تحریر: بلال امام، کراچی
کوئی بھی گروہ جو اپنے آپ کو اس بات کا پابند کرے کہ وہ نظام کی تبدیلی اوراسلامی ریاست کے قیام کی کوشش کے لیے رسول اللہ ﷺ کی سیرت کو بطورِ طریقہ اختیار کرے گا تو اس کے لیے مستند ماخذ سے سیرتِ نبوی کا مطالعہ نہایت ضروری ہے کیونکہ یہ بھی سنت ہی کا حصہ ہے ۔ سیرت کے مطالعہ سے یہ بات قطعی طور پر معلوم ہوجاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے نہ صرف یہ کہ اسلام کو لوگوں تک پہنچایا بلکہ اسے بطورِ نظام نافذ بھی کیا اور رسول اللہﷺ کو اللہ کی طرف سے اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ وہ اسلام کو بطورِ ریاست نافذ کریں۔ پس مکی دور کی تیرہ سالہ جدوجہد کے نتیجے میں مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست قائم ہوئی جس کے نتیجے میں جہاد کے ذریعے اسلام کے پھیلاؤ کا آغاز ہوا۔ اسلامی ریاست کا قیام کوئی ایسا واقعہ نہ تھا کہ جو جدوجہد کی راہ میں خود بخود وقوع پزیرہو گیا بلکہ ایک ایسی ریاست کا قیام جو اسلام کو نافذ کرے اور دعوت و جہاد کے ذریعے اسے دنیا تک لے جائے، رسول اللہ ﷺ کی مکی دور کی جدوجہد کا ہدف تھا۔ آج وہ لوگ جو رسول اللہ ﷺ کے نقشِ قدم پر اسلامی ریاست کے قیام کے لیے کوشش کر رہے ہیں ،کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس بات کا تعین کریں کہ اس پہلی اسلامی ریاست کا نقطہ آغاز کیا تھا۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے وہ اعمال جو انہوں نے اس نقطہ سے قبل سر انجام دیے وہی ریاست کے قیام کے لیے نمونہ ٹھہریں گے جبکہ اس نقطہ کے بعد کے اعمال اس ریاست کے پھیلاؤ اور استحکام کے لیے دلیل قرار پائیں گے۔ یہ ایک مشہور ومعروف بات ہے کہ مدینہ میں اسلامی حکمرانی کا آغاز اس وقت سے ہی ہو گیا تھا جب رسول اللہ ﷺ نے مدینہ ہجرت کی تھی۔ تاہم اس سلسلے میں کچھ لوگوں کانقطۂ نظر یہ بھی ہے کہ یہ ریاست فتح مکہ کے بعد ہی قائم ہوئی تھی اوراس سے قبل رسول اللہ ﷺ کو مکمل اتھارٹی حاصل نہیں تھی۔ اس مضمون میں اسی امر کو موضوعِ بحث بنایا جائے گا ۔
وہ نکات جو عموماً فتح مکہ کے بعد مکہ یا مدینہ کو پہلی اسلامی ریاست تسلیم کرنے کے ضمن میں پیش کئے جاتے ہیں،وہ مندرجہ ذیل ہیں:
پہلا نکتہ ہجرت کا مقصد مسلمانوں کی تعداد اور قوت میں اضافہ اور انہیں منظم کرنا تھا تا کہ وہ جہاد کے ذ ریعے حکومت حاصل کریں۔
تیسرا نکتہ فتح مکہ پر اسلام کی حکمرانی قائم اور انقلاب کی تکمیل ہوئی۔ جیسا کہ اللہ نے فرمایا : ’’آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے مقرر کیا ہے۔ " ((سورۃ مائدہ آیت3))
دوسرا نکتہ آپؐ کے پاس مدینہ میں طاقت نہیں تھی کیونکہ یہودی اپنے معاملات میں آزاد تھے اور میثاقِ مدینہ اس بات کا ثبوت ہے ۔
پہلے نکتہ کا جائزہ :
بہت سارے واقعات اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ آپ ؐکا قبائل کی طرف رخ کرنا دین اور دعوت کی مدد و نصرت کے لئے تھا۔ ابنِ ہشامؒ اپنی سیرت کے باب ً قبائل کو دعوتِ اسلامً میں لکھتے ہیں کہ آپ ؐ جب قبیلہ بنی عامر کے پاس پہنچے تو ایک شخص ہیرہ بِن فراز نے کہا ’’ ہم آپ ؐکی مدد کریں اور اللہ آپ کو دشمنوں پہ غلبہ عطا کردے توکیا آپؐ کے بعدہم حکومت سنبھال لیں۔‘‘ نبی ؐنے جواب دیا’’امر صرف اللہ کے لئے ہے وہ جسے چاہے گا دے دے گا۔‘‘ آپ ؐکے جواب میں لفظ امر کے معنی اتھارٹی کے ہیں یعنی آپؐ اس قبیلے سے اتھارٹی اور فیصلے کی طاقت مانگ رہے تھے۔ سیرت ابنِ ہشام کے باب :’’نبی اکا اپنے آپ کو قبائل پر پیش کرنا‘‘میں بیان کیا گیا ہے کہ ابن اسحق نے روایت کیا: ’’نبی ا مکہ واپس آئے تو قریش پہلے سے بھی زیادہ شدید ہو گئے...پس نبی ا نے حج کے اوقات میں مختلف قبائل سے رابطہ کیا ۔ آپﷺ انہیں بتاتے کہ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے رسول ہیں اور ان پر زور دیتے کہ وہ آپ ا پر ایمان لائیں اور آپ کی حفاظت کریں یہاں تک کہ اللہ اُسے ظاہرکر دے جو اللہ نے نازل کیا ہے‘‘۔ آپؐکا آخری جملہ واضح کرتا ہے کہ آپ انہیں ایک ایسی چیز کی طرف پکار رہے تھے جو مکہ میں پوری نہیں ہو پائی تھی یعنی شریعت کا پوری طرح ظاہراور غالب ہونا۔ ایک نظامِ زندگی اسی وقت واضح و ظاہرہوتا ہے جب اس کے اجتماعی پہلوؤں کو معاشرے پر نافذ کیا جائے تاکہ حقیقی مثال موجود ہو۔ ورنہ وہ دھندلا اور حقیقت سے دور ہوتا ہے جو کتابوں میں تومحفوظ ہو مگر عملی میدان سے غائب۔ اسی ہدف کے حصول کے لیے آپنے مدینہ ہجرت کی ۔ اگر محض تحفظ ہی درکار ہوتا تو حبشہ رسول اللہ ﷺ کی ہجرت کے لیے ایک اچھی جگہ تھی اورمدد و نصرت کے لیے اتنی سختیوں اور کڑوے جوابات کو برداشت کرنے کی ضرورت نہ تھی۔
ہجرت صرف اسلامی دعوت کیلئے جگہ کی تبدیلی کا نام نہیں بلکہ دعوت میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس واقعہ کے بعد قرآن کی آیات کی نوعیت اور احکامات کا زاویہ بدل گیا۔ خلیفہ حضرت عمرؓ نے جب اسلامی کیلنڈر کی بنیاد رکھی تو ہجرتِ مدینہ کو ہی اس کا نقطہ آغاز بنایا ۔ مکی آیات مختصر ہیں او ر ان کا ہدف کفارِ مکہ کے باطل خیالات ، عقائد اور نظامِ حیات کو نشانہ بنانا تھا بشمول اس کے کہ انہیں اسلام کی دعوت دی جائے ۔ اس کے برعکس مدنی سورتیں معاشرے کی تنظیم اور اجتماعی احکامات کے متعلق ہیں جو اپنے نفاذ کا مطالبہ کرتی ہیں۔
نبیﷺ ؐکی مکی دعوت واضح تھی کہ وہ لا اِلہ الا اللہ محمدرسول اللہ کا کلمہ معاشرے کی پوری ہئیت پر غالب کرنا چاہتے تھے۔ فکری اور سیاسی جدوجہدجس میں باطل افکار کو چیلنج کرتے ہوئے حق کو پیش کیا گیا۔ اس کے ساتھ آپؐ نے مکہ کے سرداروں کو اس غرض سے بھی دعوت دی کہ وہ اسلام قبول کرکے حکومت رسول ؐکے حوالے کردیں تاکہ اسلامی نظامِ زندگی کو کارزارِ حیات میں زندہ کیا جائے ۔ اسی بنا پر ابو طالبؓ کے انتقال سے چند روز قبل جب قریش کے سردار آپ ؐسے سمجھوتے کے لئے آئے تو نبیؐنے جواب دیا:’’یہ ایک لفظ ہے جو تمہیں عرب پر حاوی کر دے گا اور عجم تمہیں جزیہ دے گا۔‘‘ابو جہل بولا’’ تمہارے باپ کی قسم ! مجھے بتاؤ کیا حرف ہے کہ ایسے ایک نہیں دس الفاظ کہوں۔‘‘ آپ ؐنے فرمایا : لا الہ الاللہ ،جس پر قریش غصے میں آگئے۔
مزید براں ہجرت کے لئے اس نصرت کا ہر قسم کے سمجھوتے سے بالاتر اور مکمل ہونا شرط تھا، تاکہ حکومت اسلام کو مکمل نافذ کرے اور ہر سمت سے اس کی حفاظت کرے۔ یہی وجہ ہے کہ آپؐ ؐنے بنی شیبان کی مدد کو مسترد کر دیا جس نے عربوں سے تحفظ کا تووعدہ کیا لیکن وہ فارس سے حفاظت فراہم کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔
دس سال کی انتھک جدوجہد اور کفارِ مکہ کے بڑھتے ہوئے استبداد اور اسلام کے خلاف ان کے دلوں کی سختی کے بعد یہ ظاہر ہو گیا کہ قریش کبھی اسلام کو قبول نہیں کریں گے۔ اس کے بعد آپ ؐ نے طائف کا سفر کیا تاکہ طائف کے 3 سرداروں کو اسلام اور دین کی نصرت کی دعوت دی جائے۔مکی دعوت کا یہ موڑ اہم ترین موڑ ہے جب آپﷺ تقریباً چالیس قبائل کی طرف دین کی دعوت اور نصرت کے حصول کے لئے گئے۔ اس بات کو نظرانداز کرنا ہی در اصل ریاست اسلامی کے قیام کے طریقے کار کو اخذ کرنے میں غلطی کا آغاز ہے۔
سخت موسم، کٹھن سفر اور ایذاء کے باوجود نبی ؐکا نصرت طلب کرنے کے عمل کو جاری رکھنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ عمل اللہ کی طرف سے تھا نہ کہ آپ ؐکی ذاتی خواہش کی بنا پر۔ ابنِ حجر کی فتح الباری میں نیز حاکم ، بیہقی میں معروف سند کے ساتھ علیؓ سے روایت ہے:’’جب اللہ نے اپنے نبی ؐکو عرب قبیلوں تک دعوت لے جانے کا حکم دیا تو میں اور ابوبکرؓ آپ ؐکے ہمراہ منیٰ گئے یہاں تک کہ عرب کے قبیلوں تک پہنچ گئے‘‘۔
یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ اوس اور خزرج یثرب کے طاقتور قبائل میں سے تھے اور یہ مسلسل حالتِ جنگ میں رہا کرتے تھے۔ اورآپؐ کی آمد سے قبل جب انہوں نے جنگ بندی کا معائدہ کیا تو رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کو اپنا باہمی سردار چننے کا ارادہ کیا تاکہ تنازع کے وقت دونوں قبائل اس کا فیصلہ تسلیم کریں۔ چنانچہ یہ قبائل آپ ؐسے ملے اور ان کے سرداروں نے اسلام قبول کرکے دین کی نصرت کی اور عبداللہ بن ابی کو اپنا سردار نہیں بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی جی ہی جی میں کڑھتا تھاکیونکہ سرداری و حکمرانی کا منصب جس کی اسے امید تھی ، اللہ کے فضل سے نبی ؐکو مل گئی۔
لہٰذنصرت طلب کرنے کا حکم اللہ کی طرف سے تھا اور تب تک آپ ؐنے اس عمل کو جاری رکھا جب تک یہ عمل پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ گیا یعنی جب انصار نے اسلام قبول کرکے آپ کو نصرت دے دی۔ اسی بنا پر انہیں انصار کہا گیا یعنی مدد کرنے والے۔ جیسا کہ اللہ نے قرآن میں ارشاد فرمایا ہے:’’ جن لوگوں نے ہجرت کرنے والوں کو جگہ دی اور ان کی مدد کی‘‘((سورۃ الانفال72))۔
اپنی سمت میں استحکام اور یکسوئی رکھتے ہوئے آپ ؐبالآخر اوس اور خزرج کے قبیلوں سے ملے۔ ابنِ ہشا مؒ نے اپنی سیرت میں، باب ’انصار اور بیعتِ عقبہ اولیٰ ‘ میں ابنِ عباسؓ سے روایت کیا ہے کہ:’’جب اللہ نے اپنے دین کو غالب ، نبیﷺ کو معزز اور کامیاب کرنے اور اپنے وعدوں کو پورا کرنا چاہا تو اس کے لئے اسباب بھی مہیا کر دئے۔‘‘
اللہ نے انصار کے دلوں کو اسلام کی روشنی سے منور کرنا تھا یوں بیعت عقبہ دوم نے ہجرت کی نوید سنائی۔ عقبہ کی پہلی بیعت کے اگلے ہی سال73 مرد اوردو خواتین یثرب سے مکہ آئے۔ یہ لوگ ایامِ تشریق میں رات کی تاریکی میں نبیؐ سے عقبہ کے مقام پر ملے جہاں آپ ؐکے چچا عباسؓ بھی شامل تھے جو اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ دونوں نے گروہ سے خطاب کیا۔ آپ ؐنے فرمایا:’’میں تمہیں حلیف بناوءں گا جب تم اس بات کا اقرار کرو کہ اس چیز سے میری حفاظت کرو گے جس سے اپنی عورتوں اور بچوں کی کرتے ہو۔‘‘ اس پر البراء نے آپ ؐکا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا : ’’خدا کی قسم! ہم آپ ؐکی اسی طرح حفاظت کریں گے جس طرح اپنے بیوی بچوں کی کرتے ہیں۔ اے اللہ کے رسولؐ ! ہمارے ساتھ معاہدہ کیجئے ہم جنگجو لوگ ہیں اور یہ ہمیں نسل در نسل وراثت میں ملی ہے‘‘۔ وفد نے مزید پوچھا ’’اگر آپؐ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے تو کیا آپﷺ ہمیں چھوڑ دیں گے۔‘‘ آپ ؐنے جواب دیا :’’میں ہر اس شخص سے جنگ کروں گا جس سے تم جنگ کرو گے اور ہر اس شخص سے امن کا معاہدہ کروں گا جس سے تم امن کا معاہدہ کرو گے۔ میرا خون تمہارا خون ہے اور میرا معاہدہ تمہارا معاہدہ ہے۔‘‘
اس ہی طرح امام احمدؒ نے حضرت جابرؓ سے روایت کیا ہے کہ انصارنے آپ ؐسے وہ بنیاد دریافت کی جس پر وہ آپ ؐکو بیعت دینے والے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’ ۱) ہر حال میں سننا اور اطاعت کرنا۔ ۲۔مفلسی اور خوشحالی ہر حال میں خرچ کرنا۔ ۳۔حق بات کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔ ۴۔اللہ کے راستے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پرواہ نہ کرنا۔ ۵۔اگر میں تم سے مدد مانگوں تو اس چیز سے میری حفاظت کرنا جس سے اپنے بیوی بچوں کی کرتے ہو۔ اگر تم نے ایسا کر لیا تو تمھارے لئے جنت ہے‘‘۔ مندرجہ بالا حدیث میں انصار نے اس بات پر بیعت کی کہ وہ ہر حال میں اطاعت کریں گے۔ یہ اطاعت ان احکامات کی اطاعت تھی جو آپؐ بطور حاکم جاری کریں گے۔ مزید برآں تمام مسلمانوں سے بیعت نہ لینا اور صرف یثرب سے آئے ہوئے لوگوں سے بیعت لینا اس امر کا ثبوت ہے کہ یہ بیعت ایک خاص مقصد کے تحت تھی۔
جہاں تک سورۃ بنی اسرائیل کی آیت80 کا تعلق ہے کہ’’ اور دعا کرو کہ پروردگار، مجھ کو جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنا دے۔‘‘ تومسند احمد میں ابنِ عباسؓ سے مروی ہے کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب آپ ؐمکہ میں تھے اور آپؐ کو ہجرت کا حکم ہوا۔ اس ہی طرح ابنِ کثیر نے اس آیت کو اپنی تاریخ البدایہ و النہایہ کے باب’’آپؐ کے مکہ سے مدینہ ہجرت کے اسباب‘‘ میں رقم کیا ہے۔ اس آیت میں لفظ سلطان سے مراد اتھارٹیہے۔ ابنِ کثیرؒ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:’’اللہ سے سلطنت کی دعا کرو اور مدد کی بھی۔ آپ ؐجانتے تھے کہ سلطنت کے بغیر دین کی اشاعت اور تبلیغ ناممکن ہے۔اسی لیے انہوں نے سلطاناً النصیرا کی دعا کی تاکہ وہ اللہ کے دین کو قائم کر سکیں، اللہ کی کتاب کو ، اس کے حدود کو اور فرائض کو ... وہ اس لیے کہ حق کے ساتھ ساتھ طاقت بھی ضروری ہے تاکہ حق کے دشمنان ڈرے رہیں۔ اور ایک حدیث میں ہے کہ اللہ بہت ساری برائیوں کو سلطنت سے روکتا ہے جو قرآن سے نہیں رک سکتیں (ابن کثیر نے اسے حدیث کہا ہے تاہم یہ عثمانؓ کا قول ہے اور یہ حدیث نہیں ہے)‘‘۔
یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ ہجرت کا مقصد دین کا نفاذ اور دعوت کے طرز میں ایک یکسر تبدیلی یعنی معاشرے کی تشکیل اور ریاست کا قیام کرنا تھا ، ایک ایسا معاشرہ جو دعوت کا علمبردار بنے۔
مدینہ میں ریاست کا قیام مندرجہ ذیل آیت سے بھی ثابت ہوتا ہے:’’یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے ، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔‘‘((سورۃ الحج 41))۔ ابنِ کثیر اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں ’’عثمانؓ فرماتے ہیں کہ یہ آیت ہمارے لئے نازل ہوئی کیونکہ ہم جبراً اپنے علاقوں سے نکالے گئے تھے ، پھر اللہ نے ہمیں سلطنت دی۔‘‘
یہ بیعت صرف جہاد کی بیعت نہیں تھی گو کہ دین کا مادی قوت سے تحفظ کرنا اس کا ایک حصہ تھا۔ اس بیعت کا نام بیعت الحرب اس لئے تھا کیونکہ یہ ہر سرخ و سیاہ سے لڑنے کا عقد تھا، جو اسلامی دعوت میں روڑے اٹکائے۔ اس کے باوجود کہ جہاد کا حکم نہیں اترا تھا۔ نتیجتاً بیعت کا فوری مقصد حکومت کا منتقل ہونا تھا۔
یہ آیت مسلمانوں کے درمیان ایک ایسے تعلق کو بیان کر رہی ہے جو عقیدہ سے مختلف ہے کہ مدینہ میں رہنے والے مسلمانوں کی حیثیت اس سے باہر رہنے والوں سے مختلف ہے۔ یہ آیت ایک ریاست اور اس کے شہریوں کے تعلق کو واضح کر رہی ہے۔ مدینہ کے مسلمان ایک منفرد ہئیت ہیں جو اسلامی معاشر ے کے علمبردار ہیں اور بحثیت ایک شہری کے اس کی بھلائیوں سے مستفید ہوتے ہیں اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہیں۔ مدینہ کی ریاست صرف ان مسلمانوں کے حقوق کی ذمہ دار ہے جو اس کے حدود میں بستے ہوں۔ اس کے باہر کی ذمہ دار نہیں گو کہ مدد کی صورت میں غیر مہاجرین کی مدد کی جاسکتی ہے لیکن ان کی پوزیشن مہاجرین جیسی نہیں۔ جیسا کہ مسند احمد میں سلیمان بن بریدہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ جب بھی دارالکفرکی جانب کوئی لشکر بھیجتے تو انہیں کہتے:’’ انہیں اسلام کی دعوت دینا اگر وہ مان جائیں تو لڑائی سے گریز کرنا۔ پھر انہیں دعوت دینا کہ اپنی سرزمین سے دارالمہاجرین (دارالاسلام ) کی جانب ہجرت کریں اور انہیں بتانا کہ اگر انہوں نے ایسا کیا تو انہیں وہی حقوق ملیں گے جو مہاجرین کو ملتے ہیں اور ان پر وہی ذ مہ داری عائد ہو گی جو مہاجرین پہ عائد ہوتی ہیں‘‘۔ یہ حدیث اسلامی ریاست کے باشندوں کی ذمہ داریوں، حقوق اور مراعات کو بیان کرتی ہے۔یہ حدیث ایک ایسی ریاست کی موجودگی پر دلالت کر رہی ہے جو اسلام کے نفاذ کو یقینی بنا رہی ہو اور اگر وہ دارالاسلام کی طرف ہجرت نہ کریں تو وہ ان حقو ق سے محروم ہوں گے۔
جہاد یقیناً دین کا اہم حکم اور ریاستِ خلافت کی خارجہ پالیسی کا لازمی حصہ ہے تاکہ اسلام کی دعوت کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو ہٹایا جاسکے۔ جب اسلامی ریاست پھیلتی ہے تو وہ دعوت و جہاد ہی کے ذریعے پھیلتی ہے اور نئی سرزمینوں پر اسلام کا جھنڈا بلندہوتا ہے۔ لیکن جہاد کے اس تصور کو عقبہ کی دوسری بیعت کے ساتھ خلط ملط نہیں کرنا چاہیے اور ایک ایسی ریاست کے قیام کے ساتھ بھی جو اسلام کے بیشمار فرائض کو نافذ کرتی ہے اور جہاد بھی کرتی ہے۔
سورۃ المائدۃ کی آیات ۴۴ اور ۴۹ میں لفظ ’حکم‘ کا صحیح فہم بھی ضروری ہے، کیونکہ یہ آیات مدینہ میں نازل ہوئیں۔ کیا اس سے مراد صرف حکمت اور نبوت ہے یا حکومت بھی؟ ان آیات میں کہا گیا کہ ’’جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں‘‘((سورۃ المائدہ ۴۴))۔ اور’’پس اے محمدؐ ! تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق اِن لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور ان کی خواہشات کی پیروی کبھی نہ کرنا ،اور ہوشیار رہو کہ یہ لوگ تم کو فتنہ میں ڈال کر اْس ہدایت سے ذرہ برابر منحرف نہ کرنے پائیں جو اللہ نے تمہاری طرف نازل کی ہے‘‘((سورۃ المائدہ: 49))۔
ان آیات میں’حکم‘ کا لفظ استعمال ہوا جس کے معنی فیصلہ کرنا ہے اور اس کا اطلاق فیصلہ اور قانون دونوں پر ہوتا ہے کیونکہ اسلام میں سلطان کے پاس ہی اجتماعی معاملات میں فیصلے کا اختیار ہوتا ہے بلکہ یہ اس پر فرض ہے کہ وہ ایسا کرے یا پھر کسی قاضی وغیرہ کو مقرر کرے۔ حکمران اگر خود فیصلہ دے تو وہ لازماً جج ٹہرا اور اگر کسی کو جج مقرر کرے تو نسبتاً جج ٹہرے گا۔ جیسے بالفرض اگر ہم کہیں کہ امیر نے مسجد بنائی ، تو یہاں پر تعمیر کرانے والا امیر ہے مگر نسبتاً کیونکہ تعمیر کاکام تو یقیناً مزدوروں نے کیا ہوتا ہے نتیجتاً تمام فیصلوں کے لئے امیر کا ہونا ناگزیر ٹہرا۔
مدینہ میں رہنے والے لوگ باقی دنیا سے ایک منفرد معاشرہ تھے کیونکہ وہ ایک مخصوص طرزِ زندگی ، ایک مخصوص نظام اور قانون کے حامل تھے۔ اس بات کی وضاحت کے لئے کئی نصوص پیش کئے جاسکتے ہیں، لیکن یہاں صرف ایک آیت کا ہی حوالہ دیتے ہیں:’’ جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنی جانیں لڑائیں اور اپنے مال کھپائے، اور جن لوگوں نے ہجرت کرنے والوں کو جگہ دی اور ان کی مدد کی، وہی دراصل ایک دوسرے کے ولی ہیں۔ رہے وہ لوگ جو ایمان تو لے آئے مگر ہجرت کر کے دارالاسلام میں نہیں آئے تو ان سے تمہارا ولایت کا کوئی تعلق نہیں ہے جب تک کہ وہ ہجرت کر کے نہ آ جائیں۔ ہاں اگر وہ دین کے معاملہ میں تم سے مدد مانگیں تو ان کی مدد کرنا تم پر فرض ہے، لیکن کسی ایسی قوم کے خلاف نہیں جس سے تمہارا معاہدہ ہو ۔جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھتا ہے‘‘((سورۃ الانفال: 72))۔
نیزجو احکامات ہجرت کے بعد نازل ہوئے وہ معاشرے کے اجتماعی پہلو سے متعلق تفصیلات فراہم کرتے ہیں،جیسے معاشی اور معاشرتی اور عقوبات کے معاملات پر قرآن کی آیات کا نزول۔ مثلاًسورۃ البقرۃ میں جو احکامات نازل ہوئے جن کا نفاذ ریاست کرتی ہے ، ان میں سے کچھ یہ ہیں:
اس حقیقت کو سمجھنا مزید آسان ہوگا جب ہم ان احکامات کو موجودہ معاشرے پر جاری کرکے دیکھیں، تو ہم جان لیں گے کہ ان احکامات پر عمل ریاست کے وجود کے بغیرممکن ہی نہیں ۔
1۔ عائلی زندگی ، طلاق اور مرد و عورت کے تعلقات کے حدود و قیود سے متعلق احکامات (معاشرتی نظام)۔
2۔ سود کو حرام اور تجارت کو حلال کرنا( معاشی نظام)۔
اسی طرح سورۃ النساء میں معاشرے سے متعلق جو احکامات اترے ان میں سے چند یہ ہیں:
3۔ قرضوں اور تجارتی معاہدوں کے متعلق احکامات(معاشی نظام)۔
2۔ مہر کی رقم، نکاح اور گھر سے متعلق دیگر احکامات(معاشرتی نظام)۔
1۔ یتیموں کے حقوق اور وراثت کے قوانین(معاشرتی نظام)۔
3۔ محرم اور نامحرم کی وضاحت (معاشرتی نظام)۔
4۔ مسلمانوں کے درمیان، اہلِ کتاب کے ساتھ اور ان لوگوں کے ساتھ جن سے معاہدہ ہوا ہو ، تعلقات کی حد بندی(خارجہ پالیسی)۔
دوسرے نکتے کا جائزہ :
دوسرا نکتہ یہ تھاکہ آپؐ کے پاس مدینہ میں طاقت نہیں تھی کیونکہ یہودی اپنے معاملات میں آزاد تھے اور میثاقِ مدینہ اس بات کا ثبوت ہے ۔
اس غلط فہمی کا ازالہ: اگر نظام معاشرے میں نافذ نہ ہو رہا ہوتو وہ محض ایک اچھا خیال ہے جو تدریسی لحاظ سے توزبردست ہوگا مگر حقیقت میں غیر موئثر ہوگا۔ اسلام اس لئے آیا تاکہ لوگوں کے تعلقات اور معاشرے کو اپنے نظام کے تحت منظم کرے اور مخلوق کو مخلوق کی غلامی سے نکال کر خالق اللہ رب العزت کی غلامی کی طرف موڑے اور ایسا زندگی کے ہر کل اور جز وپر ہو،اور آپ ؐنے اس ہی کے لئے بحیثیت حکمران ہجرت کی۔
مکہ کی زندگی سے برعکس جہاں مسلمان محکوم تھے اور معاشرہ کفر کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا مدینہ میں اسلام غالب اور ہر خاص و عام کے خیالات پر حاوی تھا، اسی وجہ سے مکی اور مدنی سورتوں کا خطاب اوراسلوب بھی مختلف ہے۔ اس بات کی ایک اور دلیل منافقین کی موجودگی ہے جو مکہ میں ظاہر نہیں ہوئے تھے کیونکہ جو لوگ مکہ میں کھلے عام اسلام کی مخالفت کرتے تھے انہیں مدینہ میں اسلام کے غلبے کی وجہ سے آستین میں چھپ کر وار کرنا پڑتا یوں عبداللہ بن ابی کو بھی سرنگوں ہونا پڑا اور اس نے اسلام قبول کرنے کا جھوٹا ڈھونگ رچایا۔
آپ ؐنے مدینہ آتے ہی مسجد کی تعمیر کی، یہ باہمی اختلافات کو حل کرنے، مشورہ اور دیگر فیصلوں کی جگہ تھی۔ مسلمان آپؐ سے ہر عمل کے بارے میں دریافت کرتے اور آپ ؐان کے امور کی دیکھ بھال کرتے ، آپؐ مدینہ کے حاکم بھی تھے،سپہ سالار بھی اور قاضی بھی۔
مدینہ کی معاشی طاقت یہود تھے۔ وہ اوس اور خزرج کے درمیان نہ ختم ہونے والے تنازعات پیدا کرتے اور جب یہ قبیلے باہم دست و گریباں ہوجاتے تو یہود ان کا معاشی استحصال کرتے۔ آپؐ کی مدینہ آمد نہ صرف یہود کی اس چالاکی کے اختتام کی گھنٹی تھی بلکہ ان کی نام نہاد مذہبی اجارہ داری کے لئے بھی جس کی وجہ سے دیگر قبیلے انہیں عزت دیتے۔ یہود کے بڑے قبیلوں میں بنو قینقاع مدینہ کے اندربسا ہواتھا جب کہ بنو نضیر ، خیبر اور بنو قریظہ مدینہ سے باہر۔ مدینہ کی علاقائی اور سیاسی حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے آپ ؐنے اس کے دو حدود مقرر کیں، ایک حرہ شرقیہ دوسرا حرہ غربیہ۔ مدینہ کے چار اطراف میں سے ایک طرف کھجور کے گھنے باغات تھے جب کہ دوسری طرف ریگستانی پہاڑوں کے سلسے ۔ تیسری سمت مدینہ کی سرحدوں پر موجود یہود سے ملتی تھی اور چوتھی مکہ کی طرف جاتی تھی۔ آخری دو سمتوں سے مسلمانوں کو خطرہ تھا۔ یہودی آپ ؐکی مدینہ آمد کے بعد اسلام کو کھلم کھلا چیلنج نہیں کر رہے تھے کیونکہ مدینے کا با اثر طبقہ اب اسلام کے کیمپ میں تھا۔ لیکن دوسری طرف کفارِ مکہ مسلمانوں کے خون کے پیاسے تھے۔ یہ آپ ؐکا سیاسی فہم تھا کہ یہود کہ ساتھ معاہدہ کرکے مدینہ کو تین اطراف سے محفوظ کر دیا جائے تاکہ پوری توجہ کے ساتھ کفارِ مکہ کی اجارہ داری اور سیاسی ہیبت کو پارہ پارہ کیا جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ بدر سے پہلے کی سریات اور غزوات کفارِ مکہ کی جانب بھیجی گئیں۔ نبیؐ نے قریش کے شام کی طرف جانے والے تجارتی قافلوں کو یرغمال بنایا جو مدینہ سے گزرتے اور اس کے لئے Red Sea Coast اور مدینہ کے درمیان موجود قبائل سے معاہدے کئے گئے ، جیسے بنو ضمرہ او ر بنو مدلج۔
اسلام کی آمد سے قبل بھی یہودیوں کا معاشرہ مدینہ کے معاشرے سے الگ تھلگ تھا، تاہم مدینہ کی نومولود ریاست کے لئے ناگزیر تھا کہ اردگرد کے لوگوں اور اپنے باشندوں کے درمیان تعلقات کی وضاحت کرے تاکہ ریاست طے شدہ مقاصد کو حاصل کرے اوراس میں کوئی اندرونی رکاوٹ موجود نہ ہو۔ لہٰذا میثاقِ مدینہ رقم کیا گیا۔ یہ دستاویز آپ انے مہاجرین اور انصار کے مابین تحریر فرمائی جس میں یہودیوں کا بھی ذکر کیا اوران پر بھی شرائط عائد کی گئیں۔ اس دستاویز میں مسلمانوں کے مابین اور ان میں شامل ہونے والے لوگوں کے طرزِتعلقات کی وضاحت کی گئی تھی جس کے بعد یہودیوں کے مختلف قبائل سے مسلمانوں کے تعلقات کی حد بندی کو بیان کیا گیا تھا۔ دستاویز کی شرائط کے ذریعے یہودیوں کی اسلامی ریاست میں حیثیت کا تعین کیا گیا ہے ۔ دستاویز کے متن میں بڑی صراحت سے یہ بات طے کی گئی ہے کہ یہودیوں کے مسلمانوں سے معاملات کا تعین اسلام کی بنیادپرہوگا اور اس بات پر کہ وہ اسلام کی اتھارٹی کے تحت ہوں گے اور وہ ہر اُس امر کی پابندی کریں گے جواسلامی ریاست کے مفادات و مصالح کا لازمی تقاضا ہو۔ چنانچہ دستاویز کے متن کے متعدد نکات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں۔
(1) یہودیوں کے قریبی دوست،انہی کی طرح ہیں، یہ لوگ محمد اکی اجازت کے بغیر باہر نہیں جائیں گے۔
(2) یثرب(مدینہ) اس دستاویز میں لکھے گئے لوگوں کی پناہ گاہ ہوگا۔
(3 ) اس دستاویز میں شامل لوگوں کے مابین اگر کوئی ایسی بات ہو جائے جس سے فساد کا اندیشہ ہو، تو یہ معاملہ اللہ اور اسکے رسول ا کی طرف(فیصلے کیلئے) لایا جائے گا۔
(4) قریشِ مکہ کویا اُن کے مددگاروں کو پناہ نہیں دی جائیگی۔
پس ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ میثاق کسی طور بھی یہود یوں کو اسلامی ریاست کے اندر اپنی ایک الگ خودمختاراتھارٹی کی حیثیت نہیں دیتا ۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ جب بھی یہود نے معاہدہ کی پامالی کی انہیں سنگین نتائج بھگتنا پڑے۔ سب سے پہلے 2ہجری میں بنو قینقاع نے معاہدہ توڑا ، انہوں نے مسلمان خاتون کی عزت پامال کی اور ایک مسلمان کو شہید کیا ۔ نبیﷺ ؐنے 15روز کے محاصرے کے بعد سب کو قتل کرنے کا حکم دیا لیکن عبداللہ بن ابی، جس نے اس وقت منافقت کا لبادہ اوڑھا ہوا تھا، نے نبی ؐکی منت سماجت کی لہٰذا بنو قینقاع کو مدینہ بدر کر دیا گیا۔ 4ہجری میں بنو نضیر کوریاست بدر کر دیا گیا جب انہوں نے آپ ﷺکو قتل کرنے کی کوشش کی ، اس سے پہلے ان کے ایک سردار کعب بن اشرف کو قتل کیا جاچکا تھا جس نے احد کے بعد معاہدہ کو توڑتے ہوئے قریش کو جنگ کرنے پر ابھارا اور ان کی اعانت کی تھی۔ 5 ہجری میں بنو قریظہ کے تقریباً 700 لوگوں کو رسولؐ کے حکم پر قتل کر دیا گیا کہ انہوں نے غزوۂ احزاب میں قریش کا ساتھ دیا تھا۔ ا ور بالآخر7 ہجری میں خیبر کی فتح سے یہودیوں کی کمر ٹوٹ گئی۔ یہود کا عبرت ناک انجام آپ ؐکے اختیارات کی وسعت کی نشاندہی کرتا ہے ۔
اس طرح مدینہ کے اطراف کے یہودیوں کی حیثیت کا تعین کیا گیااور ان پر یہ پابندی عائد کی گئی کہ وہ مدینہ چھوڑ کر نہیں جا سکتے سوائے آپ ا کی یعنی اسلامی ریاست کی اجازت کے ساتھ،اور یہ کہ وہ مدینہ کی حرمت کے پابند ہونگے یعنی وہ نہ تو مدینہ پر جنگ کر سکیں گے اورنہ کسی ایسے فریق کی مدد کرینگے جو مدینہ پر حملہ کرے،وہ نہ تو قریشِ مکہ کو اور نہ اُن کے کسی حلیف کو پناہ دینگے اور یہ کہ اُن کے کسی بھی معاملے میں اختلاف کی صورت میں فیصلہ رسول اللہ ا فرمائینگے۔ یہودی ان شرائط کو مان گئے اوراُن کے قبائل جیسا کہ بنی عوف،بنی نجار، بنی حارث،بنی ساعدہ، بنی جشم،بنی الأوس اور بنی ثعلبہ کے یہودیوں نے اس دستاویز پر دستخط کردئیے۔ اس دستاویز پر دستخط ثبت کرنے میں بنی قریظہ،بنی نضیر اور بنو قینقاع اُس وقت شامل نہیں ہوئے تھے، لیکن کچھ عرصے بعد نبی ا اور ان کے مابین بھی اسی طرح کی دستاویز طے پاگئی ۔ اور یہود نے اس دستاویز میں مذکور شرائط کو تسلیم کر لیا۔
اس بات سے اختلاف نہیں کہ فتح مکہ اسلام کی عظیم فتح ہے لیکن اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ آپ ؐکے پاس حکمرانی اس وقت آئی جب مکہ فتح ہوا۔ جس طرح ہم ثابت کر چکے کہ آپ ؐکیسے مدینہ پر حکومت کیا کرتے تھے اور مدینہ کے اجتماعی تنازعات حل کرتے تھے ۔ صلح حدیبیہ دو ریاستوں کے درمیان معاہدہ تھا اور دیگر کامیابیوں کے علاوہ صلح حدیبیہ کی ایک کامیابی یہ تھی کہ اس معاہدے کے نتیجے میں قریش نے مدینہ میں رسول اللہ ﷺ کی قائم کردہ ریاست کو ایک اکائی) (entityکے طور پر قبول کیا تھا ۔ جہاں تک رسول اللہ ﷺ کا قریش کے مطالبے پر اپنے نام کے ساتھ سے رسول اللہ ﷺ کو مٹانے کا تعلق ہے تو یہ اس بات کا ثبوت ہرگز نہیں کہ مدینہ ایک ریاست نہیں تھی بلکہ یہ مطالبہ قریش کی طرف سے اس بات کا اظہار تھا کہ ہم آپ کو ایک ریاست کا سربراہ تو تسلیم کرتے ہیں( یہی وجہ ہے کہ یہ معاہدہ اوس اور خزرج کے سرداروں کی بجائے آپ ﷺکے ساتھ کر رہے ہیں) مگر آپ ﷺکو رسول ماننے کے لیے تیار نہیں۔ اور رسول اللہ ﷺ کو اس پر کوئی اعتراض نہ تھا کیونکہ آپ اس معاہدے کے ذریعے قریش سے یہ تسلیم کرانے کے لیے نہیں آئے تھے کہ محمد اللہ کے رسول ہیں بلکہ اس معاہدے کے مقاصد توکچھ اور تھے۔
جہاں تک اس آیت کا تعلق ہے کہ ’’ یہ جھوٹ سننے والے اور حرام کے مال کھانے والے ہیں، لہٰذا اگر یہ آپ ﷺکے پاس اپنے مقدمات لے کر آئیں تو آپ کو اختیار دیا جاتا ہے کہ چاہو ان کا فیصلہ کرو ورنہ انکار کر دو،اگر انکار کر دو تو یہ تمہارا کچھ بگاڑ نہیں سکتے، اور فیصلہ کرو تو پھر ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ کرو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘((سورۃ المائدہ: 42))۔ یہ ان یہودیوں کے متعلق ہے جو اسلامی ریاست کا حصہ نہیں تھے کہ وہ اگر اس بات کو پسند کریں کہ وہ اسلامی ریاست کا حصہ نہ ہونے کے باوجود اپنے کسی معاملے کی منصفی آپ ﷺسے چاہئیں تو آپ ﷺکو اختیار حاصل ہے کہ آپ ﷺ اس مقدمے کی سماعت کریں یا نہ کریں۔ لیکن جو یہودی اسلامی ریاست میں موجود ہیں تو ان کے وہ معاملات جو ان کی عبادات اور شادی بیاہ سے متعلق نہیں،بلکہ ان کا تعلق اجتماعی نظاموں سے ہے اور ان کے متعلق اللہ کا حکم نازل ہو چکا ہے تو اس صورت میں یہودیوں پر اسلام کا حکم ہی نافذ کیا جائے گا۔ پس رسول ﷺ اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہریوں پر اسلامی احکامات نافذکیا کرتے تھے۔ جیسا کہ بخاری نے ابن عمرؓ کے حوالے نقل کیا ہے کہ(( أِنَّ الْیَھُوْدَ جَاءُوا أِلَی النَّبِیِّﷺ بِرَجُلٍ مِنْھُمْ وَامْرَأَتٍ زَنَیَا فَأَمَرَ بِھِمَا فَرُجِمَا) )’’ یہودیوں نے ایک ایسے مرد اور عورت کو لے کر رسولﷺ کے پاس آئے جنہوں نے زنا کا ارتکاب کیاتھا ۔آپ نے ان کو حکم دیا کہ سنگسار کرو ۔ان دونوں کو سنگسار کیا گیا ۔‘‘ بخاری ہی انسؓ سے روایت کیا ہے کہ ((أَنَّ النَّبِیَّ قَتَلَ یَھُودِیَّا بِجَارِیَۃٍ قَتَلَھَا عَلَی أَوْ ضَاحٍ لَھَا))’’رسول ﷺ نے ایک ایسے یہودی کو قتل کر دیا جس نے زیور کے لالچ میں ایک باندی کو قتل کیا تھا۔‘‘ یہ یہودی اسلامی ریاست کا شہری تھا ۔
تیسرے نکتے کا جائزہ:
تیسرا نکتہ یہ تھا: فتح مکہ پر اسلام کی حکمرانی قائم اور انقلاب کی تکمیل ہوئی۔ جیسا کہ اللہ نے فرمایا : ’’آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے مقرر کیا ہے۔ " ((سورۃ مائدہ آیت3))
اس غلط فہمی کا ازالہ: قریش کی معاشی قوت کو ختم کرنے اور خیبر کی فتح کے بعد اسلام حجاز پر غالب آچکا تھا اور مکہ کی کفریہ ریاست کی حیثیت صرف اتنی تھی کہ ٹوٹی ہوئی دیوار کو آخری دھکادیا جائے۔ لہٰذا فتح مکہ کے بعد اسلامی ریاست عرب کی طاقت ور ترین ریاست بن گئی۔
اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ دین فتح مکہ کے بعد جا کر مکمل ہوا تو دین کے اتھارٹی کے طور پر قائم ہونے اور مکمل ہونے کے درمیان فرق ہے۔ اگر مشرف نے اقتدار حاصل کر کے پاکستان کے آئین کے ایک حصے کو معطل کر دیا اور 1973کا آئین مکمل طور پر نافذ نہ تھا تو اس کا مطلب نہیں کہ مشرف کے اس عرصے کے دوران پاکستان ایک ریاست نہیں تھا۔ ریاست کا بنیادی تصور ایک اتھارٹی ہے جو ایک نظامِ حیات پر لوگوں کو پابند کرے اور اس کی تنظیم کرے جو مدینہ میں پہلے دن سے موجود تھی ۔ یہ ریاست کے بطورِ ریاست موجود ہونے کی سرے سے کوئی شرط ہی نہیں کہ وہ ریاست اپنی دشمن ریاست کو فتح کرے جیسا کہ فتح مکہ کے نتیجے میں ہوا تھا۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ فتح مکہ سے قبل اور بعد رسول اللہ ﷺکے اعمال کی نوعیت میں اور قرآن کی آیات کی نوعیت میں ہمیں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی لیکن ہجرت سے قبل اور بعد رسول اللہ ﷺ کے اعمال اور قرآن کے احکامات کی نوعیت میں ایک واضح فرق ہے، جو اس بات کا نمایاں ثبوت ہے کہ مدینہ میں ریاست کا قیام ہجرت کے بعد ہوا نہ کہ فتح مکہ کے بعد۔ یہی وجہ ہے کہ فقہا ء نے حکمرانی کے احکامات کو اخذ کرتے وقت رسول اللہ کے مدنی دور کے اعمال کو جب دلیل کے طورپر پیش کیا تو اس بات کی کوئی رعایت نہیں رکھی کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ عمل فتح مکہ سے قبل سرانجام دیا تھا یا یہ عمل فتح مکہ کے بعد سر انجام دیا تھا کیونکہ وہ فتح مکہ سے قبل اور بعد دونوں وقت پہلی اسلامی ریاست کے حکمران تھے۔
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
کس صدی میں آ غاز ہوا
جواب دیںحذف کریں