یورپی ممالک میں چھپنے والے اسلام کے خلاف توہین آمیزمواد، اسلامی احکامات پرتنقید اور مسلمانوں کے ارتداد کے واقعات جن کی مغربی میڈیا اکثر ترویج کرتا رہتا ہے نہ صرف سوا ارب مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرتے بلکہ یہ واقعات اور ایسے مواد کی اشاعت ایک عام مسلمان کے لئے فکری اور سیاسی سطح پر بیشمار سوالات اٹھاتے ہیں۔ یورپ بار بار مسلمانوں کو ان معاملات پر ڈائیلاگ کی پیش کش کر رہا ہے۔ گویا کہ وہ امت کو فکری مناظرے کا چیلنج دے رہا ہے۔ اس صورتحال میں مغرب کو خاطر خواہ فکری جواب دینا اور امت کو واضح اسلامی فکر سے روشناس کرانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔اس سے قبل کہ یورپ کے اس فکری مناظرے کا چیلنج قبول کیا جائے پہلے اس فکری مقیاس کا تعین کرنا ضروری ہے جس کو بنیاد بنا کر فریقین میں فکری مباحثہ ممکن ہو سکے۔ کوئی بھی میچ جیتنے کے لیے یہ امر نہایت ہی اہم ہے کہ کن قوانین کو بنیاد بنا کر کھیل کھیلا جا رہا ہے اور کس کے میدان اور پچ کو استعمال کیا جارہا ہے۔ بالکل اسی طرح فکری جنگ میں ملوث ہونے سے قبل ہمیں دیکھنا ہو گا کہ دونوں فریقین کس فکری بنیاد کو اٹل اور مسمم گردان کر اپنے دلائل اخذ کر رہے ہیں۔ اگر دونوں فریقین میں اس بنیادی فکر کے مسسم ہونے میں ہی اختلاف ہو تو پھر اس سے نکلنے والے دلائل پر بحث کرنا بے سود ہوتا ہے۔ مثلاً اگر فکری بحث کے لئے قرآن و سنت کو بنیاد بنا لیا جائے تو مغرب یہ بحث کسی صورت نہیں جیت سکتا۔ اور اگر مسلمان سیکولزم کے عقیدے سے پھوٹنے والی آزادیوں کو مقدس مان لیں تو پھر مغرب کی کامیابی یقینی ہے۔ چنانچہ اس صورت میں فریقین کو چاہیے کہ وہ پہلے اس بنیاد پر بحث کریں جس سے وہ اپنے دلائل اخذ کررہے ہیں۔ ان پر بغور نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے تمام تر دلائل ایک ہی بنیاد سے نکل رہے ہیں۔ اور جب تک اس بنیاد ہی کو غلط ثابت نہ کیا جائے اس وقت تک ان کے دلائل کا خاطر خواہ جواب دینا ممکن نہیں ۔ مغرب کارٹونوں سے متعلق بحث کے لئے سیکولرزم،’’آزادئ رائے‘‘ اور ’’آزادئ صحافت‘‘ کے تصورات کو بنیاد بنانا چاہتا ہے۔ مغربی چینلز پر آنے والے نام نہاد مسلمان نمائندے اور حکمران بھی اپنے احتجاجی بیانات میں ’’آزادئ رائے‘‘ کو مقدس اور بنیادی فکر تسلیم کر رہے ہیں۔ وہ محض اس ’’آزادی‘‘ کو ذمہ داری سے استعمال کرنے کی تلقین فرمارہے ہیں اور مغرب سے یہ شکوہ کررہے ہیں کہ آزادئ رائے کے ساتھ ساتھ مذہبی منافرت پھیلانا اچھا عمل نہیں۔ لیکن افسوس کسی نے بھی اس اہم سوال کی طرف اشارہ کرنا مناسب نہ سمجھا کہ آیا ’’آزادی رائے‘‘ ہی وہ درست بنیاد اور مقیاس ہے جس کو مقدس تسلیم کرتے ہوئی باقی تمام افکار اور اعمال کو اس پر پرکھا جائے؟ آئیے اب ایک نظر آزادیوں اور مساوات کے تصور پر ڈالیں۔ یورپ نے جب پوپ اور بادشاہ کے ظالمانہ گٹھ جوڑ سے نجات حاصل کی تو اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیاسی اور فکری خلاء کو یورپی مفکرین اور فلاسفروں نے ایک نئے نظریے سے پُر کیا۔ اس نئے نظریے کی بنیاد دین اور دنیا کی جدائی (secularism)اور انسان کے آزاد اور مساوی ہونے پر تھی۔ جبکہ حکومت کی ذمہ داری فقط اتنی ہے کہ ہر شہری کی آزادیوں کی ضمانت دی جائے۔ آزادیوں کی یہ سوچ ایک لادین معاشرے کے لئے نہایت پر کشش تھی جو کئی صدیاں رب کے نام پر اذیتیں برداشت کر چکی تھی۔ آزادیوں کا یہ نعرہ محض ایک دھوکہ تھا کیونکہ جب تک روئے زمین پر دو اشخاص کا وجود ہوگااس وقت تک ایک شخص مطلقاً آزاد نہیں ہوسکتا۔ ایک شخص کی آزادی دوسرے شخص کی آزادی پر قدغن لگاتی ہے اور جب بھی آزادیوں پر کسی قسم کا قدغن لگا دیا جائے تو پھر وہ آزادیاں نہیں رہتی۔ عرف عام میں انہی حدود و قیود کو قوانین کہتے ہیں۔ آزادیوں کے ’’خوبصورت‘‘ تصور کے باطل اور غیر عملی ہونے کا مذکورہ بالا احساس اُس وقت کے مغربی مفکرین کو بھی تھا لیکن انہوں اس غیر عملی تصور کو نسبتاً قابل عمل بنانے کے لئے مطلق آزادی کی حدبندیاں کرنا شروع کیں۔ چنانچہ ان فلاسفروں نے آزادیوں کی رومانوی اصطلاح برقرار رکھتے ہوئے حدود و قیود وضع کرنا شروع کیں تاکہ ایک نظام وجود میں آسکے۔ چنانچہ جرمن مفکر ایمانویل کانٹ (Immanul Kant) نے یہ کہہ کر آزادیوں کی حد بندی کے لئے ایک قائدہ اور اصول فراہم کیا کہ:"I am free to move my hand but the freedom of my hand ends where your nose begins."’’میں اپنے ہاتھ کو حرکت دینے میں آزاد ہوں، لیکن جہاں تمہاری ناک شروع ہوتی ہے ، میرے ہاتھ کی آزادی وہاں ختم ہو جاتی ہے۔‘‘چنانچہ مطلق آزادیوں کے بجائے حدود و قیود کے حامل قوانین بنائے گئے لیکن ان تمام قوانین کو آزادیوں اور مساوات کے نام پر مارکٹ کیا گیا۔ یہ بھی واضح رہے کہ کلیسا کو خیر باد کہنے کے بعد کسی ادارے یا شخص کو قانون سازی اور حکومت کا الوہی حق حاصل نہ رہا جس کی وجہ سے ایک سیاسی اور تشریعی خلاء بھی پیدا ہوا۔ اس خلاء کو پر کرنے کے لئے عوام ہی کو حکمران چننے اور قانون سازی کا سرچشمہ قرار دیا گیا۔ لہذا پارلیمنٹ میں موجود مخصوص گروہ کو آزادیوں کی حدبندیاں کرنے کا اختیار تفویض کر دیا گیا۔ یوں سیکولرزم اور آزادیوں کے تصور نے منطقی اور عملی طور پر جمہوریت کے سیاسی نظام ہی کو قبول کیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کس ملک میں جمہوریت کے ہونے یا نہ ہونے کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو اس کے ساتھ ساتھ ان آزادیوں کے وجود یا عدم وجود کا مسئلہ بھی ضرور زیر غور آتا ہے۔ توہین رسالت کے مسئلے میں بھی مغرب یہ امید لگائے بیٹھا ہے کہ وہ مسلمانوں کو ’’آزادئ رائے‘‘ کے اس مغربی تصور کو بنیاد بنا کر فکری بحث میں گھسیٹ لے گا اور یوں توہین رسالت سے متعلق اسلامی احکامات بھی ہمیں آزادئ رائے کی عینک سے کمزور اور غلط نظر آنے لگیں گے۔ مغرب سے مباحثہ کا آغاز ان کے فکری مقائیس اور کسوٹیوں کو عقلی اور شرعی لحاظ سے پرکھنے سے ہونا چاہئے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا ان آزادیوں کا حقیقت میں کوئی وجود بھی ہے؟ کیا خود مغربی معاشرے میں یہ آزادیاں کلی طور نافذ بھی ہیں یا نہیں؟ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ آیا کہ یہ آزادیاں قرآن و سنت سے نکلتی ہیں یا یہ تصورات سراسر اسلام سے متناقض ہیں۔سب سے پہلے ہمیں مغرب سے استفسار کرنا چاہئے کہ کیا کسی ملک میں آزادیوں کا وجود ہے؟ کیا امریکہ جیسے ملک میں پیٹریاٹ لاء (Patriot Law) کی موجودگی میں ایک مسلمان آزاد ہے؟ کیا ان قوانین کی بدولت ایف بی آئی مسلمانوں کے فون ٹیپ نہیں کرتی رہی؟ کیا کسی بھی مسلمان پر دہشت گردی کا محض الزام لگا کر اس کو غیر معینہ مدت کے لئے جیل نہیں بھیجا جاسکتا؟ کیا گوانتانامو بے کے تاریک زندانوں میں ایک شخص کو اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کو دنیا کی کسی بھی عدالت میں چیلنج کرنے کا اختیار ہے؟ کیا ان کو اپنے لئے ایک وکیل تک چننے کی آزادی ہے؟ امریکہ تو وہ ملک ہے جہاں پر علی تمیمی جیسے مسلمان کو محض اس لئے عمر قید کی سزا دے دی جاتی ہے کہ اس نے امریکی فوج کے خلاف امریکہ میں نہیں بلکہ عراق اور افغانستان کے میدان جنگ میں لڑنے کا فتویٰ جاری کیا تھا۔ کیا اس کے پاس رائے کی آزادی کا کوئی حق نہیں؟ کیا فرانس میں ایک مسلمان عورت کو مذہبی اور شخصی آزادی کے نام پر پبلک اسکول میں نقاب پہننے کی آزادی ہے؟ کیا جرمنی میں ایک مسلمان ہم جنس پرستی کو قبیح فعل دینے کے بعد وہاں کی شہریت حاصل کر سکتا ہے؟ کیا مغربی حکومتیں مسلمانوں کو اپنی مرضی کے مطابق کسی بھی مسلم ملک میں شریعت نافذ کرنے کا حق دیں گی؟ کیا وجہ ہے کہ الجزائر میں اکثریت حاصل کرنے کے باجود FIS کو حکومت بنانے کی آزادی نہ دی گئی؟ کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں کی ہر متبرک ہستی کی ہتک تو کی جاسکتی ہے لیکن اسرائیلی ریاست کے وجود کے خلاف بات کرنے کو Anti-Semiticکہہ کر قابل دست انداز�ئ پولیس جرم قرار دے دیا جاتا ہے؟ حزب التحریر جیسی پر امن سیاسی پارٹی پر جرمنی میں محض اس لئے پابندی لگادی جاتی ہے کہ اس نے اپنے پمفلٹ میں جو آیات اور احادیث استعمال کیں ان میں سے Anti-Semitism کی بو آتی تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آزادیوں کا مطلب اسلام کی پیٹھ پر کوڑا برسانے کے لئے ایک بہانا تراشنا ہے تو پھر مسلمانوں کو ان آزادیوں سے کیا سروکار؟ اگر یہ آزادیاں مغرب کے اپنے ممالک میں عملاً موجود ہی نہیں تو پھر مسلمانوں کو اس خیالی اور نا قابل عمل تصور پر چلانے کے لئے فاشسٹ رویہ کیوں استعمال کیا جاتا ہے؟ جب مغرب ان تمام سوالات کا جواب لے آئے تو پھر آزادیوں کے متعلق مزید بات ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر ان سوالات کے جواب میں کوئی شخص صدر بش جیسی ہونق شکل بنائے آپ کا منہ تکنے لگے تو سمجھ جائیے گا کہ وہ بھی دیگر مغربی مفکرین کی طرح خالی الذہن اور دوسروں کے عطا کردہ مکالمے دہرانے والا طوطا ہے۔ جو رٹے رٹائے جملے تو بول سکتا ہے لیکن کسی عام روش سے ہٹ کے سوالات کا جواب دینا اس کے بس کی بات نہیں۔مغرب کا یہ پرانا وطیرہ رہا ہے کہ وہ پہلے ہمیں اپنے مقائیس اور فکری کسوٹیوں کو یہ کہہ کر تسلیم کرواتا اور قابل قبول بنا تا ہے کہ یہ عین اسلامی ہیں ۔ اس کے لیے اسے شرعی دلائل گھڑنے پڑتے ہیں جیسا کہ افغان جنگ سے قبل جنرل مشرف جیسے سیکولر شخص نے صلح حدیبیہ سے تاویلات پیش کیں۔ کیونکہ امریکہ بخوبی جانتا ہے کہ مسلمان جتنے بھی گئے گزرے ہو جائیں وہ من حیث القوم کبھی بھی زندگی سے متعلق ایسے افکار مغرب سے مستعار نہ لیں گے جو اسلام سے متصادم ہوں جیسا کہ وہ سود کے مسئلے پر دیکھ چکے ہیں۔ آج جب امریکی خارجہ پالیسی کا مرکز و محور ’’دہشتگردی‘‘ کے خلاف جنگ ہے وہ مسلمان حکمرانوں اور مغرب زدہ مفکرین کے ذریعے ’’جہاد اکبر‘‘ اور ’’اسلام امن کا دین ہے‘‘ کا نعرہ بلند کروا رہا ہے تاکہ مسلمان امریکی فوجی یلغار کے خلاف کہیں ہتھیار اٹھانے کی زحمت نہ کر بیٹھیں۔ اسی طرح آج سے چند سال قبل تک امریکی خارجہ پالیسی ’’ہیومن رائٹس‘‘ کے نام پر تشہیر کردہ افکار پر مبنی تھی۔ جنہیں آفاقی (یونیورسل )قرار دے کر دنیا بھر میں نہ صرف پھیلایا گیا بلکہ ان کو بنیاد بنا کر پورے معاشرے کو بدلنے کے لیے مسلم ممالک میں قانون سازیاں بھی کی گئیں۔ چنانچہ مسلم ممالک میں آزادئ رائے، آزادئ ملکیت، شخصی آزادی اور مذہب کی آزادی کے کفریہ افکار کو اسلامی افکار ثابت کیا گیا۔ پھر جب مسلمانوں نے ان افکار کو اسلامی سمجھ کر قبول کر لیا تو مغرب انہی کسوٹیوں کو بنیاد بنا کر اسلام کو ’’ناقص‘‘ اور ’’غیر فطری‘‘ بنا کر پیش کرنے لگا۔ مثلاً مغرب ’’لا اکراہ فی الدین‘‘ کے تصور کو پہلے کھینچ تان کر ’’آزادئ مذہب‘‘ کے کفریہ فکر کے مماثل بناتا ہے پھر اسی ’’آزادئ مذہب‘‘ کے تصور کو مقدس بنا کر اسلام کو اس باطل کسوٹی پر پرکھنے کی دعوت دیتا ہے۔ چنانچہ انسانی حقوق کی دعوے دار تنظیمیں ہمیں پڑھاتی ہیں کہ آزادئ مذہب کے مطابق اگر ایک مسلمان اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کر لے تو پھر اسے مرتد کی سزا دینا ’’آزادئ مذہب ‘‘ کے ’’آفاقی‘‘ اور ’’فطری‘‘ قانون کے خلاف ہے۔ چنانچہ مغرب اور ان کے فکری غلام ، ماڈرنسٹ، مسلمانوں کو اپنے مذہب میں ’’اجتہاد‘‘ کے ذریعے ’’اصلاح‘‘ کی تلقین فرماتے ہیں۔ اسی طرح پہلے ہمارے سامنے مرد و زن کے بعینہ ایک ہونے کے تصور (مساوات) کو غلط دلائل کے ذریعے اسلامی بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ یعنی وہ تمام آیات اور احادیث جو اﷲ کے نزدیک مرد و زن کا بحیثیت انسان برابر ہونا ظاہر کرتی ہیں ان سے زبردستی یہ استدلال لیا جاتا ہے کہ مرد و زن کی فطرت بھی بعینہ ایک ہے چنانچہ ان کی ذمہ داریاں اور حقوق کی نوعیت بھی ایک ہی ہوگی۔ پھر جب عوام اس تصور کو اسلامی سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں تو پھر اسی کفریہ تصور کو بنیا د بنا کر اسلام پر طعن و تشنع کے تیر چلائے جاتے ہیں۔ آزادئ نسواں کے علمبردار طنزاً استفسار کرتے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ آپ کے مذہب میں عورت مرد کے بالمقابل آدھے مال کی وارث قرار پاتی ہے؟ آپ کے ہاں بعض معاملات میں عورت کی گواہی آدھی کیوں تصور کی جاتی ہے؟ آخر عورت کیوں حجاب پہننے پر مجبور ہے جبکہ ایک مرد محض تہبند میں کھلے عام گھوم پھر سکتا ہے؟ یہ حضرات یہ دیکھنے سے قاصر رہے کہ مغرب کا انسان کے بارے میں تصور اور انسان کے بارے میں اسلامی نقطۂ نظر میں نہ صرف اختلاف بلکہ تناقض پایا جاتا ہے۔ مغرب انسان کو آزاد سمجھتا ہے (man is born free) اور اس کا پورا کا پورا نظام انسان کی ’’ہر قسم کی آزادی‘‘ کو مقدس گردانتے ہوئے اس کو تحفظ فراہم کرنے کو اپنا مقصد اورغایت قرار دیتا ہے۔ جبکہ اسلام کا مطمعِ نظر انسان کو’’آزاد‘‘ نہیں بلکہ ’’عبد اﷲ‘‘ بنانا ہے یعنی ’’اﷲ کا غلام‘‘۔ اسلام امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور کل کم راعی و کل کم مسؤل عن رعیتہ کے اصولوں کے تحت فرد اور ریاست دونوں کو اپنے اپنے دائرہ کار میں برائی روکنے اور حق بات کرنے کا پابند کرتا ہے۔ ان احکامات کی بدولت ایک ایسا ذمہ دار اور پاک صاف معاشرہ جنم لیتا ہے جو کہ آزادی اور انفرادیت پر مبنی معاشرے سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔ چنانچہ انسان کا آزاد ہونے یا اﷲ کاعبد ہونے میں بنیادی اختلاف ہی نہ صرف دو مکمل طور پر مختلف معاشرے جنم دیتا ہے بلکہ اسی بنیاد پر فکر و عمل کے مقیاس بھی جدا جدا ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب کے نزدیک توہین رسالت پر مبنی کارٹون محض ’’رائے کی آزادی‘‘ ہے جبکہ مسلمانوں کے نزدیک قابل قتل جرم ۔ مغرب کے نزدیک مسلمان کا مذہب تبدیل کرنا آزادئ مذہب ہے جبکہ مسلمانوں کے یہاں ایساشخص ’’مرتد ‘‘ ٹھہرتا ہے جس کی سزا موت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب کے نزدیک حجاب پہننا عورت کی تذلیل اور اس کی آزادی میں رکاوٹ کی علامت گردانا جاتا ہے جبکہ مسلمان معاشرہ اسی عمل کو اﷲ کے احکامات کی اتباع کے تناظر میں دیکھتا ہے اور اس کے نزدیک حجاب انسان اور نفس کی غلامی کے خلاف علمِ بغاوت کا نشان ہے۔ بقول شاعروہ اک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
آئیے اب ان چار آزادیوں کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں جن سے دیگر تمام آزادیاں پھوٹتی ہیں اور جو سرمایہ دارانہ نظام میں قانون سازی کے لئے بنیاد اور ماخذ ہیں۔ یہ چار آزادیاں مذہب کی آزادی، شخصی آزادی، ملکیت کی آزادی اور رائے کی آزادی پر مشتمل ہیں۔ مذہب کی آزادی قبول کرنے کا مطلب یہ ہے کہ تمام مذاہب برابر ہیں اور کوئی مذہب مکمل طور پر درست یا غلط نہیں۔ یہ سوچ درحقیقت اس تصور کی product ہے کہ تمام مذاہب اندھے اعتقاد پر مبنی ہیں پس کسی ایک کو دوسرے پر فوقیت حاصل نہیں۔ لہذا مذہبی آزادی کے تصور کے مطابق کسی بھی شخص کو نہ صرف اپنے مذہب پر چلنے کی اجازت ہوتی ہے بلکہ وہ جب چاہے اپنا مذہب بدلنے میں آزاد ہے۔ چنانچہ ایک شخص چاہے اسلام سے ملحد ہو کر قادیانی، بہائی، اسماعیلی اور عیسائی ہوجائے اور اس کی تبلیغ کے لیے بہائی سنٹر اور قادیانی مراکز کھولتا پھرے۔ تو اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے اور ریاست کو اسکو تحفظ فراہم کرنا چاہئے۔ سیکولر حضرات ان تمام افکار کو شریعت کے عین مطابق قرار دیتے ہیں اور انہیں ’’لا اکراہ فی الدین ‘‘ کے ایک جملے تلے بریکٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ لا اکراہ فی الدین کا اصل مطلب فقط اتنا ہے کہ کسی بھی غیر مسلم کو زبردستی مسلمان نہیں کیا جائے۔ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ کفریہ افکار سے عوام الناس کو محفوظ نہ رکھا جائے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ قرآن نے ’’لا اکراہ‘‘ کا حکم دے کر عیسائیت، قادیانیت اور ان دیگر مذاہب کو کھلے عام تبلیغ و ترویج کا سرٹیفیکیٹ دے دیا ہے جنہیں اسلام خود باطل اور کفرقرار دیتا ہے ۔ نہ اس لا اکراہ کا اطلاق مسلمان پر ہوتا ہے کہ وہ جب چاہے اپنا دین بدل کر کافر ہو جائے ۔رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ((مَنْ بَدَّلَ دِےْنَہُ فَقْتُلُوْہ)) ’’جو کوئی اپنا دین بدلے، اسے قتل کردو‘‘۔ اسلام غلط عقائد کو غلط کہنے میں کسی قسم کا تأمل نہیں برتتا بلکہ کبھی کبھار بہت ہی سخت رویہ اختیار کرتا ہے۔ یہ قرآن ہی ہے جو عیسیٰ (علیہ السلام)کو خدا کا بیٹا قرار دینے کوایک بہت ہی بیہودہ بات قرار دیتا ہے۔ (وَقَالُوا اتَّخَذَالْرَّحْمٰنُ وَلَداًo لَّقَدْ جِئتُمْ شَےْءًا إِدََّا o تَکَادُ السَّمٰوٰتُ ےَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَتَنْشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ ہَدًّا) (مریم:88-90) ’’وہ کہتے ہیں کہ رحمٰن نے کسی کو بیٹا بنایا ہے ۔۔ سخت بیہودہ بات ہے جو تم لوگ گھڑ لائے ہو۔ قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں، زمین شق ہو جائے اور پہاڑ گر جائیں‘‘۔ (إِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ حَصَبُ جَہَنَّمَ أَنْتُمْ لَہَا وَٰرِدُوْنَ) (الأنبیاء: 98) ’’بے شک تم اور تمہارے وہ معبود جنہیں تم پوجتے ہو، جہنم کا ایندھن ہیں، وہیں تم کو جانا ہے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی ریاست بیرونی حملوں کے ساتھ ساتھ اپنے رعایا کو باطل افکار اور فاسد عقائد سے محفوظ رکھنے کی بھی پابند ہوتی ہے۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ اسلامی عقیدہ اور دیگر تمام عقائد میں جو بات نمایاں طور پر مختلف ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی عقیدے کو عقلی طور پر ثابت کیا جاسکتا ہے جبکہ دیگر تمام مذاہب عقیدے میں عقل استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ اسی طرح ہندو مت میں جہاں انسان کو مختلف ذاتوں میں بانٹ کر ان کی تذلیل کی جاتی ہے کا اسلام جیسے آفاقی اور ہمہ گیر دین سے کیا مقابلہ۔ عیسائیت اور یہودیت جو چند عقائد پر مبنی مذاہب ہیں ان کا اسلام جیسے دین سے کیا مقابلہ جس میں اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے، معیشت، سیاست، حکومت، معاشرت غرض انسانی زندگی کے تمام تعلقات کو استوار کرنے سے متعلق احکامات موجود ہیں۔آزاد�ئ ملکیت کے تحت ہر شے کو انفرادی ملکیت میں دیا جاسکتا ہے جس میں تیل اور گیس کے کنویں، پانی کے ذخائر، معدنیات کی کانیں وغیرہ شمال ہیں۔ نیز اس تصور کے تحت حلال اشیاء کے ساتھ ساتھ حرام اشیاء کی ملکیت کی بھی آزادی ہے مثلاً شراب خانہ، کسینو، سودی کاروبار، سورؤں کا باڑہ، قحبہ خانہ وغیرہ۔ مزید برآں ایک شخص کو پیسے کمانے کے لئے حلال طریقوں کے علاوہ قمار باری، سود، شراب اور منشیات کی تجارت وغیرہ سے پیسے کمانے کی بھی اجازت حاصل ہے۔ یہ آزادئ ملکیت کی سرمایہ دارانہ فکر ہی ہے، جسے مسلم ریاستوں سے تسلیم کروانے کے بعد استعمارمسلم ممالک کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔آزادیِ مِلکیت کی فکر درحقیقت اسلام سے متصادم ہے۔ اقوام متحدہ اور آئی ایم ایف آزاد�ئ ملکیت کے تحت ’’ریفارمز‘‘ کا نعرہ لگا کر ہر شے نجی ملکیت میں دینے کا حکم سناتے ہیں جس کے بعد سب سے پہلے منافع بخش ادارے پرائیویٹائزیشن کے نام پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کی جھولی میں جا گرتے ہیں۔ یوں عوام کے استحصال کا آغاز ہوتا ہے۔ حضور ﷺ کی حدیث کے مطابق پانی، آگ (توانائی کے وسائل) اور چراگاہیں عوامی ملکیت میں رہتی ہیں اور وہ کسی بھی فرد، ادارے یا ریاست کی ملکیت نہیں بن سکتے۔ حضور ﷺنے فرمایا: (المسلمون شرکاء فی ثلاث فی الماء والکلا والنار وثمنہ حرام) (ابن ماجہ) ’’مسلمان تین چیزوں میں برابر کے شریک ہیں :پانی، چراگاہیں اور آگ --اور ان کی قیمت لینا حرام ہے‘‘۔ ریاست فقط نگہبان کے طور پر ان وسائل کی دریافت اور تقسیم کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ اسی طرح ایک دوسری حدیث کے مطابق تمام طرح کی معدنیات بھی انفرادی ملکیت میں نہیں جاسکتیں۔ چنانچہ اسلامی احکامات آزادئ ملکیت سے متصادم ہونے کی بدولت استعماری طاقتوں کی راہ روک دیتے ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ اسلام میں نہ تو کمیونزم کی طرح ہر شئے فرد سے چھین کر ریاست کی ملکیت میں دی جاتی ہے اور نہ ہی سرمایہ دارانہ نظام کی طرح ہر شئے معاشرے سے چھین کر سرمایہ دار کے تسلط میں دی جاتی ہے۔ چنانچہ ایک فرد کو اسلام کے تحت ذاتی اشیاء مثلاً بنگلہ، کار، جائداد وغیرہ ملکیت میں رکھنے کی اجازت ہے لیکن وہ تمام اشیاء جن پر مجموعی طور پر معاشرے کا انحصار ہوتا ہے کو ذاتی ملکیت میں نہیں دیا جاسکتا۔شخصی آزادی کے تحت ایک شخص کو یہ مکمل حق حاصل ہے کہ وہ شراب سے محظوظ ہویا خنزیر سے۔ اگر دو بالغ حضرات (consenting adults)اپنی خواہش سے شادی کے بغیر جنسی تعلق استوار کرنا چاہیں تو ایسا کرنا ہر گز معیوب نہ سمجھا جائے گا بلکہ ریاست پر شخصی آزادی کے تحت انہیں تحفظ مہیا کرنا لازمی ہوگا۔ نیز مرد وزن کس طرح کا لباس زیب تن کریںیہ بھی ان کا ذاتی مسئلہ ہے۔ چنانچہ معاشرے کے باسیوں کو عریانی یا فحاشی کو اس کفریہ فکر کے تحت قبول کرنا پڑے گا۔ شخصی آزادی کے اس مغربی نظریہ کو قبول کرنے کے بعد ایک باپ کو اپنی بیٹی کے بوائے فرنڈ سے ملنے میں کوئی عار نہیں رہے گا نہ ہی ایک ہم جنس پرست کے خلاف تادیبی کاروائی کی جاسکتی ہے۔ اسی آزادی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جنرل مشرف نے نیکر پہنے بھاگتی عورتوں کو روکنے کے بجائے یہ حکم صادر فرمایا تھا کہ جس کو یہ پسند نہیں وہ اپنی آنکھیں بند کرلے۔ اسلامی معاشرے میں ایک مسلمان شخصی آزادی کا نعرہ لگا کر اپنے ارد گرد ہونے والی برائی سے برأت کا اظہار نہیں کرسکتا کیونکہ حضور ﷺ نے فرمایا: (کل کم راع و کل کم مسؤول عن رعیتہ۔۔۔ ))(بخاری) ’’تم میں سے ہر ایک راعی (ذمہ دار) ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھ ہو گی‘‘۔ ((والذی نفسی بیدہ لتأمرنَّ بالمعروف، ولتنہونَّ عن المنکر، أو لیوشکنَّ اﷲ أن یبعث علیکم عقاباً من عندہ، ثمّ لتدعنّہ فلا یستجب لکم)) (احمد) ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، تم ضرور بالضرور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا ورنہ اﷲ تم پر عذاب نازل کر سکتا ہے۔ پھر تم اس سے دعا مانگو گے اور وہ اسے قبول نہ کریگا‘‘جہاں تک آزادئ رائے کا تعلق ہے تو مغرب نے اس تصور کو مسلمانوں کے لئے قابل قبول بنانے کے لئے دوبارہ اسلام کا سہارا لیا۔ انہوں نے آزادئ رائے کے لئے پہلے پہل محض حکمرانوں کامحاسبہ اور سیاسی اور فقہی اختلاف رائے کی اجازت سے متعلق اسلامی احکامات کو بطور جواز پیش کیا۔ آج بھی آزادئ رائے کے حامی مسلمان اس تصور کے لئے محض عمرؓ ابن الخطاب کا وہ واقع دہراتے نہیں تھکتے جس میں صحابہ نے ان کے کُرتے سے متعلق بڑی سختی سے استفسار کیا تھا۔ لیکن کیا آزادئ رائے کا تصور محض حکمرانوں کے محاسبہ تک ہی محدود ہے؟ اہل علم جانتے ہیں کہ آزادئ رائے (Freedom of Expression) سے مراد یہ ہے کہ ہر انسان کے پاس سچ جھوٹ کچھ بھی کہنے کا اختیار ہے۔ وہ لسانی اور گروہی عصبیت پھیلانے کے ساتھ ساتھ کفر اور الحاد پر مبنی لٹریچر تقسیم کر سکتا ہے۔ وہ چاہے تو کپڑے زیب تن کر کے تصویر کھنچوائے یا مادر پدر آزاد ہو کر تمام کپڑوں سے بے نیاز ہو کر فلم بنوائے۔ آج مغرب میں تیزی سے پھیلتی ہوئی پورنوگرافی (pornography)کی انڈسٹری کو بھی آزادئ رائے اور شخصی آزادی کے اصولوں کے تحت تحفظ حاصل ہے (افسوس مغرب کے نزدیک فحاشی بھی ایک انڈسٹری ہے!!) ۔ پاکستان میں بھی کیبل اور جرائد میں فحاشی کے لئے اسی آزادی سے دلیل پیش کی جاتی ہے۔ لہذا آزادئ رائے کی حمایت کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ حکمرانوں کے محاسبہ کے ایک اسلامی حکم کو بنیاد بنا کر آزادئ رائے کی اس کفریہ سوچ پر اسلام کی مہر تثبیت ثبت نہیں کی جاسکتی۔ بے شک اسلام میں ایک مسلمان کے پاس اپنی رائے دینے کا حق ہے اگر اس کی رائے قرآن و سنت سے اخذ شدہ ہو یا جسے اسلام حرام قرار نہ دیتا ہو؛ خواہ اس کی یہ رائے خلیفہ کی اختیار شدہ رائے کے خلاف ہی کیوں نہ ہو یا مسلمانوں کی اکثریت اس کی رائے سے اختلاف ہی کیوں نہ کرتی ہو۔ اسلام میں موجود حکمرانوں کے محاسبے کے قوانین بھی آزادئ رائے کے مماثل نہیں ۔ اول یہ کہ محاسبہ کرنے یا نہ کرنے میں مسلمان آزاد نہیں ہیں بلکہ حکمرانوں کی برائی بلکہ معاشر ے میں ہونے والی ہر برائی پر کلمہ حق بلند کرنا مسلمان کاشرعی فرض ہے۔ اس میں چھوٹ صرف اسی صورت میں ہے کہ اگر وہ آ واز بلند کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو۔ ((من رأی منکم منکراً فلیغیرہ بیدہ، فإن لم یستطع فبلسانہ، فإن لم یستطع فبقلبہ و ذلک أضعف الإیمان)) (مسلم) ’’تم میں سے جو بھی منکر دیکھے تو چاہئے کہ وہ اسے ہاتھ سے تبدیل کرے اور اگر اس کی استطاعت نہ پائے تو پھر زبان سے (تبدیل کرے) اور اگر یہ بھی نہ کر سکے تو پھر دل سے (برا جانے) اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے‘‘۔ اس کے برعکس آزادئ رائے کے تحت ایک شخص اس میں آزاد ہے کہ وہ برائی کے خلاف مکمل خاموشی اختیار کرے چاہے اس کے پاس اسے روکنے کی صلاحیت اور استطاعت ہی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح اسلام میں ایک عفت مآب عورت پر تہمت لگانا ایک جرم ہے جس کی سزا 80 درے ہیں جبکہ آزادئ رائے کے حامل معاشروں میں اس قسم کی تہمت کو سستی شہرت کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ آزادئ رائے اس قدر خطرناک سوچ ہے کہ جس کو تسلیم کرنے کے بعد ہمیں سلمان رشدی کی تصنیف کی اشاعت اور ترویج پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے لبرل حضرات جو آزادئ رائے پر پکا اعتقاد رکھتے ہیں سلمان رشدی کے قتل کے فتوے کو نہایت ہی بھونڈا ا ور حقیر سمجھتے ہیں۔ اسی فکر کو بنیاد بنا کرامریکہ نے نہ صرف مردود رشدی کو تحفظ فراہم کیا بلکہ مسلمانوں کی تذلیل کے لیے اسے کلنٹن کے ساتھ چائے پینے کا ’’شرف‘‘ بھی بخشا۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ آزادی رائے سمیت تمام ’’آزادیوں‘‘ کی بھی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ نہیں اسلام میں آزادیاں تو موجود ہیں لیکن اﷲ کے احکامات کے دائرے کے اندر ۔ ہمیں اس تضادات پر مبنی اصطلاح (Oxymoron) سے ہر گز اتفاق نہیں ۔ جب بھی اسلامی احکامات کے تحت انسانی اعمال پر پاندیاں اور حدود و قیود لگادی جائیں تو پھر آزادیاں کہاں رہ جاتی ہیں؟ دوئم یہ کہ قرآن اور سنت میں کہیں پر بھی انسان کو آزاد نہیں کہا گیا اور نہ ہی آزادیوں کو مقدس گردانا گیا۔ بلکہ قرآن بار بار انسان کو’’عباد الرحمن‘‘ اور ’’یا عبادی‘‘ (اے میرے غلام) کے القابات سے پکارتا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اﷲ تعالیٰ بڑے واضح انداز میں ہمیں مطلع کرتا ہے کہ ہماری جان اور مال ہمارا نہیں بلکہ یہ خریدے جاچکے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ( إِنَّ اﷲ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِےْنَ اَنْفُسَہُمْ وَاَمْوَالَہُمْ بِاَنَّ لَہُمُْ الْجَنَّۃَ) (التوبۃ:111) ’’بے شک اﷲ نے خریدلی ہیں مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس کے بدلہ میں کہ ملے گی ان کو جنت‘‘۔ پس جب جان اور مال ہمارا ہے ہی نہیں تو اس کے استعمال و تصرف میں ہم کس طرح آزاد اور خود مختار ہوئے؟ چنانچہ ہمارے پاس سوائے اﷲ کے احکامات کی اتباع کے کوئی چارہ اور اختیار نہیں۔ انسان کے پاس رشد وہدایت کے راستے پر چلنے یا کفر و الحاد کی راہ چننے کا اختیار و قدرت ہونا اس کے آزاد ہونے کی دلیل نہیں بلکہ یہ تو محض اﷲ کی طرف سے اسے دیے گئے انتخاب کا اختیار ہے جسے وہ دنیا میں بغیر کسی جبر و کراہ کے استعمال کرتا ہے اور اسی کی بنیاد پر اسے آخرت میں جنت یا دوزخ کا صلہ ملے گا۔ سوئم یہ کہ اسلام نے کفریہ اصلاحات کے استعمال سے منع فرمایا ہے کیونکہ ان کے استعمال سے نہ صرف کفرکے افکار کی ترویج لازم آتی ہے بلکہ مسلمانوں اور عوام الناس میں کنفیوژن پھیلنے کا اندیشہ بھی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن میں صحابہ کو ’’راعنا‘‘ کی ذو معنی اصطلاح استعمال کرنے سے منع فرمایا جو یہودی رسول اﷲ ﷺ کے لیے استعمال کرتے تھے ۔ گو کہ مسلمانوں کی مراد اس سے ’’ہماری رعیت کرنے والا‘‘ کی تھی لیکن چونکہ اس سے ’’گڈریے‘‘ کے معنی بھی نکلتے تھے جو یہودی اپنی شرارت میں مراد لیتے تھے، لہذا اسلام نے اسے استعمال کرنے سے منع فرما دیا۔ چنانچہ آزادی کی اصطلاح کو ’’اسلامی آزادیاں‘‘ یا ’’اسلام کے تحت آزادیاں‘‘ کے سابقوں اور لاحقوں کے ساتھ استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ یہ کہنا کہ ہم بھی آزادیوں پر ایمان رکھتے ہیں ایک فاش غلطی ہوگی کیونکہ چاہے ہم ان آزادیوں کی کوئی بھی نئی تعریف کر لیں ہمارا ایسا کہنا درحقیقت کفرکے معیاراور کسوٹیوں کو فروغ دینے اور اس کے حق میں رائے عامہ بنانے کے مترادف ہوگا ۔ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ آج ہم اگر دہشت گردی کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے اس کی مذمت میں بیان جاری کریں تو یہ لامحالہ امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کی حمایت میں تصور ہوگا چاہے فائن پرنٹ (fine print) میں ہم دہشت گردی کی کوئی بھی تعریف پیش کرتے رہیں۔ چنانچہ وہ تمام مغربی اصطلاحیں جن کے مخصوص معنی و مطالب ہیں اور وہ اسلام کے احکامات سے متصادم ہیں مثلاً آزادیاں، بنیادی انسانی حقوق، سوشل جسٹس، جمہوریت وغیرہ انہیں مسلمان شرعاً استعمال نہیں کر سکتے۔ چاہے مسلمان ان کو اپنی مرضی و منشاء کے مطابق کسی اور معنوں میں استعمال کر رہے ہوں کیونکہ یہ سب ’’لا تقولو راعنا‘‘ کے حکم کے زمرے میں آئیگا۔ ہاں جہاں تک دیگر اصطلاحوں کا تعلق ہے مثلاً آئین، آئیڈیالوجی وغیرہ انہیں ہم استعمال کرسکتے ہیں کیونکہ انہیں جن معنوں میں مغرب استعمال کرتا ہے ان کا اسلام سے کوئی تناقض نہیں۔ جیسا کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ مغرب کو آزادیوں اور مساوات جیسے اصولوں کی اس لئے اشد ضرورت تھی کیونکہ کلیسا کو خیرباد کہنے کے بعد قانون سازی کے لئے ان کے پاس کوئی ماخذ نہ تھا۔ لیکن ہم مسلمانوں کو ان کھوکھلی آزادیوں کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ ہمارے پاس اﷲ کے دئے ہوئے مآخذ یعنی قرآن و سنت موجود ہیں۔ چنانچہ مغرب کے گلی کوچوں میں توہین آمیز کارٹونوں کے خلاف مسلمانوں کے جلوسوں میں لگایا گیا نعرہ "Freedoms go to Hell" ہی درحقیقت آزادیوں کے بارے میں مسلمانوں کے تصورات اور جذبات کی درست ترجمانی کرتا ہے۔ لہذا مسلمانوں کو توہین رسالت اور ارتداد کے واقعات کو اسلامی ماخذ کی بنیاد پر ہی پرکھنا ہوگااور مغرب کی طرف سے ’’آزادیوں‘‘ کی عینک سے ان واقعات کو دیکھنے سے قطعی طور پر انکار کرنا ہوگا۔ جہاں تک مغرب سے ڈائیلاگ کا تعلق ہے تو اس ضمن میں ہمارے پاس دو آپشن ہیں۔ اولاً یہ کہ مغرب کو دعوت دی جائے کہ وہ اس مسئلے پر بحث کرنے کے لئے قرآن و سنت کو کسوٹی بنا کر اپنی دفاع میں قرآن و سنت سے دلیل لائیں۔ اگر وہ ایسا کرنے سے انکار کریں ،جو کہ وہ یقیناً کریں گے، تو پھر دوسرا رستہ یہ ہے کہ ہم مغرب کو دعوت دیں کہ ہم عقل کو حاکم بنا کر ایک ایسی فکری بنیاد اور کسوٹی کو تلاش کریں جو عقل کے اصولوں پر پوری اترتی ہو اور اسی لئے فریقین کے لئے قابل قبول ہو۔ سیکولرزم اور اس سے پھوٹنے والے آزادیوں اور مساوات کے تصورات چونکہ مغرب کے لئے فکری کسوٹی کی حیثیت رکھتے ہیں چنانچہ یہ ذمہ داری اب مغرب کی ہے کہ وہ پہلے انہیں عقلی دلائل کے ذریعے ثابت کریں۔ دوسری طرف یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اسلامی عقیدے یعنی خالق کے وجود، قرآن کے منجانب خالق ہونے اور رسول اﷲ ﷺ کے اﷲ کے نبی ہونے کو عقلی دلائل کے ذریعے ثابت کریں تاکہ قرآن اور سنت ان دلائل کی روشنی میں فکری بنیاد اور کسوٹی بن کر ابھریں۔ یہاں ہم یہ بھی عرض کرتے چلیں کہ مسلمانوں میں فکری اور مذہبی انحطاط کے بعد یہ فکر پھیل گئی ہے کہ اسلام کے مندرجہ بالا عقائد میں عقل کا استعمال حرام ہے اور ان معاملات میں آنکھیں بند کر کے آباؤ اجداد کی تقلید کرنا فرض ہے۔ اور ہم بھی فقط اس لئے مسلمان ہیں کیونکہ ہم ایک مسلمان کے گھر پیدا ہوئے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام ان بنیادی عقائد میں انسان کو عقل استعمال کرنے اور تدبر اور تفکر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ اس ضمن میں قرآن میں کئی آیات وارد ہوئی ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا:(اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّیْلِ وَالنَّھَارَِ لآیَاتٍ لِا�أُوْلِی الْأَلْبَابِ) (آل عمران:190) ’’بے شک آسمان اورزمین کے پیداکرنے او ردن رات کے ادل بدل کر آنے جانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں ۔‘‘ اور فرمایا: ( أفَلاَ ےَتَدَبَّرُونَ الْقُرْأَنَ وَلَوْکَانَ مِنْ عِنْدِ غَےْرِ اﷲِ لَوَجَدُوْا فِےْہِ اخْتِلَٰفاً کَثِےْراً) (النساء: 82) ’’کیا یہ لوگ (ذرا بھی) غور نہیں کرتے قرآن میں؟ اور اگر کہیں ہوتا یہ غیر اﷲ کی طرف سے تو ضرور پاتے یہ اس میں، بہت زیادہ اختلاف‘‘۔ ( لَوْ کَانَ فِےْہِمَآ ءَ ا لِہَۃٌ إِلاَّ اﷲُ لَفَسَدَتَا فَسُبْحَٰنَ اﷲِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا ےَصِفُوْنَ) (الا نبیاء: 22) ’’اگر ہوتے زمین و آسمان میں کچھ خدا ﷲ کے سوا، تو فساد برپا ہو جاتا ان میں سو پاک ہے اﷲ جو مالک ہے عرش کا ان باتوں سے جو یہ بناتے ہیں‘‘۔ یہ اور ان جیسی دیگر آیات مسلمانوں کو بنیادی عقائد میں عقل استعمال کرنے کا حکم دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر کئی آیات عقائد میں آباؤ اجدات کی اندھی تقلید کی مذمت بھی کرتی ہیں۔ قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَإِذَا قِےْلَ لَہُمُ اتَّبِعُوْا مَآ أَنْزَلَ اﷲُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَآ أَلْفَےْنَا عَلَےْہِ اٰبَآءَ نَا اَوَلَوْ کَانَ اٰبَآؤُہُمْ لَا ےَعْقِلُوْنَ شَےْئاً وَّ لَا ےَہْتَدُوْنَ) (البقرۃ: 170) ’’اس سے جب کہا جاتا ہے کہ اﷲ نے جو احکام نازل کیے ہیں ان کی پیروی کرو توجواب دیتے ہیں کہ ہم تو اسی طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے‘‘۔ ( وَإِذَا قِےْلَ لَہُمُ تَعَالَوْا إِلٰی مَآ أَنْزَلَ اﷲُ وَ إِلَی الرَّسُوْلِ قَالُوْا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَےْہِ اٰبَآءَ نَا اَوَلَوْ کَانَ اٰبَآؤُہُمْ لَاےَعْلَمُوْنَ شَےْئاً وَّلَا ےَہْتَدُوْنَ) (المآئدۃ:104) ’’اور جب کہا جاتا ہے ان سے کہ آؤ اس کی طرف جو نازل کیا ہے اﷲ نے اور رسول کی طرف تو وہ کہتے ہیں کہ کافی ہے ہم کو وہ کہ پایا ہے ہم نے جس پر اپنے آباؤاجداد کو، بھلا (پھر بھی ) اگرچہ ان کے آباؤاجداد نہ رکھتے ہوں علم ذرا بھی اور نہ ہدایت یافتہ ہوں؟‘‘۔
دوسری طرف جب ہم سیکولرزم کی سوچ کو عقل کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ عقیدہ عقلی دلائل پر نہیں بلکہ ایک سمجھوتے پر مبنی ہے۔ بجائے اس حقیقت کو عقل سے ثابت کیا جاتا کہ آیا اس کائنات اور انسان کا کوئی خالق ہے یا نہیں، سیکولرزم کا عقیدہ ’’مٹی پاؤ‘‘ کے اصول کے تحت ہمیں اس بحث سے صرف نظر کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ چنانچہ وہ عقیدہ جو مسئلے کو حل کرنے کے بجائے مسئلے کو دبا دے قطعی طور پر غلط ہوتا ہے۔ عقل استعمال کرنے کے بعد خالق کے وجود کے بارے میں لوگوں کو ’’ہاں‘‘ یا ’’نہ‘‘ کے قطعی نتیجے تک پہنچنا چاہیے ۔ لیکن ’’پتہ نہیں‘‘ کا جواب کسی بھی صورت درست نہیں ہو سکتا۔ سیکولرزم کا عقیدہ خالق کے وجود پر کوئی رائے دئیے بغیر انسان کو اس اہم ترین ہستی کو نظر انداز کرنے کا حکم صادر فرماتا ہے۔ ان کی یہ رائے ہے کہ خالق کے وجود پر بحث کئے بغیر ہمیں اس کا تعلق اپنی اجتماعی زندگی سے کاٹ دینا چاہئے۔ نیز جو لوگ بھی خالق کے وجود پر ایمان رکھنا چاہیں وہ اس کے احکامات کی اپنی ذاتی زندگی اور عبادات کی حد تک تو اتباع کر سکتے ہیں لیکن اجتماعی معاملات اور دیگر انسانوں کے ساتھ اپنے تعلقات میں اس خالق کا کوئی عمل دخل قبول نہیں کیا جائیگا۔ چنانچہ انسانی تعلقات کو خالق کی بجائے چند انسانوں کی مرضی کے مطابق چلانے کا تصور سیکولرزم کی پیداوارہے۔ یہ ہے وہ سیکولرزم کا عقیدہ جو انسان کو خالق کی غلامی کی بجائے ’’آزادیوں ‘‘کے نام پر انسان کی غلامی میں دھکیل دیتاہے۔ چنانچہ اکثریتی نمائندے سیکولرزم کے عقیدے کی بنیاد پر پورا کا پورا نظام کھڑا کرتے ہیں جسے سرمایہ دارانہ نظام کہتے ہیں۔ نیز اس نظام میں غلط اور صحیح کا تعین قوت دلیل پر نہیں بلکہ لوگوں کی اکثریت کی خواہش اور منشاء پر ہوتا ہے۔ یوں معاشرے کا وہ مقتدر طبقہ جو لوگوں کے ’’نمائندہ‘‘ بننے کے لئے کروڑوں روپے الیکشن میں ’’انوسٹ‘‘ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے عوام کے سیاہ و سپید کا مالک بن جاتا ہے۔ نیز یہ طبقہ چند ہی سالوں میں قانون سازی کے ذریعے اپنی ’’انوسٹمنٹ‘‘ عوام کا خون چوس کر منافع سمیت وصول بھی کرلیتا ہے۔ چنانچہ سیکولرزم کے افکار کا قطعی طور پر غلط ہونا عقل سے ثابت ہے۔ لہذا سیکولزم سے پھوٹنے والی یہ ’’آزادیاں‘‘ بھی خود بخود عقل کے معیار سے گر جاتی ہیں اور اسی لئے انہیں دیگر افکار کو پرکھنے کے لئے بطور مقیاس اور کسوٹی قبول نہیں کیا جاسکتا۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ کارٹونوں اور ارتداد کے واقعات کو اسلام کی عینک سے دیکھیں اور آزادیوں اور مساوات کے مغربی اور کفریہ افکار کو مقیاس اور کسوٹی بنانے سے انکار کر دیں۔ نیز مغرب کے ساتھ ان فروعی مسائل پر بحث کرنے کی بجائے ان سے ان کے عقیدے اور فکری کسوٹیوں پر عقلی مکالمہ کریں تاکہ وہ اپنے سوچنے کی بنیاد کو درست کر سکیں۔ جس کے بعد دیگر تمام تصورات کو بدلنا زیادہ مشکل نہ رہیگا۔
نویدبٹ -پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں