اس مشروط نُصرۃکو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ سلسلہ عقبہ کے مقام پر بیعتِ ثانیہ پر اختتام پذیر ہوا جہاں آپ کی جانب سے حفاظت طلب کرنے پراوس اور خزرج نے آپ کی خاطر جنگ کرنے کی بیعت کی۔ آپﷺقبائل کے سامنے نُصرۃ کا مطالبہ رکھنے سے قبل انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتے تھے۔ سیرت ابنِ ہشام میں زُہری سے روایت ہے: 

’’ آپ ﷺبنی عامر بن صعصعہ کے پاس گئے اور انہیں اللہ عز و جل کی طرف دعوت دی اور ان پر اپنے آپ کو پیش کیا(یعنی نصرۃ طلب کی) ۔ تو ان میں سے ایک شخص جسے بیحرۃ بن فراس کہا جاتا تھا، نے کہا: اگر یہ شخص میری مٹھی میں آ جائے تو میں اس کے ذریعے پورے عرب کو کھا جاؤں۔ پھر اس نے آپ ﷺسے کہا: ’’ آپ کیا کہتے ہیں کہ اگر ہم آپ کے ’امر‘ (حکومت) پر آپ کی بیعت کر لیں اور پھر اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے مخالفوں پر فتح عطا فرما دے تو کیا آپ کے بعد یہ ’امر‘ (یعنی حکومت) ہمیں ملے گی؟ آپ ﷺنے فرمایا: ’امر‘ (حکمرانی) اللہ تعالیٰ کی ہے وہ جسے چاہے اسے سونپ دے۔ اس پر اس شخص نے کہا: کیا ہم آپ کے لئے عربوں کے تیروں سے اپنے سینے چھلنی کرائیں اور پھر جب آپ کامیاب ہو جائیں تو حکمرانی ہمارے علاوہ کسی اور کو ملے؟! نہیں ہمیں آپ کے ’امر‘ کی کوئی ضرورت نہیں‘‘۔ 

اس واقعہ سے صاف ظاہر ہے کہ عرب خوب جانتے تھے کہ آپ ﷺنصرۃ طلب کر کے درحقیقت کیا طلب فرما رہے ہیں، یعنی ایک اتھارٹی اور ریاست کے قیام کے لیے ایک مضبوط اور طاقتور قبیلے کی حمایت۔ وہ جانتے تھے کہ اس اتھارٹی کے خلاف پورا عرب اٹھ کھڑا ہوگا۔ نصرۃ دینے والے قبائل کورسول اللہ ﷺاور اس نوخیز ریاست کی حفاظت کے لئے پورے عرب کے خلاف لڑنا پڑیگا۔ اس قربانی کے بدلے بنو عامر اور بنی کندہ رسول اللہ ﷺ کے بعداپنے لیے حکومت اور سرداری کی ضمانت چاہتے تھے اور اسی شرط پر نصرۃ دینے کے لئے تیار تھے۔ یہ یثرب کے اوس و خزرج ہی تھے جنہوں نے بغیر کسی شرط کے محض اللہ کی رضا کے لئے آپ اکی حفاظت اور اسلام کے نفاذ کے لئے نصرۃ فراہم کی۔ 

سوال: لیکن نبی کریم ﷺ نے تو مکہ میں توحید کا درس دیا، اور یہی تمام انبیاء کا بنیادی پیغام ہے؟

جواب: توحید اسلام کے تمام اعمال کی بنیاد اور ماخذ ہے۔ جب ہم اللہ وحدہ لا شریک کی وحدانیت پر ایمان لاتے ہیں تو اس کا لازمی تقاضا ہے کہ اس رب کے دین کی بالادستی کو ہر شے پر قائم کیا جائے۔ اس کام کو کیسے کیا جائے، اس کی رہنمائی اسی ذات کی جانب سے وحی کے ذریعے ہم تک پہنچی۔ یہ وحی نبیﷺ کے مکہ میں ریاست قائم کرنے کے اعمال سے واضح ہیں۔ انھی اعمال میں جماعت سازی، معاشرے میں موجود غیر اللہ سے حکمرانی کرنے والوں کے خلاف ایک شدید سیاسی مہم، اس وقت کے غالب نظریات ونظام کو واشگاف انداز میں چیلنج کر کے اسلام کے احکامات سامنے رکھنا، اور مضبوط جنگجو قبائل سے اسلام کے نظام کے قیام کیلئے طلب النصرہ  کرنا ہے۔  پس توحید کا ہی یہ تقاضا ہے کہ وحی الہی سے جو رہنمائی حاصل ہو، اس پر عمل کیا جائے۔ توحید کو معاشرے میں قائم کرنے کا یہی طریق اور یہی منہج ہے جس کی نبیﷺ سے رہنمائی ملتی ہے۔ 



سوال: کیا آپﷺ نے صرف اسلام کی دعوت نہیں دی کیونکہ ہر مسلمان ویسے بھی نبیﷺ کیلئے سب کچھ پیش کرے گا، پھر طلب النصرہ الگ سے کیوں؟

رسول اللہ ﷺ نے جن عرب قبائل سے طلب النصرہ کیا ، اس گفتگو سے بالکل واضح ہے کہ یہ صرف اسلام قبول کرنے کی دعوت نہیں تھی۔ بلکہ ابوبکر صدیق رض ، جو علم الانساب کے ماہر تھے، اس قبیلے کا نسب بتاتے، پھر اس قبیلے کی جنگی استعداد کا تجزیہ کیا جاتا۔ یہاں تک کہ جو قبیلے عرب سے لڑنے  اور دفاع کیلئے تیار لیکن عجم (جیسے فارس) سے لڑنے کی استعداد نہ ہونے کی بات کرتے، تو آپ ان کو اسلام کی دعوت تو دیتے، لیکن طلب النصرہ نہ کرتے۔  آپ "مجھ پر ایمان لاؤ اور مجھے نصرہ دو" کی دعوت کچھ مخصوص لوگوں کو رکھتے، جو طاقت و استعداد کے مالک تھے۔ ایسے قبائلی سرداروں سے آپ نے صرف اسلام کی بات نہیں کی۔ یہاں تک کہ جن قبیلوں نے مشروط بیعت کی بات کی، جیسے کہ آپ کے بعد ہماری حکومت ہو گی، اس کو آ پ ﷺ نے قبول نہیں کیا۔ ( جیسے بنو عامر بن صعصعہ) ۔ پس یہ واضح ہے کہ طلب النصرہ ، اسلام قبول کرنے کا فطری نتیجہ نہیں بلکہ ایک جدا حیثیت کی حامل چیز ہے۔ 

سوال: رسول اللہ ﷺ کو نصرت کس نے دی؟

جواب: رسول اللہ ؤ کو نصرہ یثرب (مدینہ)کے اوس اور خزرج کے قبائل نے دی، جس کے بعد ان کا نام انصار پڑھ گیا۔ انصار نے یہ بیعت عقبہ کے مقام پر دی۔  یہ بیعت ٹاپ سیکرٹ طریقے سے ہوئی تھی۔ نبیﷺ نے ہدایات جاری کی تھی کہ ایک تہائی رات گزرنے کے بعد آنا ہےاور جو سو گیا اسے نہیں اٹھانا (رحیق المختوم) ۔بیعت کے موقع پر رسول اللہ ﷺکے چچا عباس بن عبدالمطلب نے سب سے پہلے گفتگو کا آغاز کیا ۔ سیرت ابنِ ہشام میں کعب بن مالک سے مروی ہے کہ عباس رض نے انصار سے خطاب کرتے ہوئے کہا: 

’’اے خزرج کے لوگو!...اگر تم سمجھتے ہو کہ جس غرض سے تم نے ان کو دعوت دی ہے اسے پورا کرو گے اور ان کے مخالفین سے ان کی حفاظت کرو گے تو بے شک تم اس بار کو اٹھا لو۔ ورنہ اگر تم سمجھتے ہو کہ تمہارے ہاں چلے آنے کے بعد تم ان کا ساتھ چھوڑ دو گے تو بہتر یہ ہے کہ ابھی ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو‘‘

انصار نے یہ سننے کے بعد رسول اللہ ﷺکو مخاطب کیا اور کہا کہ آپ ﷺجو چاہیں اپنے لئے عہد و پیمان لے سکتے ہیں۔ آپ ﷺنے قرآن کی آیات تلاوت فرمائیں اور اسلام کی ترغیب کے بعد فرمایا :

’’کہ میں اس شرط پر تم سے بیعت لیتا ہوں کہ تم میری اس طرح حفاظت کرو گے جس طرح تم اپنے بیوی بچوں کی حفاظت کرتے ہو‘‘

اس پر براء  ا رض نے بیعت دینے کے لیے آپ ﷺکا ہاتھ پکڑ اور کہاہم آپ کی بیعت کرتے ہیں۔ بخدا ہم اہلِ حرب اور اہلِ جماعت ہیں اور یہ فخر ہم کو وراثتاً اپنے بزرگوں سے ملتا رہا ہے۔ براء ابھی گفتگو کر ہی رہے تھے کہ ان کی بات کاٹ کر ابو الہیثم بن تیہان  رض نے کہا: اے رسول اللہ ﷺہمارے اور یہودیوں کے درمیان جو رشتہ اور تعلق ہے ہم اسے قطع کر دینے کے لئے آمادہ ہیں اگر ہم نے ایسا کر دیا اور اللہ نے آپ ﷺکو غلبہ عطا فرمایا تو کیا آپ ہمیں چھوڑ کر پھر اپنی قوم کے پاس چلے آئیں گے؟ رسول اللہ ﷺنے تبسم فرمایا پھر کہا: 

’’ (تمہارا) خون (میرا) خون، (تمہاری) بربادی (میری) بربادی ہے۔ میں تم سے ہوں اور تم مجھ سے ہو جس سے تم لڑو گے میں لڑوں گا، جس سے تم صلح کرو گے میں صلح کروں گا‘‘۔ 

سیرت ابنِ ہشام میں عاصم بن عمر بن قتادہ سے مروی ہے:

’’جب یہ سب جماعت رسول اللہ ﷺ کی بیعت پر آمادہ ہوئی تو عباس بن عبادہ بن نضلۃ الانصاری نے جو بنی سالم بن عوف کے رشتہ دار تھے سب کو مخاطب کر کے کہا: تم ان ذمہ داریوں کو اچھی طرح سمجھ گئے ہو جو ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی وجہ سے تم پر عائد ہوں گی۔ انہوں نے کہا ہاں سمجھ گئے۔ انہوں نے کہا: اس بیعت کے معنی یہ ہیں کہ تمہیں ہر قوم سے لڑنا پڑیگا ، تو اگر ان کی حمایت میں کسی مصیبت کی وجہ سے تمہاری دولت برباد ہو جائے اور تمہارے اشراف مارے جائیں اور پھر تم ان کا ساتھ چھوڑ دو تو اُس وقت ایسا کرنے سے یہ بہتر ہے کہ ابھی انکار کر دو۔ کیونکہ اقرار کے بعد عدم ایفا ء کرنے کا نتیجہ دین و دنیا کی رسوائی ہے۔ اور اگر تم ان تمام مصائب پیش آنے کے بعد بھی ایفائے عہد کے لئے آمادہ ہو تو بیشک انہیں اپنے ساتھ لے چلو۔ اس میں دین و دنیا دونوں کی بھلائی ہے ۔ اس پر سب حاضرین نے کہا: ہم مال و جان کی مصیبت کو برداشت کر کے آپ ﷺکو لیتے ہیں۔ رسول اللہ اآپ فرمائیں اگر ہم نے آپ کے ساتھ وفا کی تو ہمیں اس کے بدلے میں کیا ملے گا۔ آپ ﷺنے فرمایا:جنت۔ انہوں نے کہا ہاتھ پھیلائیے۔ آپ انے ہاتھ بڑھایا اور سب نے آپ اکی بیعت کی۔

پس ہجرتِ مدینہ کا اصل مقصد اسلام کے نفاذ کے لئے اقتدار حاصل کر کے اسلامی اتھارٹی یا حکومت کا قیام تھا جس کے تحفظ کی یقین دہانی انصار بیعت کے ذریعے فراہم کر رہے تھے۔ یہ ہے وہ نصرۃ کی دوسری قسم جس کا مقصد اسلامی اتھارٹی یا اسلامی ریاست کو قائم کرنا ہے۔

سوال: کیا طلب النصرہ اسلامی ریاست قائم کرنے کا فرض حصہ ہے؟

جواب:  جی بالکل۔ اس کے دلائل حسب ذیل ہیں؛ 

حاکم اور بیہقی کی روایت ہے کہ حضرت علیؓ نےفرمایا کہ ’’جب اللہ نے اپنے رسول کو یہ حکم دیا کہ وہ قبائلِ عرب کے سامنے اپنےآپ کو پیش کریں تو آپؐ میرے اور ابو بکر کے ساتھ منیٰ کی طرف روانہ ہوئے جہاں پرعربوں کی ایک مجلس ہو رہی تھی‘‘۔ آپؐ نے بنی عامر ابن صعصعہ کو دعوت دی، ان میں ایک شخص نے کہا واللہ اگر میں اس جوان کو قریش سے لے لوں توپھر تمام عرب کو نگل جاؤں اور پھر اس نے آپؐ سے کہا کہ یہ بتلاؤ اگر ہم تمہارے تابع ہوں اور پھر خدا تم کو تمہارے مخالفین پر غالب کرے تو تمہارے بعد اقتدار ہمارا ہوگا؟ رسول اللہ ﷺ نےجواب دیا کہ یہ بات اللہ کے قبضہ میں ہے وہ جس کو چاہے دیگا۔ اس شخص نے کہا تو پھراس کی کیا وجہ ہے کہ ہم تو تمہاری طرف ہوکر تمام عرب کے سامنے سینہ سپر کریں اورپھر تمہارے بعد اقتدار کسی اور کے پاس چلا جائے۔ غرضیکہ اس قبیلہ نے بھی انکارکردیا۔   

ابن اسحاق ؒ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کے چچا ابو طالب کی وفات کے بعد آپؐکا یہ قاعدہ تھا کہ جب حج کا موسم ہوتا یا مختلف تہوار منائے جاتے تو آپ ؐ قبائل کو دعوت فرماتے اور جب آپؐ سنتے کہ کوئی شریف یا سردار شخص مکہ میں آیا ہے ، تواس سے مل کر اسے بھی دعوت اور ہدایت فرماتے کہ اے بنی فلاں میں تمہاری طرف اللہ کارسول ہوں ، تم کو اس بات کا حکم کرتا ہوں کہ تم سوا اللہ کے کسی چیز کی پرستش نہ کرو اور بت پرستی چھوڑ دو اور مجھ پر ایمان لاکر میری تصدیق کرو اور مجھے تحفظ دو تاکہ میں اس بات کو ظاہروبیان کر سکوں جس کے ساتھ اللہ نے مجھے بھیجا ہے۔

آپؐ نے پھر بنی قیس ابن ثلعبہ اور بنی کعب ابن ربیعہ کو دعوت دی اوران سے ان کی تعداد اور ان کے تحفظ کے بارے میں پوچھا۔ حاکم اور بیہقی کی روایت میں ہے کہ جب آپ ؐ نے بنی شیبان ابن ثلعبہ کو دعوت دی تو حضرت ابو بکرؓ نے اس قبیلہ سے ان کی تعداد اور تحفظ کے بارے میں پوچھا ، نیز دشمنوں سے ان کی جنگی کیفیت پوچھی۔ اس کے ایک سردار نے جواب دیا کہ جنگ میں ہم سب سے غصیلے ہیں اور ہمیں اپنے بیٹوں سے زیادہ اپنے جنگی سازوسامان پر ناز ہے۔ یہ قبیلہ رسول اللہ ﷺ کو عربوں کے خلاف تحفظ دینے پر تو راضی ہوگیا مگراہلِ فارس پر اس بات پر راضی نہ ہوا۔ آپ ؐ نے اس پیشکش سے انکار کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کے دین کی صرف وہ لوگ خدمت کرسکتے ہیں جو کہ چاروں طرف سے اس کے گرد حلقہ ڈال سکیں ۔

’الروض الانف’ میں ان قبائل کی کل تعداد 40  بتائی گئی ہے جن کے سامنے حضور ﷺ نے اپنے آپ کو پیش کرتے ہوئے ان سےنصرت طلب کی۔ یہ عمل فرض ہے جیساکہ ان دلائل سے واضح ہے؛

حضرت علیؓ کا یہ کہنا کہ آپؐ کو اللہ کی طرف سے حکم ہوا ،طلبِ نصرت کے وجوب کا قرینہ ہے ۔ نیز آپؐ نے قریش کی  مزاحمت کا خطرہ مول لیا اوراس امر کے لیے آپؐ کا خون بھی بہا، لیکن اس کے باوجود آپؐ اس کام پر ڈٹے رہے اورمختلف قبیلوں سے نصرت طلب کرنا نہ چھوڑا۔ یعنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے آپکا طلبِ نصرت کی سرگرمیوں کو مستقل طور پر سرانجام دینا جس کو ابن اسحاق نے آپؐ کاقاعدہ ہونا بتایا ہے،  اصول الفقہ کے رو سے واضح ہے کہ  اس طلبِ نُصرۃ کا حکم،ایک حتمی حکم تھا اور اس بنا ء پر فرض تھا۔ یہ ریاست کے قیام اور اسلامی طرزِ زندگی کے احیاء کے طریقۂ کار کا حصہ ہے جس سے انحراف کی کوئی گنجائش نہیں۔



سوال: کیا طلب النصرہ ہر مسلمان سے کی جاتی ہے؟

رسول اللہ ﷺ کاقبائل سے تحفظ مانگنا تاکہ آپؐ اپنے مقصد کو ظاہر کرسکیں اور اس کے بعد مدنی دورمیں آپؐ کا احکامِ الٰہی کو جاری کرنا ، اس مقصد کو ظاہر کرنے کا بیان ہے۔ یعنی اس طلبِ نصرت کی وجہ یہ تھی کہ اس تحفظ کے ذریعہ سے آپؐ شریعتِ اسلامی کو لوگوں پرنافذ کر سکیں ۔ آپؐ کا قبیلوں کی تعدادوتحفظ اورجنگی صلاحیتوں کی تفتیش کرنا اور تحفظ کے کامل نہ ہونے پر اس کا انکار کر دینا ،اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ طلبِ نصرت محض ان لوگوں  سے کرنا مقصود تھا جو درحقیقت اس بات کی صلاحیت رکھتے ہوں یعنی اہلِ قوت ۔

۔ ابن کثیر نے اپنی سیرت میں علی بن ابی طالب سے نقل کیا ہے کہ:جس وقت اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو حکم دیا کہ اپنے آپ کو عرب کے قبائل کے سامنے پیش کرو تو آپﷺ منی کی طرف روانہ ہوئے میں اور ابوبکر بھی ساتھ تھے یہاں تک کہ ہم عرب کی مجالس میں سے ایک مجلس میں پہنچ گئے،اسی طر ح ابن کثیر ہی نے عباس سے روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ :رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا:"میں نہیں سمجھتا کہ آپ اور آپ کےبھائی کی حمایت میری حفاظت کے لیے کافی ہوگی،کیا کل آپ بازار نکل سکتے ہیں کہ ہم قبائل کے پڑاؤتک جائیں یہ عربوں کے پڑاؤتھے۔  میں نے کہا:یہ کندہ اور اس کاذیلی قبیلہ ہے جو کہ یہ یمن سے حج کرنے والوں میں سے سب سے بہتر لوگ ہیں،یہ بکر بن وائل کے خیمے ہیں،یہ بنو عامر بن صعصہ کا پڑاؤ ہے،آپ خود منتخب کیجئے،آپ ﷺ نےفرمایا:کندہ سے شروع کرو"۔

سوال: کیا یہ سادہ لوحی کی انتہا نہیں کہ آپ ان لوگوں سے نصرہ کی طمع لگائے بیٹھے ہیں جو اسلام کے خلاف امریکی جنگ میں کفار کیلئے استعمال ہو رہے ہیں؟

جواب: جب رسول اللہﷺ نے عرب قبائل کے سرداروں سے طلب النصرہ کیلئے ملاقاتیں کی، تو وہ قبائل کے سردار کافر تھے، اور جاہلیت کے تمام برائیوں سے لت پت تھے۔ آپ ﷺ ان سرداروں میں کئی لحاظ سے صلاحیت کی تلاش میں تھے۔ حق یعنی اسلام کو قبول کرنے کی استعداد، دین پر استقامت، دین کیلئے اپنا اقتدار نبی کریم ﷺ کے حوالے کرنا، اس دین کی حفاظت کی طاقت، عرب و عجم سے لڑنے کی صلاحیت وغیرہ۔ پس جب ایک داعی لوگوں کو دیکھتا ہے تو وہ صرف اس نظر سے نہیں دیکھتا کہ وہ شخص اب گناہوں میں ملوث ہے یا نہیں، بلکہ اس کی آنکھیں اس شخص میں اس حق کو قبول کرنے کی استعداد کو دیکھ رہی ہوتی ہیں۔ کائنات کے سب سے بہترین داعی ﷺ نے یہی کیا۔  یہی رسول اللہ ﷺ نے قریش کے سرداروں کو ساتھ بھی کیا، کہ یہ ایک کلمہ پڑھ لو، عرب تمہارے سامنے سرنگوں ہونگے اور عجم تمہیں جزیہ دیں گے۔ لیکن وہ نہ مانے۔ 

اسی دعوت کا حصہ ہے کہ جب کچھ لوگ میچور دائیوں کی نظر میں غلب الظن کے مطابق " ناقابل اصلاح " ہیں اور دین کے خلاف محاذ کھڑا کرنے کے ستون ہیں، تو ایسے لوگوں کو جرات، بہادری اور استقامت سے بےنقاب کیا جاتا ہے تاکہ اس کی قوم اس کو پہچان لے اور اس سے متنفر ہو جائے، اس کی ہوا اکھڑ جائے، اس کی ساکھ ختم ہو جائے اور قوم کے سامنے ننگا ہو جائے۔ جیسا کہ نبیﷺ نے ابوجہل ، ولید بن مغیرہ اور ابولہب وغیرہ کے ساتھ کیا۔

اسی طریق پر حزب التحریر افواج میں سے بھی لاکھوں افراد کو دعوت دیتی ہے کہ وہ اس دین کیلئے اپنی طاقت کو استعمال کریں۔  اور جن ذمہ داروں کے بارے میں ہم واضح ہیں کہ یہ لوگ امریکی چاکری کے اصل ذمہ دار ہیں یعنی وہ لوگ جو جب مسلمانوں سے ملتے ہیں اور اپنی افواج میں ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور ہم ان کے ساتھ ڈبل گیم کر رہے ہیں، لیکن جب اپنے شیاطین (امریکیوں) کے ساتھ ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تو محض مذاق کر رہے تھے، بلکہ ہم تو ان کے ساتھ (مسلمانوں) ڈبل گیم کر رہے ہیں۔ ایسے لوگ کے خلاف حزب التحریر ایک آہنی دیوار کی طرح کھڑی ہے، ہر ظلم، جبرو تشدد اور ریاستی persecution کے باوجود حزب ڈھٹ کے مقابلہ کر رہی ہے۔ یہ وہ ظالم ہیں جو کبھی افواج کی گرین بک بدلتے ہیں، کبھی انڈیا کے حملوں کے جواب میں "تحمل" کی پالیسی چلاتے ہیں۔ اکھنڈ بھارت منصوبوں میں معاون ہیں، کشمیریوں کو زبانی جمع خرچ پر ہندو بنئے کے مقابلے میں بےیارومددگارچھوڑ رکھا ہے۔ برما کو جہاز فروخت کرتے ہیں۔ مسلمانوں کو ڈالروں کے عوض بیچتے ہیں۔ لاکھوں لوگوں کو تخت و تاراج کرنے کی پالیسیوں کے خالق ہیں اور امریکہ کو پاکستان اور افغانستان میں مضبوط اڈہ فراہم کرنے کے آرکیٹیکٹ ہیں۔ 



سوال: لیکن یہ ذمہ دار اکیلے تو یہ سب نہیں کر سکتے، وہ انھی لوگوں کی مدد سے ہی تو یہ کر رہے ہیں جس سے آپ طلب النصرہ کرتے ہیں؟

جواب: یہ درست ہے کہ ان ظالموں کی اطاعت اور ان کی تابعداری خود ایک بڑا ظلم ہے، گناہ کبیرہ ہے ، اور قیامت کے دن اس کا سخت حساب کتاب ممکن ہے جب کوئی کسی کی مدد کیلئے نہیں آئے گا۔ اور اس امر کا ہر فوجی کو احساس ہونا چاہئے۔  تاہم، دعوت و نصرت کیا صرف معصوم  عن الخطاء لوگوں سے طلب کی جاتی ہے؟ دنیا میں کوئی ایسامعصوم آج موجود ہیں؟ کیا آپ اور میں گناہوں سے پاک ہیں۔ کیا ہم دین کیلئے ہر قربانی دیتے ہیں؟

چلیں کچھ مثالوں سے اس کو واضح کرتے ہیں؛

پاکستان کے کاروباری طبقے کی ایک  بڑا حصہ اپنے کاروبار کیلئے بینکوں سے سود پر قرضہ حاصل کرتا ہے۔ اگر حقیقت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ان لوگوں نے اللہ اور رسول ﷺ سے جنگ مول لی ہوئی ہے۔ تو کیا ان کو دعوت دینا اور ان سے دین کیلئے تعاون کی اپیل کرنا جائز نہیں رہا؟ کیا بنکوں میں نوکریاں کرنے والوں کو اب دعوت نہیں دی جانی چاہئے؟ کیا ان سے دین کیلئے مدد لینا حرام ہے؟

عدلیہ میں موجود جج جو کفر قانون سے فیصلے کرتے ہیں کیا ان کو دعوت دینا جائز نہیں؟ کیا ان کو دین کے کام میں شامل اب نہیں کیا جا سکتا؟ یا پاکستان کے وکیل جو انھی کفر قوانین پر فیصلہ مانگتے ہیں، ان کے بارے میں کیا خیا ل ہے؟

حکومتی مختلف اداروں میں کافی ملازم رشوت لیتے ہیں، ان کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اور پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ "مجبوراً" رشوت دیتا ہے۔ تو ان کو بھی دعوت اور طلب النصرہ سے باہر قرار دینا چاہئے؟

ٹی وی ، فلم کے اداکار، گوئیے (جنہیں لوگ کنجر کہتے ہیں) کیا وہ بھی اس لسٹ سے خارج کر دینا چاہئے؟

زانی، شرابی، چرسی لوگوں کو بھی دعوت سے باہر کر دینے کے بارے میں کیا خیال ہے؟

جھوٹوں، غیبت کرنے والوں، تہمت لگانے والوں جیسے گناہ کبیرہ کے مرتکب لوگوں سے بھی پھر دین کی دعوت اور نصرت لینے پر بائیکاٹ ہونا چاہئے۔ 

بےنمازی، روزہ چھوڑنے والے تو یقیناً اس لسٹ میں نہیں آ سکتے جن سے دعوت و نصرت کا کام ہونا چاہئے۔ 

اب ذرا سوچیں، آپ نے مسلمانوں میں باقی کون چھوڑا؟کیونکہ گناہوں سے پاک تو کوئی بھی نہیں ہے۔ 

کیا آپ اور میں حق کیلئے اعلی ترین درجے پر کھڑے ہو کر ہر قربانی دیتے ہیں؟ تو اگر کوئی اور یہ قربانی نہ دے سکے وہ کیوں دعوت اور طلب النصرہ سے exempt ہو گیا؟

پس ایک فوجی افسر یا سپاہی کی بھی ایسی ہی مثال ہے۔ سوائے ان چند قیادت میں موجود لوگوں کے، جو براہ راست کفر کے ایجنٹ ہیں۔ اور کفارکی ہدایات پر ہماری افواج کو استعمال کرتے ہیں۔ یہ لوگ یقیناً اپنا ایمان بیچ کر کفار کی راہ اپنا چکے ہیں۔ ان سے کوئی نصرت طلب نہیں کی جاتی۔ 

سوال: لیکن فوج ایک ادارہ ہے جس میں جونئیر کی اطاعت کے بغیر طاغوت کی تابعداری نہیں ہو سکتی؟

جواب: درست، تبھی اگر کوئی غیر شرعی احکامات کی اطاعت کرتا ہے تو یہ حرام ہی سمجھا جائے گا۔ تاہم پچھلے سوال میں اس کی وضاحت ہو گئی ہے۔ ایک اور مثال سے اس کی مزید وضاحت کی جاتی ہے۔ جس طرح اخباری مالکان جو لبرل پالیسی کے تحت ادارہ چلاتے ہیں، اور کارکن صحافی، جو نوکری اور پیٹ پوجا کیلئے چاروناچار اس پر چلتے ہیں۔ اگر ایک صحافی اپنے ادارے کی پالیسیوں کے مطابق لکھتا ہے، کیونکہ اسے نوکری کرنی ہے، اور وہ استعفی نہیں دیتا، جبکہ باقی وہ صوم و صلاۃ کا پابند ہے، تو آپ اسے دین کے کام کی طرف نہیں بلاؤ گے، اور اسے یہ دعوت نہیں دو گے کہ اسے اپنا قلم اس دین کی سربلندی کیلئے خرچ کرنا ہے۔ اسی طرح اگر ایک فوجی ،ادارے کی پالیسی پر چل رہا ہے۔ تو اسے یہ دعوت دینے میں کیا امر مانع ہے کہ اس کو اپنی طاقت دین کے قیام کیلئے استعمال کرنی ہے۔ یقیناً جس طرح اخبار کا مالک اور کارکن صحافی برابر نہیں۔ ویسے ہی فوجی قیادت میں موجود امریکی ایجنٹ اور ایک عام فوجی برابر نہیں۔ کیا ماسٹر مائنڈ اور فٹ سولجر بھی بھلا برابر ہو سکتے ہیں؟

سوال: لیکن اس ادارے میں موجود ہر شخص کی سیکولر ٹریننگ کر دی جاتی ہے۔ اسلئے ان کو دعوت دینا بےسود ہے؟

جواب: ماشاء اللہ، اس رو سے تو پورے پاکستان کا آئین قانون اور تعلیم کا طریقہ کار بڑی حد تک سیکولر ہے۔ تو پھر تو سب سے دعوت فضول ہے۔ کیا وکیلوں، منیجمنٹ اداروں، فلسفہ، سائیکولوجی وغیرہ کی تمام تعلیم سیکولر نہیں؟ کیا کفر کیلئے اتنا آسان ہے کہ وہ مسلمانوں کو سیکولر بنا دیں۔ کیا اسلام کے عقیدے کو شکست دینا اتنا آسان ہے کہ ایک کورس کروایا جائے اور اسلام دلوں سے ختم ہو جائے۔ کیا اس دین، اس نبیﷺ کی محبت چند کورسز کی مار ہے؟ نہیں میرے بھائی، نہیں۔ 

آپ کسی ایک، دو بندوں کی بات نہیں کر رہے۔ آپ چھ لاکھ سے زائد پاکستان کے گلی محلوں، چھوٹے بڑے شہروں سے اکھٹے ہوئے نوجوانوں کی بات کر رہے ہیں۔ جن کا ایمان، جذبہ ، خیالات ایک سے نہیں۔ یہ لوگ کسی مریخ پر جا کر نہیں رہتے۔ یہ چھ لاکھ نوجوان مزید لاکھوں خاندانوں سے جڑے ہیں۔ یہ اس قوم کے بیٹے ہیں۔ یہ ویسے ہی ہیں جیسے آپ اور میں ہیں۔ یہ آپ کے اور میرے بھائی، والد، ماموں ، کزن اور بیٹے ہیں۔ تو جہاں اس فوج میں، پاکستانی قوم کی مانند، سیکولر، لبرل لوگ ہیں، ویسے ہی اسلام پسند، روایت پسند بھی ہیں۔ مولوی بھی ہیں، اور ماڈرن بھی۔ جس طرح پاکستان کی اکثریت اسلام سے جذباتی لگاؤ رکھتی ہے، ویسا حال افواج میں بھی ہے۔ جو چیز آپ کو دھوکا دیتی ہے وہ سیکولر پالیسیوں کا نفاذ ہے اور وہ مظالم ہیں جو دہشت گرد جنگ میں افواج نے کئے۔ جو ایک ادارے کی پالیسیوں کا اظہار ہے۔ یہ ادارے میں موجود چھ لاکھ لوگوں کے عقائد، ایمان اور سوچ کا اظہار نہیں۔ بالکل ویسے جیسے اخبارات اور ٹی وی چینل کی لبرل پالیسی ، کارکن صحافی کی سوچ کا اظہار نہیں۔ 

سوال: ان افواج کو دعوت دینے کی کیا اہمیت ہے؟

جواب: اولاً، طلب النصرہ فرض ہے، اور تبدیلی لانے میں واحد رکاوٹ رہ گئی ہے( بااذن اللہ)۔ دوم، افواج چونکہ کافی ڈسپلنڈ ادارہ ہے اسلئے اس کی مثال ایک بندوق کی سی ہے، جس کا ٹریگرجنرل کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ جب ہم ان افواج کو دعوت دینے اور طلب النصرہ سے پیچھے ہٹتے ہیں، تو ہم امریکہ کو ہمارے ملکوں کو کنٹرول کرنے کا سب سے زبردست راستہ خود ہموار کر دیتے ہیں۔ بلکہ ہم پلیٹ میں امریکہ کو کامیابی پیش کر دیتے ہیں۔  امریکہ کیلئے آسان نہیں ہے کہ وہ مسلسل نسل در نسل لوگو ں کا ایمان خریدے اور انھیں اپنے ملک اور قوم سے دغا اور غداری پر آمادہ کرے۔ تاہم جب داعی ایسے لوگوں کو دھتکار دیتا ہے تو ایسے لوگ بڑی آسانی سے پکے ہوئے پھل کی مانند امریکہ کی جھولی میں آن گرتے ہیں۔ ذرا تصور کریں ایک ایسے جنرل کے بارے میں، جس کے لیفٹنٹ اور میجر جنرل اور بریگیڈئیرز اس کی امریکہ نواز پالیسیوں کی شدید مخالفت پر آمادہ ہو۔ جہاں کپتان، میجر اور کرنل غیر شرعی احکامات کے راستے میں رکاوٹ بنیں۔ پس دعوت کا سب سے اہم محاذ چھوڑ کر بھلا کس طرح کامیابی ممکن ہے جبکہ ہمارے حبیب ﷺ اللہ سے ابوجہل اور عمر فاروق رض میں سے ایک کے قبول اسلام کی دعا کر رہے تھے۔ 

اس امت کو "داعی مینٹیلیٹی" کی جگہ "مفتی مینٹیلٹی" نے کافی نقصان دیا، جو کہ یہ سوچنے کہ بجائے "کہ لوگ کیوں گناہ کر رہے ہیں، اس کی اصلاح کا راستہ کیا ہے، کیا ان کا مسئلہ نظریاتی ہے، پروپیگنڈہ ہے، ذاتی مفاد ہے، مجبوریاں ہیں، یا انکار کی ہمت کی کمی ہے" کے بجائے فوراً ان پر فاسق، فاجر یا کافر کا فیصلہ کرنے میں زیادہ انٹرسٹڈ ہوں۔ وہ لوگ جو میچور دائیوں کے بہترین تجزئے کے مطابق "ناقابل اصلاح"ہیں، ان کے خلاف شدید سیاسی تحریک کھڑی کرنی چاہیے، ان کو بےنقاب کرنا چاہیے، ان کے منہ پر کلمہ حق کہنا چاہیے خواہ اس کےنتائج کتنے ہی سنگین ہو، جیسا کہ حزب کرتی ہیں، اصل ذمہ داروں، براہ راست ایجنٹوں، کفر کے ستونوں کو، لیکن ہزاروں، لاکھوں افراد کو یوں جاننا عموما تکفیری سوچ کا شاخسانہ ہے. امام غزالی سے کسی نے نماز نہ پڑھنے والے کا حکم پوچھا، تو انھوں نے کہا کہ اسے ہاتھ سے پکڑ کر مسجد لے جاؤ. داعی بنو، بلاضرورت مفتی نہ بنو.

سوال: رسول اللہﷺ نے طلب النصرہ کا آغاز کب کیا تھا؟

جواب: ہجرت سے تین سال قبل 10سنِ نبوی کو آپ اکے چچا ابو طالب کا انتقال ہوا۔ ابوطالب ،جنہوں نے کسی حد تک آپ کے لیے حفاظت کا سامان کر رکھا تھا جس کے باعث آپ بخیر و عافیت اسلام کی دعوت کا فریضہ سرانجام دے رہے تھے، کی وفات کے بعدنبی ﷺنے محسوس کیاکہ مکہ کے معاشرے پرنہ تو اسلام کی دعوت کا زیادہ اثر ہے اور نہ ہی مکہ میں اسلام اور اسلام کے افکار کیلئے رائے عامہ ہموارہے ۔ یہ وہ مرحلہ تھا جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آپ ﷺکو نُصرہ طلب کرنے کا حکم دیا۔ سیرۃ ابنِ ہشام کے باب ’’ نبی ﷺکی ثقیف کے قبیلے سے نُصرۃحاصل کرنے کی کوشش‘‘ میں درج ہے:

’’ابنِ اسحاق بیان کرتے ہیں : جب ابوطالب کا انتقال ہواتو قریش نے نبی اکو اتنی اذیتیں دیں جتنی کہ وہ ان کی موجودگی میں کبھی نہیں دے سکتے تھے۔ پس نبی ﷺ طائف روانہ ہوئے تاکہ ان سے نُصرۃ طلب کر سکیں اور ان سے کہہ سکیں کہ وہ اس پر ایمان لائیں جو آپ ﷺپراللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے نازل ہوا ہے۔ آپ ﷺاکیلے طائف روانہ ہوئے تھے۔ ‘‘

ؓ ابنِ عباس، علی بن ابی طالب سے نقل کرتے ہیں : 

’’جب اللہ نے اپنے رسول کو یہ حکم دیا کہ وہ قبائلِ عرب کے سامنے اپنے آپ کو پیش کریں تو آپ ﷺ میرے اور ابو بکر کے ساتھ منیٰ کی طرف روانہ ہوئے جہاں پر عربوں کی ایک مجلس ہو رہی تھی‘‘۔(ابنِ حجرعسقلانی نے فتح الباری ، تحفۃالاحوذی اور الکلام میں، نیز حاکم اور ابونعیم نے اور بیہقی نے الدلائل میں قوی راویوں سے اس حدیث کوروایت کیا )

پس یہ واضح ہے کہ نبی اکی طرف سے اپنے آپ کوعرب قبائل پر پیش کرنا ، ان سے نُصرہ طلب کرنا نیز اس نُصرۃ کو طلب کرنے کا وقت ،سب براہِ راست اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے تھا،جیسا کہ علی بن ابی طالب رض کی درج بالاروایت سے واضح ہے۔ اس حکم کا وقت اس بات سے مطابقت رکھتا ہے کہ نبیﷺابوطالب کے انتقال کے باعث مدد اور حفاظت کھوچکے تھے۔ قریش اب نبی ﷺکو کھلا چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے کہ وہ اللہ کے دین کی طرف دعوت دیتے رہیں۔ مزید برآں نبی ﷺکو مکہ کے معاشرے سے امید نہیں تھی کہ وہ آپ ﷺکے اقتدار و اختیار کو تسلیم کرتے کیونکہ مکہ کے معاشرے کی رائے عامہ اسلام کیلئے ہموار نہ تھی۔ پس اس موقع پرآپ ﷺکو نُصرۃطلب کرنے کا حکم دیا گیا تاکہ دعوت کو سہارا مل سکے اور اسلام کو اس مقام پر لایا جا سکے کہ جہاں اسلام کو اتھارٹی حاصل ہو اور اسلام کے احکامات کاجامع انداز میں نفاذہوسکے۔ 

سوال: کیا جولوگ مشروط طور پر اپنا اقتدار دینے کو تیار ہوں تو کیا ان سے قبول کیا جا سکتا ہے؟

جواب: رسول اللہﷺ نے اپنے عمل سے واضح کر دیا ہے کہ کہ مشروط طور پر نصرہ مہیا کرنے کی بیعت قبول نہیں کی جا سکتی۔ 

جب نبیﷺ نے قبیلہ بنو عامر بن صعصہ  کو دعوت دی اوران سے نصرہ طلب کی تو انھوں نے پوچھاکہ :''بتائیے اگر ہم تمہارے اس کام کے لیے تمہیں بیعت دیں پھر اللہ تمہیں تمہارے مخالفین پر غلبہ دے کیا تمہارے بعد یہ یہ معاملہ(حکمرانی)ہماری ہوگی؟  آپ نے فرمایا:یہ اللہ کا معاملہ ہے جس کو چاہے گا دے گا،راوی کہتا ہے کہ:ان لوگوں نے آپ ﷺسے کہا:کیا ہم تمہاری خاطر عربوں سے اپنے گلے کٹوائیں اور جب تجھے غلبہ حاصل ہوجائے تو حکمرانی کسی اور کو ملے!ہمیں تمہارے اس کام کی ضرورت نہیں ،یوں انہوں نے انکار کردیا،،۔ یعنی یہ جانتے تھے کہ یہ نصرہ ریاست کے قیام کے لیے ہے،اس لیے رسول اللہ ﷺ کے بعد حکمرانی کا ارادہ ظاہر کیا،اسی طرح بنو شیبان نے رسول اللہ ﷺ سےاس وقت کہا جب آپ ﷺ نے ان سے نصرہ طلب کیا:''ہم دو مصیبتوں کے بیچ میں ہیں ،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ دو مصیبتیں کیا ہیں؟انہوں نے کہا:کسری کی نہریں اور عربوں کے پانی،ہم کسری کے ساتھ ایک معاہدہ کر کے یہاں رہائش پذیر ہیں،وہ یہ کہ ہم کوئی گڑبڑ نہیں کریں گے نہ ہی کسی گڑبڑ کرنے والے کو پناہ دیں گے،مجھے معلوم ہے کہ جس کام کی طرف تم دعوت دے رہے ہو یہ بادشاہوں کو ناگوار ہے،اگر آپ ﷺ چاہتے ہیں کہ ہم عرب کے پانیوں کے ساتھ والے علاقے میں آپ کو پناہ دیں توہم دیں گے،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:تم نے کوئی برا نہیں کیا کہ حقیقت کو سچائی سے بیان کر دیا ہے،لیکن اللہ کے دین کی مدد صرف وہی کرے گا جو چار جوانب سے ا سکا احاطہ کرے گا"۔دوسری روایت میں؛

’’تمہاری طرف سے اس سچ کا اظہار دراصل اس دعوت کا مسترد کرنا ہے۔ اللہ کے اس دین کے لیے صرف وہی کھڑے ہوسکتے ہیں جو ہر طرف سے اس دین کی حفاظت کرسکیں۔‘‘

آپ ﷺبنی بکر بن وائل کے خیموں میں گئے ، انہوں نے آپ ﷺکی حفاظت کا ذمہ لینے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ سلطنتِ فارس کی سرحدکے پاس رہتے تھے۔ وہ بھی یہ جانتے تھے کہ نصرہ کا مطلب حکمرانی اور عرب وعجم سے جہاد کرنا ہے،اسی لیے انہوں نے عربوں سے لڑنے کی حامی بھر ی لیکن فارس سے لڑنے سے انکار کیا۔

سوال: کیا یہ مقتدر کی چاپلوسی تو نہیں؟

جواب: طلب النصرہ میں زیادہ تر اوقات میں ، سب سے طاقتور، کو براہ راست چیلنج کیا جاتا ہے جو کفر کا اس ملک میں ستون ہوتا ہے۔ حزب نے مشرف، کیانی کی سب سے زیادہ مخالفت کی۔ راحیل شریف ، جب اپنے عروج پر تھا، اس وقت ایک حزب التحریر ہی تھی ، جو اس کی سب سے شدید احتساب کر رہی تھی۔ اور سب سے زیادہ نیشنل ایکشن پلان کو بھگتا بھی حزب التحریر نے ہی ہے جس کہ اس وقت بھی پاکستان میں سب سے زیادہ سیاسی قیدی جیل میں ہیں۔ پس افواج کو دعوت چاپلوسی نہیں ہے۔ اس میں وقت کے فرعونوں کی خلاف شدید مہم چلائی جاتی ہے۔ نوید بٹ، جو پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان ہیں، کو جنرل کیانی کے حکم پر حکومتی غنڈوں نے اغوا کیا اور وہ پچھلے پانچ سال سے حکومتی کال کوٹھڑیوں میں تشدد برداشت کر رہے ہیں۔ ایسا ہی پاکستان میں حزب التحریر کے دیگر کارکنوں نے اللہ کی رضا میں بھگتا ہے۔ 

 سوال: کیا طلب النصرہ کرنا ایک مادی عمل ہے؟

حزب التحریرکا نُصرۃطلب کرنا سیاسی عمل ہے،جبکہ مادی اعمال کرنا اہلِ قوت کا کام ہے جواس کی صلاحیت رکھتے ہیں اورحزب کے لیے افواج کو حرکت میں لا سکتے ہیں اور اتھارٹی کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ حزب التحریرمختلف ذرائع سے اہلِ قوت کو ابھارتی ہے کہ وہ ریاستِ خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریرکو نُصرۃ دیں ،یعنی وہ موجودہ حکمرانوں کو اکھاڑنے کے لیے حرکت میں آئیں اور ان حکمرانوں کی بجائے حزب التحریرکو حکومت و اقتدار منتقل کریں ۔ نیز حزب امت کے ذریعے اہلِ قوت پر اثر انداز ہوتی ہے کہ وہ اس عظیم ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے قدم اٹھائیں۔ 



سوال: نصرۃ دینے والوں کی شرف اورفضیلت کیا ہے؟

جواب:  انصار کی فضیلت کیلئے یہ شرف کافی ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآنِ کریم میں ان کا ذکر کیا ۔اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ان کے متعلق فرمایا:

’’دعوت ایمان پر لبیک کہنے میں سبقت حاصل کرنے والے وہ مہاجرین (جنہوں نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی)اور انصار( مدینہ کے وہ لوگ جنہوں نے مہاجرین کی مدد و اعانت کی) ، نیز وہ جنہوں نے ان کی مکمل پیروی کی ، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، اللہ نے ان کیلئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہونگی، اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے ، یہ عظیم الشان کامیابی ہے۔‘‘[سورۃ التوبۃ:100]

اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں مزید فرمایا:

’’اللہ نے معاف کر دیا ہے نبی کو اور ان مہاجرین و انصار کو جنہوں نے بڑی تنگی کے وقت میں (غزوہ تبوک کے وقت)نبی کا ساتھ دیا ‘‘[ سورۃالتوبۃ :117]

اللہ سبحانہ تعالیٰ نے مسلمانوں کوحکم دیا کہ وہ دین کے انصار(مددگار) بنیں، تاکہ اللہ ان سے راضی ہو:

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کے انصار (مددگار)بنو، جس طرح عیسی ابن مریم ؑ نے اپنے حواریوں کو خطاب کر کے کہا تھا: کون ہیں دین کی راہ میں میرے انصار؟۔ حواریوں نے جواب دیا: ہم ہیں اللہ کے انصار۔ پس بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان لایا اور دوسرے گروہ نے انکار کر دیا ۔ پھر ہم نے ایمان لانے والوں کو ان کے دشمنوں کے مقابلے میں طاقت دی اور وہ غالب آ گئے‘‘ [ سورۃ الصف:14]

رسول اللہ ﷺکی سیرت میں انصار کے فضائل کا بیان:

بیعتِ عقبہ ثانیہ سے متعلق سیرت کی کتابوں میں درج ہے :

’’انہوں (انصار) نے پوچھا: یارسول اللہ! اگر ہم اپنے عہد پر پورا اتریں توہمارے لئے کیااجر ہے؟‘‘ رسول اللہ ﷺنے جواب دیا:جنت۔ انھوں نے کہا : ہمارا ہاتھ تھامئے(یارسول اللہ ﷺ)۔ پس رسول اللہ ﷺنے ان کا ہاتھ تھام لیا اور انھوں نے بیعت کی‘‘

بخاری و مسلم انس بن مالک رض سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’انصار کی محبت ایمان اور انصار سے نفرت نفاق کی نشانی ہے‘‘

ترمذی نے برا ء بن عازب رض سے روایت کیاہے جو کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے ہوئے سنا،جب رسول اللہ ﷺ انصار کے متعلق فرما رہے تھے:

’’کوئی ان (انصار) سے محبت نہیں کرتا سوائے مؤمن کے، اور کوئی ان سے نفرت نہیں کرتا سوائے منافق کے۔ جس نے ان(انصار) سے محبت کی، اس نے اللہ سے محبت کی۔ اور جس نے ان سے نفرت کی اس نے اللہ سے نفرت کی۔‘‘

بخاری نے انس  رض سے روایت کیا ہے:’’نبی ﷺنے (انصار کی)عورتوں اور بچوں کو سامنے سے آتے دیکھا [ذیلی راوی کہتا ہے کہ اس کا خیال ہے کہ انس نے کہا کہ وہ کسی شادی سے واپس آ رہے تھے]۔ رسول اللہ ﷺکھڑے ہوئے اور تین بار فرمایا:اللہ کی قسم تم میرے سب سے محبوب لوگوں میں سے ہو۔‘‘

بخاری نے ایک اور حدیث انس رض سے روایت کی ،جو کہتے ہیں:

’’انصار کی ایک عورت اپنے بچے سمیت رسول اللہ ﷺکے پاس آئی اور آپ ﷺسے بات کی، پس آپ انے کہا:اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے ، تم(انصار) تمام لوگوں میں مجھے سب سے زیادہ عزیز ہو ۔ آپ نے دو مرتبہ یہ فرمایا۔‘‘

مسلم نے ابنِ عباس رض سے روایت کیاہے کہ آپ ﷺنے انصار کے متعلق فرمایا:

’’انصار میری رگوں کی طرح ہیں (یعنی یہ میرے اعتماد کے لوگ ہیں)۔ لوگ تعداد میں بڑھتے رہیں گے جبکہ انصار گھٹتے جائیں گے۔ پس انصا ر سے قبول کرو جو اچھے اعمال وہ کریں اور ان کی غلطیوں سے درگزر کرو ۔ ‘‘

ابن عباس ص سے مسلم میں روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انصار کے متعلق فرمایا:

’’ایسا کوئی شخص نہیں جو اللہ اور روز جزا پر ایمان رکھتا ہو اور وہ انصار سے نفرت کرے۔‘‘

بخاری نے امر بن مرّہ سے روایت کیا،جو کہتے ہیں:

’’میں نے ابو حمزہ، جو کہ ایک انصاری تھے، کویہ بیان کرتے سنا:’’انصار نے رسول اللہ ﷺسے کہا: ہر قوم کی اتباع کرنے والے ہوتے ہیں اورہم نے آپ کی اتباع کی، پس یارسول اللہ ﷺ! آپ اللہ سے دعا کریں کہ جو لوگ ہماری اتباع کریں انہیں ہمارا حصہ بنا دے، رسول اللہ ﷺ نے کہا: ’’یا اللہ ان کی اتباع کرنے والوں کو انہی کا حصہ بنا۔‘‘

اور حنین کے موقع پر غنائم کی تقسیم پر پیش آنے والا انتہائی پُر اثرواقعہ اس کے علاوہ ہے، جس میں رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

’’ ...اے انصار کیا تم اس سے خوش نہیں کہ دوسرے تو بھیڑ اور اونٹ لے جائیں اور تم اللہ کے رسول ا کواپنے ساتھ لے جاؤ؛ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمدکی جان ہے ، اگر ہجرت نہ لکھی ہوتی، تو میں انصار میں سے ہوتا۔ اور اگر تمام لوگ ایک وادی کی جانب جائیں اور انصار دوسری وادی کی جانب جائیں، تو میں انصار کی وادی کی جانب جاؤں گا۔ یااللہ انصار پر رحم فرما، اور ان کی اولاد پر رحم فرما اور ان کی اولاد کی اولاد پر۔‘‘(امام احمد نے ابو سعید حذری سے اس حدیث کوروایت کیا)۔

سوال: طلب النصرہ کی کیا اہمیت ہے؟

جواب: نُصرۃطلب کرنا انتہائی اہم عمل ہے، علاوہ ازیں یہ طریقہ کار کے لحاظ سے فرض بھی ہے۔ اوراس حال میں کہ جب معاشرے میں پختہ عزم کا فقدان ہو اوراتھارٹی امت کے ہاتھ میں نہ ہوتو ان حالات میں تبدیلی محض عوام کو اسلام کے نفاذ کے لیے قائل کرنے سے نہیں لائی جا سکتی۔ پس اہلِ نُصرۃسے طاقت اور اقتدار کو حاصل کر کے اسلام کو مکمل اور انقلابی انداز میں نافذ کیا جاتا ہے۔ تاہم اس سے قبل ضروری ہے کہ اسلامی افکار کو معاشرے میں غالب کردیا جائے یہاں تک معاشرے میں اسلام کے نفاذ کے لیے رائے عامہ قائم ہو جائے ۔ 

طلبِ نُصرۃکا شرعی حکم اس قدر اہم ہے کہ اسی پر ریاست خلافت کے انہدام کے بعد اس کے دوبارہ قیام کا دارومدار ہے، اسی پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے عَلم کی سربلندی منحصر ہے اور اسی پر غداریوں اور خیانت کے طویل سلسلے کے خاتمے کا انحصار ہے جس کا اس امت کو سامنا ہے۔ آج اس امت پر ’’بما انزل اللّٰہ‘‘( اللہ کے نازل کردہ احکامات) کے ذریعے حکومت نہیں کی جا رہی ہے، سرمایہ دارانہ نظام مسلمانوں کی گردنوں پر مسلط ہے،اور امت کو ہولناک مصائب، آفات اورتکالیف کا سامنا ہے اور امت ایک مخمصے اور گومگو کی حالت میں ہے۔ چونکہ طلبِ نُصرۃکا عمل ان لوگوں سے متعلق ہے جو حکمرانی کو اسلام کے مطابق تبدیل کرنے کی قوت و صلاحیت کے اسباب رکھتے ہیں، اور چونکہ یہ معاملہ اس قدر سنگین اہمیت اور عجلت کا ہے اس لیے جولوگ قوت رکھتے ہیں اور تبدیلی کے اسباب کے حامل ہیں، ان کی ذمہ داری انتہائی اہم ہو جاتی ہے کہ وہ اس تبدیلی کو لے کر آئیں۔ بیشک اگروہ اس ذمہ داری کو پورا کریں تواس کا اجر بھی بہت عظیم ہے ۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

کیا قرآن و حدیث میں صیغہ امر (حکمیہ انداز) لازما واجب یا فرض ہوتا ہے ۔ (اصول الفقہ)

مسلمان صرف وحی کی اتباع کرتے ہیں ۔ یہ وحی ہمارے پاس دو شکلوں میں موجود ہے : ایک وحی متلو۔۔۔ یعنی وہ وحی جس کی تلاوت کی جاتی ہے،اس سے مراد قرآن الکریم ہے ۔ اور دوسرے وحی غیر متلو ۔۔۔یعنی وہ وحی جس کی تلاوت نہیں کی جاتی ۔ اس سے مراد حدیث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا اور رسول اللہ ﷺکی زبان بھی عربی ہی تھی۔ اس لیے عربی زبان کا فہم ہونااز حد ضروری ہے تبھی ہم شرعی مآخذ سے احکامات کو ٹھیک ٹھیک اخذ کرسکیں گے ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے سورۃ یوسف کی آیت نمبر 2میں ارشاد فرمایا: (انا انزلنَہٗ قرء ٰ نًا عربیًا لَّعلکم تعقلون ) ’’بے شک ہم نے اس قرآن کو نازل کیا تاکہ تم سمجھو‘‘ تاہم محض عربی زبان کی سمجھ شرعی مآخذ سے احکامات کو اخذ کرنے کے لیے کافی نہیں ۔ عربی زبان کا فہم ہوناشرعی متن یعنی (shariah Text) کو سمجھنے کی مختلف شرائط میں سے ایک شرط ہے۔ کیونکہ یہاں مقصد احکامات کو ایک خاص (قانونی ) متن سے اخذ کرنا ہے۔ جس کے لیے عربی زبان کی سمجھ کے علاوہ مزید امور کی بھی ضرورت ہے جیسے کہ وہ قرآئن جو فرائض اور حرام امور کا تعین کرتے ہیں، عام حکم اور اس کی تخصیص ، مطلق اور مقید ی

خلافت کیا ہے؟

آج کل جمہوریت اور آمریت کی ناکامی کے بعد ایسے مواقع کثرت سے آتے ہیں کہ خلافت کا تذکرہ نکل آتا ہے۔ تاہم لوگ اس خلافت سے ایک رومانوی محبت محسوس کرنے کے باوجود فکری اور علمی طور پر اس نظام کے خدوخال سے واقف نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض کم فہم اور الجھے ہوئے لوگ یا اسلام دشمن لوگ مغربی نظام کو معمولی ردوبدل کے بعد خلافت کی روح قرار دے کر لوگوں کو sell کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پس کسی کو ناروے، ڈنمارک وغیرہ "عمری خلافت" دکھتا ہے تو کسی کو برطانوی جمہوریت "مدینہ کا ماڈل" دکھائی دیتا ہے۔ ایسے تمام دوستوں کی سمجھ کیلئے یہ مضمون پیش خدمت ہے جو خلافت کا ایک اجمالی خاکہ لوگوں کے سامنے پیش کرنے کی کوشش ہے تاکہ امت اپنے ڈائریکشن کا درست تعین کر سکے اور کوئی انھیں گمراہ نہ کر سکے۔ اسلامی ریاست یعنی خلافت: اسلامی خلافت صرف اسی وقت قائم تصور کی جاتی ہے جب اس میں تمام نظام اسلام سے ہی اخذ کئے گئے ہوں اوراتھارٹی بھی مسلمانوں کے ہاتھ ہو۔ خلافت میں اقتصادی نظام، حکومتی نظام، معاشرتی نظام، نظام عدل، خارجہ پالیسی اور تعلیمی پالیسی مکمل طور پر شرعی مصادر سے اخذشدہ ہوتی ہے۔ آئیے فر

خلافت قائم کرنے کا طریقہ

1)     چونکہ خلافت کا قیام ایک فرض ہے بلکہ یہ مسلمان کے اوہر سب سے بڑا فرض ہے ۔ اور چونکہ ایک فرض کے قائم کرنےکا طریقہ اللہ سبحان و تعالیٰ نے انسان پر نہیں چھوڑا بلکہ ہر فرض کے طرح اس فرض کا بھی طریقہ کار اسلام نے بتایا ہوا ہے۔ اور یہ طریقہ کار ہم نبیﷺ کی سیرت سے جان سکتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ریاست کیسےقائم کی تھی۔، بالکل ویسے جس طرح ہم نماز، روزے، حج، جہاد اور دیگر فرائض کا طریقہ نبیﷺ سے اخذ کرتے ہیں۔ 2)   اگر عقل پر چھوڑ دیا جائےتو مختلف طریقے ذہن میں آتے ہیں، جیسے حکمرانوں کو صرف دعوت سے قائل کرنا کہ اسلام قائم کریں، یا ان کے خلاف جنگ کر کے ان کو ملیا میٹ کر کے اسلامی نظام قائم کرنا، یا اس ملک میں مروجہ دستور اور قانون کے مطابق نظام میں حصہ لے کر اس نظام کے اوپر پہنچ کر اسلام کا نظام قائم کرنا یا تمام لوگوں کو تبدیل کرنا ، یہ سوچ کرکہ جب تمام لوگ سچے، پکے مومن بن جائیں گے تو اسلامی نظام خود ہی قائم ہو جائے گاوغیرہ۔ لیکن یاد رہے کہ یہ سب عقل و منطق (logic)   سے نکلنے والے طریقے ہیں ۔ اور انسانی عقل کامل نہیں اسلئے اس طریقوں کی اپنی خوبیاں اور خامیاں ہونگی۔  لیکن جو طریقہ اللہ سبحانہ

شرعی دلائل کی روشنی میں خلافت اور جمہوریت کا تقابلی جائزہ

                                                                                                نوید بٹ   اسلام کا طالب علم جب قرآن و سنت پر نظر ڈالتا ہے تو اسے ’’جمہوریت‘‘ سے متعلق کوئی آیت یا حدیث تو درکنار صحابہ، آئمہ مجتہدین یا فقہائ کا ایک قول بھی نہیں ملتا۔ حالانکہ انسانیت اسلام سے ہزاروں سال قبل جمہوریت سے روشناس ہو چکی تھی۔ وہ اس شش و پنج کا بھی شکار ہوتا ہے کہ اگر اسلام کا نظام حکومت جمہوریت ہی ہے تو پھر کیا یونانیوں نے اسلام کے آنے سے قبل ہی ازخود ’’اسلامی نظام حکومت‘‘ دریافت کر لیا تھا؟ کیا اس ’’اسلامی نظام حکومت‘‘ کے نفاذ سے انہوں نے ایک اسلامی معاشرے کو جنم دے دیا تھا؟ کیا وہ نہ جانتے ہوئے بھی اسلام پر ہی چل رہے تھے؟ لیکن تاریخ کے کسی گوشے میں بھی یونانی تہذیب اور اسلامی تہذیب میں مماثلت کا کوئی شائبہ تک نہیں ملتا۔ اگر رسول مقبول ا جمہوریت ہی دے کر مبعوث کئے گئے تھے تو پھر آپ اکو یہ ارشاد فرمانے میں کیا تردد تھا کہ وہ وہی نظام لے کر آئے ہیں جو ارسطو اور یونانی فلاسفر انسانیت کو پہلے ہی دے چکے ہیں؟ جبکہ اسلامی عقائد کے بارے میں آپ ا نے بڑے واضح انداز میں فرمایا تھا کہ آ

آئین پاکستان کی نام نہاد "اسلامی دفعات" اور اس پر پاکستان کی ہائیکورٹس اور سپریم کورٹس کے مصدقہ فیصلے

آپ اور میں اپنے خواہش کے مطابق بے شک پاکستان کے آئین مین "اسلامی" دفعات پڑھ کر خوش ہوتے رہیں اور یہی کہتے رہپں کہ آئین دراصل اسلامی ہے ، اصل مسئلہ صرف نفاذ کا ہے لیکن آئین کی تشریح کا حق آپ کو یا مجھے نہیں، بلکہ عدالت کو ہے اور اس کی تشریح حتمی مانی جاتی ہے ۔ اور ان کے کچھ فیصلے ملاحظہ کریں: Sec 2. “Islam shall be the State religion of Pakistan.’’ ریاست کا سرکاری مذہب اسلام ہو گا۔ But when this Article 2 came to be interpreted in the Court of Law, a  Full Bench of the Sindh High Court comprising 5 judges, headed by its Chief Justice,  held that: ‘‘Article 2 is incorporated in the Introductory Part of the Constitution and as far as its language is concerned, it merely conveys a declaration. The question arises as to the intention of the Makers of the Constitution by declaring that ‘‘Islam shall be the State religion of Pakistan.’’ Apparently, what the Article means is that in its outer manifestation the State and its Government shall carry an Islamic Symbol. This A

ایک امت، ایک چاند، ایک رمضان اور ایک عید

تحریر: نوید بٹ اس سال روئیت ہلال کمیٹی کے سربراہ مفتی منیب الرحمن نے بڑے فخر سے اعلان فرمایا کہ اس دفعہ پورا پاکستان ایک دن رمضان شروع کر رہا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ اعلان درست نہ تھا کیونکہ نہ صرف پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین بلکہ وزیرستان کے مسلمان بھی ایک دن پہلے امت مسلمہ کے ساتھ رمضان کی شروعات کر چکے تھے۔ دوسرا اہم پہلو یہ کہ پاکستان نے قومیت کی بنیاد پر چاند قبول کرکے اپنے آپ کو امت مسلمہ سے الگ کر دیا اور امت کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا۔ مفتی منیب صاحب اس کے بارے میں کیا فرمائیں گے؟ کیا مفتی صاحب امت کو بتا سکتے ہیں کہ کہ قومیت پر مبنی روئیتِ ہلال کی اس بدعت کی شریعت سے کیا دلیل ملتی ہے۔  استعمار نے خلافت کا خاتمہ کر کے نہ صرف مسلمانوں کو چھوٹے چھوٹے حصوں تقسیم کر دیا بلکہ اس نے ہر حصے کو ایک مخصوص قومیت، قومی ترانہ، جھنڈا اور چاند بھی دے دیا۔ جھنڈے مسلمانوں کو سیاسی طور پر تقسیم کرنے کے لئے اور چاند امت کی مذہبی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لئے۔ لیکن اس سے زیادہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس نے ایسے افراد بھی عوام کے سروں پر بٹھا دئے جو اس تقسیم کو اسلام سے ثابت