1) چونکہ خلافت کا قیام ایک فرض ہے بلکہ یہ مسلمان کے اوہر سب سے بڑا فرض ہے ۔ اور چونکہ ایک فرض کے قائم کرنےکا طریقہ اللہ سبحان و تعالیٰ نے انسان پر نہیں چھوڑا بلکہ ہر فرض کے طرح اس فرض کا بھی طریقہ کار اسلام نے بتایا ہوا ہے۔ اور یہ طریقہ کار ہم نبیﷺ کی سیرت سے جان سکتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ریاست کیسےقائم کی تھی۔، بالکل ویسے جس طرح ہم نماز، روزے، حج، جہاد اور دیگر فرائض کا طریقہ نبیﷺ سے اخذ کرتے ہیں۔
2) اگر عقل پر چھوڑ دیا جائےتو مختلف طریقے ذہن میں آتے ہیں، جیسے حکمرانوں کو صرف دعوت سے قائل کرنا کہ اسلام قائم کریں، یا ان کے خلاف جنگ کر کے ان کو ملیا میٹ کر کے اسلامی نظام قائم کرنا، یا اس ملک میں مروجہ دستور اور قانون کے مطابق نظام میں حصہ لے کر اس نظام کے اوپر پہنچ کر اسلام کا نظام قائم کرنا یا تمام لوگوں کو تبدیل کرنا ، یہ سوچ کرکہ جب تمام لوگ سچے، پکے مومن بن جائیں گے تو اسلامی نظام خود ہی قائم ہو جائے گاوغیرہ۔ لیکن یاد رہے کہ یہ سب عقل و منطق (logic) سے نکلنے والے طریقے ہیں ۔ اور انسانی عقل کامل نہیں اسلئے اس طریقوں کی اپنی خوبیاں اور خامیاں ہونگی۔ لیکن جو طریقہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بتایاہو گا وہ ہر لحاظ سے کامل ہو گا ۔ اسلئے یہ تو ہو سکتا ہے کہ ہم اپنی کمزوریوں کے باعث اس پر پورا عمل نہ کرسکیں ، لیکن وہ طریقہ بہرحال کامل و حتمی ہو گا۔ اور ہمارے لئے اللہ اور اس کےرسولﷺ کے علاوہ کوئی راستہ اختیار کرنے کا حق ہی نہیں؛
’’کسیمومن مرد اور کسی مومن عورت کو حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کر دیں ، اس کے بعد اس معاملے میں اسے کسی قسم کا اختیار (حتی کہ رائے دینے کا) حاصل ہو ۔ ۔ ۔اور جس نے اللہ اور رسول ﷺ کی نافرمانی کی، وہ صریح گمراہی میں پڑگیا ۔‘‘ (الاحزاب : 36)
’’ہو سکتاہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار ہو (تمہاری نظر میں بہتر نہ ہو) اور وہ تمہارے لئے(حقیقتاً) بہتر ہو اور ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں اچھی لگے( تمہارے خیال میں بہترآپشن ہو) اور وہ تمہارے لئے بدتر ہو، اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔‘‘(سورہالبقرہ : 216)
3) رسول اللہ ﷺ نے اپنی زندگی میں ایک دفعہ ریاست قائم کی، جو کہ مکہ میں تیرہ سال جدوجہد کے نتیجے میں مدینہ میں قائم ہوئی تھی۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ ، خلفا راشدین، دیگر خلفاء نے اس کو دعوت و جہاد سے پھیلایا ضرور، لیکن ریاست صرف ایک ہی بار قائم ہوئی ہے۔ اس ریاست کےقیام کا طریقہ کار ہی وہ منہج نبوی ہے جس کی طرز میں دوبارہ خلافت کے قیام کی بشارت نبیﷺ نے خود حدیث میں دی ہے۔ ’’۔۔۔ثم تکون خلافہ علی منہج النبوی ۔‘‘ یعنی اس کے بعد پھر تم میں نبیﷺ کےطریقے پر خلافت قائم ہو گی۔ مسند احمد
4) جب ہم مکی دور کے 13سالوں پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہم واضح طور پر نوٹ کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے تین کام نہیں کئے تھے؛
ا) ہتھیار اٹھا کر حکمرانوں کو مار کر اسلام کا نظام قائم کرنا
ا) ہتھیار اٹھا کر حکمرانوں کو مار کر اسلام کا نظام قائم کرنا
ب) تمام لوگوں کو دعوت سے تبدیل کر کے خود بخود نظام کےقائم ہونا کا انتظار
ج) مروجہ نظام میں شامل ہو کر ’’آئینی و قانونی‘‘ طریقے سےاعلیٰ عہدے پر پہنچ کر تبدیلی لانا
5) اور جو کام آپ نے کئے تھےجس سے تبدیلی آئی تھی وہ یہ ہیں؛
ا) ایک جماعت بنا کر کام کرنا ۔ انفرادی طور پر نہیں
ب) اس وقت کے حکمرانوں کے خلاف ایک شدید ترین سیاسی تحریک
ج) اس وقت کے مروجہ نظام، افکار، دستور، طور طریقوں کے خلاف واشگاف انداز میں زبردست فکری تحریک
د) عربوں میں سے طاقتور قبیلوں سے اسلام کے قیام کیلئے طاقت، نصرت اور اقتدار طلب کرنا
س) اور چونکہ محمدﷺ نبی و رسول تھے اورصاحب وحی تھے، اسلئے ان کیلئے اسلامی نظام کا ڈھانچہ، تفصیلات اور عملی پہلو تیارکرنا ضروری نہ تھا کہ ان کو وحی سے رہنمائی دی جارہی تھی ، لیکن آج جو کوئی اسلامی نظام قائم کرے گا اس کیلئے یہ بھی لازمی ہے کہ وہ وحی (قرآن و سنت) سےاسلامی نظام کا دستور، ڈھانچہ، قوانین اور ریاستی پالیسیاں مرتب کرے۔
ا) ایک جماعت بنا کر کام کرنا ۔ انفرادی طور پر نہیں
ب) اس وقت کے حکمرانوں کے خلاف ایک شدید ترین سیاسی تحریک
ج) اس وقت کے مروجہ نظام، افکار، دستور، طور طریقوں کے خلاف واشگاف انداز میں زبردست فکری تحریک
د) عربوں میں سے طاقتور قبیلوں سے اسلام کے قیام کیلئے طاقت، نصرت اور اقتدار طلب کرنا
س) اور چونکہ محمدﷺ نبی و رسول تھے اورصاحب وحی تھے، اسلئے ان کیلئے اسلامی نظام کا ڈھانچہ، تفصیلات اور عملی پہلو تیارکرنا ضروری نہ تھا کہ ان کو وحی سے رہنمائی دی جارہی تھی ، لیکن آج جو کوئی اسلامی نظام قائم کرے گا اس کیلئے یہ بھی لازمی ہے کہ وہ وحی (قرآن و سنت) سےاسلامی نظام کا دستور، ڈھانچہ، قوانین اور ریاستی پالیسیاں مرتب کرے۔
ان تمام چیزوں کی تفصیل اور دلائل نیچے ترتیب وار دئیے جا رہیں ہیں۔
6) اولاً؛ ہتھیار اٹھا کر حکمرانوں کو ملیا میٹ کر کے اسلامی نظام قائم کرنے کی ممانعت۔ رسول اللہﷺ اورصحابہ نے مکہ میں قریش کے بے شمار مظالم کا سامنا کیا۔ لیکن کبھی ہتھیار اٹھا کر مسلمانوں نے قریش کو جواب نہ دیا۔ مدینہ میں ریاست قائم ہوتے ہی قریش کے خلاف خود حملوں کا آغاز کرنا اس بات کو ظاہر کرتاہے کہ رسول اللہﷺ نہ تو مادی جنگ سے الرجک تھے ، نہ ہی صحابہ نعوذ باللہ غیرت دینی سے عاری تھے بلکہ نبیﷺ کے طریقہ کار کےمطابق مکہ میں ایسا نہیں کیا گیا۔ یہاں تک کہ صحابہ نے نبیﷺ سے لڑنے کی اجازت بھی مانگی تھی جس پر آپ ﷺ نے جواب میں کہا ’’لم نومر بذالک بعد‘‘ یعنی مجھے ابھی اسکی اجازت نہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ حکمرانوں کو دو بدو لڑائی میں ختم کر کے خلافت قائم کرنا منہج نبوی کے خلاف ہے ۔تاہم یاد رہے کہ قابض کفار کے خلاف جہاد(جیسا کہ افغانستان، فلسطین وغیرہ) اسلامکے اہم ترین حصوں میں سے ہے اور اسلام کے کوہان کی چوٹی ہے لیکن یہ خلافت کے قیام کا طریقہ نہیں۔ مزید یہ کہ اپنی جان، مال، عزت و آبرو کی حفاظت میں لڑنا نہ صرف جائز بلکہ باعث اجر بھی ہے جیسا کہ آج شام کے عوام بشار الاسد کے مظالم سے بچنےکیلئے اپنی حفاظت میں لڑ رہے ہیں۔ تاہم یہ قیام خلافت کا منہج نہیں۔
دوم: تمام لوگوں کو تبدیل کر کے خود بخود نظام قائم کرنے کی سوچ دراصل معاشروں اور ریاست کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے کیونکہ معاشرے صرف افراد سے نہیں بنتے بلکہ یہ افراد، غالب افکار، غالب احساسات اور نظام سے بنتے ہیں۔ اکثریتی لوگ تو معاشرے سے ہی متاثر ہوتے ہیں،اور جب تک معاشرہ تبدیل نہ ہو ، لوگ من حیث القوم تبدیل نہیں ہو سکتے۔ یہ پہلےانڈا یا مر غی والی بحث ہے۔
مکہ کی آبادی 40,000 کے قریب تھی اور دنیا کے بہترین داعی نبیﷺ اور صحابہ کی بہترین جدوجہد سے ان میں صرف قریباً 150 لوگ مسلمان ہوئے تو ہم کیسے یہ توقع کر سکتے ہیں کہ ہم تمام افراد کو درست کر دیں گے۔ مزید یہ کہ خود کو اور دیگر لوگوں کو مکمل مومن بنانا زندگی بھر کی نہ ختم ہونے والی ایک جدوجہد ہے جس کی تکمیل کا دعویٰ کرنا کسی بھی انسان کیلئے ناممکن ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ رسول اللہﷺ نےایسا نہیں کیا اور جب مدینہ میں ریاست قائم ہوئی تو اس کا ایک تہائی بھی مسلمان نہیں تھا، مومن تو بہت دور کی بات ہے ۔ پس یہ واضح ہے کہ یہ شرط کچھ لوگوں کے اپنےذہن کی اختراع ہے اور اسلام میں اس کا کوئی وجود نہیں۔ تاہم جو لوگ تبدیلی کیلئےجدوجہد کریںگے وہ لازماً خود مکمل اسلام کی پیروی کو نصب العین بنائیں گے کیونکہ آپﷺ نے صحابہ کی جماعت ،جو رسول اللہ ﷺ کی پارٹی تھی، کی تربیت کا مکمل اہتمام کیاتھا۔
سوم: مروجہ نظام میں شامل ہو کر ’’آئینی و قانونی‘‘ طریقے سےاعلیٰ عہدے پر پہنچ کر تبدیلی لانا
اس طریقے میں لوگ اسمبلیوں میں پہنچ کر یاعدالتوں کے ذریعے ایک نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، یہ سوچ کر، کہ اس طرح سے نظام تبدیل کر کے اسلامی بنا دیں گے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ آخر کار اپنا انقلابی رنگ ڈھنگ ختم کر کے کمپرومائز پر کمپرومائز کر کے اسی نظام کو بہتر طریقے سے نافذ ہی کر پاتے ہیں۔ کیونکہ ایک نظام میں موجود الیکشن اس نظام کوچلانے کیلئے ہوتا ہے اس کو الٹ کر بدلنے کیلئے نہیں۔ اور جب بھی آپ ایسی کوشش کرتے ہیں، بلکہ ایسی کوشش کا سوچتے بھی ہیں تو آپ کو گھروں بلکہ جیل کی کال کوٹھریوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔ مصر میں مرسی کی حکومت نے کمپرومائز پر کمپروپائزکئے، لیکن ان کی حکومت ڈسمس کرکے انھیں جیل بھیج دیا گیا۔ الجزائر میں FISپارٹی الیکشن جیت گئی تو انھیں حکومت نہیں دی گئی۔ حماس کےساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ اور MMAبھی پانچ سالوں میں نیٹو کی سپلا ئی لائن کی حفاظت کرتےکرتے رخصت ہو گئی ۔ مجبوریوں اور مصلحتوں کی لمبی داستان سناتے سناتے ، لیکن ایک واحد قانون اسلامی نہ بنا سکی۔ یہی حال ترکی اردگان کا ہے کہ وہی سیکولر نظام نافذ کرتے، اسرائیل سے دفاعی و سفارتی تعلقات قائم رکھے، نیٹو میں شامل، امریکہ کواڈے دے کر اس کو ایک دہائی سے اوپر کاعرصہ بیت گیا ہے لیکن اسلامی شریعت کا ایک قانون بھی نافذ نہ ہو سکا۔ رسول اللہ ﷺ کو مکہ میں موجود پارلیمنٹ دارالندوہ کے ممبر بننے، سردار بننے، بلکہ بادشاہ بننے تک کی پیشکش ہوئی، یہاں تک کہ ایک سال آپ کا خدا اور ایک سال ہماراخدا کی ناقابل انکار آفر کی گئی، لیکن نبیﷺ نے سب مسترد کر دی اور ان کے نظام میں شمولیت اختیار نہ کی۔ کیونکہ اس صورت میں آپ کو ان کا نظام نافذ کرنا تھا۔ جبکہ کفر نظام کا نفاذ قرآن نے صریحاً حرام قرار دیا ہے ۔ ہمیں کسی بھی مصلحت کا نام لے کر کسی ایک اللہ کے حکم پر بھی کمپرومائز کرنے کا اختیار نہیں، کجا کہ ہم اکثریتی کفر نظام نافذکرتے پھریں۔ ’’اور جو کوئی اللہ کےاحکامات کے مطابق حکومت نہیں کرتے، پس یہی لوگ ظالم ہیں ۔ ۔ ۔فاسق ہیں ۔ ۔ کافر ہیں۔‘‘ (سورہ المائدہ) قرآن واضح کرتا ہے کہ ’’یہ چاہتے ہیں کہ کچھ تم ڈھیلے پڑ جاوُ تو کچھ یہ ڈھیلے پڑ جائیں‘‘ (سورہ القلم) اور اپنا واضح فیصلہ سنا دیا ’’لکم دینکم و لی دین ۔ تمہارے لئے تمہارا دین اور میرےلئے میرا دین۔‘‘(سورہ الکافرون)۔ اسلئےمروجہ آئینی و قانونی نظام میں شامل ہونا نبی کے منہج کی صریح خلاف ورزی ہے۔
7) اب جہاں تک طریقہ کار کا تعلق ہے ، تو وہ ترتیب وار پیش ہے۔
اولاً: ایک جماعت بنا کر کام کرنا ۔ انفرادی طور پر نہیں
رسول اللہ نے ریاست کے قیام کیلئے جو کوشش کی وہ صحابہ کی جماعت کے ساتھ مل کر کی۔ مزید برآں یہ روز روشن کی طرح واضح ہے کہ اس پروجیکٹ کو صرف ایک پلان کے ساتھ ایک جماعت ہی کر سکتی ہے ۔ اس لئے تبدیلی لانے کے خواہش مندوں کو اپنے آپ کو دھوکانہیں دینا چاہئے کہ میں اپنی جانب سے کچھ مدد کر کے یا اکیلے کچھ کام کر کے اپناحصہ ڈال سکتا ہوں۔ کیونکہ یہ پروجیکٹ ایک باریکی سے منصوبہ بندی والا ایک کام ہے جس میں ہمیں رسول اللہ ﷺ کے طریقے کے مطابق کچھ مخصوص کام کرنے ہوتے ہیں ، کوئی بھی اچھا کام، جیسے مسجدیں بنانا، اسلامی ویڈیوبنانا، درس و تدریس، کتابیں لکھنا، اپنی فیملی کی تربیت، غریبوں کی مدد یا سکول بنانا وغیرہ خلافت لانے کا طریقہ نہیں۔ اگرچہ یہ اجر کے کام ضرور ہیں۔ اگرآپ نوٹ کریں تو رسول اللہﷺ نے پورے مکی دور میں روم (عیسائیت کا مرکز)، فارس (سپر پاور اور آگ کی پوجا کرنے والوں کا مرکز) اور ہندوستان (بت پرست) کہیں بھی دعوت کے لئے کوئی صحابی نہیں بھیجا۔ نہ سکول کھولا، نہ غریبوں کی مدد کیلئے کوئی ادارہ بنایا، نہ کوئی روحانیت کی تربیت کی خانقاہ بنائی، نہ سائنس و ٹیکنالوجی کی ریسرچ کا ادارہ بنایا۔ اسلئے ہمیں یہ سارے کام اگر کرنے ہیں تو ضرور کریں لیکن ان کاموں کو خلافت کے قیام کے فرض کی تکمیل نہ سمجھیں۔ کیونکہ ہر نیک عمل خلافت کے قیام کا طریقہ نہیں۔
اولاً: ایک جماعت بنا کر کام کرنا ۔ انفرادی طور پر نہیں
رسول اللہ نے ریاست کے قیام کیلئے جو کوشش کی وہ صحابہ کی جماعت کے ساتھ مل کر کی۔ مزید برآں یہ روز روشن کی طرح واضح ہے کہ اس پروجیکٹ کو صرف ایک پلان کے ساتھ ایک جماعت ہی کر سکتی ہے ۔ اس لئے تبدیلی لانے کے خواہش مندوں کو اپنے آپ کو دھوکانہیں دینا چاہئے کہ میں اپنی جانب سے کچھ مدد کر کے یا اکیلے کچھ کام کر کے اپناحصہ ڈال سکتا ہوں۔ کیونکہ یہ پروجیکٹ ایک باریکی سے منصوبہ بندی والا ایک کام ہے جس میں ہمیں رسول اللہ ﷺ کے طریقے کے مطابق کچھ مخصوص کام کرنے ہوتے ہیں ، کوئی بھی اچھا کام، جیسے مسجدیں بنانا، اسلامی ویڈیوبنانا، درس و تدریس، کتابیں لکھنا، اپنی فیملی کی تربیت، غریبوں کی مدد یا سکول بنانا وغیرہ خلافت لانے کا طریقہ نہیں۔ اگرچہ یہ اجر کے کام ضرور ہیں۔ اگرآپ نوٹ کریں تو رسول اللہﷺ نے پورے مکی دور میں روم (عیسائیت کا مرکز)، فارس (سپر پاور اور آگ کی پوجا کرنے والوں کا مرکز) اور ہندوستان (بت پرست) کہیں بھی دعوت کے لئے کوئی صحابی نہیں بھیجا۔ نہ سکول کھولا، نہ غریبوں کی مدد کیلئے کوئی ادارہ بنایا، نہ کوئی روحانیت کی تربیت کی خانقاہ بنائی، نہ سائنس و ٹیکنالوجی کی ریسرچ کا ادارہ بنایا۔ اسلئے ہمیں یہ سارے کام اگر کرنے ہیں تو ضرور کریں لیکن ان کاموں کو خلافت کے قیام کے فرض کی تکمیل نہ سمجھیں۔ کیونکہ ہر نیک عمل خلافت کے قیام کا طریقہ نہیں۔
اس فرض کی تکمیل کیلئے حزب التحریر قائم ہے اور 40 سے زائد ملکوں میں ایک امیرکے زیر سایہ ایک عظیم تحریک برپا کئے ہوئے ہے، اور اس وقت عالم اسلام کی سب سے بڑی سیاسی تحریک ہے۔
دوم: اس وقت کے حکمرانوں کے خلاف ایک شدید ترین سیاسی تحریک
تین سال تک خفیہ تربیت سے ایک جماعت کی تشکیل کے بعد آپ نےواشگاف انداز میں مکہ میں اس وقت کے لیڈروں، حکمرانوں اور آئمہ کو شدید ترین طریقے سے چیلنج کیا ۔ جس کا مقصد موجودہ حکمرانوں کو بےنقاب کرنا ہوتا ہے تاکہ سیاسی خلا پیدا ہو اور نئے حکمرانوں کیلئے راستہ ہموار ہو سکے۔ آپ ﷺ نے ان کےسردار ابوالحکم (حکمت و دانائی کا باپ) کو کھلے عام ابوجہل کہا ، ابولہب کے بارےمیں سورہ لھب کھل کر بیان کی جس کا ترجمہ ’’ٹوٹ گئے ابولھب کے ہاتھ، اور نا مرادہو گیا وہ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس کی بیوی کے بھی‘‘۔ واضح طور پر اس شدید سیاسی تحریک کی نشاندہی کرتی ہے۔ آپﷺ نے سورہ القلم کی آیت 9-13میں اللہ کی جانب سے قریش کے سردار ولیدبن مغیرہ کو ’’جھوٹا، چغل خور، دغا باز، سرکش، یہاں تک کہ ولد الزنا(حرامی) تک کہنے کو بیان کیا اور یہ کہ اللہ عنقریب اس کی سونڈ پر داغ لگائیں گے۔ اور اسی کے بارے میں اللہ کا یہ فرمان کہ ’’میں عنقریب اسے دوزخ میں ڈالوں گا۔‘‘ کو بیان کیا۔ اور قرآن اس جدوجہد کے بارے میں بتاتا ہے کہ ’’اور یاد کر یں وہ وقت جبکہ کافر لوگ آپ کی نسبت تدبیر سوچ رہے تھے کہ آپ کو قید کرلیںیا آپ کوقتل کرڈالیں یا آپ کو خارجِ وطن کردیں اور ادھر تو وہ چال چل رہے تھے اور ادھر اللہ چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے۔‘‘ سورہ الماعون نے بھی قریش کے سردارووں کو ہدف تنقید بنایا کہ وہ ’’یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھاناکھلانے کی رغبت نہیں دلاتا۔‘‘ رسول اللہﷺ نے ایک بار قریش کے سرداروں کو کہا کہ میں تم سب کو قتل کرونگا۔ ان تمام آیات کےفکری وسیاسی طرز سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مکہ میں ، اسلام اور شرک کے مابین،کس زبردست نوعیت کا مقابلہ ہوا۔ نیز یہ آیات بعض جماعتوں کے دعوتِ ، جس میں وہ صرف ذاتی اعمال اور اخلاق کی دعوت پر قناعت کرتی ہے ،کو غلط ثابت کرتا ہے۔
اسی طرز پر حزب التحریر حکمرانوں کے جبر کے باوجود حق بات کھل کر بیان کرتی ہے اور حزب التحریر سےواقف لوگ جانتے ہیں کہ حکمرانوں کو بےنقاب کرنے میں کوئی جماعت حزب التحریر کے عشرعشیر تک بھی نہیں پہنچتی۔ الحمد اللہ
سوم: باطل نظاموں کو چیلنج (فکری جدوجہد):
رسول اللہ ﷺ نے ان کے نظام کوچیلنج کیا ۔ پس آپ نے ان کے معبودوں کو برا بھلا کہا، جس پر ہر کوئی آگ بگولا ہوجاتا ہے ۔ آپ نے فرمایا، تم اور تمہارے معبود جہنم کا ایندھن ہو۔ آپ نے ناپ تول میں بے ایمانی پر آیات سنائی؛’’بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی ،کہ جب لوگوں سے ناپ کر لیتے ہیں تو پورا پورالیتے ہیں اور جب انہیں ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں(107:1-3)۔اور بچیوں کو دفن کرنے ہر ؛’’ اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے سوال کیا جائے گا ،کہ کس گناہ کی وجہ سے وہ قتل کی گئی؟‘‘
اور مال جمع کرنے،لالچ پر؛ ’’بڑی خرابی ہے ہر ایسے شخص کی جو عیب ٹٹولنے والا غیبت کرنے والا ہو، جومال کو جمع کرتا جائے اور گنتا جائے، وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال اس کے پاس سدا رہےگا ، ہرگز نہیں یہ تو ضرور توڑ پھوڑ دینے والی آگ میں پھینک دیا جائے گا۔‘‘ اورخانہ کعبہ کے ننگے طواف کو ہدف نشانہ بنایا۔ اور اس کے مقابل بچیاں پالنے پر جنت کی بشارت دی۔ اور عمدہ اوصاف کی تلقین کی۔ اس طرح اس نظام کو کمزور کر کے ایک متبادل کیلئے راہ ہموار کی۔ آج حزب التحریر بھی موجودہ مغربی دین،سیکولرزم، جمہوریت، قومی ریاستوں، آزادیاں اور برابری کے نظریات، نام نہاد ہیومن رائٹس، سرمایہ دارانہ نظام، پرائیواٹائزیشن، مغربی عدالتی نظام ، قومیت، وطنیت وغیرہ کو بےنقاب کر کے اس کی جگہ اسلام کا نظام سامنے رکھ رہی ہے۔ اور تمام موجودہ افکار کو واشگاف انداز میں چیلنج کر کے ملیا میٹ کر رہی ہے۔
سوم: طلب النصرہ:
ایک جماعت کی زبردست سیاسی و فکری تحریک برپاکرنے سے ایک معاشرہ تبدیلی کی راہ پر چل نکلتا ہے اور رائے عامہ نئے نظام کیلئےہموار ہونے لگتی ہے۔ تاہم اس سے تبدیلی کیلئے زمین ضرور ہموار ہوتی ہے لیکن تبدیلی آتی نہیں۔ تبدیلی صرف تب ہی آتی ہے جب اس معاشرے کے اصل کرتا دھرتا ، اصل اہل قوت لوگ یا ان میں سے چند افراد اس تبدیلی کو اپنائے اورنظام کا تختہ الٹ کر ان لوگوں پر یہ نیا نظام نافذ کر دیں جو پہلے ہی اس نظام کےانتظار میں تھے اور اس نظام کی خواہش ، حمایت اور اس کے لئے جدوجہد کر رہے تھے۔ رسولاللہﷺ کو جب مکہ میں کامیابی نہ مل سکی تو آپ نے آس پاس کے قبائل سے نصرت (طاقت،قوت، مدد، اقتدار) طلب کی۔ جب حضور ﷺ کے چچا ابو طالب کی وفات ہوئی تو آپ ؐ طائف تشریف لے گئےجہاں پر آپؐ نے بنی ثقیف کو اسلام کی دعوت دی اور قریش کے مقابلہ میں ان کی مددطلب کی، مگر انھوں نے اس بات سے انکار کردیا اور غنڈوں کے ہاتھوں آپؐ کو پتھروں سےلہولہان کردیا جس سے آپ ؐ غمزدہ ہوئے۔ آپ ؐ نے بنو ثقیف سے کہامیرے آنے کاکسی سے ذکر نہ کرنا ( خفیہ رکھنا ) ۔ ابن اسحاق ؒ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کے چچا ابو طالب کی وفات کے بعد آپؐکا یہ قاعدہ تھا کہ جب حج کا موسم ہوتا یا مختلف تہوار منائے جاتے تو آپ ؐ قبائل کو دعوت فرماتے اور جب آپؐ سنتے کہ کوئی شریف یا سردار شخص مکہ میں آیا ہے ، تواس سے مل کر اسے بھی دعوت اور ہدایت فرماتے کہ اے بنی فلاں میں تمہاری طرف اللہ کارسول ہوں ، تم کو اس بات کا حکم کرتا ہوں کہ تم سوا اللہ کے کسی چیز کی پرستش نہ کرو اور بت پرستی چھوڑ دو اور مجھ پر ایمان لاکر میری تصدیق کرو اور مجھے تحفظ دو تاکہ میں اس بات کو ظاہروبیان کر سکوں جس کے ساتھ اللہ نے مجھے بھیجا ہے۔
حاکم اور بیہقی کی روایت ہے کہ حضرت علیؓ نےفرمایا کہ ’’جب اللہ نے اپنے رسول کو یہ حکم دیا کہ وہ قبائلِ عرب کے سامنے اپنےآپ کو پیش کریں تو آپؐ میرے اور ابو بکر کے ساتھ منیٰ کی طرف روانہ ہوئے جہاں پرعربوں کی ایک مجلس ہو رہی تھی‘‘۔ آپؐ نے بنی عامر ابن صعصعہ کو دعوت دی، ان میں ایک شخص نے کہا واللہ اگر میں اس جوان کو قریش سے لے لوں توپھر تمام عرب کو نگل جاؤں اور پھر اس نے آپؐ سے کہا کہ یہ بتلاؤ اگر ہم تمہارے تابع ہوں اور پھر خدا تم کو تمہارے مخالفین پر غالب کرے تو تمہارے بعد اقتدار ہمارا ہوگا؟ رسول اللہ ﷺ نےجواب دیا کہ یہ بات اللہ کے قبضہ میں ہے وہ جس کو چاہے دیگا۔ اس شخص نے کہا تو پھراس کی کیا وجہ ہے کہ ہم تو تمہاری طرف ہوکر تمام عرب کے سامنے سینہ سپر کریں اورپھر تمہارے بعد اقتدار کسی اور کے پاس چلا جائے۔ غرضیکہ اس قبیلہ نے بھی انکارکردیا۔ آپؐ نے پھر بنی قیس ابن ثلعبہ اور بنی کعب ابن ربیعہ کو دعوت دی اورانسے ان کی تعداد اور ان کے تحفظ کے بارے میں پوچھا۔ حاکم اور بیہقی کی روایت میں ہے کہ جب آپ ؐ نے بنی شیبان ابن ثلعبہ کو دعوت دی تو حضرت ابو بکرؓ نے اس قبیلہ سے ان کی تعداد اور تحفظ کے بارے میں پوچھا ، نیز دشمنوں سے ان کی جنگی کیفیت پوچھی ۔اس کے ایک سردار نے جواب دیا کہ جنگ میں ہم سب سے غصیلے ہیں اور ہمیں اپنے بیٹوں سے زیادہ اپنے جنگی سازوسامان پر ناز ہے۔ یہ قبیلہ رسول اللہ ﷺ کو عربوں کے خلاف تحفظ دینے پر تو راضی ہوگیا مگراہلِ فارس پر اس بات پر راضی نہ ہوا۔ آپ ؐ نے اس پیشکش سے انکار کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کے دین کی صرف وہ لوگ خدمت کرسکتے ہیں جو کہ چاروں طرف سے اس کے گرد حلقہ ڈال سکیں ۔ ’الروض الانف’ میں ان قبائل کی کل تعداد 40 بتائی گئی ہے جن کے سامنے حضور ﷺ نے اپنے آپ کو پیش کرتے ہوئے ان سےنصرت طلب کی۔ یہ عمل فرض ہے جیساکہ ان دلائل سے واضح ہے؛
حضرت علیؓ کا یہ کہنا کہ آپؐ کو اللہ کی طرف سے حکم ہوا ،طلبِ نصرت کے وجوب کا قرینہ ہے ۔ نیز آپؐ نے قریش کی مزاحمت کا خطرہ مول لیا اوراس امر کے لیے آپؐ کا خون بھی بہا، لیکن اس کے باوجود آپؐ اس کام پر ڈٹے رہے اورمختلف قبیلوں سے نصرت طلب کرنا نہ چھوڑا۔ یعنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے آپ ؐ کاطلبِ نصرت کی سرگرمیوں کو مستقل طور پر سرانجام دینا جس کو ابن اسحاق نے آپؐ کاقاعدہ ہونا بتایا ہے ، یہ بھی اس فعل کے واجب ہونے کا قرینہ ہے. ۔ رسول اللہ ﷺ کاقبائل سے تحفظ مانگنا تاکہ آپؐ اپنے مقصد کو ظاہر کرسکیں اور اس کے بعد مدنی دورمیں آپؐ کا احکامِ الٰہی کو جاری کرنا ، اس مقصد کو ظاہر کرنے کا بیان ہے۔ یعنی اس طلبِ نصرت کی وجہ یہ تھی کہ اس تحفظ کے ذریعہ سے آپؐ شریعتِ اسلامی کو لوگوں پرنافذ کر سکیں ۔ بنی عامر ابن صعصعہ کا آپؐ سے یہ پوچھنا کہ آپؐ کے بعد یہ اقتدار کسے ملے گا ، یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ اس قبیلہ کومعلوم تھاکہ رسول اللہ ﷺ حکومت چاہتے ہیں۔ اس پر آپؐ کا یہ جواب کہ اقتدار دینااللہ کی مرضی پر ہے، اس بات میں بھی اس اعتراف کا اشارہ ہے کہ آپؐ کے طلبِ نصرت کامقصد اقتدار و حکومت حاصل کرنا تھا( تاکہ اللہ کے پیغام کو ظاہر کیا جاسکے)۔ آپؐ کا قبیلوں کی تعدادوتحفظ اورجنگی صلاحیتوں کی تفتیش کرنا اور تحفظ کے کامل نہ ہونے پر اس کا انکار کر دینا ،اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ طلبِ نصرت محض ان لوگوں سے کرنا مقصود تھا جو درحقیقت اس بات کی صلاحیت رکھتے ہوں یعنی اہلِ قوت ۔
بالآخر بنی اوس اور بنی خزرج (مدینہ والے) آپ ؐ پر ایمان لائے۔ اور یہ بیعت رات کو تمام مکہ والوں سے خفیہ طورپر ہوئی جہاں 73مرد اور 2 عورتوں نے نبیﷺ کواقتدار حوالے کرنے اور سمع و طاعت کی بیعت دی اور آپؐ سے تحفظ اور نصرت کاوعدہ کیا۔ اس بیعت سے دو برس قبل حضور ﷺنے حضرت مصعب ابن عمیرؓ کو مدینہ بھیجا تھا تاکہ وہ وہاں کے لوگوں کو اسلامسمجھائیں۔ یہ سلسلہ اتنا کامیاب رہا کہ حضرت مصعبؓ ابن عمیر فرماتے ہیں کہ مدینہمیں کوئی ایسا گھر نہیں بچا جہاں اسلام کی بات نہ ہو۔ لہذا انصارکی بیعت سے پہلے مدینہ میں اسلام کے حق میں رائے عامہ ہموار کر دی گئی تھی تاکہ وہاں بعد میں قائم ہونے والی ریاست کے لئے زمین زرخیز ہو۔ یاد رہے کہ ’’ انصار ‘‘ (مددگار) کا لقب اس گروہ کو اس وجہ سے دیا گیاہے کیونکہ اس نے رسول اللہ ﷺ (اسلام) کی مدد کی۔
اسی طرح آج حزب التحریر بھی مسلم ممالک میں اہل قوت سے نبیﷺ کی سنت کی پیروی میں طلب النصرت کر رہی ہے خواہ وہ اہل قوت قبائل کے مخلص سربراہ ہو، مسلم افواج میں موجود مخلص افسران ہو یا کوئی بھی وہ گروہ، جو اس ملک کے اصل قوت والے لوگ ہو۔ تاکہ اس دین کو قائم کیا جا سکے۔ پس اس خلافت کا قیام ایک رات بلکہ چند گھنٹوں میں ہو سکتا ہے اگر اہل قوت میں سے مخلص لوگ اس دعوت پر لبیک کہیں۔ حزب اس پروجیکٹ کی تمام تیاری مکمل کر چکی ہے ۔ صرف اہل قوت کے احساس کی دیر ہے۔ ہم امت سے اس کام میں مدد کی اپیل کرتے ہیں۔
چہارم:
جیسا کہ اوپر ذکر ہے کہ آج جو گروہ بھی خلافت قائم کرنے کی کوشش کرے گا ، اسکی لئے لازم ہے کہ وہ ریاست خلافت کا دستور، ڈھانچہ، قوانین اور ریاستی پالیسیاں قرآن و سنت سے پہلے سے اخذ کرے۔ حزب التحریر نے ریاست خلافت کا 191 دفعات کا ریاست خلافت کامجوزہ آئین بمعہ شرعی دلائل، حکومتی،معاشی، تعلیمی، معاشرتی ، عدل کا نظام،خارجہ پالیسی اور دیگر اہم مسائل پر ریاست کی پالیسیاں پہلے ہی امت کے سامنے پیش کر دی ہے۔
ہم امید کرتے ہیں کہ نظام خلافت کے منہج نبوی کی وضاحت مختلف گروہوں کو اس راہ کیجانب گامزن کرے گی۔ اور ہم حق کی جانب لپکیں گے کہ حق کی جانب آنا اخلاص کی نشانی ہے ۔
حاکم اور بیہقی کی روایت ہے کہ حضرت علیؓ نےفرمایا کہ ’’جب اللہ نے اپنے رسول کو یہ حکم دیا کہ وہ قبائلِ عرب کے سامنے اپنےآپ کو پیش کریں تو آپؐ میرے اور ابو بکر کے ساتھ منیٰ کی طرف روانہ ہوئے جہاں پرعربوں کی ایک مجلس ہو رہی تھی‘‘۔ آپؐ نے بنی عامر ابن صعصعہ کو دعوت دی، ان میں ایک شخص نے کہا واللہ اگر میں اس جوان کو قریش سے لے لوں توپھر تمام عرب کو نگل جاؤں اور پھر اس نے آپؐ سے کہا کہ یہ بتلاؤ اگر ہم تمہارے تابع ہوں اور پھر خدا تم کو تمہارے مخالفین پر غالب کرے تو تمہارے بعد اقتدار ہمارا ہوگا؟ رسول اللہ ﷺ نےجواب دیا کہ یہ بات اللہ کے قبضہ میں ہے وہ جس کو چاہے دیگا۔ اس شخص نے کہا تو پھراس کی کیا وجہ ہے کہ ہم تو تمہاری طرف ہوکر تمام عرب کے سامنے سینہ سپر کریں اورپھر تمہارے بعد اقتدار کسی اور کے پاس چلا جائے۔ غرضیکہ اس قبیلہ نے بھی انکارکردیا۔ آپؐ نے پھر بنی قیس ابن ثلعبہ اور بنی کعب ابن ربیعہ کو دعوت دی اورانسے ان کی تعداد اور ان کے تحفظ کے بارے میں پوچھا۔ حاکم اور بیہقی کی روایت میں ہے کہ جب آپ ؐ نے بنی شیبان ابن ثلعبہ کو دعوت دی تو حضرت ابو بکرؓ نے اس قبیلہ سے ان کی تعداد اور تحفظ کے بارے میں پوچھا ، نیز دشمنوں سے ان کی جنگی کیفیت پوچھی ۔اس کے ایک سردار نے جواب دیا کہ جنگ میں ہم سب سے غصیلے ہیں اور ہمیں اپنے بیٹوں سے زیادہ اپنے جنگی سازوسامان پر ناز ہے۔ یہ قبیلہ رسول اللہ ﷺ کو عربوں کے خلاف تحفظ دینے پر تو راضی ہوگیا مگراہلِ فارس پر اس بات پر راضی نہ ہوا۔ آپ ؐ نے اس پیشکش سے انکار کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کے دین کی صرف وہ لوگ خدمت کرسکتے ہیں جو کہ چاروں طرف سے اس کے گرد حلقہ ڈال سکیں ۔ ’الروض الانف’ میں ان قبائل کی کل تعداد 40 بتائی گئی ہے جن کے سامنے حضور ﷺ نے اپنے آپ کو پیش کرتے ہوئے ان سےنصرت طلب کی۔ یہ عمل فرض ہے جیساکہ ان دلائل سے واضح ہے؛
حضرت علیؓ کا یہ کہنا کہ آپؐ کو اللہ کی طرف سے حکم ہوا ،طلبِ نصرت کے وجوب کا قرینہ ہے ۔ نیز آپؐ نے قریش کی مزاحمت کا خطرہ مول لیا اوراس امر کے لیے آپؐ کا خون بھی بہا، لیکن اس کے باوجود آپؐ اس کام پر ڈٹے رہے اورمختلف قبیلوں سے نصرت طلب کرنا نہ چھوڑا۔ یعنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے آپ ؐ کاطلبِ نصرت کی سرگرمیوں کو مستقل طور پر سرانجام دینا جس کو ابن اسحاق نے آپؐ کاقاعدہ ہونا بتایا ہے ، یہ بھی اس فعل کے واجب ہونے کا قرینہ ہے. ۔ رسول اللہ ﷺ کاقبائل سے تحفظ مانگنا تاکہ آپؐ اپنے مقصد کو ظاہر کرسکیں اور اس کے بعد مدنی دورمیں آپؐ کا احکامِ الٰہی کو جاری کرنا ، اس مقصد کو ظاہر کرنے کا بیان ہے۔ یعنی اس طلبِ نصرت کی وجہ یہ تھی کہ اس تحفظ کے ذریعہ سے آپؐ شریعتِ اسلامی کو لوگوں پرنافذ کر سکیں ۔ بنی عامر ابن صعصعہ کا آپؐ سے یہ پوچھنا کہ آپؐ کے بعد یہ اقتدار کسے ملے گا ، یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ اس قبیلہ کومعلوم تھاکہ رسول اللہ ﷺ حکومت چاہتے ہیں۔ اس پر آپؐ کا یہ جواب کہ اقتدار دینااللہ کی مرضی پر ہے، اس بات میں بھی اس اعتراف کا اشارہ ہے کہ آپؐ کے طلبِ نصرت کامقصد اقتدار و حکومت حاصل کرنا تھا( تاکہ اللہ کے پیغام کو ظاہر کیا جاسکے)۔ آپؐ کا قبیلوں کی تعدادوتحفظ اورجنگی صلاحیتوں کی تفتیش کرنا اور تحفظ کے کامل نہ ہونے پر اس کا انکار کر دینا ،اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ طلبِ نصرت محض ان لوگوں سے کرنا مقصود تھا جو درحقیقت اس بات کی صلاحیت رکھتے ہوں یعنی اہلِ قوت ۔
بالآخر بنی اوس اور بنی خزرج (مدینہ والے) آپ ؐ پر ایمان لائے۔ اور یہ بیعت رات کو تمام مکہ والوں سے خفیہ طورپر ہوئی جہاں 73مرد اور 2 عورتوں نے نبیﷺ کواقتدار حوالے کرنے اور سمع و طاعت کی بیعت دی اور آپؐ سے تحفظ اور نصرت کاوعدہ کیا۔ اس بیعت سے دو برس قبل حضور ﷺنے حضرت مصعب ابن عمیرؓ کو مدینہ بھیجا تھا تاکہ وہ وہاں کے لوگوں کو اسلامسمجھائیں۔ یہ سلسلہ اتنا کامیاب رہا کہ حضرت مصعبؓ ابن عمیر فرماتے ہیں کہ مدینہمیں کوئی ایسا گھر نہیں بچا جہاں اسلام کی بات نہ ہو۔ لہذا انصارکی بیعت سے پہلے مدینہ میں اسلام کے حق میں رائے عامہ ہموار کر دی گئی تھی تاکہ وہاں بعد میں قائم ہونے والی ریاست کے لئے زمین زرخیز ہو۔ یاد رہے کہ ’’ انصار ‘‘ (مددگار) کا لقب اس گروہ کو اس وجہ سے دیا گیاہے کیونکہ اس نے رسول اللہ ﷺ (اسلام) کی مدد کی۔
اسی طرح آج حزب التحریر بھی مسلم ممالک میں اہل قوت سے نبیﷺ کی سنت کی پیروی میں طلب النصرت کر رہی ہے خواہ وہ اہل قوت قبائل کے مخلص سربراہ ہو، مسلم افواج میں موجود مخلص افسران ہو یا کوئی بھی وہ گروہ، جو اس ملک کے اصل قوت والے لوگ ہو۔ تاکہ اس دین کو قائم کیا جا سکے۔ پس اس خلافت کا قیام ایک رات بلکہ چند گھنٹوں میں ہو سکتا ہے اگر اہل قوت میں سے مخلص لوگ اس دعوت پر لبیک کہیں۔ حزب اس پروجیکٹ کی تمام تیاری مکمل کر چکی ہے ۔ صرف اہل قوت کے احساس کی دیر ہے۔ ہم امت سے اس کام میں مدد کی اپیل کرتے ہیں۔
چہارم:
جیسا کہ اوپر ذکر ہے کہ آج جو گروہ بھی خلافت قائم کرنے کی کوشش کرے گا ، اسکی لئے لازم ہے کہ وہ ریاست خلافت کا دستور، ڈھانچہ، قوانین اور ریاستی پالیسیاں قرآن و سنت سے پہلے سے اخذ کرے۔ حزب التحریر نے ریاست خلافت کا 191 دفعات کا ریاست خلافت کامجوزہ آئین بمعہ شرعی دلائل، حکومتی،معاشی، تعلیمی، معاشرتی ، عدل کا نظام،خارجہ پالیسی اور دیگر اہم مسائل پر ریاست کی پالیسیاں پہلے ہی امت کے سامنے پیش کر دی ہے۔
ہم امید کرتے ہیں کہ نظام خلافت کے منہج نبوی کی وضاحت مختلف گروہوں کو اس راہ کیجانب گامزن کرے گی۔ اور ہم حق کی جانب لپکیں گے کہ حق کی جانب آنا اخلاص کی نشانی ہے ۔
acha kaam kar rahe hai kaafi umda such aur nazrie ka sath aap kaam karte hai Allah aapbko zarur kaamyab kare ga hamare sath ye blog promote hune kahaqdaaaar hai......
جواب دیںحذف کریںPlease share the link of proposed constitution of Khilafah. Jazak'Allah
جواب دیںحذف کریںMa sha Allah bht he informative 😊
جواب دیںحذف کریںکیا ایک ہی ملک میں خلافت قائم کی جا سکتی ہے
جواب دیںحذف کریں(حزب التحریر) اس جماعت کے بارے میں مزید معلومات کیلئے کوئی راستہ؟
جواب دیںحذف کریںالسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جواب دیںحذف کریںعرضِ غرض
حزب التحریر کا عقائد کیا ہیں
بلا تقیہ کے بیان کریں۔
تاکہ ہمارے تسلی ہو جائے