نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اسلام کی نیوکلئیر پالیسی اور ریاست خلافت کا نیوکلئیر ڈاکٹرائین


 اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا 

وَأَعِدُّواْ لَہُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّۃٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَیْْلِ تُرْہِبُونَ بِہِ عَدْوَّ اللّہِ وَعَدُوَّکُمْ وَآخَرِیْنَ مِن دُونِہِمْ لاَ تَعْلَمُونَہُمُ اللّہُ یَعْلَمُہُمْ

’’اورجہاں تک ہو سکے(فوج کی جمعیت) کے زور سے اورگھوڑوں کے تیار رکھنے سے ان کے مقابلے کے لیے مستعد رہو کہ اس سے خدا کے دشمنوں اور تمہارے دشمنوں اور ان کے سوا اورلوگوں پر جن کو تم نہیں جانتے اورخدا جانتا ہے ہیبت بیٹھی رہے‘‘۔ (الانفال ۔60)

دوسری جنگِ عظیم سے لے کر آج اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے تک عالمی سیاست میں ایٹمی ہتھیاروں کا رول نمایاں رہاہے۔خصوصاً ان ممالک کی خارجہ پالیسی میں جو کہ مانی ہوئی ایٹمی طاقتیں ہیں۔ ا ن میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس، چین، بھارت، پاکستان اور شمالی کوریا شامل ہیں۔جب ہم ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق پالیسی ا ور سیاست کا مشاہدہ کرتے ہیں تو مندرجہ ذیل اہم نکات ہمارے سامنے آتے ہیں۔

۱۔ نیو کلیئر انڈسٹری

۲۔ ایٹمی عدم پھیلاؤ اور اس سے متعلق بین الاقوامی معاہدات (Nuclear non proliferation)

۳۔ تخفیف اسلحہ کے معاہدات (Nuclear arms control)

۴۔ نیو کلیئر ڈاکٹرائین

۵۔ نیو کلیئر ٹیکنالوجی کا پر ا من استعمال

۶۔ ایٹمی ریاستوں کے مابین معاہدات

۷۔ نیو کلیئر کمانڈ اینڈ کنٹرول سیٹ اپ 

عالمی طاقتوں نے ان سات نکات پر پچھلے 62 سالوں سے انتہائی منظم انداز میں سیاست کرکے ایک دوسرے کے اوپر فوجی ا ور سیاسی غلبہ ڈالنے کی کوشش کی۔ اس کی ایک مثال سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان طے پانے والے ایٹمی تخفیف اسلحہ کے معاہدات ہیں جن کی بنیاد پر امریکہ کو یورپ میں سردجنگ کے آخری عشرے میں اپنے فوجی مقاصد بڑھانے کا راستہ ملا۔اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی مشاہدہ کرتے ہیں کہ امریکہ ان ممالک میں سرفہرست ہے جو نیو کلئیر ہتھیاروں سے متعلق عالمی ڈپلومیسی میں کلیدی کردار ادا کررہاہے اوردنیا میں موجود ایٹمی پالیسی سے متعلق بحث کو اپنے سانچے میں ڈھالتے ہوئے اپنے سیاسی وفوجی مفادات کو آگے بڑھا رہا ہے۔

اس تمام ابتدائی بحث کو سامنے رکھنے کے بعد ہمارے سامنے جو سوال اُبھر کر آتا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام کی ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق پالیسی کیا ہے اور ریاست خلافت کس طرح سے عالمی نیو کلیئر سیاست کو اثر انداز کرے گی۔ یہ سوال اس وجہ سے بھی اہم ہے جبکہ ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ مسلم دنیا کا سیاسی درجہ حرارت اس نقطہ پر پہنچ چکا ہے کہ بہت جلد اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اذن سے امتِ مسلمہ اپنے معاملات کی بھاگ دوڑ ریاست خلافت کو قائم کرکے اپنے ہاتھوں میں لینے والی ہے۔

جب بھی کوئی نظریاتی ریاست عالمی منظر نامہ پر اُبھرتی ہے تو دنیا کی سیاست کو اپنے نظریئے کے مطابق استوار کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس نظریئے کی حفاظت اور اس کے پھیلاؤ کا بھی انتظام کرتی ہے۔ اسلام میں ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق پالیسی اسلام کی خارجہ سیاست سے منسلک ہے جس کا بنیادی مقصد اسلام کو پوری انسانیت تک لے کر جانا اور تمام باطل افکار کا خاتمہ کرکے انسانیت کو اللہ تعالیٰ کی روشن ہدایت کی طرف لے کر آنا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآ ن میں فرمایا کہکُنتُمْ خَیْْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّہ

’’تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔ (ال عمران۔ 110)

اور فرمایا وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا کَافَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْراً وَنَذِیْراً وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ

’’ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لیے خوشخبریاں سنانے والا اورڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے ہاں مگر لوگوں کی ا کثریت بے علم ہے‘‘۔( السبأ۔28)

اسلام کو پوری دنیا تک لے کر جانے کا عملی طریقہ جہاد ہے ۔چونکہ ریاست خلافت کا جہاد ہر اس مادی قوت یا اتھارٹی کو ہٹانا ہے، فوجی ذرائع کو ا ستعمال کرتے ہوئے ،جو اسلام کے پھیلاؤ میں رکاوٹ ہے۔اس وجہ سے جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہونا ریاست خلافت کے لیے انتہائی ضروری ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ وَأَعِدُّواْ لَہُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّۃٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَیْْلِ تُرْہِبُونَ بِہِ عَدْوَّ اللّہِ وَعَدُوَّکُمْ وَآخَرِیْنَ مِن دُونِہِمْ لاَ تَعْلَمُونَہُمُ اللّہُ یَعْلَمُہُمْ

’’ اورجہاں تک ہو سکے(فوج کی جمعیت) کے زور سے اورگھوڑوں کے تیار رکھنے سے ان کے مقابلے کے لیے مستعد رہو کہ اس سے خدا کے دشمنوں اور تمہارے دشمنوں اور ان کے سوا اورلوگوں پر جن کو تم نہیں جانتے اورخدا جانتا ہے ہیبت بیٹھی رہے‘‘۔ ( الانفال ۔60)

دشمن کے دل میں رعب اور دبدبہ ڈالنے کے لیے ایٹمی ہتھیاروں کا نہایت کلیدی کردارہے۔اسلام نے چونکہ تمام اسالیب کو اپنانے کا حکم دیا ہے جس سے کفار پر مسلمانوں کارعب طاری ہوسکے۔ اس وجہ سے ریاست خلافتNuclear Deterrence کو قائم کرے گی جس کی موجودگی میں اسلام دشمن ریاستوں کو اس کے خلاف کسی بھی قسم کی فوجی مہم جوئی کی جرأت نہیں ہو گی۔

ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق جس چیز کی ممانعت ہے وہ اس کا اس طرح سے استعمال ہے جس سے لاکھوں افراد کو مار دیا جائے۔ اس کی دلیل رسول اللہ ﷺ کی فوجی مہمات ہیں جس میں بچے ،عورتوں ،بوڑھوں اور مادی اشیاء کا بے دریغ خاتمہ کرنے کے خلاف واضح ہدایات دی گئیں۔اس کے ساتھ اسلام کو پھیلانے کے مقاصد بھی فوت ہوجاتے ہیں کہ اگر ایک خاص ریاست پر ایٹمی حملہ کرکے جن لوگوں پر اسلام نافذ کرنا ہو ان کو نقصان پہنچایا جائے۔ اگراسلامی ریاست کے شہروں پر پیشگی ایٹمی حملہ (Preemptive Strike) کیا جائے تو پھر ویسا ہی جوابی حملہ کرنے کااختیار اسلامی ریاست کے پاس موجود ہے۔

اب آئیے ملاحظہ کیجئے! ریاست خلافت کا ڈرافٹ نیو کلیئر ڈاکٹرائین جس کو فوراً عملی جامعہ پہنایا جائے گا جب اللہ تعالیٰ کی مدد سے پاکستان میں خلافت کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔انشاء اللہ۔

ریاست خلافت کا نیو کلیئر ڈاکٹرائین

۱۔ ریاست خلافت ایٹمی عدم پھیلاؤ پر مکمل یقین رکھتی ہے (Nuclear non proliferation)

۲۔ ریاست خلافت ایٹمی عدم پھیلاؤ کو یقینی بنانے کے لیے اسلام کے برآمدی (Export Control) قوانین کا سہارا لے گی نہ کہ تعصب اور استعماری کفار کے غلبے تلے عالمی ایٹمی پھیلاؤ کے معاہدات کا۔

۳۔ خلافت ایک ذمہ دار ایٹمی ریاست ہے اورعالمی نیو کلیئر ڈپلومیسی میں اہم اورمؤثر کردار ادا کرے گی۔

۴۔ جب تک دنیا میں ایٹمی ہتھیار موجود ہیں،ریاست دشمن پر رعب ڈالنے اور اس کے خلاف فوجی مہمات کو ناکام بنانے کے لیے اپنے پاس ایٹمی ہتھیار رکھنے کا حق محفوظ رکھتی ہے۔

۵۔ ریاست خلافت اس وقت ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کا حق رکھتی ہے جبکہ 

الف۔ ریاست کی فوج کا بڑا حصہ تباہ ہوجاتا ہے (Military threshold)

ب۔ ریاست کے بڑے زمینی حصے اور آبی گزر گاہوں پر دشمن کا قبضہ ہوجائے (Space threshold)

ج۔ ریاست کے شہروں پر پیشگی ایٹمی حملہ کیا جائے۔

۶۔ ریاست خلافت غیر ایٹمی ممالک کو ایٹمی حملے سے نہیں دھمکائی گئی۔ سوائے ان ممالک کے جو کسی حربی ایٹمی ریاست کے ساتھ کسی معاہدے کے تحت نیو کلیئر ہتھیار ریاست خلافت کے خلاف اپنی سرزمین پررکھے ہوئے ہیں۔

۷۔ ریاست خلافت Credible deterrence کی نیو کلیئر پالیسی پر یقین رکھتی ہے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ ایٹمی ہتھیاروں کی پہنچ عالمی رینج کی ہو۔

۸۔ انتہائی مربوط اور جدید ترین خلائی نظام Nuclear deterrence کا کلیدی ستون ہے اور ریاست موجودہ خلائی انفرا سٹر کچر کو ایسے انداز میں منظم کرے گی جس سے یہ عالمی سطح پراثرانداز ہوسکے۔

۹۔ ریاست خلافت نیو کلیئر سیفٹی اور سیکیورٹی کو robust اورeffective بنانے کے لیے موجودہ کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کو مزید مضبوط کرے گی۔

۱۰۔ ریاست خلافت میں نیو کلیئر فوج(Strategic forces) کی ہیتtriad کی شکل میں ہو گی۔ (یعنی کہ بری، بحری اور فضائی افواج ایٹمی حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے)۔

ریاست خلافت کے نیو کلیئر ڈاکٹرائین کے نکات ایک اوردو کی شرعی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کومسلمانوں پر کوئی اختیار یا غلبہ عطا نہیں کیا۔اللہ سبحانہ وتعالی فرماتے ہیں:

وَلَن یَجْعَلَ اللّہُ لِلْکَافِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلا ’’اور اللہ تعالی کافروں کو ایمان والوں پر ہر گز راہ نہ دے گا‘‘۔(النسأ۔141)

لہٰذا ریاست خلافت کو ایٹمی ہتھیار اور ٹیکنالوجی کافر ریاستوں کو ٹرانسفر نہیں کرے گی۔ اسی طرح ریاست خلافت نیو کلئیر نان پرولیفریشن ٹریٹی(NPT) کی بنیاد پر قائم عالمی ایٹمی عدم پھیلاؤ سسٹم کا حصہ نہیں بنے گی جس میں پانچ عالمی طاقتوں کو فوجی اور ٹیکنالوجیکل برتری حاصل ہے اورنیو کلیئر ٹیکنالوجی پراجارہ داری(monoply) دی گئی ہے جبکہ باقی182 ریاستوں کو پر امن ایٹمی ٹیکنالوجی میں حصے کا جھانسہ دے کر اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ مستقبل میں کوئی ایٹمی طاقت نہ اُبھر سکے۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی اہم ہے کہ ریاست خلافت کسی بھی ایسے ایٹمی معاہدے کا حصہ نہیں بنے گی جس سے اس کی فوجی طاقت پرفرق آسکے۔مثلاً سی ٹی بی ٹی(CTBT)، مستقبل میں ہونے والے ایف ایم سی ٹی (FMCT) کا معاہدہ، Nuclear weapons free zones(NWFZ) وغیرہ۔

اسلام ایٹمی ٹیکنالوجی کے پر امن استعمال کو جائز قرار دیتا ہے مثلاً بجلی پیدا کرنا، زرعی شعبہ، میڈیکل شعبہ وغیرہ۔اس وقت عالمی طاقتوں نے اس بات کو یقینی بنایا ہوا ہے کہ نیو کلیئر ٹیکنالوجی اور اس کے پر امن مقاصد کو دوسرے ممالک کی پہنچ سے دوررکھا جائے۔ ریاست خلافت سب سے پہلے خود ہر قسم کی نیوکلیئر ٹیکنالوجی پر دسترس حاصل کرے گی تاکہ داخلی صنعت کو دنیا کی مضبوط ترین صنعت بنایا جاسکے۔ اس کے بعد اس طرح سے پر امن نیو کلیئر مارکیٹ میں داخل ہوا جائے گا کہ اس سے اسلام دشمن قوتیں مضبوط نہ ہونے پائیں۔ اس سلسلے میں عالمی سطح پر امریکہ اوردوسری استعماری ریاستوں کے ایٹمی معاملات پر دوغلہ پن اورمنافقت کو بھی اُجاگر کیا جائے گا۔

بلیسٹک میزائل ڈیفنس(BMD) بھی نیو کلیئر سٹریٹیجی کی بحث کا اہم موضوع ہے۔ مختصراً اس سسٹم کی حقیقت یہ ہے کہ ایٹمی حملے سے مکمل بچاؤ کے لیے بنائی جانے والے مختلفBMD نظام میں بڑے ٹیکنیکل مسائل موجود ہیں اور مکمل بچاؤ کی گارنٹی کسی بھی سسٹم میں نہیں۔ ریاست خلافت کی پالیسی اس سلسلے میں یہ ہو گی کہ اول، اس سسٹم پر تحقیق(research & development )کا کام کیا جائے تاکہ ایک مستحکم بچاؤ کا نظام عمل میں لایا جائے۔ دوم کسی بھی قسم کے BMD سسٹم کو ریاست خلافت کے گرد ونواح میں لگائے جانے کی ہرکوشش کو ناکام بنایا جائے گا۔

اختتامی کلمات(Conclusion)

حالیہ عرصے میں استعماری کفار کی مسلم علاقوں میں مداخلت اورسازشوں،خصوصاً عرب مسلم دنیا میں ایجنٹ حکمرانوں اورکفریہ نظاموں کے خلاف امت کی بغاوت نے ایک نیا رخ اختیارکرلیا ہے۔لیکن شام کے بہادراورمخلص مسلمانوں کی اسلام اور خلافت کے لیے پاک جدوجہد نے امریکہ اور اس کے حواریوں کو شدید زخمی کردیا ہے۔بہت جلد اللہ کی مدد سے مسلمان ایک ایسی ریاست کو قائم کریں گے جس کی خارجہ پالیسی اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر مبنی ہوگی جس میں فرمایا گیا:

وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّی لاَ تَکُونَ فِتْنَۃٌ وَیَکُونَ الدِّیْنُ کُلُّہُ لِلّہ فَإِنِ انتَہَوْاْ فَإِنَّ اللّہَ بِمَا یَعْمَلُونَ بَصِیْر 

’’اورتم ان سے اس حد تک لڑوکہ ان میں فساد عقیدہ نہ رہے اور دین اللہ ہی کا ہوجائے۔ پھر اگر یہ باز آجائیں تواللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو خوب دیکھتاہے‘‘۔ (الانفال۔ 39)

اور فرمایا:

ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُون

’’اسی نے اپنے ر سول ﷺکو ہدایت اورسچے دین کے ساتھ بھیجا کہ اسے تمام ادیان پرغالب کردے۔ چاہے مشرکوں کو کتنا ہی برا کیوں نہ لگے ۔ ( التوبہ ۔33)

یہ ریاست خلافت ہی ہو گی جو اپنی جدید ترین فوجی ساز وسامان ،ایٹمی اسلحہ ا ور جذبہ جہاد سے سرشار فوج کو اسلام کے پھیلاؤ، مضبوضہ مسلم علاقوں کو آزاد کروانے اور ریاست کی حفاظت کے لیے استعمال کرے گی۔ اسلامی خلافت کی نیو کلیئر پالیسی ہی اسلام دشمن ریاستوں کے دلوں میں حقیقی خوف پیدا کرے گی جبکہ دوسری ریاستوں کو عالمی استعماری قوتوں سے نجات دلائے گی۔ 

ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں سیدھے راستے پر گامزن رکھے اور اس راستے پر استحکامت عطا فرمائے اور ریاست خلافت کو مسلم دنیا میں جلد ازجلد قائم فرمائے۔ آمین۔


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

کیا قرآن و حدیث میں صیغہ امر (حکمیہ انداز) لازما واجب یا فرض ہوتا ہے ۔ (اصول الفقہ)

مسلمان صرف وحی کی اتباع کرتے ہیں ۔ یہ وحی ہمارے پاس دو شکلوں میں موجود ہے : ایک وحی متلو۔۔۔ یعنی وہ وحی جس کی تلاوت کی جاتی ہے،اس سے مراد قرآن الکریم ہے ۔ اور دوسرے وحی غیر متلو ۔۔۔یعنی وہ وحی جس کی تلاوت نہیں کی جاتی ۔ اس سے مراد حدیث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا اور رسول اللہ ﷺکی زبان بھی عربی ہی تھی۔ اس لیے عربی زبان کا فہم ہونااز حد ضروری ہے تبھی ہم شرعی مآخذ سے احکامات کو ٹھیک ٹھیک اخذ کرسکیں گے ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے سورۃ یوسف کی آیت نمبر 2میں ارشاد فرمایا: (انا انزلنَہٗ قرء ٰ نًا عربیًا لَّعلکم تعقلون ) ’’بے شک ہم نے اس قرآن کو نازل کیا تاکہ تم سمجھو‘‘ تاہم محض عربی زبان کی سمجھ شرعی مآخذ سے احکامات کو اخذ کرنے کے لیے کافی نہیں ۔ عربی زبان کا فہم ہوناشرعی متن یعنی (shariah Text) کو سمجھنے کی مختلف شرائط میں سے ایک شرط ہے۔ کیونکہ یہاں مقصد احکامات کو ایک خاص (قانونی ) متن سے اخذ کرنا ہے۔ جس کے لیے عربی زبان کی سمجھ کے علاوہ مزید امور کی بھی ضرورت ہے جیسے کہ وہ قرآئن جو فرائض اور حرام امور کا تعین کرتے ہیں، عام حکم اور اس کی تخصیص ، مطلق اور مقید ی

خلافت کیا ہے؟

آج کل جمہوریت اور آمریت کی ناکامی کے بعد ایسے مواقع کثرت سے آتے ہیں کہ خلافت کا تذکرہ نکل آتا ہے۔ تاہم لوگ اس خلافت سے ایک رومانوی محبت محسوس کرنے کے باوجود فکری اور علمی طور پر اس نظام کے خدوخال سے واقف نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض کم فہم اور الجھے ہوئے لوگ یا اسلام دشمن لوگ مغربی نظام کو معمولی ردوبدل کے بعد خلافت کی روح قرار دے کر لوگوں کو sell کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پس کسی کو ناروے، ڈنمارک وغیرہ "عمری خلافت" دکھتا ہے تو کسی کو برطانوی جمہوریت "مدینہ کا ماڈل" دکھائی دیتا ہے۔ ایسے تمام دوستوں کی سمجھ کیلئے یہ مضمون پیش خدمت ہے جو خلافت کا ایک اجمالی خاکہ لوگوں کے سامنے پیش کرنے کی کوشش ہے تاکہ امت اپنے ڈائریکشن کا درست تعین کر سکے اور کوئی انھیں گمراہ نہ کر سکے۔ اسلامی ریاست یعنی خلافت: اسلامی خلافت صرف اسی وقت قائم تصور کی جاتی ہے جب اس میں تمام نظام اسلام سے ہی اخذ کئے گئے ہوں اوراتھارٹی بھی مسلمانوں کے ہاتھ ہو۔ خلافت میں اقتصادی نظام، حکومتی نظام، معاشرتی نظام، نظام عدل، خارجہ پالیسی اور تعلیمی پالیسی مکمل طور پر شرعی مصادر سے اخذشدہ ہوتی ہے۔ آئیے فر

خلافت قائم کرنے کا طریقہ

1)     چونکہ خلافت کا قیام ایک فرض ہے بلکہ یہ مسلمان کے اوہر سب سے بڑا فرض ہے ۔ اور چونکہ ایک فرض کے قائم کرنےکا طریقہ اللہ سبحان و تعالیٰ نے انسان پر نہیں چھوڑا بلکہ ہر فرض کے طرح اس فرض کا بھی طریقہ کار اسلام نے بتایا ہوا ہے۔ اور یہ طریقہ کار ہم نبیﷺ کی سیرت سے جان سکتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ریاست کیسےقائم کی تھی۔، بالکل ویسے جس طرح ہم نماز، روزے، حج، جہاد اور دیگر فرائض کا طریقہ نبیﷺ سے اخذ کرتے ہیں۔ 2)   اگر عقل پر چھوڑ دیا جائےتو مختلف طریقے ذہن میں آتے ہیں، جیسے حکمرانوں کو صرف دعوت سے قائل کرنا کہ اسلام قائم کریں، یا ان کے خلاف جنگ کر کے ان کو ملیا میٹ کر کے اسلامی نظام قائم کرنا، یا اس ملک میں مروجہ دستور اور قانون کے مطابق نظام میں حصہ لے کر اس نظام کے اوپر پہنچ کر اسلام کا نظام قائم کرنا یا تمام لوگوں کو تبدیل کرنا ، یہ سوچ کرکہ جب تمام لوگ سچے، پکے مومن بن جائیں گے تو اسلامی نظام خود ہی قائم ہو جائے گاوغیرہ۔ لیکن یاد رہے کہ یہ سب عقل و منطق (logic)   سے نکلنے والے طریقے ہیں ۔ اور انسانی عقل کامل نہیں اسلئے اس طریقوں کی اپنی خوبیاں اور خامیاں ہونگی۔  لیکن جو طریقہ اللہ سبحانہ

شرعی دلائل کی روشنی میں خلافت اور جمہوریت کا تقابلی جائزہ

                                                                                                نوید بٹ   اسلام کا طالب علم جب قرآن و سنت پر نظر ڈالتا ہے تو اسے ’’جمہوریت‘‘ سے متعلق کوئی آیت یا حدیث تو درکنار صحابہ، آئمہ مجتہدین یا فقہائ کا ایک قول بھی نہیں ملتا۔ حالانکہ انسانیت اسلام سے ہزاروں سال قبل جمہوریت سے روشناس ہو چکی تھی۔ وہ اس شش و پنج کا بھی شکار ہوتا ہے کہ اگر اسلام کا نظام حکومت جمہوریت ہی ہے تو پھر کیا یونانیوں نے اسلام کے آنے سے قبل ہی ازخود ’’اسلامی نظام حکومت‘‘ دریافت کر لیا تھا؟ کیا اس ’’اسلامی نظام حکومت‘‘ کے نفاذ سے انہوں نے ایک اسلامی معاشرے کو جنم دے دیا تھا؟ کیا وہ نہ جانتے ہوئے بھی اسلام پر ہی چل رہے تھے؟ لیکن تاریخ کے کسی گوشے میں بھی یونانی تہذیب اور اسلامی تہذیب میں مماثلت کا کوئی شائبہ تک نہیں ملتا۔ اگر رسول مقبول ا جمہوریت ہی دے کر مبعوث کئے گئے تھے تو پھر آپ اکو یہ ارشاد فرمانے میں کیا تردد تھا کہ وہ وہی نظام لے کر آئے ہیں جو ارسطو اور یونانی فلاسفر انسانیت کو پہلے ہی دے چکے ہیں؟ جبکہ اسلامی عقائد کے بارے میں آپ ا نے بڑے واضح انداز میں فرمایا تھا کہ آ

آئین پاکستان کی نام نہاد "اسلامی دفعات" اور اس پر پاکستان کی ہائیکورٹس اور سپریم کورٹس کے مصدقہ فیصلے

آپ اور میں اپنے خواہش کے مطابق بے شک پاکستان کے آئین مین "اسلامی" دفعات پڑھ کر خوش ہوتے رہیں اور یہی کہتے رہپں کہ آئین دراصل اسلامی ہے ، اصل مسئلہ صرف نفاذ کا ہے لیکن آئین کی تشریح کا حق آپ کو یا مجھے نہیں، بلکہ عدالت کو ہے اور اس کی تشریح حتمی مانی جاتی ہے ۔ اور ان کے کچھ فیصلے ملاحظہ کریں: Sec 2. “Islam shall be the State religion of Pakistan.’’ ریاست کا سرکاری مذہب اسلام ہو گا۔ But when this Article 2 came to be interpreted in the Court of Law, a  Full Bench of the Sindh High Court comprising 5 judges, headed by its Chief Justice,  held that: ‘‘Article 2 is incorporated in the Introductory Part of the Constitution and as far as its language is concerned, it merely conveys a declaration. The question arises as to the intention of the Makers of the Constitution by declaring that ‘‘Islam shall be the State religion of Pakistan.’’ Apparently, what the Article means is that in its outer manifestation the State and its Government shall carry an Islamic Symbol. This A

ایک امت، ایک چاند، ایک رمضان اور ایک عید

تحریر: نوید بٹ اس سال روئیت ہلال کمیٹی کے سربراہ مفتی منیب الرحمن نے بڑے فخر سے اعلان فرمایا کہ اس دفعہ پورا پاکستان ایک دن رمضان شروع کر رہا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ اعلان درست نہ تھا کیونکہ نہ صرف پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین بلکہ وزیرستان کے مسلمان بھی ایک دن پہلے امت مسلمہ کے ساتھ رمضان کی شروعات کر چکے تھے۔ دوسرا اہم پہلو یہ کہ پاکستان نے قومیت کی بنیاد پر چاند قبول کرکے اپنے آپ کو امت مسلمہ سے الگ کر دیا اور امت کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا۔ مفتی منیب صاحب اس کے بارے میں کیا فرمائیں گے؟ کیا مفتی صاحب امت کو بتا سکتے ہیں کہ کہ قومیت پر مبنی روئیتِ ہلال کی اس بدعت کی شریعت سے کیا دلیل ملتی ہے۔  استعمار نے خلافت کا خاتمہ کر کے نہ صرف مسلمانوں کو چھوٹے چھوٹے حصوں تقسیم کر دیا بلکہ اس نے ہر حصے کو ایک مخصوص قومیت، قومی ترانہ، جھنڈا اور چاند بھی دے دیا۔ جھنڈے مسلمانوں کو سیاسی طور پر تقسیم کرنے کے لئے اور چاند امت کی مذہبی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لئے۔ لیکن اس سے زیادہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس نے ایسے افراد بھی عوام کے سروں پر بٹھا دئے جو اس تقسیم کو اسلام سے ثابت