نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

خلافت اور بر صغیرِ ہند

ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ برصغیر خلافت سے آ زاد ایک خطہ رہا ہے اور اس کا معاملہ ہمیشہ خودمختاری کا رہا ہے۔ امتِ مسلمہ کا نصف حصہ آج برصغیر میں قیام کرتا ہے۔ہندوستان ،پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمانوں کی آبادی کو جوڑ کر دیکھیں تو یہ بات آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے۔آج امتِ مسلمہ کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان اردو ہو گئی ہے جو عربی سے بھی آگے بڑھ گئی ہے۔
ہندوستان میں خلافت کی تاریخ:
۷۱۱ ء ؁ کا واقعہ ہے کہ ساحلِ سندھ کے پاس کچھ مسلمان تاجر بحرِ ہند میں سفر کر رہے تھے کہ ان کو لوٹ لیا گیا اور وہ قید بھی کر لئے گئے۔ جب یہ خبر اسلامی دارِ الخلافہ میں خلیفہ ولید بن عبدالملکؔ کے پاس پہنچی تو خلیفہ نے والئ بغدادؔ حجاج بن یوسفؔ کو پیغام بھیجا کہ وہ سندھ کے راجہ سے کہیں وہ اس گستاخی پر معافی مانگے اور مسلمانوں کو رہا کردے۔ اس کے بعد سندھ کیلئے ایک فوج روانہ کی گئی جس کا سپہ سالار وہ بہادر نوجوان تھا جس کی عظمت خاص کر ہندوستان کے مسلمانوں میں آج تک قائم ہے۔ اس دیارِ غیر میں اسلامی خلافت کو پہنچانے کی ذمہ داری جس نوجوان کے کندھوں ر ڈالی گئی اُس کا نام محمد بن قاسم الثقفی تھا،اسی نے سندھ کے راستے سے بلادِ ہند کی فتح کاآغاز کیا۔
جب ریاستِ خلافتِ اسلامی کی فوج ڈبالؔ یعنی موجودہ کراچیؔ کے قریب پہنچی تو راجہ سامنے محمد بن قاسم ؔ نے مطالبہ رکھا کہ مسلمان قیدیوں کو آزاد کر دیا جائے جسے راجہ نے مسترد کر دیا۔ اس انکار پر ناگزیر ہوگیا کہ جنگ کی جائے،جس کے نتیجے میں سندھ پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا۔
اس ابتدائی کامیابی کے بعد بھی محمد بن قاسم نے فتوحات کے اس سلسلے کو جاری رکھا کیونکہ یہ مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اللہ کے کلمہ کو بلند کریں۔اسلامی جذبہ سے سرشار بڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ ملتانؔ بھی ان کے قبضہ میں آگیا۔تین سال کی مختصر مدّت میں یعنی ۷۱۴ء ؁ تک پورا سندھ اور پنجاب کا کچھ حصہ اسلامی حکومت کے اقتدار کے تحت آگیا تھا۔ہندوستان کے شمال مغربی حصہ کو فتح کرنے کے بعد اسلامی فوج مورتی پوجا کرنے والوں کو شرک کے اندھیروں سے نکال کر اسلام کی روشنی میں لے آئی۔ مجاہدِ اعظم محمد بن قاسم نے اپنے دورِ حکومت میں مسلم اور غیر مسلموں کے درمیان کوئی امتیاز نہیں کیا اورمفتوحہ علاقوں میں غیر مسلموں کو اُن کے سابقہ عہدوں پر برقرار رکھا۔انہوں نے ریاست کے حکام کو ہدایت دی کہ وہ ریاست اور عوام کے درمیان معاملات میں انصاف اور دیانت داری سے کام لیں اور لوگوں پر اُن کی استطاعت کے مطابق ہی ٹیکس عائد کریں۔
خلیفہ ہشام ابن عبدالملکؔ کے دورِ حکومت میں ۷۲۴ء ؁ اور ۷۴۳ء ؁کے درمیان عباسی خلیفہ ابو جعفر المنصور کے دورِ خلافت میں قندھار کے علاقہ کو فتح کرلیا گیا تھا۔۔ریاست کی سرحدوں کو ہندوستان میں وسعت دینے کے ساتھ ہی انہیں استحکام دینے کی کوشش بھی جاری رہی۔خلیفہ ہارون رشید کے دور میں ۷۶۸ء ؁ و ۸۰۹ء ؁ کے درمیان اسلامی فوج نے اپنی سرحدوں کو گجرات تک بڑھا دیا تھا۔اسی دوران مسلمان فوجی یہاں بس گئے اور نئے نئے شہروں کو آباد کرنا شروع کر دیا اور اسطرح ہندوستانیوں کی بڑی تعداد یہاں کے غیر انسانی سماجی ڈھانچہ کی پستی سے نکل کر ایک آفاقی برادری کا حصہ بنی۔ یہا ں کی آبادی کو جہالت اور کفر کے اندھیروں سے نکال کر اسلام کی روشنی میں لایا گیا۔ان کو اپنے ہی جیسے انسانوں کی غلامی سے نکال کر خالقِ کائنات،مالکِ حقیقی اللہل کی بندگی میں لایا گیا۔اس برِّ صغیرِ ہند میں جو اب ہندوستان،پاکستان اور بنگلہ دیش کے نام سے جانا جاتا ہے ایک ہزار سال سے زیادہ اسلامی حکومت قائم رہی۔
جس طرح دشمنانِ اسلام اور کفار ہندوستان کی تاریخ کو پیش کرتے ہیں اس پر ہمیں بھروسہ نہ کرتے ہوئے یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ یہ علاقہ ریاستِ خلافت ہی کا ایک حصہ رہا ہے۔ کچھ خلفاء کی لاپرواہی کی وجہ سے تھوڑی مدت کیلئے یہ علاقہ خلافت کے کنٹرول سے باہر آگیا تھا،تاہم جو بھی حکمراں رہے،احکامِ شرعیہ کا نفاذ یہاں جاری رہا۔ اور یہ دار الاسلام ہی کا حصہ بنا رہا جب تک اسے انگریزوں نے اپنی کالونی نہ بنا لیا۔
مستند ترین مسلم تاریخ داں جیسے علامہ ابن کثیرؔ (وفات ۷۷۴ھ ؁) اپنی مشہور کتاب’ البدایہ والنہایہ‘ میں ہندوستان کا ذکر دارالاسلام کے ایک حصہ ہی کی حیثیت سے کرتے ہیں۔ انہوں نے ہندوستان کو فتح کئے جانے کے تعلق سے کچھ حدیثیں بھی نقل کی ہیں مثلاً مسند احمد کی حدیث ہے کہ حضرت ابو ہریرہ ص روایت کرتے ہیں کہ’’ میرے حقیقی دوست رسول اللہ ا نے فرمایا:’’امت کی افواج سندھ اور ہندوستان کی طرف روانہ کی جائیں گی‘‘ پھر حضرت ابو ہریرہ صفرماتے ہیں’’ میں اگر اس جنگ میں شریک ہو سکا اور شہید ہوگیا تو یہ میرے لئے عظیم سعادت ہوگی اور اگر میں زندہ بچ کر آگیا تو میں آزاد ہوؤں گا یعنی اللہ ل مجھے دوزخ کے عذاب سے نجات دے گا‘‘۔یہ بات کہ ہندوستان ریاستِ خلافت کا ہی حصہ رہا ہے،ایک ہندو مصنف سی ایس شرما نے اپنی کتاب(Religious Ideological and Political Paraxis) میں تسلیم کی ہے،وہ لکھتا ہے’’ دہلی سلطنت (1206 to 1526 CE) اپنے پورے قیام کی مدت میں مسلم سلطنت ہی کا حصہ رہی جو کہ عباسی خلفاء کے زیرِ اقتدار تھی۔ سلطان اپنے آپ کو خلیفہ کا نائب سمجھتے تھے اور اِن کی حکومت کا قانونی جواز خلیفہ ہی کے تفویض کردہ اختیارات سے حاصل ہوتا تھا۔ کیونکہ قانونی طور پر امت پر اقتدار خلیفہ ہی کو حاصل ہوتا ہے۔ ہر بادشاہ یا حکمراں حکومت کرنے کا اختیار امام المسلمین ساے ہی حاصل کرتا ہے‘‘۔(ملاحظہ ہو صفحہ ۲۴۷)۔
’’محمد شاہ بہمانی سوم((1463-1482 CE عثمانی خلیفہ سلطان محمد دوم کو یہاں سے خراج پہنچاتا تھا جو کہ اس کا حق ہے۔سلطان بیجاپور کا شاہی نشان بھی وہی تھا جو عثمانی سلطنت کا تھا۔ ملک ایاز جو کہ گجرات کے نامی حکمراں رہے ہیں،انہوں نے بھی سلطان سلیم اول کو خلیفہ کی حیثیت سے ہی خطاب کیا ہے۔جس ادب و احترام سے مغل سلطان عثمانی خلیفہ سے پیش آتے تھے اس کی شہادت اسی خط و کتابت سے ملتی ہے جو دہلی اور استنبول کے درمیان ہوئی۔سلطان سلیمان کو لکھے گئے ایک خط میں ہمایوں نے’’عظیم صفات کے حامل خلیفہ‘‘ کہہ کر خطاب کیا ہے اور خلافت کے ہمیشہ قائم رہنے کی دعا کی ہے۔ اس نے اپنے خط میں قرآن مجید کی اس آیت کا حوالہ دیا ہے کہ خلیفہ زمین پر اللہ کا نائب ہوتا ہے۔سلطان ابراہیم نے ایک خط شاہ جہاں کو لکھا جس میں خود کو دنیا کے تمام بادشاہوں کیلئے اللہ کا سایہ یعنی ظل اللہ بتایا جسے دنیا کی خلافت عطا کی گئی۔
۱۶۹۰ء ؁ میں اورنگ زیب کے دربار میں خلیفہ کے سفیر احمد آغا خلیفہ کی طرف سے اورنگ زیب کیلئے پیغام لائے جس میں قرانی آیات کا حوالہ تھا اور عثمانی سلطان کو خلیفۂ اسلام کہہ کر تعبیر کیا گیا تھا۔۱۷۲۳ء ؁ میں محمد شاہ(1719-1748 CE )اور عثمانی خلافت کے درمیان خط و کتابت ہوئی جس میں عثمانی خلیفہ کو عظیم سلاطین کی پناہ گاہ،بادشاہوں کے محافظ،تختِ خلافت کے شایانِ شان احکام شرعیہ کے مبلغ کے القاب سے موسوم کیا گیا۔
زمانۂ قدیم کی کچھ باقیات(Antiquities )سے بھی ہندوستان اور ریاستِ خلافت کے درمیان قائم رشتوں کا ثبوت ملتا ہے۔ مثال کے طور پر سلطان شمس الدین التمشؔ (1211-1236 CE) والئ ہند کے زمانے کے چاندی کے سکّے ہیں جن کے ایک طرف خلیفہ المستنصرؔ اور دوسری طرف خود التمشؔ کا نام خلیفہ کے نائب کی حیثیت سے لکھا ہوا ہے۔۱۲۵۱ھ ؁ میں سقوطِ بغدادؔ کے بعد بھی جب خلیفہ المصتعصم کی وفات ہو چکی تھی،تب بھی ہندوستان میں خلیفہ ہی کے نام کے سکّے چلتے تھے۔
ہندوستان میں اسلامی حکومت کے دور میں عالمِ اسلام کے بڑے بڑے علماء پیدا ہوئے۔ مثلاً حضرت شیخ احمد سرہندیؒ جن کی وفات1624CE میں دہلی میں ہوئی،یہ فقہہ اسلامی کے بہت بڑے عالم تھے جو مجدّد الفِ ثانی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔انہوں نے عثمانی خلفاء کو 536 خطوط لکھے جن کا مجموعہ ’’مکتوبات‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ (1703-1762 CE) جن کا شمار ہندوستان کے معزز ترین علماء میں ہوتا ہے اور جنوبی ایشیا اور اس کے باہر بھی تمام ہی مکاتب فکر کے لوگوں میں ان کا اسلامی علمی مرتبہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ عظیم اور ہمہ گیر مصنف تھے اور انہوں نے متعد اسلامی موضوعات پر کتابیں بھی لکھی ہیں۔ ان کا شمار قرآن کا اردو میں ترجمہ کرنے والے ابتدائی لوگوں میں ہوتا ہے۔ اس زمانے کے لوگوں نے اُن کی اس کاوش کی زبردست مخالفت کی تھی جن کا یہ کہنا تھا کہ قرآن کو اس کی اصل حالت ہی میں رہنا چاہئے۔کچھ عرصہ بعد ہندوستان کے علماء نے ان کی کوششوں کو تسلیم کیا اور پھر سراہا بھی۔ ان کی لکھی ہوئی مشہور کتابوں میں ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ اور ’’ تفہیمات الٰہیہ‘‘ شامل ہیں۔حضرت شاہ ولی اللہؒ نے خلافت کے تعلق سے اپنی کتا ب’’ ازالۃ الخفاء‘‘ میں اپنے خیالات کا اس طرح اظہار کیا ہے۔’’خلافت لوگوں کی متحدہ قیادت کا نام ہے جس کا وجود ہی دین کو قائم رکھنے کیلئے ہوتا ہے جس میں مختلف دینی علوم کا احیاء اسلامی عبادات پر عمل درآمد کی نگرانی،جہاد کا نظم،فوج کی تیاری،اسلحہ کی تیاری،عدالتی نظام کا قیام،شریعت کا نفاذ ،جرائم کی رو ک تھام وغیرہ شامل ہیں۔یہ تمام کام اسی کے ذریعہ انجام پاتے ہیں کیونکہ خلیفہ رسول ا کا نمائندہ اور نائب ہوتا ہے۔
اسلام میں ولایت عامہ کی اجازت:
برِّ صغیر کے حکمرانوں کو خلیفہ کی طرف سے ولایت عامہ دی گئی تھی جس کو آج کی اصطلاح میں General Governorship سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ صوبوں یا ولایتوں میں والی مقرر کرنے اور انہیں معزول کرنے کے تعلق سے خلفاء سے کوتاہی ہوئی ہے۔ یہ قاعدہ عام ہو گیا تھا کہ مختلف صوبوں میں جو بھی اپنے دم پر اقتدار میں آجاتا تھا اُسے تسلیم کر لیا جاتا تھا،تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ خلیفہ کی جانب سے ان کو والی تسلیم کئے جانے کی وجہ سے ہی ان کی حیثیت قانونی ہوتی ہے۔
اسلام میں دو طرح کی ولایتیں ہوتی ہیں،اس سلسلے میں شیخ تقی الدین النبہانی اور شیخ عبدالقدیم زلوم کی کتاب ’’اسلام کا نظامِ حکومت‘‘ میں سے اقتباسات پیش کئے جارہے ہیں جن سے دونوں طرح کی ولایات کی شرعی حیثیت واضح ہوجاتی ہے۔
’’ ولایات کی دو اقسام ہوتی ہیں:ولایتِ عام اور ولایتِ خاص۔ولایتِ عام میں کسی ولایت یا صوبہ کی حکومت سے متعلق تمام امور شامل ہوتے ہیں،اس کا تقرر(Appointment) اس طرح ہوتا ہے کہ خلیفہ کسی کو پورے صوبہ،اس کے تمام افراد اور ان کے تمام امور پر نگرانی کیلئے مقرر کرے۔لہٰذا والئ عام کی نگہداشت(Supervision)وہاں کے تمام امور پر ہوتی ہے۔جبکہ ولایتِ خاص میں والی کے کام تقسیم ہوجاتے ہیں۔لہٰذا والئ خاص اس علاقہ میں مثلاًفوجوں کے انتظام،عوام کی دیکھ بھال،علاقہ کی حفاظت،عورتوں کی حفاظت میں سے کسی پر محدود ہوتا ہے۔ والئ خاص وہاں کی قضاء یا خراج و صدقات کے امور میں مداخلت نہیں کرتا۔حضوراکرم ا نے عام اور خاص دونوں قسم کے والی مقرر فرمائے تھے۔مثلاً عمرو بن الحزم صکویمن کا والئ عام مقرر فرمایا تھا، اور حضرت علی ابن ابی طالب ص کو یمن میں ایک خاص معاملہ یعنی قضاء کا والی مقرر فرمایا تھا۔آپ اکے بعد خلفاء بھی اِسی طرز پر قائم رہے اور اِن دونوں اقسام کے والی مقرر کئے؛مثلاً حضرت عمر صنے معاویہ ابن سفیان کو والئ عام مقرر کیا، اور حضرت علی صنے اپنے دورِ خلافت میں حضرت عبداللہ ابن عباس صکو بصرہ کا والئ خاص مقرر کیا جس میں مالی امور شامل نہیں تھے، پھر حضرت زیادص کو وہاں کے مالی امور پر والئ خاص مقرر کیا۔
قرونِ اولیٰ میں ولایت کی دو قسمیں رہی ہیں؛ ولایت الصلوٰۃ اور ولایت الخراج۔ چنانچہ تاریخ کی کتابوں میں والیوں کی اِن دونوں طرح سے تعبیر کی گئی ہے،پہلی امارت علی الصلوٰۃ اور دوسری امارت علی الصلوٰۃ والخراج؛یعنی والی یا تو صلوٰۃ و خراج کا والی ہوگا یاصرف صلوٰۃ کا۔ یہاں والئ صلوٰۃ سے مراد یہ نہیں ہے کہ وہ صرف لوگوں کی نماز میں امامت کریوالئ صلوٰۃ وہ ہوتا ہے جو سوائے مالیاتی امور یا محصول کی وصولی کے ہر چیز پر والی ہو۔اس پہلو سے صلوٰۃ سے یہاں مراد حکومت کے ہر معاملہ سے ہیسوائے اموال یا محصول کی وصولی کے۔لہٰذا جب اِن دونوں کو جمع کردیا جائے تو وہ شخص والئ صلوٰۃ و خراج یعنی والئ عام ہوتا ہے؛ اور وہ اگر صرف صلوٰۃ یا صرف خراج کا ہو تو وہ والئ خاص ہوتا ہے۔بہرحال یہ انتظامی امور ہیں جو خلیفہ کی صوابدید پر منحصر ہوتے ہیں کہ وہ کسی کو والئ خاص مقرر کرے یا کسی کو صرف امور قضاء تک محدود کرے یا کسی کوامورِ مالیات،قضاء یا عسکری معاملات کے سوا دیگر معاملات تک، جیسا کہ خلیفہ ریاست یا ولایت کے انتظامی معاملات کی مصلحت سمجھے مقرر کرے۔اس کا سبب یہ ہے کہ شریعت نے والی کیلئے نہ تو کام متعین کئے ہیں اور نہ ہی پابندی رکھی ہے کہ وہ تمام امور پر ہی مقرر کیا جائے، محض یہ طے ہے کہ اس کا کام حکومت کرنا ہے اور وہ خلیفہ کا نائب ہے اور یہ تحدید کی ہے کہ وہ کسی علاقۂ خاص پر مقرر کیا جائے۔یہی حضور اکرم اکا عمل تھا۔البتہ شریعت نے خلیفہ کو یہ اختیار دیا ہے کہ کسی کو والئ عام یا والئ خاص، جیسی اس کی مصلحت ہو، مقرر کرے اور یہی حضور اکرم ا سے ثابت ہے۔لہٰذا سیرت ابن ہشام میں وارد ہے کہ حضور انے فروۃ بن مسیک کو قبائلِ مراد، زبید مذحج پر مقرر فرمایا تھا۔ اسی کتاب میں یہ ہے کہ آپ انے زیاد ابن لبید انصاری صکو حضرموت کے صدقات پر اور حضرت علی صکو یمن کا قاضی مقرر فرمایا تھا۔ استیعاب کی روایت ہے کہ آپ ا نے حضرت معاذ ابن جبل صکو الجندؔ پر مقرر کیا تھا تاکہ وہ وہاں لوگوں کو قرآن اور اسلام کے احکام سکھائیں اور ساتھ ہی اِنہیں یمن کے علاقہ میں جو عمال مقرر کئے گئے تھے اُن سے صدقات وصول کرنے کی اجازت دی تھی۔سیرت ابن ہشام میں ہی روایت ہے کہ آپ نے غزوۂ احدؔ جاتے وقت ابن مکتوم کو مدینہ میں صلوٰۃ کا والی مقرر فرمایا تھا۔
انگریزوں کا ہندوستان پر حملہ اور مسلمانوں کا ردِّ عمل:
شیطانی استعمار کی لگاتار سازشوں اور امتِ مسلمہ کے فکری انحطاط کے نتیجہ میں کافروں کو برِّ صغیر ہند پر غلبہ کی خواہش پوری کرنے کا موقع مل گیا۔ ۱۶۰۰ء ؁ میں برطانیہ نے یہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کو قاپم کیا۔ یہ اس تکلیف دہ دور کی شروعات تھی ،برطانیہ اور دوسرے یوروپی استعمار نے امت کے ممالک کو لوٹنا اوراس کے وسائل کو چوسنا شروع کیا۔ انہوں نے یہاں کے مسلمانوں اورغیر مسلموں کے درمیان نفرت کے بیج بی بوئے۔
برطانیہنے برِّ صغیر پر ۱۸۱۹ء ؁ میں حملہ کیا،اور انگریزوں کو مسلمانوں کی طرف سے زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ حملہ آور برطانیہ اور یہاں کی اسلامی حکومت کے درمیان جنگ کا سلسلہ جاری رہا جس میں کبھی ایک فریق کو شکست ہوتی تو کبھی دوسرے کو۔اس جنگ میں یہاں کی کفر طاقتوں یعنی ہندؤں اور بدھوں وغیرہ نے انگریزوں کی مدد کی۔ مسلمانوں سے مسلسل ۲۷ سال تک سخت جنگ کرنے کے بعد ہی وہ یہاں ۱۸۴۶ء ؁ میں مکمل قبضہ کرنے میں کامیاب ہو پائے۔
اس دوران ہندوستان کے مختلف علاقوں میں مغل ولایت کی اقتدار پر پکڑ ڈھیلی ہوتی گئی۔ ہندوستان کے کچھ حصوں کے حکمرانوں نے ترکی کی خلافت سے مدد مانگنے اور اس کے ذریعہ تسلیم کئے جانے کیلئے کوششیں شروع کر دی تھیں۔مثلاً کَنُّور کی ملکہ نے سلطان عبدالحمید اول کے پاس ۱۷۷۹ ؁ء میں ایک سفیر کے ذریعہ پیغام بھیجا جس میں اس نے خلیفہ سے درخواست کی تھی کہ وہ اس کی مدد کریں۔ٹیپو سلطان نے کوشش کرکے اپنے آپ کو میسورؔ کے حکمراں کی حیثیت سے تسلیم کرایا تھا۔ ہندوستان میں برطانیہ کے ذریعہ اسلامی حکومت ختم ہونے کے بعد بھی یہاں کے مسلمان خلافتِ عثمانیہ کے ہی وفادار رہے۔ کچھ لوگوں نے جہاد کا سلسلہ جاری رکھا جیسے مشہور عالمِ دین سید احمد شہیدؒ ۔دوسرے علماء اور خاص طور سے یاغستان والوں نے استعمار کے خلاف جہاد کا سلسلہ جاری رکھا۔ یاغستانؔ پختون قبائلی پٹّی کو کہا جاتا ہے جو شمالی افغانستان میں واقع ہے جس میں ہیرات،قندھار، زابل،غزنی اور کابل شامل ہیں۔
جب ترکی اور یونان کی جنگ میں خلافتِ عثمانی کو فتح حاصل ہوئی تو اس پر ہندوستانی مسلمان بہت خوش ہوئے اور اس موقع پر اُنہوں نے لکھنؤ میں مولانا عبدالباری کی قیادت میں ایک شاندار جلسہ کا اہتمام کیا جس میں خلیفہ سے یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔تاہم جب خلیفہ کو طرابلس اور بلقان کی جنگوں میں مغربی طاقتوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا خلافت کے کمزور پڑنے پر یہاں کے مسلمان سخت رنجیدہ ہوئے۔
مولانا محمد علی جوہر جو تحریکِ خلافت کے عظیم رہنما تھے، اور جو انگریزوں کے سخت مخالف کی حیثیت سے مشہور تھے، انگلینڈ کے لنکنؔ کالج سے اپنی تعلیم مکمل کرکے یہاں آئے ہی تھے کہ ۱۹۱۴ ؁ء میں London Times میں چھپے ایک مضمون کے جواب میں لگاتار ۳۶ گھنٹے بیٹھ کر اپنے اخبار میں ’’Choice of Turks‘‘کے نام سے ایک ادارایہ لکھا۔ جب ۱۹۱۲ ؁ء میں جنگ بلقانؔ شروع ہوئی ت، توترکی کے زخمیوں کیلئے ایک میڈیکل ٹیم بھیجی۔
ہندوستان کی مشہور دینی درسگاہ، دار العلوم دیوبند کے مہتمم شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ نے انتھک محنت کرکے بلقانؔ اور طرابلس ؔ کی جنگوں کے متاثرین کیلئے رقم جمع کرکے خلیفہ کو بھجوائی۔ مولانا حسین احمد مدنی نے ان کے بارے میں لکھا تھا:’’بلقان ؔ اور طرابلسؔ کی خونی جنگوں نیشیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ کے دل و دماغ پر گہرا نقش چھوڑ ا تھا، اسی سے اُنہیں اُن کے مورث حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ کے نقشِ قدم پرچلنے کا حوصلہ ملا جو دار العلوم دیوبند کے بانیوں میں سے تھے اور جنہوں نے روس اور ترکی کے درمیان جنگ میں خلیفہ کا ساتھ دیا تھا۔شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ نے اپنے آپ کو اسلام کیلئے وقف کردیا تھا اور سلطنتِ عثمانیہ کی ہر طرح سے مدد کی تھی‘‘۔اُنہوں نے دار العلوم کو بند کرنے کا فتویٰ دیا تھا۔انہوں نے سلطنتِ عثمانیہ کیلئے چندہ جمع کیا، طلباء کا ایک وفد ترکی بھیجا اور ایک وفد خود اپنی قیادت میں ترکی لے کر گئے۔تاہم وہ جتنی بھی ترکی کی مدد کرپائے تھے، اُس سے وہ مطمئین نہیں تھے۔اس کا خاص سبب جنگ بلقانؔ کا نتیجہ تھا جس سے بہت سے مسلم دانشور مایوس ہوگئے تھے جن میں مولانا محترمؒ بھی شامل تھے۔وہ جانتے تھے کہ یوروپ کے گورے اسلام کی شمع بجھانے کیلئے ناپاک سازشیں کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ برطانوی حکمران جیسے Squib کے ظلم و ستم،روس کے ذریعہ مسلمانوں پر کی گئی زیادتیاں اور ترکی کی تقسیم نے اِن کے اس یقین کو تقویت پہنچائی گوروں کوGoldstone کے خوابوں کی تعبیر پوری کرنے کا وقت آگیا ہے‘‘۔(نقشِ حیات،جلد دوم صفحہ ۱۴۰)
جنگ عظیم اول کے دوران ہندوستان کی مسجدوں میں اللہ کی کبرائی خطبوں میں بیان کی جاتی تھی اور نمازوں میں مسلمانوں کی فتح اور کافروں کی شکست کیلئے دعائیں مانگی جاتی تھیں۔جب ایک اور عظیم شخصیت ،یعنی مولانا شوکت علی سے پوچھا گیا کہ وہ ترکی کے سلطان کے نام کا خطبہ کیوں پڑھتے ہیں،تو اُنہوں نے جواب دیا:’’تم مجھے موردِ الزام نہیں ٹھہرا سکتے کیونکہ مسلمانوں کا خلیفہ اتفاق سے ترکی کا سلطان بھی ہے‘‘۔(The Khilafat Movement: by Gail Mennaut Oxford University Press 1982 Page 55)
خلیفہ نے بھی مسلمانوں کی اِن کوششوں کو سراہا اور چاہا کہ وہ ان کی مدد کریں اور برطانیہ کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں۔ خلافت کا عربی اخبار (الجاویات) جو کہ اسطنبول سے شائع ہوتا تھا، اس کے مدیر نے ہندوستان کے دارالعلوم دیوبند کے طلباء کیلئے خاص نمبر شائع کیا تھا،جبکہ استنبول دیوبند سے آٹھ ہزار میل دور تھا۔(سوانح قاسمی:جلد۲:صفحہ ۳۲۹)۔
شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ نے خلافت کے کھل کر حمایت کی اور اس کو بچانے کیلئے سخت جد وجہد بھی کی۔اس کیلئے اُنہوں نے حجاز تک کا سفر کیا اور مکہ کے والی اور خلیفہ کے معاونین سے ملاقاتیں کیں۔والئ مکہ نے شیخ ؒ کوایک تحریر دی جس میں کہا گیا تھا کہ ہندوستان کیمسلمان برطانوی ظالموں کے خلاف اُن کی مدد کریں۔اس تحریر میں والئ مکہ کی جانب سے مسلمانانِ ہند سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ برطانیہ کے خلاف اس جنگ میں خلافت کا ساتھ دیں۔اس اپیل میں شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ کی تعریف کی گئی تھی کہ اُنہوں نے اور مسلمانانِ ہند نے برطانوی سامراج کے خلاف خلیفہ کی مدد کی تھی۔۔اُنہوں نے خلیفہ کی طرف سے ہندوستان کے مسلمانوں کو برطانیہ کے خلاف مادّی مدد بھی دینے کا یقین دلایا تھا۔ والئ مکہ کی طرف سے لکھی گئی اس تحریر کو تاریخ میں ’’ غالب نامہ‘‘ کے نام سے شہرت حاصل ہے۔۱۳۳۴ ؁ھ میں فریضۂحج ادا کرنے کے بعد شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ ، خلیفہ کے نمائندوں انور پاشاؔ اور جمال پاشاؔ سے بھی ملے۔انور پاشا نے مسلمانانِ ہند کیلئے ایک خط لکھا جس میں ان کی برطانیہ کے خلاف مسلسل جدوجہد کیلئے تعریفی کلمات کہے گئے تھے۔ اس خط کا مضمون بھی غالب نامہ کی طرح تھا جس میں خلافتِ عثمانی کی طرف سے برطانیہ کے خلاف مسلمانوں کی مدد کا یقین دلایا گیا تھا۔اس خط میں عثمانی خلافت کے ملازموں اور شہریوں پر زور دیا گیا تھا کہ وہ شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ پر پورا اعتماد کریں اور اُن کی تحریک کے ساتھ مکمل تعاون کریں۔اِن خطوط کی کاپیاں برطانوی پابندیوں کے باوجود ہندوتسان بھجوائی گئیں اور بعد میں پورے یاغستان میں تقسیم کی گئیں۔(اسیرانِ مالٹا:مولانا محمد میاں:شائع کردہ جمعیت العلماء الہند)
ہندوستان کے مسلمان شریف حسین کے فریب اور بغاوت سے اچھی طرح واقف تھے جو وہ برطانیہ کے اُکسانے پر کر رہاتھا۔ اُنہوں نے برطانیہ کے ذریعہ حجاز کی خوراک کی رسد روکنے پر سخت احتجاج کیا تھا۔وہ کرنل T.E.Lawrence یعنی Lawrence of Arabia کے تمام پروپگنڈے کے باوجود، جس میں اُس کی عربی میں جذباتی تقریریں اور شریف حسین اور Sir Henry Mac Mahon کے درمیان خفیہ معاہدہ بھی شامل تھا۔ حجاز کا عام شہری ترکوں کے خلاف بغاوت کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں برطانیہ نے بہت ہی وحشیانہ اور غیر انسانی ہتھکنڈے استعمال کئے۔شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی نے اس کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:’’حجاز کیلئے خوراک کی ترسیل بند کر دی گئی۔ خوراک لے کر آخری جہاز صفر ۱۳۳۵ ؁ھ میں حجاز پہنچا تھا۔ کیونکہ اس کے بعد خوراک پہنچنا بالکل بند کر دیا گیا تھا،اس لئے خوراک کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی تھیں اور فاقہ کشی کی نوبت آگئی تھی۔ ہندوستان کے مسلمانوں کے احتجاج کی وجہ سے جمادی الثانی ۱۳۳۴ ؁ھ میں کلکتہ سے کچھ چاول لے کر ایک جہاز وہاں پہنچایا گیا؛اسے بھی عدنؔ کی بندرگاہ پر خالی کرا لیا گیا۔عثمانی سلطنت کے حجاز میں مکمل سیاسی اثرات ختم ہوجانے کے بعد ہی اس جہاز کو جدّہ میں چاول اُتارنے کی اجازت دی گئی۔(اسیرانِ مالٹا)
شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ مہتمم دار العلوم دیوبند کو جیسا کہ ابھی ذکر آیا،حق بات کہنے اور عثمانی خلافت کی مخالفت میں بیان نہ دینے کی پاداش میں برطانیہ نے مالٹا میں اُن کو تین سال اور چار ماہ قید رکھا۔انگریز چاہتے تھے کہ وہ شریف حسین کے حق میں اور عثمانی خلافت کی مخالفت میں فتویٰ جاری کریں۔ ۲۳ صفر ۱۳۳۵ ؁ھ میں غدّار شریف حسین نے شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ کو حجاز(مکہ)میں گرفتار کرلیا۔ان کو اور دوسرے علماء کو قاہرہ ہوتے ہوئے۲۹ ربیع الثانی ۱۳۳۵ ؁ھ کو مالٹا بھیج دیا گیا۔دوسرے ہندوستانی علماء جن میں مولانا حسین احمد مدنی،مولانا عزیز گل،مولانا حکیم نصرت حسیناور مولانا وحید احمد شامل ہیں،ان کو برطانیہ نے قید کر لیا۔شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ تین سال چار ماہ جیل میں قید رہے۔ وہ رہا ہونے کے بعد ۸ جون ۱۹۲۰ ؁ء کو بمبئی پہنچے۔ ان کی واپسی اور ہندوستان میں خلافت تحریک کی شروعات کی مدت ایک ہی ہے۔(اسیرانِ مالٹا)
۱۳۲۱ ؁ھ میں مجاہدِ اعظم مولانا عبید اللہ سندھی کی قیادت میں نظارۃ المعارف کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا جس کا مقصد مسلم علماء کو اسلامی افکار کی تبلیغ اور اسلام کے خلاف ہو رہے پروپگنڈے کا جواب دینے کیلئے تیار کرنا تھا۔برطانیہ نے اس خطرہ کی سنگینی کو محسوس کیا،یہ اُس رپورٹ کے عنوان(The petition of British Queen Vs Maulana Obaid ullah Sindhi )سے ہی ظاہر ہوجاتا ہے جو برطانوی حکومت کی C.I.D کی طرف سے پیش کی گئی تھی۔اس میں کہا گیا تھا کہ مولانا عبید اللہ سندھی دارالعلوم دیوبند کو Training Camp کی حیثیت سے استعمال نہیں کر سکے تو اُنہوں نے اس مقصد کے حصول کیلئے دہلی میں نظارۃ المعارف نام سے ادارہ قائم کیا۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ، یہ ادارہ قرآن کی صحیح ترجمانی اور اس کی صحیح تعلیم کی غرض سے ہی قائم کیا گیا تھا۔اس میں عربی زبان بھی پڑھائی جاتی تھی۔ ان تعلیمات کے علاوہ جو نظارۃ المعارف میں دی جاتی تھیں،اس کو سازشوں کے اڈے کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا تھا جو کہ ایک غیر قانونی عمل تھا۔(The petition of British Queen Vs Maulana Obaid ullah Sindhi ,Sec 20)برطانوی اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہے تھے کہ نظارۃ المعارف مسلمان انقلابیوں کیلئی ایک مل بیٹھنے کا مرکز بن گیا تھا۔جو لوگ ہندوستان سے برطانوی حکومت کو اُکھاڑ پھینکنا چاہتے تھے اُن میں حکیم اجمل خان ڈاکٹر مختار احمد انصاری، مولانا شوکت علی، مولونا محمد علی جوہرؔ ،مولانا ظفر علی خاں اور مولنٰا ابوالکلام آزادؔ شامل تھے۔
مسلم علماء، مفکرین اور دوسرے تحریک چلانے والوں نے غیر ملکی اشیاء کے بائیکاٹ اور برطانوی حکومت کے ساتھ عدم تعاون کی اپیل کی اور اس سلسلے میں عوامی حمایت حاصل کرنے کیلئے جلسے کئے گئے۔ یہ جلسے مؤتمر الانصار کے پرچم تلے منعقد کئے گئے تھے اور مختلف اخباروں جیسے مولانا آزادؔ کا الہلالؔ اور مولانا محمد علی جوہر ؔ کا کامریڈؔ اس میں پیش پیش رہے۔ مولانا ابوالکلام آزادؔ اور مولانا محمد علی جوہرؔ کو اپنے اخباروں میں برطانیہ کے خلاف مضامین شائع کرنے کے جرم میں قید کیا گیا۔مولانا محمد علی جوہر ۱۹۱۱ ؁ سے ۱۹۱۵ ؁ء تک سال سال قید میں رہے۔
خلافت کیلئے مسلمان دانشوروں کی وابستگی کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر تھی۔مولانا آزادؔ نے اپنے اخبار الہلالؔ میں ۶ نومبر ۱۹۱۲ ؁ء کے شمارے میں اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کیا:’’صرف عثمانی سلطان ہی وہ تلوار رکھتے ہیں جو مسلمانوں کے پاس اپنی حفاظت کیلئے ہے۔ ابھی تک لازمی طور پر خلافت ہی شریعت کی دینی وحدت کا ذریعہ رہی ہے، یہ وحی کے ذریعہ لازمی قرار دی گئی ہے، اس ریاست کی اطاعت کا حکم خدا کی طرف سے ہے اور اس کے احکام کی اطاعت فرض ہے‘‘۔
تحریکِ خلافت:
ستمبر ۱۹۱۹ء ؁ میں مولانا محمد علی جوہرؔ اور اُن کے بھائی مولانا شوکت علی نے مولانا ابوالکلام آزادؔ ، ڈاکٹر مختار احمد انصاری اور مولانا حسرت موہانی کے ساتھ تحریک خلافت کے ساتھ ساتھ ایک نئی تنظیم شروع کی جس کا واضح مقصد یہ تھا کہ جس طرح سے بھی ممکن ہو،خلافت کا تحفظ کیا جائے۔ یہ بات قابلِ عور اور اہمیت کی حامل ہے کہ اس تحریکِ خلافت میں شامل علماء اور دیگر حضرات مختلف مسالک، مکاتبِ فکر اور مختلف پس منظر کے افراد تھے جو کہ خلافت کے تعلق سے متحد اور متفق تھے۔ مثال کے طور پر مولانا ابوالکلام آزادؔ غیر مقلِّد تھے اور مولانا محمود الحسن دیوبندی تھے جو کہ حنفی مسلک سے تعلق رکھتے تھے،لیکن اس معاملہ میں وہ مکمل اتفاق رکھتے تھے کہ خلافت کو بچانے کی کوشش کی جائے۔
۱۹۱۹ء ؁ میں بمبئی خلافت کمیٹی نے تنظیمی طور پر اپنے لئے دو اہداف مقرر کئے؛پہلا یہ کہ خلیفہ کی حیثیت سے ترکی کے سلطان کے اقتدار کو بچانے پر زور دیا جائے اور دوسرے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اسلام کے مقدس مقامات خلیفہ کے ہی کنٹرول میں رہیں۔
۱۹۲۰ء ؁ میں خلافت کانفرنس کے بنگال صوبہ کے اجلاس میں اپنے صدارتی خطبے میں مولانا ابوالکلام آزادؔ نے خلافت کی اہمیت واضح کرتے ہوئے فرمایا:’’اس ادارے کا مقصد مسلمانوں کو صراطِ مستقیم پر چلانے کیلئے منظم کرنا اور دنیا میں اللہ کے کلمہ کو بلند کرنا ہے۔ ان تمام کاموں کیلئے نہایت ضروری ہے کہ خلیفہ کے پاس اقتدار رہے‘‘۔مولانا آزاد کو اس ذرا بھی شک نہیں تھا کہ’’ امام کے بغیر مسلمانوں کی زندگی غیر اسلامی ہے، اس لئے اُنہیں آخرت میں جوابدہ ہونا پڑے گا‘‘۔
مولانا آزادؔ نے مسئلۂ خلافت کے نام سے ۱۹۲۰ ء ؁ میں ایک کتاب شائع کی تھی جس میں وہ ر قم طراز ہیں:’’خلافت کے بغیر اسلام کا وجود ناممکن ہے،مسلمانانِ ہند کو چاہئے کہ وہ اپنی تمام کوششیں اور طاقت اس کام کو کرنے میں لگا دیں‘‘۔
اسی کتاب کے صفحہ ۱۷۶ پر مولانا فرماتے ہیں:’’احکام شرعیہ کی دو قسمیں ہیں؛پہلی کا تعلق ذاتی پر فرد سے ہے جس میں اوامر و نواہی شامل ہیں جیسے فرائض و واجبات کی ادائیگی تاکہ وہ مکمل مسلمان بن سکے۔ دوسرے قسم کے وہ احکام ہیں جن کا تعلق فرد سے نہ ہوکر امت، قوم اجتماعی فرائض اور ریاست و سیاست سے ہے،مثلاً اقتصادی اور سیاسی قوانین اور ملکوں کو فتح کرنا‘‘۔ Peter Hardy کے بقول مولانا آزادؔ کا عقیدہ تھا کہ ’’ جو مسلمان بھی دین اور سیاست کو علیحدہ کرتا ہے، وہ مرتدّ ہے اور اپنے کام میں خاموشی سے لگا ہوا ہے‘‘۔
ہندوستان میں سیاسی قوت کا کھودینا اور اتحادی افواج کی طرف سے خلیفہ کے اقتدار کو خطرہ، امتِ مسلمہ کے رہنماؤں کیلئے اس قدر تشویش کا باعث تھا کہ بعض علماء یہ فتویٰ دینے پر مجبور ہوگئے کہ’’ مسلمانوں کو ہندوستان سے باہر ہجرت کر جانا چاہئے‘‘۔
مولانا شوکت علی نے مرکزی خلافت کمیٹی کی طرف سے یہ بیان جاری کیا کہ ’’ امید کی جاتی ہے کہ تمام وہ مسلمان جنہوں نے اسلام کیلئے اپنے آپ کو وقف کردیا ہے،ہندوستان میں ٹھہر کر عدم تعاون پر عمل کریں گے اور اگر وہ اس میں کامیاب نہ ہوں تو ہجرت کی سوچیں‘‘۔اِن فتوؤوں نے ایک لہر دوڑا دی اور ہزاروں مسلمانوں نے دار الحرب ہندوستان سے ہجرت کرنے کو ترجیح دی جہاں کہ خلافت ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہو۔
مسئلۂ خلافت محض ایک سیاسی مسئلہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک دینی فریضہ تھا جس کی طرف سے کوتاہی عذاب کا مستحق بناتی۔ اور ترکی کا جن علاقوں سے بھی قبضہ ختم ہوتا وہاں اسلام ایک عقیدے کی حیثیت سے خطرے میں پڑ جاتا۔
مولانا شوکت علی نے ۲۷ ستمبر ۱۹۲۳ء ؁ کو کل ہند خلافت کانفرنس کے دسویں اجلاس کے صدارتی خطبے میں اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کیا:’’جب تک جزیرۂ عرب کی ایک انچ زمین بھی غیر مسلموں کے زیرِ اثر ہے، ایک مسلمان کو دماغی سکون حاصل نہیں ہو سکتا‘‘۔(حوالہ شانِ محمد ہندوستانی مسلمان؛ میناکشی پراکاشن جلد ہفتم،صفحہ ۲۰۹)
خلیفہ کی سیاسی قوت، ایک مذہبی فریضہ کو واضح کرتے ہوئے محمد آصف علی نے کامریڈؔ کیایڈیٹر کو ۲ نومبر ۱۹۲۱ء ؁ کو ایک مراسلہ لکھا:’’ترکی کی عزت اور اسلام کا وقار دونوں ایک ہی چیز ہیں،مسلمان نسلوں کیلئے سلطنتِ عثمانی کا وجود نہایت ضروری ہے اس سلطنت کے ختم ہونے سے مسلمانوں کی تہذیبی قوت بھی ختم ہوجائے گی۔ اگر ترکی کا زوال ہوتا ہے تو اسلام بھی قائم نہیں رہ پائے گا۔ اس وجہ سے ترکی اسلام کی ریڑھ کی ہڈی ہے‘‘۔اس نقطۂ نظر کی حمایت مولانا محمد علی جوہر نے بھی کی اور فرمایا کہ یہی عام مسلمانوں کی رائے کی عکاس ہے۔
۲۶ جنوری ۱۹۱۹ء ؁ کو لکھنؤ کے فرنگی محل میں انجمن مؤید الاسلام کا سالانہ جلسہ ہوا جس میں یہ قرارداد پاس کی گئی :’’علماء فرنگی محل کا یہ اجلاس سلطان محمد ششم سے مکمل یکجہتی کا اظہار کرتا ہے اور اس بات کا پُر زور اعلان کرتا ہے کہ اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق سوائے ترکی سلطان کے اور کوئی خلیفۂ حق نہیں ہے، اور اسلام کبھی بھی اس کی اجازت نہیں دیتا کہ خلافت کے مسئلہ کو طے کرتے وقت اس میں غیر مسلم مداخلت کریں۔
کل ہند کانفرنس نے اپنی ایک قرارداد میں کہا کہ:’’مسلمانانِ ہند کی طرف سے امرتسر میں منعقدہ کل ہند خلافت کانفرنس امیر المؤمنین سے اپنی مکمل یکجہتی کا اعلان کرتی ہے، نبی اکے وارث،خادم حرمین شریفین، ترکی کے سلطان کا اقتدار ہمیشہ برقرار رہے، امید ہے کہ سلطان ان جذبات کو قبول فرمائیں گے‘‘۔
بہت سے علماء جیسے مولانا سید سلیمان ندوی نے زور دے کر یہ بات کہی کہ مسلمانوں کیلئے ایک خلیفہ کا ہونا فرض ہے، مولانا ندوی بیان فرماتے ہیں:’’علامہ نسفیؔ ، امام رازیؔ اور قاضی ازودؔ اُن مستند علماء میں سے ہیں جنہوں نے اپنی کتابوں میں اسی موضوع پر تفصیل سے بحث کی ہے، اس موضوع پر اُن کی آراء کو حتمی سمجھنا چاہئے۔ صحیح مسلم میں حضور اکرم ا کی مستند روایت ہے کہ:’’ جو کوئی مسلمان اپنے وقت کے امام سے بیعت کئے بغیر مر گیا،وہ کفر کی حالت میں مرا‘‘۔(مارچ ۱۹۲۰ء ؁ کےOutlook میں شائع ہوا۔)
۱۹۲۰ ء ؁ نے مولانا محمد علی جوہرؔ نے پیرس میں کی گئی اپنی ایک تقریر میں کہا:’’خلافت ساری دنیا کے مسلمانوں کا ایک ناگزیر ادارہ ہے۔ عالمِ اسلام کی عظیم اکثریت سلطان ترکی کواپنے نبی کا خلیفہ اور امیر المؤمنین تسلیم کرتی ہے۔ خلیفہ کیلئے ناگزیر ہے کہ اس کے تصرّف میں کافی علاقہ ہو،وافر برّی اور بحری فوجی وسائل ہوں اور ساتھ میں بھرپور مالی وسائل‘‘۔سید حسین جو مولانا کے ساتھ پیرس میں اسی اسٹیج پر موجود تھے،انہوں نے فرمایا:’’اگر اسلام کا وجود دنیا میں برقرار رکھنا ہے تو یہ ناگزیر ہے کہ مسلمانوں کا ایک خلیفہ ہو۔ یہی اسلام کی روایت اور تاریخ چودہ سو سال سے رہی ہے‘‘۔
۲۴ دسمبر ۱۹۲۳ء ؁ کو گیاؔ میں جمعیۃ العلماء کا ایک اجلاس ہوا جس میں بڑے بڑے علماء اور اساتذہ نے ہندوستان کے ہر علاقہ سے آکر شرکت کی اور مسلمانوں کے سیاسی مستقبل کے بارے میں تفصیل سے بحث کی۔طویل بحث و مباحثہ کے بعد اجلاس متفقہ طور پر اس نتیجے پر پہنچا کہ سیاست و مذہب اسلام کے ناقابلِ تقسیم اجزاء ہیں۔مولانا محمد علی جوہرؔ نے فرمایا:’’ترکی کا حکمران خلیفہ،نبی کا وارث اور امیر المؤمنین تھا اور خلافت ہمارے دین کیلئے اتنی ہی ضروری ہے جتنا قرآن اور رسول کی سنت‘‘۔(Mohd. Ali Johar: My Life, a Fragment: Page 41)
خلافت کے خاتمہ کے اگلے دن ،یعنی ۴ مارچ ۱۹۲۴ء ؁ کو Times نے مولانا محمد علی جوہر کا ایک بیان شائع کیا جس میں آپ نے فرمایا:’’ یہ پیشن گوئی کرنا مشکل ہے کہ خلافت کے خاتمہ کا مسلمانانِ ہند کے دماغوں پر کیا اثر پڑے گا۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ تہذیب اور اسلام دونوں کیلئے یہ تباہ کن ہے۔ اس معزز ادارہ کے خاتمہ سے جو کہ ساری دنیا میں اسلامی اتحاد کی علامت سمجھا جاتا تھا، اسلام ٹکڑوں میں بنٹ جائے گا‘‘۔
۱۵ اور ۱۶ اپریل ۱۹۲۰ء ؁ کو ہندوستان کے علماء کی ایک کانفرنس ہوئی تھی جس میں عام لوگوں نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی تھی،اس کانفرنس کا جو اعلانیہ جاری کیا گیا اس کے کچھ اہم نکات یہ ہیں:
* علماء کو مسئلۂ خلافت پر عام رائے ہموار کرنا چاہئے۔
* منافقین اور وہ علماء جو اس کی مخالفت کریں، اُن کا بائیکاٹ کیا جائے۔
* علماء کو اپنے پیروؤں سے یہ قسم لینا چاہئے کہ وہ خلافت کی حمایت دل و جان سے کریں گے۔
* مسلمان اپنے آپ کو دستوری انتخابات (Elections) سے دور رکھیں۔
۱۹ اور ۲۰ نومبر ۱۹۲۰ ء ؁ کو جمعیۃ العلماء ہند نے اپنی کل ہند کانفرنس میں جو اعلانیہ جاری کیا، اُس کے کچھ خاص نکات یہ ہیں:
* انگریز اسلام کے سب سے بڑے دشمن ہیں، اُن کی مخالفت کرنا فرض ہے۔
* امت اور خلافت کا تحفظ اس وقت کی دینی ضرورت ہے۔ اگر برادرانِ وطن اس مسئلہ پر ہمارے ساتھ تعاون کرتے ہیں تو ہم اُن کے بہت شکر گزار ہوں گے۔
بیسویں صدی کی ابتداء میں مسلم علماء کی بڑی تعداد خلافت کیلئے اُٹھ کھڑی ہوئی تھی،بدقسمتی سے آج وہ اِس بات کو بھول گئے ہیں۔
حضرت شیخ الہندؒ کے فتوے سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ وہ خلافت کو کس نظر سے دیکھتے تھے اور استعمار کے ساتھ تعاون کرنے سے متعلق اُن کا نقطۂ نظر کیا تھا۔ مندرجہ ذیل فتویٰ مولانا سید محمد میاں کی کتاب اسیرانِ مالٹا کے انگریزی ایڈیشن سے لیا گیا ہے جو جمعیۃ العلماء نے مانک پبلیکیشن پرئیویٹ لمیٹیڈ کے اشتراک سے شائع کیا ہے۔
’’دشمنانِ اسلام نے اسلام کو نقصان پہنچانے اور اس کے وقار کو ٹھیس پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔عراق فلسطین اور شام جن کو صحابہ ث اور اُن کے پیروؤں نے بڑی جد وجہد اور قربانیوں کے بعد فتح کیا تھا، دوبارہ کافر ان جگہوں پر للچائی ہوئی نظریں ڈال رہے ہیں، خلافت کا وقار پارہ پارہ ہورہا ہے۔ خلیفۃ المسلمین جو اس زمین پر مسلمانوں کے اتحاد کی علامت تھا ،جو زمین پر اللہ کے خلیفہ کی حیثیت سے اسلام کے آفاقی قوانین کو نافذ کرتا تھا،جو مسلمانوں کے حقوق اور مفاد کی نگرانی کرتا تھا اور زمین پر اللہ کے کلمہ کے تحفظ اور اس کو بلند کرنے کا پابند تھا، آج دشمنوں سے گھر گیا ہے۔۔۔ آج پرچمِ اسلام نیچا ہورہا ہے۔ حضرت ابو عبیدہ،خالد ابن ولید، سعد ابن ابی وقاص اور ابو ایوب انصاری ث کی روحیں آج بے چین ہیں، اس لئے کہ مسلمان اپنی شان،اپنا وقار اور اپنی عزتِ نفس کھو چکے ہیں۔ ان کی جرأت، بہادری اور ان کی دینی حمیت جو ان کا طرۂ امتیاز اور سرمایۂ افتخار تھا، اپنی جہالت اور دنیا طلبی کی وجہ سے کھو دیا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں کہ ایک مسلمان پریشانی کے وقت اپنے مسلمان بھائی کی مدد نہیں کرتا، بلکہ المیہ یہ ہے کہ اسے کافر کے قریب ہونے اور اس سے دوستی کرنے کی اتنی بے چینی رہتی ہے کہ وہ اس کیلئے اپنے ہی بھائی کو مروانے کیلئے تیار ہوجاتا ہے۔مسلمان، مسلمان کا خون پی رہا ہے۔ مسلمانوں کے ہاتھ اپنے ہی مسلمان بھائی کے خون سے بھرے ہوئے ہیں۔
اے فرزندانِ اسلام!اس عظیم امت کے چاہنے والو!آپ لوگ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں کہ عالمِ اسلام کو خاکستر کرنے والا اور اسلامی خلافت کے قلعہ کو ڈھانے والا اور کوئی نہیں وہ اپنے ہی عرب اور ہندوستانی بھائی تھے۔وہ دولت کی طاقت جس سے عیسائی، امتِ مسلمہ کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے، وہ ہماری ہی لوٹی ہوئی دولت تھی۔
اب ایسا کوئی احمق اور موٹی کھال والا مسلمان ہے جو یہ نہ سمجھے کہ عیسائیوں کی مدد کرنے کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟اور یہ بھی اس حالت میں جبکہ ایک ڈوبنے والا شخص جو ایک تنکے کو سہارا سمجھتا ہے اور ایسی مدد کا متلاشی ہوتا ہے کہ کوئی تو اسے ڈوبنے سے بچا لے‘‘۔(۱۶ صفر ۱۳۳۹ ؁ھ مطابق ۲۹ اکتوبر ۱۹۲۰ء ؁ کو دئے گئے مولانا محمد الحسن کے فتوے سے اقتباس:اسیرانِ مالٹا:مولانا محمد میاں:شائع کردہ جمعیۃ العلماء ہند:صفحہ ۷۸ اور۷۹)۔
الفتنؔ میں نعیم ابن حمادؔ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ ص سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور پیشنگوئی کی ہے کہ:’’تم لوگوں میں ایک گروہ ہندوستان کو فتح کرے گا۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کیلئے ہندوستان کا راستہ کھول دے گا، یہاں تک کہ یہ لوگ وہاں کے بادشاہ کو زنجیروں میں جکڑ کر لائیں گے، اللہ تعالیٰ ان کے گناہ معاف کر ے گا اور جب وہ ہندوستان سے واپس ہوں گے تو حضرت ابن مریم علیہ السلام کو شام میں پائیں گے۔
مسندِ احمد اور سنن نسائی کی حدیث ہے جس میں حضرت ثوبان کی روایت نقل کی گئی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:’’میری امت کے دو گروہوں کو اللہ تعالیٰ نے دوزخ کی آگ سے محفوظ کر دیا ہے، ایک وہ گروہ جو ہندوستان کو فتح کرے گا اور دوسرا وہ جوحضرت ابن مریم ں کے ساتھ ہوگا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اُسی طرح خلافت کی تحریک میں کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس طرح اُس نے ہمارے اسلافِ صالحین کو توفیق بخشی تھی۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

کیا قرآن و حدیث میں صیغہ امر (حکمیہ انداز) لازما واجب یا فرض ہوتا ہے ۔ (اصول الفقہ)

مسلمان صرف وحی کی اتباع کرتے ہیں ۔ یہ وحی ہمارے پاس دو شکلوں میں موجود ہے : ایک وحی متلو۔۔۔ یعنی وہ وحی جس کی تلاوت کی جاتی ہے،اس سے مراد قرآن الکریم ہے ۔ اور دوسرے وحی غیر متلو ۔۔۔یعنی وہ وحی جس کی تلاوت نہیں کی جاتی ۔ اس سے مراد حدیث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا اور رسول اللہ ﷺکی زبان بھی عربی ہی تھی۔ اس لیے عربی زبان کا فہم ہونااز حد ضروری ہے تبھی ہم شرعی مآخذ سے احکامات کو ٹھیک ٹھیک اخذ کرسکیں گے ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے سورۃ یوسف کی آیت نمبر 2میں ارشاد فرمایا: (انا انزلنَہٗ قرء ٰ نًا عربیًا لَّعلکم تعقلون ) ’’بے شک ہم نے اس قرآن کو نازل کیا تاکہ تم سمجھو‘‘ تاہم محض عربی زبان کی سمجھ شرعی مآخذ سے احکامات کو اخذ کرنے کے لیے کافی نہیں ۔ عربی زبان کا فہم ہوناشرعی متن یعنی (shariah Text) کو سمجھنے کی مختلف شرائط میں سے ایک شرط ہے۔ کیونکہ یہاں مقصد احکامات کو ایک خاص (قانونی ) متن سے اخذ کرنا ہے۔ جس کے لیے عربی زبان کی سمجھ کے علاوہ مزید امور کی بھی ضرورت ہے جیسے کہ وہ قرآئن جو فرائض اور حرام امور کا تعین کرتے ہیں، عام حکم اور اس کی تخصیص ، مطلق اور مقید ی...

شرعی دلائل کی روشنی میں خلافت اور جمہوریت کا تقابلی جائزہ

                                                                                                نوید بٹ   اسلام کا طالب علم جب قرآن و سنت پر نظر ڈالتا ہے تو اسے ’’جمہوریت‘‘ سے متعلق کوئی آیت یا حدیث تو درکنار صحابہ، آئمہ مجتہدین یا فقہائ کا ایک قول بھی نہیں ملتا۔ حالانکہ انسانیت اسلام سے ہزاروں سال قبل جمہوریت سے روشناس ہو چکی تھی۔ وہ اس شش و پنج کا بھی شکار ہوتا ہے کہ اگر اسلام کا نظام حکومت جمہوریت ہی ہے تو پھر کیا یونانیوں نے اسلام کے آنے سے قبل ہی ازخود ’’اسلامی نظام حکومت‘‘ دریافت کر لیا تھا؟ کیا اس ’’اسلامی نظام حکومت‘‘ کے نفاذ سے انہوں نے ایک اسلامی معاشرے کو جنم دے دیا تھا؟ کیا وہ نہ جانتے ہوئے بھی اسلام پر ہی چل رہے تھے؟ لیکن تاریخ کے کسی گوشے میں بھی یونانی تہذیب اور اسلامی تہذیب میں مماثلت کا کوئی شائبہ تک نہیں ملتا۔ اگر رسول مقبول...

خلافت قائم کرنے کا طریقہ

1)     چونکہ خلافت کا قیام ایک فرض ہے بلکہ یہ مسلمان کے اوہر سب سے بڑا فرض ہے ۔ اور چونکہ ایک فرض کے قائم کرنےکا طریقہ اللہ سبحان و تعالیٰ نے انسان پر نہیں چھوڑا بلکہ ہر فرض کے طرح اس فرض کا بھی طریقہ کار اسلام نے بتایا ہوا ہے۔ اور یہ طریقہ کار ہم نبیﷺ کی سیرت سے جان سکتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ریاست کیسےقائم کی تھی۔، بالکل ویسے جس طرح ہم نماز، روزے، حج، جہاد اور دیگر فرائض کا طریقہ نبیﷺ سے اخذ کرتے ہیں۔ 2)   اگر عقل پر چھوڑ دیا جائےتو مختلف طریقے ذہن میں آتے ہیں، جیسے حکمرانوں کو صرف دعوت سے قائل کرنا کہ اسلام قائم کریں، یا ان کے خلاف جنگ کر کے ان کو ملیا میٹ کر کے اسلامی نظام قائم کرنا، یا اس ملک میں مروجہ دستور اور قانون کے مطابق نظام میں حصہ لے کر اس نظام کے اوپر پہنچ کر اسلام کا نظام قائم کرنا یا تمام لوگوں کو تبدیل کرنا ، یہ سوچ کرکہ جب تمام لوگ سچے، پکے مومن بن جائیں گے تو اسلامی نظام خود ہی قائم ہو جائے گاوغیرہ۔ لیکن یاد رہے کہ یہ سب عقل و منطق (logic)   سے نکلنے والے طریقے ہیں ۔ اور انسانی عقل کامل نہیں اسلئے اس طریقوں کی اپن...

کیا اسلام جس عمل سے منع نہ کرے، وہ جائز ہے؟

حال ہی میں حکومت پاکستان کے زیر سرپرستی ہولی کا تہوار منایا گیا اور ہم نے اخباروں میں مشاہد حسین اور چودھری شجاعت کی تصاویر دیکھیں جن میں انہوں نے فخریہ انداز میں اپنی پیشانیوں پر رنگ لگا رکھا تھا۔ اس پر عوام الناس کے ایک گروہ نے اعتراض کیا کہ ا س ہندوانہ رسم، تہوار اور فعل کرنے کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ جبکہ دوسرے گروہ کا خیال تھا کہ آخر مذہبی رواداری اور ہندو مسلم بھائی چارے کے پیش نظرایک تہوار منا ہی لیا تو اس میں کیا حرج ہے۔ اسی طرح بسنت کے حوالے سے عوام میں کافی کنفیوژن پائی جاتی ہے۔ جہاں ایک طرف عوام کا ایک بڑا حصہ اسے اپنے مذہب اور روایات سے متصادم ہونے کے باعث پسند نہیں کرتا۔ وہاں دوسری طرف ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اشتہاری مہموں اور سرکاری سرپرستی سے متاثر ہو کر بے شمار لوگ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اسلام میں خوشی منانے یا پتنگ اڑانے کی کوئی ممانعت نہیں تو پھر بسنت منانا کیونکر حرام ہو گیا۔ یہی صورتحال کئی دوسرے امور میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ اسی طرح حال میں امریکہ میں آمنہ ودود کی امامت میں ادا ہونے والی مخلوط نماز جمعہ شدو مد سے زیر بحث رہی۔ اس گروہ کا کہنا ...

ایک امت، ایک چاند، ایک رمضان اور ایک عید

تحریر: نوید بٹ اس سال روئیت ہلال کمیٹی کے سربراہ مفتی منیب الرحمن نے بڑے فخر سے اعلان فرمایا کہ اس دفعہ پورا پاکستان ایک دن رمضان شروع کر رہا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ اعلان درست نہ تھا کیونکہ نہ صرف پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین بلکہ وزیرستان کے مسلمان بھی ایک دن پہلے امت مسلمہ کے ساتھ رمضان کی شروعات کر چکے تھے۔ دوسرا اہم پہلو یہ کہ پاکستان نے قومیت کی بنیاد پر چاند قبول کرکے اپنے آپ کو امت مسلمہ سے الگ کر دیا اور امت کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا۔ مفتی منیب صاحب اس کے بارے میں کیا فرمائیں گے؟ کیا مفتی صاحب امت کو بتا سکتے ہیں کہ کہ قومیت پر مبنی روئیتِ ہلال کی اس بدعت کی شریعت سے کیا دلیل ملتی ہے۔  استعمار نے خلافت کا خاتمہ کر کے نہ صرف مسلمانوں کو چھوٹے چھوٹے حصوں تقسیم کر دیا بلکہ اس نے ہر حصے کو ایک مخصوص قومیت، قومی ترانہ، جھنڈا اور چاند بھی دے دیا۔ جھنڈے مسلمانوں کو سیاسی طور پر تقسیم کرنے کے لئے اور چاند امت کی مذہبی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لئے۔ لیکن اس سے زیادہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس نے ایسے افراد بھی عوام کے سروں پر بٹھا دئے جو اس تقسیم کو اسلام سے ث...

آئین پاکستان کی نام نہاد "اسلامی دفعات" اور اس پر پاکستان کی ہائیکورٹس اور سپریم کورٹس کے مصدقہ فیصلے

آپ اور میں اپنے خواہش کے مطابق بے شک پاکستان کے آئین مین "اسلامی" دفعات پڑھ کر خوش ہوتے رہیں اور یہی کہتے رہپں کہ آئین دراصل اسلامی ہے ، اصل مسئلہ صرف نفاذ کا ہے لیکن آئین کی تشریح کا حق آپ کو یا مجھے نہیں، بلکہ عدالت کو ہے اور اس کی تشریح حتمی مانی جاتی ہے ۔ اور ان کے کچھ فیصلے ملاحظہ کریں: Sec 2. “Islam shall be the State religion of Pakistan.’’ ریاست کا سرکاری مذہب اسلام ہو گا۔ But when this Article 2 came to be interpreted in the Court of Law, a  Full Bench of the Sindh High Court comprising 5 judges, headed by its Chief Justice,  held that: ‘‘Article 2 is incorporated in the Introductory Part of the Constitution and as far as its language is concerned, it merely conveys a declaration. The question arises as to the intention of the Makers of the Constitution by declaring that ‘‘Islam shall be the State religion of Pakistan.’’ Apparently, what the Article means is that in its outer manifestation the State and its Government shall carry an Islamic Symbol. This A...