نئی خلافت امریکہ کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہوگی ’’عالمی مستقبل کی نقشہ بندی‘‘ کے نام سے امریکی انٹیلی جنس کی 2020 ء کے لیے رپورٹ
تحریر: ایڈووکیٹ سعدیہ راحت (لاہور)
ایل ایل بی آنرز، شریعہ اینڈ لاء
(انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد)
حال ہی میں ’’عالمی مستقبل کی نقشہ بندی‘‘ (Mapping the Global Future) کے نام سے نیشنل انٹیلی جینس کونسل (NIC) کی ایک رپورٹ منظر عام پر آئی ہے۔ یہ ادارہ CIA سے منسلک ایک تحقیقاتی ادارہ ہے جس نے دنیا بھر کے غیرسرکاری ماہرین کی معاونت سے امریکی پالیسی سازوں کے لیے یہ رپورٹ تیارکی ہے، تاکہ سن 2020ء تک کے ایک ممکنہ واقعات کا ایک خاکہ پیش کر کے امریکی ماہرین کو پہلے سے منصوبہ بندی کرنے اور اپنے مفادات کے تحفظ کا مکمل انتظام کرنے کے لیے معلومات حاصل ہوں۔
ہم قارئین کی دلچسپی کے لیے پہلے آگاہ کر دیں کہ اس رپورٹ میں مسلمانوں کے حوالے سے نہایت اہم صورتحال پر بحث کی گئی ہے۔ نیز2020ء تک امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ مسلمان دنیا میں خلافت کے قیام کے ذریعے ایک طاقت بن کر ابھریں گے۔ تاہم چند پہلوؤں سے خلافت کے بارے میں اس رپورٹ کے ذریعے عمداً غلط فہمی پھیلانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ یاد رہے کہ نیشنل انٹیلی جینس کونسل (NIC) وہی ادارہ ہے جس نے 2010 ء تک پاکستان کے ٹکڑے ہونے کی بھی پیشین گوئی کی تھی۔ حالیہ رپورٹ CIA نے ڈی کلاسیفائی کرنے کے بعد عوام کے لیے اپنی ویب سائٹ پر پیش کی ہے۔ اسی قسم کی رپورٹوں کی روشنی میں امریکہ ادارے بالخصوص اور امریکہ کے حلیف ممالک بالعموم اپنے مستقبل کا لائحہ عمل وضع کرتے ہیں۔ مسلمان سیاستدانوں اور اہل علم کو ان رپورٹوں کو بڑی سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ نیز ان میں موجود غلط بیانی (disinformation) سے پہلو بچاتے ہوئے بین السطور افکار اور ان پالیسیوں کو سمجھنا چاہیے جو یہ ادارے اپنے پالیسی سازوں کے لیے پیش کرتے ہیں۔ قارئین کی خدمت میں رپورٹ کا جائزہ پیش ہے۔ اس مضمون میں رپورٹ کے ان حصوں پر خصوصی توجہ دی گئی ہے جن کا تعلق امت مسلمہ اور اسلام سے ہے۔ دیگر پہلوں پر بھی ایک طائرانہ نظر ڈالی گئی ہے۔
رپورٹ میں عندیہ دیا گیا ہے کہ ’’تیزی سے بدلتے ہوئے اس دور میں ہم آنے والے پندرہ سالوں میں عالمی تبدیلیوں کی متعدد اور مختلف اشکال کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ ان میں کثیر ریاستی نظام (Nation-state system) کو لاحق شدید خطرے سے لے کر ایک مضبوط تر اور تمام دنیا پر محیط گلوبلائزیشن کا قیام شامل ہے۔‘‘ رپورٹ میں ’’ممکنہ مستقبل‘‘ کے عنوان سے سن 2020ء تک چار عالمی منظر نامے پیش کئے گئے ہیں ۔ نیز آغاز میں ہی اس کی وضاحت بھی کر دی گئی ہے کہ ’’ان منظر ناموں کا مقصد حقیقی پیشین گوئیاں نہیں بلکہ محض اس ممکنہ دنیا کی تصویر کشی کرنا ہے جس کے دروازے پر آج ہم کھڑے ہیں۔‘‘ رپورٹ میں امریکی نکتۂ نظر سے بہترین سے لے کر بدترین تک چار عالمی منظر نامے پیش کئے گئے ہیں ۔ وہ چار منظرنامے درج ذیل ہیں:
O پیکس امیر یکانا (امریکی غلبہ): اس بات کا جائزہ پیش کرتا ہے کہ امریکی غلبہ کس طرح عالمی سیاسی منظر نامے میں ہونے والی انقلابی تبدیلیوں سے بچ نکل کر ایک جدید اور تمام دنیا پر محیط ورلڈ آرڈر قائم کرے گا۔ یہ امریکی نکتۂ نظر سے بہترین صورتحال ہے جس میں عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام بھی برقرار رہے اور امریکہ اس نظام کے ذریعے پوری دنیا پر بلا شرکت غیرے حاوی رہے۔ اس منظر نامے میں مسلمانوں کی عالمی سطح پر کوئی اہم حیثیت نہیں دکھائی گئی۔
O دنیائے ڈیووس: ہمیں اس بات کی مثال فراہم کرتی ہے کہ آنے والے 15 سالوں میں چین اور بھارت کی سرکرد گی میں اقتصادی ترقی کے نتیجے میں گلوبلائزیشن کے عمل کی تشکیل نو ہو گی اور یہ اقتصادی ترقی اسے غیر مغربی شکل دے کر سیاسی کھیل کے میدان کو بھی تبدیل کردے گی۔ امریکہ کے لیے یہ منظر نامہ پہلے منظر نامے (یعنی پیکس امیریکانا) سے یوں مختلف ہے کہ امریکہ کو عالمی وسائل کی بندر بانٹ میں اب یورپ کے علاوہ چین اور بھارت کو بھی حصہ دینا ہوگا۔ لیکن اس دنیا میں بھی سرمایہ دارانہ نظام عالمی سطح پر گلوبلائیزیشن کی شکل میں برقرار رہے گا۔ یہ منظر نامہ امریکی نکتۂ نظر سے پیکس امیریکانا سے کم تر ہے لیکن اس منظر نامے میں عالمی سطح پر امریکی نظام اور اس کی سیاسی برتری اور اہمیت بہرحال برقرار ہے ۔
O لامتناہی خوف کا دور: اس منظر نامے میں ایک ایسی دنیا کی منظر کشی کی گئی ہے جہاں ایٹمی پھیلاؤ سے متعلق خدشات اس حد تک بڑھ جائیں گے کہ بڑے پیمانے پر مداخلت کے ذریعے حفاظتی اقدامات کئے جائیں گے، تاکہ تباہ کن حملوں کو روکا جاسکے۔ نتیجتاً ایک ’’اورویلین ‘‘دنیا وجود میں آسکتی ہے۔ امریکی اور مغربی ممالک کی موجودہ اسلام دشمن پالیسیوں کے رد عمل میں ہونے والی عسکری مزاحمت، جو آج بھی مختلف ممالک میں جاری ہے، کی اس دور میں انتہائی صورت پیش کی گئی ہے۔ لیکن اس دور میں بھی مسلمانوں کو مختلف چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں منقسم دکھایا گیا ہے۔ نیز اس منظر نامے میں بھی عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف کوئی متبادل نظام موجود نہیں ہے۔ امریکی نکتۂ نظر سے یہ منظر نامہ قابل قبول نہیں جس میں وہ اپنے اور اپنے حلیف ممالک پر ایٹمی یا حیاتیاتی دہشت گردی کے بڑے امکانات محسوس کرتا ہے۔
O نئی خلافت: اس عالمی منظر نامے میں ایک عالمی تحریک، جسے مذہبی شناخت (religious identity politics)پر مبنی انقلابی سیاست سے تقویت حاصل ہوگی، مغربی اقدار اور روایات کے لیے چیلنج کی صورت سامنے آئے گی اور ایک عالمی نظام کی بنیاد رکھے گی۔ مسلم ممالک کو ضم کر کے خلافت کی داغ بیل ڈالی جائے گی اوردنیا کو سرمایہ دارانہ نظام کے متبادل اسلامی نظام پیش کیا جائے گا۔ یہ منظر نامہ امریکی نکتۂ نگاہ سے سب سے زیادہ نقصان دہ اور خطرناک ہے جبکہ مسلمانوں کے نکتۂ نظر سے یہ ایک مثالی صورتحال ہے۔ اس منظر نامے میں خلافت امریکہ کی عالمی بالادستی اور اور اس کے سرمایہ دارانہ نظریے اور اس سے پھوٹنے والی اقدار کو چیلنج کریگی۔
آئیے مندرجہ بالا منظر ناموں کا تفصیلی جائزہ لیں:
O پیکس امیر یکانا (امریکی غلبہ):
اس عنوان کے تحت امریکہ کو بدستور ایک قدیم مگر اہم ترین عالمی طاقت کے روپ میں پیش8 کیا گیا ہے۔ جبکہ دیگر طاقتیں جن میں بھارت، چین،یورپ، روس اور برازیل شامل ہیں، اقتصادی ترقی کے باوجود چند اندرونی اور بیرونی مسائل کی وجہ سے امریکہ کی بلاشرکتِ غیرے عالمی حکمرانی کے خاتمے میں ناکام رہی ہیں۔ اگرچہ امریکہ کو کئی نئے خطرات اور ابھرتی ہوئی طاقتوں کی جانب سے اقتصادی اور سیاسی چیلنجوں کا سامنا ہے مگر طاقت کا توازن بہر حال اس کے حق میں ہے۔ یہ دنیا موجودہ عالمی صورتحال سے زیادہ مختلف نہیں جہاں امریکہ یکطرفہ (uni-lateral) فیصلے کرتا ہے اور دیگر عالمی طاقتوں کو اپنی مرضی پر چلانے کی طاقت رکھتا ہے۔
اس عنوان کے تحت ایک ابھرتے ہوئے ایشیاء کی تصویر کشی کی گئی ہے اور بھارت اور چین کو ابھرتی ہوئی طاقتوں کے طور پر پیش8 کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’چین بھارت اور ان کے ہمراہ چند دیگر ممالک کا نئی عالمی طاقتوں کے روپ میں ابھرنا جغرافیائی اور سیاسی میدان کو تبدیل کر دے گا۔‘‘ لیکن اقتصادی عمل میں رکاوٹ اور عالمی برادری کے چین پر مکمل اعتماد نہ ہونے کے باعث چین کو عالمی سطح پر ایک مسلمہ بڑی طاقت کی حیثیت حاصل نہ ہوسکے گی۔ اسی طرح بھارت کے بھی لڑکھڑانے کے امکانات پائے جاتے ہیں کیونکہ اسے سیاسی اور اقتصادی مشکلات کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے شدید دباؤ کا سامنا ہوگا جس کی ایک بڑی وجہ اس کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے:
o ’’دوسری طرف یورپ کے زیادہ تر ممالک میں بوڑھے افراد کی تعداد میں اضافہ اور افرادی قوت کی تعداد میں کمی کے برّاعظم یورپ پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ چنانچہ یورپی ممالک کو اپنی افرادی قوت کو بہتر بنانا پڑے گا۔ معاشرتی بہبود کے نظام، تعلیم اور ٹْیکس نظام میں بنیادی اصلاحات کرنا پڑیں گی اور بڑھتی ہوئی مہاجر آبادی (جو کہ زیادہ تر مسلم ممالک سے تعلق رکھتی ہے) کو بسانے کے مواقع فراہم کرنے پڑیں گے، ورنہ دوسری صورت میں اسے طویل اقتصادی جمود کا سامنا ہوگا۔‘‘
o ’’جاپان کو بھی اسی قسم کے افرادی قوت کے بحران کا سامناہوگا جو اس کے طویل المیعاد معاشی بحالی کے عمل کو مفلوج کر سکتا ہے۔ اسی طرح اسے اپنے علاقائی کردار اور صورتحال کا بھی از سرنو جائزہ لینا ہوگا۔ ٹوکیو کو یہ فیصلہ بھی کرنا پڑے گا کہ وہ چین کی تقلید کرے گا یا اس کے ساتھ مقابلے کی فضاء برقرار رکھے گا۔ دریں اثنا شمالی کوریا کا بحران بھی آنے والے 15 سالوں میں ابھر کر سامنے آجائے گا۔‘‘
o ’’روس کے لیے دیگر ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات میں بہتری لانے کے تمام مواقع موجود ہونگے کیونکہ وہ تیل اور گیس برآمد کرنے والا ایک اہم ملک ہے۔ لیکن اسے ایک آبادی کے شدید بحران کا بھی سامنا ہے جو شرح پیدائش میں کمی، ناکافی طبی سہولیات اور ایڈز کے حوالے سے ایک ممکنہ دھماکہ خیز صورتحال کے باعث پایا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ معاشرتی اور سیاسی اسباب روس کے لیے عالمی سطح پر اہم ترین کردار ادا کرنے کے مواقع محدود کر دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود ماسکو نہ صرف پہلے سے قائم شدہ طاقتوں یعنی امریکہ اور یورپ کے لیے اہم ساتھی رہے گا بلکہ ابھرتی ہوئی طاقتوں بھارت اور چین کے لیے بھی اس کی شراکت اہم ہوگی۔‘‘ بالفاظ دیگر روس کسی بڑی طاقت کی مدد تو کر سکتا ہے لیکن از خود بڑی طاقت بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
اس منظر نامے کے اختتام پر ایک 2020ء میں اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری کی ڈائری سے چند فرضی اقتباسات بھی پیش کئے گئے ہیں۔ سیکریٹری جنرل لکھتے ہیں:
’’نہ صرف یہ کہ ایک نئی عمارت تعمیر ہو چکی ہے جس نے 9/11 کے تباہی اور بربادی کو جزوی طور پر نظروں سے اوجھل کر دیا ہے بلکہ امریکہ بھی ایک عقاب کی طرح ابھرا ہے، خواہ یہ عقاب کچھ سہماہوا ہے، لیکن وہ ایک بار پھر ورلڈ آرڈر کی بنیادیں وضع کرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔‘‘... ’’ دہشت گردی پر تمام تر عملی تعاون کے باوجود ہم اب تک دہشت گردی ایک ایسی متفقہ تعریف تک نہیں پہنچ سکے جو اس کے خلاف حکمت عملی پر تمام ممالک کو متحد کر سکے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ مجھے دو محاذوں پر اپنی بقاء کی جنگ لڑنا پڑ رہی ہے۔ ایک طرف تو ’سب سے پہلے امریکہ ‘کا نعرہ لگانے والے گروہ جو اقوام متحدہ کے مکمل خاتمے کی مہم چلا رہے ہیں اور دوسری طرف یورپی اور ایشیائی ممالک کی بڑی تعداد جو یہ خیال کرتی ہے کہ اقوام متحدہ واشنگٹن کی مٹھی میں چلا گیاہے۔ ‘‘
O دنیائے ڈیووس:
اس عنوان کے تحت رپورٹ میں ایک روز بروز وسیع ہوتی ہوئی عالمی معیشت کی تصویر کشی کی گئی ہے جو تمام دنیا کو اپنے اندر ضم کر رہی ہے۔ چین اور بھارت جو پچھلے منظر نامے میں ایک عالمی طاقت کے طور پر ابھرنے کی کوشش کر رہے تھے، اس منظر نامے میں بڑی اقتصادی اور سیاسی طاقت بن چکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق: ’’گلوبلائیزیشن اب زیادہ غیر مغربی چہرہ اپنا لے گی۔‘‘ دنیائے ڈیووس میں ایشیا ایک مربوط بلاک کے روپ میں مغربی اقتصادی برتری کے لیے چیلنج پیش کررہا ہے۔ دنیا میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا انقلاب آچکا ہے لیکن اس کے باوجود امیر اور غریب کا فرق برقرار ہے۔
ماہرین کے مطابق:
o ’’زیاد ہ تر کمپنیاں بین الاقوامی حیثیت اختیار کرلیں گی اور عالمی سطح پر کام کرنے والی کمپنیاں اپنے حجم اور ماخذ کے لحاظ سے ہمہ پہلو اور ہمہ جہت ہوں گی ،نیززیادہ ایشیائی اور کم مغربی بنیادیں رکھیں گی۔ ایسی کارپوریشنیں جو موجودہ کئی بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں پر محیط ہوں گی، کسی ایک ملک کے کنٹرول سے باہر ہوتی چلی جائیں گی اور وسیع پیمانے پر ٹیکنالوجی کے فروغ میں اہم کردار ادا کریں گی۔ نتیجتاً دنیا کی اقتصادیات باہم مربوط تر ہوجائے گی اور ترقی پذیر دنیا بھی اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے گی۔ چین، بھارت اور برازیل سے تعلق رکھنے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی تعداد بڑھتی چلی جائے گی۔ اگرچہ شمالی امریکہ، جاپان اور یورپ مجموعی طور پر بین الاقوامی سیاسی اور مالی اداروں پر چھائے رہیں گے لیکن گلوبلائزیشن کاغیر مغربی کردار بڑھتا چلاجائیگا۔ 2020ء تک عوام کے ذہنوں میں’ گلوبلائزیشن ‘ کا لفظ’ امریکی غلبے‘ کے بجائے ’ابھرتے ہوئے ایشیاء‘ کے مترادف ہوجائے گا۔‘‘
o ’’نیز زیادہ سے زیادہ ملازمتیں امریکہ اور مغربی ممالک سے نکل کر ایشیاء منتقل ہو جائیں گی جس کی وجہ سے امریکہ میں بے روزگاری بڑھ جائیگی اور گلوبلائیزیشن کے خلاف تحریک کو تقویت ملے گی۔ دنیا کی معیشت مثاثر کن حد تک ترقی کرتی رہے گی اور 2020 تک وہ 2000ء کی نسبت 80 فیصد زیادہ بڑی ہو گی اور اوسط فی کس آمدنی پہلے سے تقریباً 50 فیصد بڑھ جائے گی۔‘‘
چنانچہ اس دنیائے ڈیووس میں امریکہ یکطرفہ (uni-lateral) فیصلے نہیں کر سکے گا جیسا کہ وہ پیکس امیریکانا میں کرسکتا ہے بلکہ اسے دیگر طاقتوں کو ساتھ لے کر چلنا پڑے گا۔
اس منظر نامے کے آخر میں سن 2020ء میں ورلڈ اکنامک فورم کے سربراہ کی طرف سے امریکہ کے فیڈرل ریزرو کے چئیر مین کے نام ایک فرضی خط پیش کیا گیا ہے جس کے چند اقتباسات درج ذیل ہیں:
’’جناب چئیر مین : جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ گزشتہ چند سال بہت دشوار تھے آخر کار میں نے ایشیائی ممالک کو بائیکاٹ ختم کرنے پر آمادہ کر ہی لیا۔ اور اس سال ہماری میٹنگ ڈیووس کے بجائے چین میں ہو رہی ہے‘‘... ’’شروع میں میرا خیال تھا کہ میں ایشیائی ممالک کو جھکنے پر مجبور کر دوں گا۔ لیکن وہ متحد ہو گئے ہیں۔ حتی کہ جاپانی بھی پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہ ہوئے۔۔۔ ’’گزشتہ صدی کے آغاز پر ہم گلوبلائیزیشن کو دنیا پر امریکی غلبے سے تعبیر کرتے تھے۔ امریکہ ہی واحد ماڈل تھا ، اب گلوبلائیزیشن نے زیادہ ایشیائی چہرہ اپنا لیا ہے اور اگر میں کھل کر کہوں تو امریکہ وہ انجن نہیں رہا جو ہوا کرتا تھابلکہ اب تمام منڈیاں مشرقی جھکاؤ رکھتی ہیں۔‘‘
O لامتناہی خوف کا دور:
موجودہ دور میں دنیا بھر میں امریکی جبر اور ظلم کے خلاف جو اسلامی مزاحمتی تحریکیں جاری ہیں وہ سن 2020ء کے ’’لامتناہی خوف کے دور‘‘ میں اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہیں۔ امریکی نکتہ نظر سے ’’دہشت گردی‘‘ نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور مسلمان ’’دہشت گردوں‘‘ نے حیاتیاتی اور ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کے ذریعے دنیا کے مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ امریکی ماہرین کے مطابق اس دور میں ابھی مسلمانوں کی کوئی ایک مرکزی ریاست وجود میں نہیں آئی اور نہ ہی سرمایہ دارانہ نظام کا کوئی متبادل نظام پیش کیا جاسکا ہے۔ مسلمان مزاحمت کار اپنے اپنے علاقوں میں منقسم ہو کر گوریلا کاروائیاں کر رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اس دور میں عسکری جدوجہد کے ساتھ ساتھ سیاسی سطح پر بھی اسلام مضبوط ہوا ہے۔ مشرق وسطیٰ کی چند سیکولر حکومتوں کو اکھاڑنے کی تحریکیں زور پکڑ سکتی ہیں نیز القائدہ کی جگہ عالمی سیاسی تحریکیں لے لیں گی۔ یہ دور امریکہ کے لیے ایک تشویش ناک تو ضرور ہے لیکن مسلمانوں کی عدم مرکزیت اور ریاست کی پشت پناہی نہ ہونے کی وجہ سے امریکہ سمجھتا ہے کہ وہ ان مزاحمتی تحریکوں کو بزور طاقت کچل سکتا ہے۔ اب آئیے رپورٹ کے مرتبین کے الفاظ میں اس منظر نامے کا تفصیلی جائزہ لیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے :
o ’’2020ء تک ہم تمام دنیا میں پہلے سے کہیں زیادہ پھیلتے ہوئے احساس عدم تحفظ کی پیشین گوئی کر رہے ہیں جس کی بنیاد مادی خطرات کے ساتھ ساتھ نفسیاتی احساسات پربھی ہوگی۔ دنیا کے بیشتر حصے کے امیر تر ہونے کے ساتھ ساتھ گلوبلائزیشن عرصے سے جوں کے توں رہنے والے حالات کو بھی تہہ وبالا کر دے گی۔ نتیجتاً اقتصادی، ثقافتی اور پھر سیاسی افراتفری جنم لے گی۔ ‘‘
o ’’کمزور حکومتیں، پسماندہ معیشتیں، مذہبی انتہا پسندی اور نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ بعض علاقوں میں اندورنی خانہ جنگی کی راہ ہموار کریں گے... ہمیں سب سے زیادہ پریشانی اس امر کی ہے کہ ممکن ہے کہ دہشت گرد یا تو حیاتیاتی عناصر(بائیو لوجیکل ایجنٹس) حاصل کر لیں یا پھر ایٹمی ہتھیار جس کا کم امکان ہے، جن میں سے کسی ایک کے حصول سے بھی بڑے پیمانے پر اموات ہو سکتی ہیں۔‘‘
o ’’ہم توقع کرتے ہیں کہ سن 2020ء تک القاعدہ کی جگہ اس ہی کے نظریے سے متاثر اسلامی انتہا پسند گروہ لے لیں گے۔‘‘
o ’’مشرق وسطیٰ کے کسی مسلمان ملک میں انقلابی مسلمانوں کے اقتدار حاصل کر لینے سے علاقے میں دہشت گردی تیزی سے پھیلے گی۔ اور دیگر کے لیے باعث اعتماد ہو گا کہ ’’نئی خلافت محض ایک خواب نہیں۔‘‘
o ’’ایسے شواہد ملے ہیں کہ اسلامی انقلابی (radicals) ایک بین الاقوامی مزاحمتی تحریک چلانا چاہتے ہیں۔ یعنی مسلم انتہا پسندوں کی مہم جس کے تحت نام نہاد کافر سیکولر حکومتیں جو مسلم اکثریتی علاقوں میں قائم ہیں۔ انہیں اکھاڑ پھینکنے کی پکار بے شمار مسلمانوں کے لیے باعث کشش ہوگی۔ ‘‘
اس منظر نامے کے اختتام پر دو ہتھیاروں کے ڈیلروں کے مابین موبائل فون پر SMS کے ذریعے رابطے پر مبنی ایک فرضی ڈائیلاگ پیش کیا گیا ہے جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ کس طرح بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں (WMD) کا کاروبار دنیا بھر میں پھیل چکا ہے۔ اور حکومتوں کی طرف سے سخت ترین حفاظتی اقدامات کے باوجود یہ کاروبار اپنے عروج پر ہے۔
O نئی خلافت:
رپورٹ کا سب سے اہم اور امت مسلمہ کے نکتہ نظر سے خاص منظر نامہ ’’نئی خلافت‘‘ کے عنوان سے وہ حصہ ہے جس میں 2020 ء تک سیاسی اسلام کو ایک بڑی عالمی طاقت کے طور پر ابھرتا ہوا دکھایا گیا ہے۔ یہ ریاست موجودہ اسلامی ممالک کی موجودہ سرحدوں کو مٹا کر انہیں ایک ریاست میں ضم کر دیگی۔ نیز خلافت ایک متبادل نظام عملاً نافذ کر کے سرمایہ دارانہ نظام اور اس سے پھوٹنے والے افکار اور مغربی اقدار کے لیے ایک بڑا چیلنج پیش کریگی۔ امریکہ کے نکتۂ نظر سے یہ منظر نامہ سب سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ یہ مسلمانوں کو ایک ریاست کے ذریعے منظم کرتا ہے اور ان میں سیاسی وحدت قائم کرتاہے۔ دوسری طرف یہ مسلم امت کے نکتۂ نگاہ سے مثالی صورت حال ہے جس کے ذریعے گزشتہ اسی سال سے جاری مسلمانوں کے قتل عام اور سیاسی بے وقعتی کا مداوا ممکن ہے۔
رپورٹ میں کہا گیاہے کہ مذہبی تشخص کی بنیاد پر انقلابی عالمی تحریک زور پکڑتی ہے جس کے نتیجے میں ایک نئی خلافت کا اعلان ہوتا ہے اور ایک نئی ریاست خلافت کے نام سے وجود میں آتی ہے۔ یہ خلافت ’’ ایک متبادل نظریہ پھیلانے میں کامیاب ہوتی ہے جسے دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر پذیرائی حاصل ہوتی ہے۔‘‘
رپورٹ کے مطابق:
o ’’خاص طور پر سیاسی اسلام 2020 ء تک اہم عالمی اثرات مرتب کرے گا۔ وہ مختلف نسلوں اور قومیتوں کے لوگوں کو مجتمع کرے گا اور شائید ایک ایسی اتھارٹی (ریاست) قائم کر دے جو ملکوں کی سرحدیں مٹا دے۔ ‘‘
o ’’کئی اسباب کے ایک ساتھ رونما ہونے سے، مثلاً بے شمار عرب ممالک میں نوجوانوں کی آبادی میں اضافے، مالی بدحالی، مذہبی تعلیم کے اثرات اور ٹریڈ یونینوں، غیر سرکاری اداروں اور سیاسی جماعتوں جیسے اداروں کی اسلامائزیشن کے باعث یقینی ہو جائے گا کہ سیاسی اسلام
ایک اہم طاقت کے طور پر برقرار رہے۔‘‘
o ’’مشرق وسطی کے باہر ان مسلمان مہاجرین کے لیے سیاسی اسلام بدستور کشش کا باعث رہے گا جو روز گار کی تلاش میں ایک خوشحال مغرب کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں لیکن خود کو ایک اجنبی اور عداوت پر مبنی ماحول میں سمجھتے ہوئے کبھی بھی پر سکون نہیں ہوتے۔‘‘
o ’’حکومتوں پر دباؤ کا ایک اہم پہلو، نئی شناخت سے متعلق سیاست (یعنی مذہبی سیاست) (identity politics) کی طرف سے سامنے آئے گا، جس کی بنیاد مذہبی عقائد پر ہوتی ہے۔‘‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ خلافت کو دہشت گرد ریاست کے طور پر پیش کرنے کے لیے امریکی ماہرین یہاں اسامہ بن لادن کے پوتے کا ایک خیالی خط پیش کر رہے ہیں۔ جو کہ قیام خلافت کے بہت بعد اس کے اہداف میں کامیابی حاصل نہ کرنے سے پریشان ہو کر اپنے ایک رشتہ دار کو لکھا گیا ہے۔
قارئین کی دلچسپی کے لیے اس خط کے چند مندرجات درج ذیل ہیں:
’’سعید محمد بن لادن
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
3 جون 2020ء
دادا جان یقیناً پریشان ہو جاتے ۔ خلافت اب تک ہماری امیدوں پر پوری نہیں اتری۔ پیارے بھائی جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ دادا خلفاء راشدین کے دور کی طرف لوٹ جانے پر یقین
رکھتے تھے جب اسلامی رہنماء اسلام کے حقیقی محافظوں کی حیثیت سے ایک بڑی ریاست کے حکمران تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ خلافت مسلم دنیا پر دوبارہ اپنا پرچم لہرائے، فلسطین اور ایشیاء میں اپنے کھوئے ہوئے علاقوں کا قبضہ دوبارہ حاصل کر لے اور کافر مغربی اثرات جنہیں یہ صلیبی ’’گلوبلائزیشن‘‘ کہتے ہیں اکھاڑ پھینکے۔ روحانی اور مادی دنیا ایک بار پھر دین اور ریاست کے مابین تقسیم کا انکار کرتے ہوئے اﷲ کی رضا کے لیے ایک ہو جائے۔ لیکن آخر میں ہم نے دیکھا کہ اعلان خلافت ابھی تک دین اور ریاست کی اس تقسیم کو نہیں مٹا سکی۔ اگرچہ خلافت کے قیام نے صلیبی طاقتوں کے دلوں میں اﷲ کا خوف ڈال دیا (جس پر دادا جان خوش ہوتے)، کئی مسلمانوں کے لیے مغربیت نے یقیناً اپنی کشش کھو دی ہے اور خلافت نے نو آبادیاتی طاقتوں کی بنائی ہوئی کئی فرضی سرحدوں کو مٹا دیا ہے۔
جب میں ماضی کے متعلق سوچتا ہوں تو مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ہم سب پہلے نو عمر خلیفہ کے متعلق کیسے لا علم تھے۔ لیکن بعد میں کافر اور مسلمان سبھی حیران رہ گئے۔ اچانک دنیا بھر میں نوجوان داعی (اس ہونے والے خلیفہ)کی پیروی کی جانے لگی۔ حتی کہ خلافت کے اعلان سے قبل ہی وہ تمام مسلمانوں میں عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کا تعلق القائدہ سے نہیں تھا اور اس نے دادا جان کی طرح کوئی سیاسی تحریک نہیں چلائی تھی۔ وہ تمام وقت پہلے سے زیادہ روحانی حیثیت والا محسوس ہوتا رہا۔ اس کے ہاتھ بے گناہوں کے خون سے رنگے نہ تھے ،جس کا بدقسمتی سے دادا جان کو القائدہ سے تعاون کے باعث سامنا تھا ،خواہ انہوں نے اس کا اعتراف کیا یا نہیں۔ دنیا بھر کے مسلم علاقوں؛ فلپائن، انڈونیشیا، ملائیشیا، ازبکستان، افغانستان اور پاکستان کی طرف سے خلافت سے وفاداری کا اعلان ہوا اور مال و دولت امڈتا چلا آیا۔ چنداعلیٰ طبقہ کے حکمرانوں نے بھی اس کی بیعت کر لی تاکہ اقتدار پر اپنی ڈولتی ہوئی گرفت مضبوط کر سکیں۔ یورپ اور امریکہ میں نام کے مسلمانوں کو اپنی اصل شناخت اور مذہب کا احساس ہو گیا اور بعض صورتوں میں وہ اپنے حیران پریشان مغرب زدہ
والدین کو چھوڑ چھاڑ کر اپنے وطن کی طرف لوٹ گئے۔ حتی کہ بعض کافر بھی اس کی روحانیت سے متاثر ہوئے... اور ان مغربی عوام کے لیے وہ مثالی شخص بن گیا جو گلوبلائیزیشن (سرمایہ دارانہ نظام) کے خلاف تھے۔۔۔ تھوڑے ہی عرصے میں یہ خوب واضح ہو گیا کہ ایک نئی خلافت کے اعلان کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا جو بے شمار لوگوں کی آرزو بن چکی تھی۔۔۔‘‘
’’ آپ ان کے چہروں کے تأثرات کا تصور نہیں کر سکتے جب اولمپک کھیلوں کے موقعے پر مسلمان کھلاڑیوں نے اپنی قومی وفاداریوں کے بیج اکھاڑ پھینکے اور خلافت کے ساتھ وفاداری کا اعلان کر دیا۔۔۔ سب تیرہ و تا راج ہو گیا ۔ ہمیں اپنے نظریے میں قید کرنے کے لیے مغرب نے جو بلند و بالا عمارتیں تعمیر کی تھیں یعنی جمہوریت، قومیت پر مبنی جغرافیائی حدود میں مقید ریاستیں(nation-states) اور بین الاقوامی نظام جس کے وہ متولی تھے، سب دھڑام سے آن گرا۔۔۔ تیل ان کا مطمع نظر تھا، اور ہم نے انہیں ایک ایک بوند کے لیے اتنا ترسایا جتنا پہلے وہ کبھی نہ ترسے تھے۔ تیل کی منڈیوں میں غیر یقینی صورت حال پیدا ہوگئی اور یہ افواہیں گردش کرنے لگیں کہ امریکہ یا نیٹو تیل کے کنوؤں کو خلافت کے ممکنہ قبضے سے بچانے کے لیے خود قبضہ کر لیں گے۔ بعد میں ہم نے یہ سنا کہ امریکہ اپنے اتحادیوں کو فوجی مداخلت کرنے پر آمادہ نہ کر سکا جبکہ واشنگٹن خود بھی اس امر سے خائف تھا کہ اس کا یہ عمل دنیا بھر کے مسلمانوں میں خطرناک رد عمل کو جنم دے گا۔۔۔‘‘
لیکن اس کے بعد تمام خط خلافت کی ناکامی کے تذکرے سے بھرا پڑا ہے۔ خط کے الفاظ میں :
’’ہمارے عوام بھی مغربی مادہ پرستی کے تصورات سے متاثر ہو رہے ہیں اور اسے اپنانا چاہتے ہیں۔ آہ! یہ انٹرنیٹ۔ مفید بھی اور شیطانی چال بھی۔ یہی ہے جو خلیفہ کو مکمل اقتدار کو قریب کر رہا
ہے اور اس کی دعوت کو دنیا بھر میں پھیلا رہا ہے۔ لیکن یہ ہمارے دشمنوں کا آزمودہتھیار بھی ہے، زیادہ زیادہ مسلمان جب یہ دیکھتے ہیں کہ مغرب میں لوگ کیسے زندگی بسر کر رہے ہیں تو وہ بھی انہی اشیاء کی تمنا کرتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ ان کے ساتھ کونسی برائیاں منسلک ہیں۔‘‘
’’جب خلافت کا اعلان کیا گیا تھا تب ہماری یہ توقع تھی کہ تمام حکومتیں یکے بعد دیگرے گرتی چلی جائیں گی۔ لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہو سکا،اس کے بجائے بہت سی ریاستوں میں ہمارے پیروکاروں کی بڑی تعداد تو موجود ہے، جس سے حکومتیں خطرے میں ہیں لیکن ابھی تک وہ حکومتیں گرانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ ہم وسطی ایشیا اور پاکستان اور افغانستان کے کچھ حصوں میں (حکومت گرانے کے) بہت قریب آگئے ہیں۔۔۔ روس اپنے علاقے میں مزاحمتی تحریکوں سے لڑنے اور وسطی ایشیا کی آمریتوں کو مدد فراہم کرنے میں مصروف ہے۔ حیرت انگیز طور پر اس بار امریکہ روس کا اتحادی ہے، اور وہ مجاہدین کو روسیوں کے خلاف لڑنے کے لیے ہتھیار فراہم کرنے کے بجائے مجاہدین کے خلاف روسیوں کی امداد کر رہا ہے۔‘‘
’’ ایک فلسطینی ریاست کے قیام کے باوجود فلسطین میں بھی جدوجہد جاری ہے۔ یہودی اب بھی مسلم علاقوں پر قابض ہیں اور یروشلم پر کنٹرول میں مسلمانوں کے ساتھ شریک ہیں۔ یورپی اقوام کا خیال تھا کہ وہ کسی طرح تہذیبوں کے مابین جنگ سے بچ نکلیں گے۔ لیکن اب وہ مشاہدہ کر رہے ہیں کہ کس طرح ان کے اپنے ممالک میں موجود مسلمان بڑھتی ہوئی تعداد میں خلیفہ کی طرف رجوع کر رہے ہیں۔ امریکہ میں بھی خلیفہ کے کافر پیروکار موجود ہیں جن میں ایک سینیٹر کی بیٹی بھی شامل ہے۔‘‘
اس خط کے بعد رپورٹ کے ماہرین اس خط سے اپنے پالیسی سازوں کے لئے کچھ سبق اخذ کرتے ہیں:
’’بین الاقوامی نظام کے لیے ایک بڑا خطرہ پیش کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ نئی خلافت
ایک مکمل طور پر کامیاب (مضبوط) ریاست ہی ہو۔ اس منظر نامے کااہم ترین پہلو ثقافتوں کے مابین وہ نظریاتی بحث ہے جس میں بڑھتی ہوئی مذہبی شناختوں (Religious Identities)کے باعث مزید تیزی آجائے گی۔‘‘
o مغرب اور مسلم دنیا کے مابین تصادم آئی ٹی انقلاب کے باعث بڑے پیمانے پر پھیل جائے گا۔
o مسلمانوں میں خلافت کی کشش مختلف علاقوں میں مختلف نوعیت کی ہو گی جس کے باعث مغربی ممالک کو اس کے خلاف اسی نسبت سے مختلف رد عمل اپنانا پڑیگا۔ ان علاقوں کے مسلمان جو گلوبلائیزیشن سے مستفید ہو رہے ہیں، مثلاً ایشیاء کے کچھ حصے اور یورپ کے مسلمان، ایک طرف روحانی خلافت کے تصور اور دوسری طرف گلوبلائیزیشن کے مادی فوائد کی باہم متضاد کشش کا شکار رہیں گے۔
o خلافت کا اعلان دہشت گردی کے امکانات کو کسی طور بھی کم نہ کرے گا۔‘‘
رپورٹ کے نتائج
آخر میں پوری رپورٹ سے نتائج اخذ کر کے امریکی ماہرین ’’پالیسی سازوں کے لیے نتائج ‘‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں:
’’خلافت جیسے منظر نامے کا امکان سب سے بڑا چیلنج ہے کیونکہ یہ ان بنیادوں کو مسترد کر دے گا جن پر موجودہ بین الاقوامی نظام کھڑا ہے۔ اس امکان کے نتیجے میں ہمیں چاہئے کہ ہم ان علاقوں اور معاشروں کو اپنے اند رضم کرنے اور ان پر اثر انداز ہونے کی کوشش کریں جو خود کو الگ تھلگ اور پسماندہ محسوس کرتے ہیں۔ اور گلوبلائزیشن کے بعض عناصر کو مستر دکرتے ہیں۔ گلوبلائزیشن کے
فوائد حاصل کرنے کے لیے ان علاقوں کو محض اقتصادی مواقع فراہم کرنا کافی نہ ہوگا بلکہ مذہبی اور ثقافتی شناخت کے حوالے سے وسعت اختیار کرتا ہوا رجحان اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ اپنی اپنی ریاستوں سے قطع نظر ان شناختوں کو گلوبلائزیشن کی دنیا میں جگہ دینا پڑے گی۔‘‘
پس امریکہ کے لیے ’’دنیائے ڈیووس‘‘ اور ’’پیکس امریکانا‘‘ جیسے منظر نامے تو خوش کن ہیں لیکن ایک ’’لامتناہی خوف کا دور‘‘ اور ’’نئی خلافت‘‘ سے ان کی تہذیب کی بنیادیں ابھی سے لرزہ براندام ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر رپورٹ کے اختتا م میں ’’پالیسی سازوں کے لیے نتائج‘‘ اخذ کرتے ہوئے ’’نئی خلافت‘‘ کو کیوں ’’سب سے بڑا چیلنج‘‘ قرار دیا گیا ہے؟ آخر اسلام سے سرمایہ دارانہ نظام کو کیا خطرہ ہے جسے گلوبلائیزیشن کے نام سے پوری دنیا پر لاگو کیا جارہا ہے ؟ نیز آخر وہ کون سے مفادات ہیں جن پر خلافت کے قیام سے استعماری خداؤں اور ان کے سرمایہ دارآلۂ کاروں کو زک پہنچتا ہے؟
قیام خلافت سے امریکی خوف کی وجوہات:
آج امریکہ ایک عالمی غنڈے اور وڈیرے سے زیادہ مختلف نہیں، جس کا جو جی میں آتا ہے کرتا ہے اور جس کی حدود میں چاہتا ہے گھسا چلا آتا ہے۔ آج ہم پچاس سے زائد چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹے ہونے کی بدولت کمزور ہیں۔ لہذا وہ ایک کے بعد ایک کو ختم کررہا ہے۔ افغانستان کے بعد عراق اور اب شام و ایران کو دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ ’’قلعۂ اسلام‘‘ یعنی پاکستان تو پہلے ہی صلیبی جنگوں میں فرنٹ لائن سٹیٹ کا کردار اداکر رہا ہے۔ اس کا سپاہ سالار کمال جذبۂ ایمانی سے کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اﷲ اکبر کے نعرے لگاتا ہے تو دوسری طرف استعماری خداؤں کے چرنوں
میں افغانستان اور عرب مجاہدین کو بھینٹ چڑھانے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر امتِ مسلمہ خلافت کے ذریعے ایک واحد سیاسی اکائی بن جائے تو مسلم امت کے وسائل اور فوج ایک امیر تلے اکھٹے ہو جائیں گے جس کے خلاف کوئی بھی کاروائی کرنے سے پیشتر امریکہ کو ہزار بار سوچنا پڑیگا۔ مسلم امت کے پاس مجموعی طور پر 6405 جنگی جہاز ہیں جبکہ امریکہ کے پاس 5618 جہاز ہیں۔ مسلمانوں کی مجموعی فوج کی تعداد تقریباً 40 لاکھ ہے جبکہ امریکی فوج کی تعدادچار لاکھ ستر ہزار ہے۔ نیز خلافت قائم ہونے کی صورت میں ایک مسلمان ملک کو دوسرے کے خلاف استعمال بھی نہیں کیا جاسکے گا۔ چنانچہ سیاسی اور عسکری لحاظ سے خلافت کا قیام امریکہ کے لیے واقعی سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔
جہاں تک اقتصادی چیلنج کا تعلق ہے تو اسلام سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں ایک ایسا نظام دیتا ہے جو استعماری طاقتوں کو عوام کا خون چوسنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام کا ایک حکم وہ دروازہ ہی بند کر دیتا ہے جہاں سے استعمار داخل ہو کر ان وسائل پر قضبہ کرتا ہے جنہیں خالق کائنات نے تمام عوام کے لیے مختص کیا ہے۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ((الْمُسْلِمُونَ شُرَکَاءُ فِي ثَلاَثٍ فِي الْمَاءِ وَالْکَلإِ وَالنَّارِ)) ’’تمام مسلمان تین چیزوں میں شرکاء ہیں، پانی، گھاس اور آگ‘‘ ۔ چنانچہ اسلام کے تحت آگ یعنی توانائی کے وسائل کسی فرد یا ملٹی نیشنل کی ملکیت یا صوابدیدی اختیار میں نہیں دئے جاسکتے۔ لہذا تیل اور گیس کے کنویں، بجلی پیدا کرنے والے پاور پلانٹس، معدنیات کی کانیں، نہریں، دریا وغیرہ کسی کی ملکیت میں نہیں آسکتے۔ ان تمام اثاثہ جات کو ریاست محض عوام کے حوالے سے منظم کرتی ہے، اور عوام تک ان کی رسائی کو ممکن بناتی ہے۔ چنانچہ تیل، گیس، بجلی، کوئلہ، پانی وغیرہ تمام شہریوں کو مفت یا اتنی قیمت میں فراہم کیا جاتا ہے جتنا اس کی پیداوار پر خرچ آیاہو۔ خلافت کے ذریعہ اسلامی نظام معیشت کے نفاذ کی وجہ سے استعماری ملٹی نیشنل کمپنیاں نہ تو عرب ممالک سے تیل پر قبضہ حاصل کر سکیں گی اور نہ ہی افریقہ کے ہیروں پر ڈاکہ ڈال سکیں گی۔ اس کے ساتھ ساتھ خلافت
اسلامی نظام معیشت کے نفاذ سے سود کا بھی خاتمہ کریگی اور دنیا کی کرنسی کو دوبارہ سونے اور چاندی کے ساتھ مربوط کرنے کے لیے عملی اقدامات کریگی ۔ تیل کو محض ڈالر اور پاؤنڈ کے بدلے میں بیچنے کی بجائے سونے اور چاندی یا مال کے بدلے بیچا جائیگا یوں بین الاقوامی تجارت میں ڈالر اور پاؤنڈ کی اہمیت کو کاری ضرب لگے گی۔ یوں سرمایہ دارنہ نظام کو خلافت کے قیام سے بڑا دھچکا لگے گا۔
اسلام کی رو سے خلافت ان تمام سیاسی اور اقتصادی اداروں کا حصہ نہیں بن سکتی جن میں اتھارٹی اور غلبہ کافروں کے پاس ہومثلاً اقوام متحدہ اور ڈبلیو ٹی او وغیرہ۔ یہ وہ ادارے ہیں جن سے پہلے ہی دنیا کے عوام کا اعتماد اٹھ چکا ہے اور وہ محض کھوکھلے ستونوں پر کھڑے ہیں۔ خلافت ان اداروں میں شمولیت کے بجائے دیگر ممالک مثلاً چین، لاطینی امریکہ اور افریقی ممالک وغیرہ کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کی بنیاد پر امریکہ کے خلاف ایک مضبوط سیاسی بلاک بنا ئیگی۔ یہ ہیں وہ چیلنج جس کا ذکر ڈھکے چھپے الفاظ میں رپورٹ میں کیا گیا ہے۔
ایک اور سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ امریکی تھنک ٹینک اور انٹیلی جنس ایجنسیاں تواتر سے خلافت کے متعلق لکھ رہے ہیں۔ نیز اس رپورٹ میں نئی خلافت کا ذکر کر کے کیا اہداف حاصل کرنا مقصود تھے؟
جب امریکی پالیسی سازوں نے موجودہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کی منصوبہ بندی کی تو ان کے سامنے آج کی دنیا میں سیاسی اسلام کے ابھرتے ہوئے خطرے اور مسلم امت کی کروٹ لے کر بیدار ہوتی شناخت سمیت بے شمار عوامل تھے۔ نتیجتاً سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اب امریکہ کے لیے دوسرا بڑا خطرہ مسلمانوں کی کھوئی ہوئی وحدت کی بصورت خلافت بحالی ہے۔ اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ آج امت مسلمہ کے تمام مفکرین، ادیب، کالم نگار صحافی اور عوام اس بات
تک پہنچ چکے ہیں کہ جب تک مسلمان ایک نہ ہوں گے اپنے دشمن امریکہ اور یورپ کے ظلم و جبر سے نجات حاصل نہیں کر سکتے۔ چنانچہ جب امریکی ماہرین ایک نئی خلافت کے نام سے ایک منظر نامہ پیش کرتے ہیں تو اس سے وہ کئی مقاصد حاصل کرنے کے خواہاں ہیں۔
(1 اولاً اپنے پالیسی سازوں کو خلافت جیسے ابھرتے ہوئے خطرے سے خبردار کرنا اور اس سے نمٹنے کے لیے پہلے سے تیاری کرنا۔
(2 ثانیاً اپنے عوام اور دنیا بھر کے عوام کے سامنے خلافت کوبطور دہشت گرد ریاست پیش کرنا تاکہ خلافت کو ایک مجرم، جنونی ذہنیت کے مالک مسلمان انتہا پسندوں کی ریاست کے طور پر دکھایا جائے۔ چنانچہ جب وہ اس کے خلاف کوئی کاروائی کریں تو انہیں عوام کی حمایت حاصل ہو۔
(3 ثالثاً مسلمانوں کو یہ تاثر دینا کہ خلافت آج قائم نہیں ہو سکتی بلکہ اس کا قیام آج سے 15 سال دور ہے۔
(4 رابعاً مسلمانوں کے اذہان میں مایوسی پیدا کرنا اور یہ ثأثر دینا کہ مسلمانوں کے درمیان اس قدر اختلافات ہیں کہ اگر خلافت قائم ہو بھی گئی تب بھی وہ ان اختلافات کی وجہ سے برقرار نہ رہ سکے گی۔ نیز خلافت مسلمانوں کی وحدت کا ہدف پورا نہیں کر سکے گی اور اس کے دور میں افراتفری اور امن وا مان کی خراب صورتحال ہوگی۔
رپورٹ میں خلافت کے قیام کو آج سے 15 سال دور دکھایا گیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان وحدت کے لیے جتنے بے تاب آج ہیں اتنے اس سے پیشتر کبھی نہ تھے۔ 1924 میں خلافت کے خاتمے کے باقائدہ اعلان سے لے کر آج تک امت نے اتنے مصائب اٹھائے ہیں کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ خلافت تو وہ ریاست تھی جو سند ھ میں ایک مسلمان خاتون کی پکار پر بغداد سے محمد بن قاسم کی
سر کردگی میں لشکر روانہ کردیا کرتی تھی۔ جس کے آخری کمزور ترین خلیفہ نے بھی صیہونی لیڈر لارڈ ہرٹزل کو فلسطین یہودیوں کو بیچنے کی آفر پر کہا تھا: ’’فلسطین میری ذاتی ملکیت نہیں کہ تمہیں سونپ دوں۔ اس کے لیے ہمارے آباؤ اجداد نے ہزاروں جانوں کا نذرانہ دیا ہے۔ ریاست کے حصے بخرے کرنے سے بہتر ہے کہ میں اپنے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں۔ ہاں اگر تم خلافت توڑنے میں کامیاب ہو گئے تو یہ (فلسطین کا علاقہ ) شاید تمہیں مفت ہی مل جائے۔‘‘ آج عراق کی جیل سے دو معصوم بہنوں نور اور فاطمہ کے خط مسلمان بھائیوں کو پکارتے ہیں۔ اخباروں میں شائع ہوتے ہیں مگر ہماری افواج متحرک نہیں ہوتیں، ہمارے حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ مسلمانوں کی قوت منتشر ہے۔ کوئی ایک بھی حکمران مسلمانوں کا ہمدرد معلوم نہیں ہوتا۔ ہاں سب حکمران امریکہ اور یورپ کے اتحادی ضرور ہیں؛ بلکہ فرنٹ لائن سٹیٹ کے طور پر امریکی جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خلافت کا قیام وہ بہت بڑا خطرہ ہے جس سے امریکی ماہرین خوفزدہ ہیں۔ اس کے بعد نہ صرف دنیا پر ان کا غلبہ ختم ہونے کا امکان ہے بلکہ کئی مغربی ریاستوں کے گلوبلائزیشن کے ہاتھوں تنگ عوام کو بھی متبادل نظام مل جائے گا۔ وہ نظام جہاں ایک غیر مسلم کے جان ومال اور خون کی حرمت مسلمان کے برابر ہوتی ہے اور اسے اپنے مذہب کے مطابق عبادات کرنے اور شادی بیاہ جیسے ذاتی معاملات نمٹانے کی اجازت ہوتی ہے۔ چنانچہ اسلام کے سایہ دار درخت تلے جس طرح گزشتہ صدیوں میں جوق درجوق عوام اپنے اپنے مذہبوں اور شناختوں سمیت زندگی گزارنے کے لیے خلافت میں چلے آتے تھے وہ دوبارہ خلافت کے جھنڈے تلے پناہ لیں گے۔ آج خلافت کی ضرورت صرف مسلمانوں ہی کو نہیں بلکہ پوری انسانیت کو ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کی چکی تلے پس رہی ہے۔نیز ہمارے نبی کریم نے تو آج سے چودہ سو سال پہلے ہی حقیقی پیشین گوئی فرما چکے ہیں۔ مسند احمد میں روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے:
’’تم میں نبوت اس وقت تک رہے گی جب تک اﷲ تعالیٰ چاہے گا کہ وہ رہے، پھر جب وہ چاہے گا تو اسے اٹھالے گا۔ پھر نبوت کے طریقے پر خلافت آئیگی اور اس وقت تک رہے گی جب تک اﷲ تعالیٰ چاہے گا کہ رہے۔ پھر جب وہ چاہے گا تو اسے اٹھا لے گا۔ پھر وراثت پر مبنی حکومت ہو گی اور اس وقت تک رہے گی جب تک کہ اﷲ تعالیٰ چاہے گا کہ رہے۔ پھر جب وہ چاہے گا تو اسے اٹھالے گا۔ پھر آمرانہ حکومت ہوگی اور اس قت تک رہے گی جب تک کہ اﷲ تعالیٰ چاہے گا کہ رہے۔ پھر جب وہ چاہے گا تو اسے اٹھالے گا۔ پھر نبوت کے طریقے پر خلافت آئیگی۔ پھر آپ ﷺ خاموش ہوگئے (یعنی اس کے ختم ہونے کی بات نہیں کی)۔‘‘
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں